ذوق چائے نوشی۔۔ مولانا ابولکلام آزاد

ذوق چائے نوشی۔۔ مولانا ابولکلام آزاد

آپ کو معلوم ہے کہ ہمیشہ صبح تین سے چار بجے کے اندر اٹھتا ہوں اور چائے کے پے ہم فنجانوں سے جام صبوحی کا کام لیا کرتا ہوں ۔ یہ وقت ہمیشہ میرے اوقاتِ زندگی کا سب سے زیادہ پر کیف وقت ہوتا ہے لیکن قید خانے کی زندگی میں تو اس امر کی سرمستیاں اور خود فراموشیاں ایک دوسرا ہی عالم پیدا کردیتی ہیں یہاں کوئی آدمی ایسانہیں ہوتا ۔ جو اس وقت خواب آلود آنکھیں لیے ہوئے اٹھے اور قرینے سے چائے بناکر میرے سامنے دھڑے ۔ اس لیے خود اپنے ہی دستِ شوق کی سرگرمیوں سے کام لینا پڑتا ہے ۔اس وقت بادہ کہن کے شیشہ کی جگہ چینی چائے کا تازہ ڈبہ کھولتا ہوں اور ایک ماہرِ فن کی دقیقہ سنجیوں کے ساتھ چائے دم دیتا ہوں ، پھر جام صراحی کو میز پر دہنی طرف جگہ دوں گا کہ اس کی اولیت اسی کی مستحق ہوئی ۔ قلم و کاغذ کو بائیں طرف رکھوں گا کہ سرد سامان کار ہیں ان کی جگہ دوسری ہے ۔ پھر کرسی پر بیٹھ جاؤں گا اور کچھ نہ پوچھیے کہ بیٹھتے ہی کس عالم میں پہنچ جاؤں گا ؟ کسی بادہ گسار نے شامپین اور بورڈ کے صد سالہ تہہ خانوں کے عرق کہن سال میں بھی وہ کیف و سرورکہاں پایا ہوگا جو چائے کہ اس دور صبح گاہی کا ہر گھونٹ میرے لیے مہیا کردیتا ہے ۔

آپ کو معلوم ہے کہ میں چائے کے لیے روسی فنجان کام میں لاتا ہوں یہ چائے کی معمولی پیالیوں سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں ۔ اگر بے ذوقی کے ساتھ پیجیئے تو دو گھونٹ میں ختم ہوجائیں مگر خدانخواستہ میں ایسی بے ذوقی کا مرتکب کیوں ہونے لگا ؟ میں جرعہ کشانِ کہن مشق کی طرح ٹھہر ٹھہر کر پیوں گا ، اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لوں گا پھر جب پہلا فنجان ختم ہوجائے گا تو کچھ دیر کے لیے رک جاوں گا اور اس درمیانی وقفہ کو امتداد کیف کے لیے جتنا طول دے سکتا ہوں طول دوں گا پھر دوسرے اور تیسرے کے لیے ہاتھ بڑھاؤں گا اور دنیا کو اور اس کے سارے کارخانہ سودوزیاں کو یک قلم فراموش کردوں گا ۔
اس وقت بھی یہ سطریں بے اختیار نوکِ قلم سے نکل رہی ہیں ، اُسی عالم میں ہوں اور نہیں جانتا کہ 9 اگست کے بعد سے دنیا کا کیا حال ہوا اور اب کیا ہو رہا ہے ۔

میرا دوسرا پرکیف وقت دوپہر کا ہوتا ہے یا زیادہ صحت ِ تعین کے ساتھ کہوں کہ زوال کا ہوتا ہے ۔ لکھتے لکھتے تھک جاتا ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتا ہوں ، پھر اٹھتا ہوں ، غسل کرتا ہوں چائے کا دور تازہ کرتا ہوں اور تازہ دم ہوکر پھر اپنی مشغولیات میں گم ہوجاتا ہوں ۔ اس وقت آسمان کی بے داغ نیلگونی اور سورج کی بے نقاب درخشندگی کا جی بھر کے نظارہ کروں گا اور اوراق دل کا ایک ایک دریچہ کھول دوں گا ۔ گوشہ ہائے خاطر افسردگیوں اور گرفتگیوں سے کتنے ہی غبار آلود ہوں لیکن آسمان کی کشادہ پیشانی اور سورج کی چمکتی ہوئی خندہ روئی دیکھ کر ممکن نہیں کہ اچانک روشن نہ ہوجائیں ۔ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں ،لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہئے ۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا ۔

غالبا قدیم چینیوں نے زندگی کے مسئلہ کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھا تھا ایک پرانے چینی مقولہ میں سوال کیا گیا ہے "سب سے زیادہ دانش مند آدمی کون ہے " پھر جواب دیا ہے "جو سب سے زیادہ خوش رہتا ہے " اس سے ہم چینی فلسفہ زندگی کا زاویہ نگاہ معلوم کر سکتے ہیں اور اس میں شک نہیں یہ بالکل سچ ہے ۔
اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا تو یقین کیجیے زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا اب اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے کیا کیا سیکھا ؟ خود بھی خوش رہئے اور دوسروں کو بھی کہیے کہ خوش رہئے کہ اپنے چہرے غمگین نہ بنائیں ۔ زمانہ حال کے ایک فرانسیسی اہل قلم آندری ژید( Andri Gide) کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی جو اس نے اپنی خود نوشتہ سوانح میں لکھی ہے خوش رہنا محض ایک طبعی احتجاج ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے یعنی ہماری انفرادی زندگی کی نوعیت کا اثر صرف ہم تک محدود نہیں رہتا وہ دوسروں تک بھی متعدی ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ ہماری حالت کی چھوت دوسروں کو بھی لگتی ہے اس لیے ہمارا اخلاقی فرض ہوا کہ خود افسردہ خاطر ہو کر دوسروں کو افسردہ خاطر نہ بنائیں ۔

ہماری زندگی ایک آئینہ خانہ ہے ۔ یہاں ہر چہرے کا عکس بیک وقت سینکڑوں آئینوں میں پڑنے لگتا ہے اگر ایک چہرے پر بھی غبار آجائے گا تو سینکڑوں چہرے غبار آلود ہوجائیں گے ۔ ہم میں سے ہر فرد کی زندگی محض ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے وہ پورے مجموعہ کا حادثہ ہے ۔ دریا کی سطح پر ایک لہر تنہا اٹھتی ہے لیکن اسی ایک لہر سے بے شمار لہریں بنتی چلی جاتی ہیں ۔یہاں ہماری کوئی بات صرف ہماری نہیں ہوئی ۔ہم جو کچھ اپنے لیے کرتے ہیں اس میں دوسروں کا حصہ ہوتا ہے ۔ ہماری کوئی خوشی بھی ہمیں خوش نہیں کر سکے گی ، اگر ہمارے چاروں طرف غمناک چہرے اکھٹے ہوجائیں گے ۔ ہم خود خوش رہ کر دوسروں کو خوش کرتے ہیں اور دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش ہونے لگتے ہیں ۔ یہی حقیقت ہے ۔

 
Top