خاورچودھری
محفلین
ذکرِمنیرنیازی
کیاکسی کومرنے کاشوق بھی ہوتاہے؟کیاکوئی جانے بوجھے مرنے کی دھن میں نکل کھڑاہوتاہے؟انسان پریقیناایک ایسا لمحہ آتاہے جب آگہی کے دراُس پرکھلتے ہیں تو پھر کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔گویاپیازکی پرت کی مانندایک کے نیچے سے ایک تہہ نکلتی آتی ہے۔۔ یہی وہ موڑ ہوتاہے جب انسان مرنے کے شوق میں نکلناچاہتاہے۔اپنے اردگرد پھیلے ظالموں کے جتھے دیکھتاہے توان سے نبٹنا چاہتا ہے ۔یہی جذبہ منیرنیازی بیان کرتاہے توان الفاظ کاجامہ پہنتاہے
کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
چھبیس دسمبرکادن ادبی دنیاکے اس درخشاں ستارے کوہم سے جداکرگیا۔منیرنیازی ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے مرنے کے بعد اُن کی کہانیاں عام ہوتی ہیں اور یوں عام ہوتی ہیں جیسے مرحوم نے اپنی زندگی میں کوئی لبادہ اوڑھ رکھاہو۔۔جیسے اپنے چہرے پرکوئی اورچہرہ چڑھا رکھاہو۔منیرجیسے زندگی میں تھے ویسی ہی کہانیاں ان کی رحلت کے بعدعام ہورہی ہیں۔ گوری،چٹی ،دبنگ شخصیت کے مالک اس شخص پر ہر کوئی فدا ہونے کوتیاربیٹھاتھامگروہ اپنے گرد پھیلائے ہوئے حصارسے آگے کسی کونہیںآ نے دیتے تھا۔اپنی شخصیت کے اطراف میں اس نے جو دائرہ کھینچ رکھاتھااس کے اندرچندلوگ ہی داخل ہوسکتے تھے جنھیں یاتوخودمنیرنے اجازت دے رکھی ہوتی یاپھرانھیں منیرکورام کرنے کا منتر آتا تھا ۔منیراول وآخرشاعر تھا۔اس نے زندگی کوخوش حال بنانے کے لیے اپنے شاعرکوکسی کے ہاں گروی نہیں رکھااورنہ ہی اپنے شعروں کوبے موت مرنے دیا۔عمرکے آخری دنوں میں بھی اس کی طبع رواں پر غزلیں اورنظمیں دکھائی دیں۔جس عہد میں لوگوں نے جعلی کلیم بھرکرجائیدادیں بنائیں اس دورمیں یہ شخص اپنی بے نیازیوں میں مشہور تھا۔ بہ قول نذیرناجی ”جب محکمہ نے بلا کر کمروں کی الاٹمنٹ کے لیے فارم دیے تووہ کہیں ادھرادھر دھرے رہ گئے۔پھرایک روزمحکمہ والوں نے ہم دونوں کوکمروں سے بے دخل کردیا۔“اپنی عمرکے اختتام سے چنددن پہلے ایک نجی ٹیلی ویژن کو اس نے فیملی انٹرویوریکارڈکرایاتھاجوگزشتہ دنوں سنا تومنیرکی اہلیہ حکومت کی لاپروائی اوراداروں کی طرف سے حق تلفی کاشکوہ کررہی تھیں مگر اس مردِ انا پرست نے اس موقع پربھی ضبط سے کام لیااورانٹرویوکرنے والی شخصیت کوآسانی سے دوسری طرف موڑلیا۔
منیرکہتا تھاکہ تخلیق پاکستان کے ساتھ سے ہی اِس طرف تخلیق کاروں کاخاتمہ ہوگیا ہے۔ شایداسی احساس کی وجہ سے وہ اپنے آپ جتنا بل کہ اپنے قریب بھی کسی کونہیں سمجھتا تھا اور ساری عمرلوگ اس کے اس رویے کی وجہ سے شاکی رہے مگرمنیرکسی کی پرواکرنے والے کہاں تھا۔ اپنی دنیامیں مست الست رہنے والا یہ شخص اپنے گردہزار بوقلمونیاں رکھتاتھا ۔ جب اس کے عہدکے لوگ پاک ٹی ہاوٴس میں بیٹھے کسی ادبی بحث میں اُلجھے ہوئے ہوتے یہ نوجوانوں کے جھرمٹ میں چاند کی مانندچمک رہاہوتا۔اپنی طلسماتی شخصیت کے حصار میں انھیں لے رہا ہوتا۔ وہ کتنا عجیب اورجنون پرست تھا۔پانی کی گرتی بوندیں،جنگلوں میں سرپٹختی ہوائیں،سنسان گلیوں کی چیخیں اور خوش کن موسموں کی غم گینی اس کے احساس میں ہمہ وقت موجود رہتی تھیں۔وہ اپنے اندرکے موسموں کوجب زبان دیتاتواس کے سننے والے سردھنتے رہ جاتے۔اس کے معاصراُس پر ہر الزام لگا سکتے ہیں مگراس کے خلّاقی اوراعلا شاعری سے منکرنہیں ہوسکتے۔منیرکی بے ساختگی اورطنزیہ حس کی داددیے بنانھیں رہ سکتے۔
منیرکے فن کے بارے میں کون ایساتھا جس نے ناپسندیدگی کااظہارکیاہو۔اشفاق احمدہوں یااحمدندیم قاسمی ہرایک نے اسے سراہا تھا اوراب بھی ہزاروں سراہنے پر مجبورہیں۔ ممتاز نقاد ڈاکٹرسلیم اخترنے اس کے حوالے سے کہاتھا”منیرنیازی کی شاعری ایک طویل جلاوطنی کے بعد وطن کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔اس کی شاعری میں حیران کردینے اور بھولے ہوئے گم شدہ تجربوں کوزندہ کرنے کی ایک غیرمعمولی صلاحیت ہے ۔“اشفاق احمد نے منیر نیازی کے پہلے مجموعہ کلام پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”منیر نے بات کی اورختم کردی!سننے والے سوچنے پرمجبورہوگئے اورپھرایک ایک لفظ ،ایک ایک حرف ذہن کے چُلّومیں قطرہ قطرہ ہو کر ٹپکنے لگا۔۔۔۔!منیرکے ہم عصرمجید امجد نے کہا تھا کہ ” اس کے احساسات کسی عالم بالاکی چیزیں نہیں ہیں بل کہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پرکھیلنے والی لہریں ہیں۔انھی نازک،چنچل،بے تاب اور دھڑکتی ہوئی لہروں کواس نے شعروں میں ڈھال دیاہے اوراس کوشش میں اس نے انسانی جذبے کے ایسے گریزپاپہلووٴں کوبھی اپنے شعرکے جادوسے اجاگرکردیاہے۔جواس سے پہلے اس طرح ادانہیں ہوئے تھے۔“شاعراورنقادسلیم الرحمان نے منیرنیازی کے حوالے سے کہاتھا ”منیر مسافر بھی ہے تو،شام کامسافر۔۔۔۔کہتے ہیں سفروسیلہ ء ظفرہے۔منیرکے ہاں توسفروسیلہ ء خبرہے۔ نامعلوم کی خبر۔“ نام ورادیب انتظار حسین نے کہا”اس نے اپنے عہدکے اندررہ کرایک آفت زدہ شہرد ریافت کیاہے۔“
تعجب ہے ایک قومی نغمہ کی تخلیق کے عوض انھیں صرف پندرہ ہزارروپے دیے گئے اور اس نغمہ کے گانے والوں نے لاکھوں سمیٹے۔ منیر کی بیگم نے 12دسمبرکوریکارڈہونے والے اس انٹرویو میں شکوہ کیاکہ”منیرکی کمرمیں مسلسل ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔انھیں بیٹھنے کے لیے آرادم دہ کرسی چاہیے۔ ہماری تواولادبھی نہیں ہے جوہماراخیال رکھے۔“تب میں نے سوچاہم کتنے بے حس لوگ ہیں جواپنے اہل علم کی پریشانیوں سے یوں بے خبررہتے ہیں کہ وہ اپناوقت بھی سہولت سے
گزار نے کی استطاعت سے محروم ہیں۔اُردوشاعری کے 13،پنجابی کے 3اور انگریزی کے دو مجموعوں کاخالق کتابوں کی رائلٹی پرگزراوقات کرتارہایاپھرمحبت کرنے والوں کے دم قدم سے جیتا رہا۔ ادب کے فروغ اورادبی شخصیات کی فلاح کے لیے قائم اداروں سے کیاگلہ کیجیے گاوہ تواپنے محدود فنڈزکاروناروتے ہی رہتے ہیں حکم رانوں کے رویوں سے جی جلتا ہے جواپنے دوروں میں سینکڑوں جہلاکوساتھ رکھ کرقومی سرمایہ ضائع کرتے ہیں۔اپنی نمائش پرکروڑوں خرچ کرتے ہیں ، مگر قوم کوفکردینے والوں کی طرف ان کی توجہ نہیں ۔ اہل علم کس حال میں جیتے ہیں اس سے حکم رانوں کوکوئی علاقہ نہیں۔اپنے عہدکے اس دکھ کو یوں باندھا گیا :
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اُجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
منیرغاصبوں سے ڈرنے والاہوتا تو یوں نہ کہتا”کُجھ مینوں مرن داشوق وی سی“اس کاجسم بارآور نہیں ہوا،مگرربِّ کریم نے اس کی باتوں کو ثمر بار کر دیاہے۔وہ کہتاتھا”شاعری مجھے اولادکی طرح پیاری ہے“یقینامنیر کی شاعری اس کی وارث کہلائے گی اوراسے زندہ رکھے گی۔
(روزنامہ”اسلام“11جنوری2007ء)
کیاکسی کومرنے کاشوق بھی ہوتاہے؟کیاکوئی جانے بوجھے مرنے کی دھن میں نکل کھڑاہوتاہے؟انسان پریقیناایک ایسا لمحہ آتاہے جب آگہی کے دراُس پرکھلتے ہیں تو پھر کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔گویاپیازکی پرت کی مانندایک کے نیچے سے ایک تہہ نکلتی آتی ہے۔۔ یہی وہ موڑ ہوتاہے جب انسان مرنے کے شوق میں نکلناچاہتاہے۔اپنے اردگرد پھیلے ظالموں کے جتھے دیکھتاہے توان سے نبٹنا چاہتا ہے ۔یہی جذبہ منیرنیازی بیان کرتاہے توان الفاظ کاجامہ پہنتاہے
کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
چھبیس دسمبرکادن ادبی دنیاکے اس درخشاں ستارے کوہم سے جداکرگیا۔منیرنیازی ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے مرنے کے بعد اُن کی کہانیاں عام ہوتی ہیں اور یوں عام ہوتی ہیں جیسے مرحوم نے اپنی زندگی میں کوئی لبادہ اوڑھ رکھاہو۔۔جیسے اپنے چہرے پرکوئی اورچہرہ چڑھا رکھاہو۔منیرجیسے زندگی میں تھے ویسی ہی کہانیاں ان کی رحلت کے بعدعام ہورہی ہیں۔ گوری،چٹی ،دبنگ شخصیت کے مالک اس شخص پر ہر کوئی فدا ہونے کوتیاربیٹھاتھامگروہ اپنے گرد پھیلائے ہوئے حصارسے آگے کسی کونہیںآ نے دیتے تھا۔اپنی شخصیت کے اطراف میں اس نے جو دائرہ کھینچ رکھاتھااس کے اندرچندلوگ ہی داخل ہوسکتے تھے جنھیں یاتوخودمنیرنے اجازت دے رکھی ہوتی یاپھرانھیں منیرکورام کرنے کا منتر آتا تھا ۔منیراول وآخرشاعر تھا۔اس نے زندگی کوخوش حال بنانے کے لیے اپنے شاعرکوکسی کے ہاں گروی نہیں رکھااورنہ ہی اپنے شعروں کوبے موت مرنے دیا۔عمرکے آخری دنوں میں بھی اس کی طبع رواں پر غزلیں اورنظمیں دکھائی دیں۔جس عہد میں لوگوں نے جعلی کلیم بھرکرجائیدادیں بنائیں اس دورمیں یہ شخص اپنی بے نیازیوں میں مشہور تھا۔ بہ قول نذیرناجی ”جب محکمہ نے بلا کر کمروں کی الاٹمنٹ کے لیے فارم دیے تووہ کہیں ادھرادھر دھرے رہ گئے۔پھرایک روزمحکمہ والوں نے ہم دونوں کوکمروں سے بے دخل کردیا۔“اپنی عمرکے اختتام سے چنددن پہلے ایک نجی ٹیلی ویژن کو اس نے فیملی انٹرویوریکارڈکرایاتھاجوگزشتہ دنوں سنا تومنیرکی اہلیہ حکومت کی لاپروائی اوراداروں کی طرف سے حق تلفی کاشکوہ کررہی تھیں مگر اس مردِ انا پرست نے اس موقع پربھی ضبط سے کام لیااورانٹرویوکرنے والی شخصیت کوآسانی سے دوسری طرف موڑلیا۔
منیرکہتا تھاکہ تخلیق پاکستان کے ساتھ سے ہی اِس طرف تخلیق کاروں کاخاتمہ ہوگیا ہے۔ شایداسی احساس کی وجہ سے وہ اپنے آپ جتنا بل کہ اپنے قریب بھی کسی کونہیں سمجھتا تھا اور ساری عمرلوگ اس کے اس رویے کی وجہ سے شاکی رہے مگرمنیرکسی کی پرواکرنے والے کہاں تھا۔ اپنی دنیامیں مست الست رہنے والا یہ شخص اپنے گردہزار بوقلمونیاں رکھتاتھا ۔ جب اس کے عہدکے لوگ پاک ٹی ہاوٴس میں بیٹھے کسی ادبی بحث میں اُلجھے ہوئے ہوتے یہ نوجوانوں کے جھرمٹ میں چاند کی مانندچمک رہاہوتا۔اپنی طلسماتی شخصیت کے حصار میں انھیں لے رہا ہوتا۔ وہ کتنا عجیب اورجنون پرست تھا۔پانی کی گرتی بوندیں،جنگلوں میں سرپٹختی ہوائیں،سنسان گلیوں کی چیخیں اور خوش کن موسموں کی غم گینی اس کے احساس میں ہمہ وقت موجود رہتی تھیں۔وہ اپنے اندرکے موسموں کوجب زبان دیتاتواس کے سننے والے سردھنتے رہ جاتے۔اس کے معاصراُس پر ہر الزام لگا سکتے ہیں مگراس کے خلّاقی اوراعلا شاعری سے منکرنہیں ہوسکتے۔منیرکی بے ساختگی اورطنزیہ حس کی داددیے بنانھیں رہ سکتے۔
منیرکے فن کے بارے میں کون ایساتھا جس نے ناپسندیدگی کااظہارکیاہو۔اشفاق احمدہوں یااحمدندیم قاسمی ہرایک نے اسے سراہا تھا اوراب بھی ہزاروں سراہنے پر مجبورہیں۔ ممتاز نقاد ڈاکٹرسلیم اخترنے اس کے حوالے سے کہاتھا”منیرنیازی کی شاعری ایک طویل جلاوطنی کے بعد وطن کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔اس کی شاعری میں حیران کردینے اور بھولے ہوئے گم شدہ تجربوں کوزندہ کرنے کی ایک غیرمعمولی صلاحیت ہے ۔“اشفاق احمد نے منیر نیازی کے پہلے مجموعہ کلام پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”منیر نے بات کی اورختم کردی!سننے والے سوچنے پرمجبورہوگئے اورپھرایک ایک لفظ ،ایک ایک حرف ذہن کے چُلّومیں قطرہ قطرہ ہو کر ٹپکنے لگا۔۔۔۔!منیرکے ہم عصرمجید امجد نے کہا تھا کہ ” اس کے احساسات کسی عالم بالاکی چیزیں نہیں ہیں بل کہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پرکھیلنے والی لہریں ہیں۔انھی نازک،چنچل،بے تاب اور دھڑکتی ہوئی لہروں کواس نے شعروں میں ڈھال دیاہے اوراس کوشش میں اس نے انسانی جذبے کے ایسے گریزپاپہلووٴں کوبھی اپنے شعرکے جادوسے اجاگرکردیاہے۔جواس سے پہلے اس طرح ادانہیں ہوئے تھے۔“شاعراورنقادسلیم الرحمان نے منیرنیازی کے حوالے سے کہاتھا ”منیر مسافر بھی ہے تو،شام کامسافر۔۔۔۔کہتے ہیں سفروسیلہ ء ظفرہے۔منیرکے ہاں توسفروسیلہ ء خبرہے۔ نامعلوم کی خبر۔“ نام ورادیب انتظار حسین نے کہا”اس نے اپنے عہدکے اندررہ کرایک آفت زدہ شہرد ریافت کیاہے۔“
تعجب ہے ایک قومی نغمہ کی تخلیق کے عوض انھیں صرف پندرہ ہزارروپے دیے گئے اور اس نغمہ کے گانے والوں نے لاکھوں سمیٹے۔ منیر کی بیگم نے 12دسمبرکوریکارڈہونے والے اس انٹرویو میں شکوہ کیاکہ”منیرکی کمرمیں مسلسل ٹیسیں اُٹھتی ہیں۔انھیں بیٹھنے کے لیے آرادم دہ کرسی چاہیے۔ ہماری تواولادبھی نہیں ہے جوہماراخیال رکھے۔“تب میں نے سوچاہم کتنے بے حس لوگ ہیں جواپنے اہل علم کی پریشانیوں سے یوں بے خبررہتے ہیں کہ وہ اپناوقت بھی سہولت سے
گزار نے کی استطاعت سے محروم ہیں۔اُردوشاعری کے 13،پنجابی کے 3اور انگریزی کے دو مجموعوں کاخالق کتابوں کی رائلٹی پرگزراوقات کرتارہایاپھرمحبت کرنے والوں کے دم قدم سے جیتا رہا۔ ادب کے فروغ اورادبی شخصیات کی فلاح کے لیے قائم اداروں سے کیاگلہ کیجیے گاوہ تواپنے محدود فنڈزکاروناروتے ہی رہتے ہیں حکم رانوں کے رویوں سے جی جلتا ہے جواپنے دوروں میں سینکڑوں جہلاکوساتھ رکھ کرقومی سرمایہ ضائع کرتے ہیں۔اپنی نمائش پرکروڑوں خرچ کرتے ہیں ، مگر قوم کوفکردینے والوں کی طرف ان کی توجہ نہیں ۔ اہل علم کس حال میں جیتے ہیں اس سے حکم رانوں کوکوئی علاقہ نہیں۔اپنے عہدکے اس دکھ کو یوں باندھا گیا :
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اُجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
منیرغاصبوں سے ڈرنے والاہوتا تو یوں نہ کہتا”کُجھ مینوں مرن داشوق وی سی“اس کاجسم بارآور نہیں ہوا،مگرربِّ کریم نے اس کی باتوں کو ثمر بار کر دیاہے۔وہ کہتاتھا”شاعری مجھے اولادکی طرح پیاری ہے“یقینامنیر کی شاعری اس کی وارث کہلائے گی اوراسے زندہ رکھے گی۔
(روزنامہ”اسلام“11جنوری2007ء)