عؔلی خان
محفلین
"رائے" - ایک مشہور صنفِ موسیقی
تاریخِ اِشاعت: ۹ اپریل ۱۹۹۶ ء
اخبار: روزنامہ جَنگ، لندن
گہرے سانولے رَنگ اور سیاہ گھنگریالے بالوں والا مغنّی اسٹیج پر سے اپنی کھردری مگر پُر سوز آواز میں اور پَسِ آواز، قدم بہ قدم بجتی ہوئی سیکسو فون اور گٹاروں کی آمیزش والی پُر طرب لِے کے ساتھ ہال کے سامعین (جن مِیں تقریباً ہر شہریت کے لوگ شامل ہیں) پر ایسا جادُو پھُونک رَہا ہے کہ اِیسا لگتا ہے کہ سامعین کے ساتھ ساتھ ہال کی دِیواریں بھی بے خُودی میِں رَقص پر مائل ہیں۔ مغنّی الجزائرکی عربی زبان مِیں گا رہا ہے:
[ARABIC]يانا محر علي و انتيا لا
ما نديرك بعيدة ما نبكي عليك
لا زهر لا ميمون
يلعن بو الزين دي دي دي زين ديوا
دي دي دي يا زين ديوا[/ARABIC]
[ARABIC]ما نديرك بعيدة ما نبكي عليك
ما نديرك بعيدة ما نصقصي عليك
لا زهر لا ميمون
يلعن بو زين دي دي
دي ديوا ديوا دي دي ها زين دي دي دي[/ARABIC]
[ARABIC]لا بعدوك علي لجبال غارقة
لا زهر لا ميمون يلعن بو الزين
لا زهر لا ميمون بناقص بو الزين
هز الشبة و الحرمل
و بكي على بو الزهر
دي دي دي ديوا هالزين ديوا [/ARABIC]
سمجھنے والے سمجھ کے جھُوم رہے ہیں اور نا سمجھنے والے مشرق اور مغرب کے اِمتزاج والی لِے پر جھُوم رہے ہیں۔
یہ کنسرٹ تریپولی یا بیروت مِیں نہیں ہو رَہا بلکہ لندن کے رائل فیسٹیول ہال مِیں ہو رَہا ہے جہاں زندگی ہر بڑے مغربی شہر کی طرح مادی ترقی کےلیے سرگرداں ہے۔ اور اِس کنسرٹ کا مغنّی بھی مائیکل جیکسن یا پیٹر گیبرئیل نہیں ہے بلکہ شمالی افریقہ کے مُلک الجزائر کے مشہور مغربی ساحلی شہر، اوران، کے اِیک چھوٹے سے کوارٹر میِں ۲۹ فروری ۱۹۶۰ ء کو پیدا ہونے والےبادشاہ الراي (یعنی دی کنگ آف رائے) شاب خالد ہے۔
شاب خالد ،جس کا اصلی نام خالد حاجّ إبراهيم ہے، نے ۱۹۹۲ ء میں مغربی موسیقی کے ٹاپ چارٹ پر مکمّل اور خالصتاً عربی زُبان میں گایا ہو ا گانا "دي دي" گا کر تمام دُنیا کو حیران کر دیا اور شہرہء آفاق مقبولیت حاصل کی۔
عربی موسیقی کے ساتھ میرا پہلا تعارف یوکرائن کے دارالحکومت "کیف" مِیں میرے لبنانی، شامی، مراکشی اور فلسطینی دوستوں کے توّسط سے ہوا تھا۔
عربی موسیقی کے مشہور مصری مغنّی، عمر و دیاب، کے گانے "نور العين" اور ايهاب توفيق کے گانے "مراسيل" نے مجھ پر گویا موسیقی کی ایک نئی اور خُوبصُورت دُنیا آشکارا کردی ------------- عربی موسیقی قدیم بدوی موسیقی نہیں رہی بلکہ تمام دُنیا کے مغنّی اورموسیقاروں کی طرح عربی موسیقار اور مغنّی بھی اپنی موسیقی میں نئی میوزک ٹیکنالوجی اور سازوں کا اِستعمال کررہے ہیں۔ لیکن عربی موسیقی کی ایک خُوبی، جس کا اعتراف مغرب والے بھی کرتے ہیں، یہ بھِی ہے کہ کسی دوسری موسیقی کے ساتھ اِس کی آمیزش کرنے کی صُورت میِں یہ نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھتی ہے، بلکہ دُھن یا لِے کو چار چاند لگا دیتی ہے اور اِس میں ایک عجیب قسم کا سوز ،گداز اور مٹھاس پیدا کر دیتی ہے۔ "دي دي" کو اِس ضمن میں ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مزید آج کے نوجوان عربی عربی موسیقار اور مغنّی، شاب خالد، عمر و دیاب، الجلیل، ايهاب توفيق وغیرہ اپنے ہم عصروں کے ہمراہ اپنی موسیقی میں اس بات کا جابجا ثبوت فراہم کرتےہیں ------------- گو کہ ابھی تک کلاسیکل عربی موسیقی کے مغنّی اُمِّ کلثوم، فیروز اور حافظ کو بھی شوق سے سُنا جاتا ہے۔
"دي دي" کو مَیں نے پہلی بار جرمنی مِیں ایم ٹی وِی پر دیکھا اور سُنا تھا۔ گو کہ "دي دي" نے مجھے خالد کے بارے میں مزید جاننے کے شوق نے بڑھکایا لیکن مَیں جرمن زُبان مِیں مکمّل معلومات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے خاطِر خواہ کامیابی نہ حاصِل کر سکا۔ شاید اِس کی وجہ میرا ایک چھوٹے سے مگر خُوبصُورت جرمن قصبہ میں رہنا بھی ہو ------------- البتہ مُجھے جرمنی میں تُرک تارکینِ وَطن سے دوستی اور مِیل جول کی وجہ سے تُرک موسیقی سُننے کا موقعہ ضرور ملا۔ مَیں نے تُرک موسیقی میں بھی قدیم و جدید عربی موسیقی کے اثرات محسُوس کیے۔ بلکہ تُرک اپنے شادی بیاہ کی تقریبات میں عربی موسیقی کی دُھنوں پر ہی رَقص کے ساتھ لُطف اندوز ہوتے ہیں۔
جرمنی مِیں ہی مُجھے تُرک نوجوان موسیقار عمرہ کا "یی کُرکُم" جو کہ اُس نے "دي دي" کی طرز پر گایا ہے۔ ایمسٹردیم (ہالینڈ یا دی نیدر لینڈز) میں مُجھے پاکستانی گلوکار، سجّاد علی کی "دي دي" کی طرز پر گایا ہوا گانا "بے بیا" سُننے کااتّفاق ہو بمعہ ایک بھارتی گلوکار کی کاپی کے۔
لندن میِں آکرمَیں نے شاب خالد اور شاب مامي (جنھیں شہزاد ہ الراي بھی کہا جاتا ہے)کے کنسرٹس میں "راي" کے طاقتور طرب کا براہِ رَاست مُشاہدہ کیا۔ اور "راي" کے بارے میں مزید معلومات اکھٹّی کیں۔
"راي" کے لفظی معنی عربی اور اُردو میں "رائے" کے برابرہی ہیں۔ آج کی"راي" موسیقی (جسے پاپ راي بھی کہا جاتا ہے) بنیادی طور پر قدیم بدوی
موسیقی کی ایک ایسی ترّقی یافتہ صُورت ہے جِس میں اِس صدی کے مُحتلف عشرات میں مُختلف سطحوں پر تبدیلیاں ہوئیں۔ اور یہ امریکی سیاہ فام کی موسیقی "ریگے" کی طرح الجزائر اور شمالی افریقہ کے غریب اور متوسط طبقہ کی آواز بنا اور ان کے لیے ذریعہء محظوظیت ثابت ہوا۔
اس کےپیدائش کی جگہ اور تربیت کا مرکز الجزائر کے مغربی ساحلی شہر "اوران" کو کہا جاتا ہے۔ جہاں آج بھی نجی محافل اور نائٹ کلبوں میں "راي" فنکار اپنے فن کا جادُو جگاتے ہیں۔
(باقی کا مضمون مُنسلک اٹیچمنٹ سے پڑھ لیں۔ شکریہ)
© عؔلی خان – www.AliKhan.org/book.pdf
تاریخِ اِشاعت: ۹ اپریل ۱۹۹۶ ء
اخبار: روزنامہ جَنگ، لندن
گہرے سانولے رَنگ اور سیاہ گھنگریالے بالوں والا مغنّی اسٹیج پر سے اپنی کھردری مگر پُر سوز آواز میں اور پَسِ آواز، قدم بہ قدم بجتی ہوئی سیکسو فون اور گٹاروں کی آمیزش والی پُر طرب لِے کے ساتھ ہال کے سامعین (جن مِیں تقریباً ہر شہریت کے لوگ شامل ہیں) پر ایسا جادُو پھُونک رَہا ہے کہ اِیسا لگتا ہے کہ سامعین کے ساتھ ساتھ ہال کی دِیواریں بھی بے خُودی میِں رَقص پر مائل ہیں۔ مغنّی الجزائرکی عربی زبان مِیں گا رہا ہے:
[ARABIC]يانا محر علي و انتيا لا
ما نديرك بعيدة ما نبكي عليك
لا زهر لا ميمون
يلعن بو الزين دي دي دي زين ديوا
دي دي دي يا زين ديوا[/ARABIC]
[ARABIC]ما نديرك بعيدة ما نبكي عليك
ما نديرك بعيدة ما نصقصي عليك
لا زهر لا ميمون
يلعن بو زين دي دي
دي ديوا ديوا دي دي ها زين دي دي دي[/ARABIC]
[ARABIC]لا بعدوك علي لجبال غارقة
لا زهر لا ميمون يلعن بو الزين
لا زهر لا ميمون بناقص بو الزين
هز الشبة و الحرمل
و بكي على بو الزهر
دي دي دي ديوا هالزين ديوا [/ARABIC]
سمجھنے والے سمجھ کے جھُوم رہے ہیں اور نا سمجھنے والے مشرق اور مغرب کے اِمتزاج والی لِے پر جھُوم رہے ہیں۔
یہ کنسرٹ تریپولی یا بیروت مِیں نہیں ہو رَہا بلکہ لندن کے رائل فیسٹیول ہال مِیں ہو رَہا ہے جہاں زندگی ہر بڑے مغربی شہر کی طرح مادی ترقی کےلیے سرگرداں ہے۔ اور اِس کنسرٹ کا مغنّی بھی مائیکل جیکسن یا پیٹر گیبرئیل نہیں ہے بلکہ شمالی افریقہ کے مُلک الجزائر کے مشہور مغربی ساحلی شہر، اوران، کے اِیک چھوٹے سے کوارٹر میِں ۲۹ فروری ۱۹۶۰ ء کو پیدا ہونے والےبادشاہ الراي (یعنی دی کنگ آف رائے) شاب خالد ہے۔
شاب خالد ،جس کا اصلی نام خالد حاجّ إبراهيم ہے، نے ۱۹۹۲ ء میں مغربی موسیقی کے ٹاپ چارٹ پر مکمّل اور خالصتاً عربی زُبان میں گایا ہو ا گانا "دي دي" گا کر تمام دُنیا کو حیران کر دیا اور شہرہء آفاق مقبولیت حاصل کی۔
عربی موسیقی کے ساتھ میرا پہلا تعارف یوکرائن کے دارالحکومت "کیف" مِیں میرے لبنانی، شامی، مراکشی اور فلسطینی دوستوں کے توّسط سے ہوا تھا۔
عربی موسیقی کے مشہور مصری مغنّی، عمر و دیاب، کے گانے "نور العين" اور ايهاب توفيق کے گانے "مراسيل" نے مجھ پر گویا موسیقی کی ایک نئی اور خُوبصُورت دُنیا آشکارا کردی ------------- عربی موسیقی قدیم بدوی موسیقی نہیں رہی بلکہ تمام دُنیا کے مغنّی اورموسیقاروں کی طرح عربی موسیقار اور مغنّی بھی اپنی موسیقی میں نئی میوزک ٹیکنالوجی اور سازوں کا اِستعمال کررہے ہیں۔ لیکن عربی موسیقی کی ایک خُوبی، جس کا اعتراف مغرب والے بھی کرتے ہیں، یہ بھِی ہے کہ کسی دوسری موسیقی کے ساتھ اِس کی آمیزش کرنے کی صُورت میِں یہ نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھتی ہے، بلکہ دُھن یا لِے کو چار چاند لگا دیتی ہے اور اِس میں ایک عجیب قسم کا سوز ،گداز اور مٹھاس پیدا کر دیتی ہے۔ "دي دي" کو اِس ضمن میں ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مزید آج کے نوجوان عربی عربی موسیقار اور مغنّی، شاب خالد، عمر و دیاب، الجلیل، ايهاب توفيق وغیرہ اپنے ہم عصروں کے ہمراہ اپنی موسیقی میں اس بات کا جابجا ثبوت فراہم کرتےہیں ------------- گو کہ ابھی تک کلاسیکل عربی موسیقی کے مغنّی اُمِّ کلثوم، فیروز اور حافظ کو بھی شوق سے سُنا جاتا ہے۔
"دي دي" کو مَیں نے پہلی بار جرمنی مِیں ایم ٹی وِی پر دیکھا اور سُنا تھا۔ گو کہ "دي دي" نے مجھے خالد کے بارے میں مزید جاننے کے شوق نے بڑھکایا لیکن مَیں جرمن زُبان مِیں مکمّل معلومات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے خاطِر خواہ کامیابی نہ حاصِل کر سکا۔ شاید اِس کی وجہ میرا ایک چھوٹے سے مگر خُوبصُورت جرمن قصبہ میں رہنا بھی ہو ------------- البتہ مُجھے جرمنی میں تُرک تارکینِ وَطن سے دوستی اور مِیل جول کی وجہ سے تُرک موسیقی سُننے کا موقعہ ضرور ملا۔ مَیں نے تُرک موسیقی میں بھی قدیم و جدید عربی موسیقی کے اثرات محسُوس کیے۔ بلکہ تُرک اپنے شادی بیاہ کی تقریبات میں عربی موسیقی کی دُھنوں پر ہی رَقص کے ساتھ لُطف اندوز ہوتے ہیں۔
جرمنی مِیں ہی مُجھے تُرک نوجوان موسیقار عمرہ کا "یی کُرکُم" جو کہ اُس نے "دي دي" کی طرز پر گایا ہے۔ ایمسٹردیم (ہالینڈ یا دی نیدر لینڈز) میں مُجھے پاکستانی گلوکار، سجّاد علی کی "دي دي" کی طرز پر گایا ہوا گانا "بے بیا" سُننے کااتّفاق ہو بمعہ ایک بھارتی گلوکار کی کاپی کے۔
لندن میِں آکرمَیں نے شاب خالد اور شاب مامي (جنھیں شہزاد ہ الراي بھی کہا جاتا ہے)کے کنسرٹس میں "راي" کے طاقتور طرب کا براہِ رَاست مُشاہدہ کیا۔ اور "راي" کے بارے میں مزید معلومات اکھٹّی کیں۔
"راي" کے لفظی معنی عربی اور اُردو میں "رائے" کے برابرہی ہیں۔ آج کی"راي" موسیقی (جسے پاپ راي بھی کہا جاتا ہے) بنیادی طور پر قدیم بدوی
موسیقی کی ایک ایسی ترّقی یافتہ صُورت ہے جِس میں اِس صدی کے مُحتلف عشرات میں مُختلف سطحوں پر تبدیلیاں ہوئیں۔ اور یہ امریکی سیاہ فام کی موسیقی "ریگے" کی طرح الجزائر اور شمالی افریقہ کے غریب اور متوسط طبقہ کی آواز بنا اور ان کے لیے ذریعہء محظوظیت ثابت ہوا۔
اس کےپیدائش کی جگہ اور تربیت کا مرکز الجزائر کے مغربی ساحلی شہر "اوران" کو کہا جاتا ہے۔ جہاں آج بھی نجی محافل اور نائٹ کلبوں میں "راي" فنکار اپنے فن کا جادُو جگاتے ہیں۔
(باقی کا مضمون مُنسلک اٹیچمنٹ سے پڑھ لیں۔ شکریہ)
© عؔلی خان – www.AliKhan.org/book.pdf