سید شہزاد ناصر
محفلین
خضدار، قلات ڈویژن کا صدر مقام اور زیریں بلوچستان یا جھلاوان کا ایک اہم اور خوبصورت شہر ہے جو کراچی سے کوئٹہ جانے والی شاہرا ہ پر ان دونوں مرکزی شہروں کے تقریباً وسط میں واقع ہے ۔ اس کے شمال میں قلات ، جنوب میں کراچی اور لسبیلہ، مشرق میں کچھی اور مغرب میں مکران و خاران واقع ہیں۔ چہار سمت سے آنے والے راستوں کے نقطہ اتصال پر واقع اس شہر کی اہمیت اس اعتبار سے اوربھی زیادہ ہو جاتی ہے ۔
عہد ہائے گزشتہ میں اس شہر کو قصدار ، قضدار، قزداریا خضدر کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ اس کی حدود میں زمانہ ما قبلِ تاریخ کی کئی آبادیاں ازمنہ قدیم سے ہی اس علاقے میں آباد کاری کا سراغ دیتی ہیں۔ اس کے نواح میں پہاڑی سلسلوں میں موجود گبر بند یہاں کے باشندوں کی ایرانی النسل حکمرانوں کے عہد کے دوران زمینیں سیراب کرنے کے حوالے سے کی جانے والی منصوبہ بندی اور کاوشوں کا پتہ دیتے ہیں۔ ایک غالب گما ن کے مطابق 325 ق۔م میں جب سکندر اعظم ہندوستان کی فتح کے بعد بلوچستان کے راستے ایران لوٹا تو اپنے ہاتھیوں اور زخمیوں کو کریٹیرئس کے سپر د کر دیا تاکہ واپسی کے سفر میں اس کی پیروی کرے ۔ کریٹیرئس بلوچستان کی حدود میں واقع Choarene کے راستے آگے بڑھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہخضدار رہا ہو گا۔ مسلم دور کی ابتدائی فتوحات کے حوالے سے لکھی جانے والی تصانیف ، مثلاً البلاذری کی فتوح البلدان، میں بلوچستان کے اہم شہروں کے ضمن میں خضدار کا نام تواتر سے آتا ہے ۔ ابن حوقل کے بیان کی روشنی میں یہاں کے عرب حاکم نے عباسی خلیفہ کا نام خطبہ میں شامل کیا۔یاقوت حموی نے معجم البلدان میں اسے ایک ایسا شہر قرار دیا ہے جو طوران نامی ایک زرخیز ضلع میں واقع ہے جہاں انگور، انار اور دوسرے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اس ضلع کو خوارج کا مسکن بتاتا ہے۔ البلاذری نے سندھ میں ہونے والی مسلم فتوحات کے باب میں خضدار کا ذکر قصدار کے نام سے کیا ہے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جسے سنان بن سلمہ الہذلی نے بار اول اور ابو الاشعث المنذر جارود العبدی نے بار دیگر فتح کیا۔ یہ شہر اپنی شادابی اور انگوروں کی کاشت کی وجہ سے عربوں کے دل میں گھر کر گیا ۔ ایک ایسی زمین جو بالعموم بنجر ، بیابان اور زرخیزی سے عاری علاقے پر مشتمل تھی اس کے درمیان نخلستان عربوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں تھا ۔
انہوں نے اپنے اشعار میں اس کی تعریف بھی کی اور ساتھ ہی اسے ایک ایسی سرزمین کی حیثیت سے بھی یاد کیا جہاں سنان بن سلمہ نے اپنے آخری ایام گزارے اور اپنی وفات کے بعد دفن ہوئے ۔ سنان بن سلمہ الہذلی کا تذکرہ اپنے طورپر بہت اہم اور دلچسپ ہے لیکن سنان کے بعد خضدار کو آنے والے زمانوں کے لیے توجہ کا مرکز بنانے والی شخصیت دراصل رابعہ خضداری کی ہے جو اپنی رعنائی و دلکشی کے باوصف بر صغیر پاک و ہند کے ادبی و ثقافتی منظرنامے میں بعض حوالوں سے بے مثل ہے ۔ اس کی نظیر بعد میں تلاش کرنی ہو تومغل شہزادی زیب النساء یا ایران کی قرۃالعین طاہرہ کی صورت دیکھنے میں آتی ہے جو خیالات و افکار کے معاملے میں کسی قدر مختلف ہونے کے باوجود اپنی بے باکی ، آزادی افکار اور کمال شاعری میں رابعہ خضداری کی یاد دلاتی ہیں ۔ رابعہ بنت الکعب القزداری کا ذکر اگرچہ فارسی شعراء کے کئی تذکروں میں ملتا ہے لیکن قدیم مآخذین میں فرید الدین عطارکی مثنویات، سدید الدین محمد عوفی کی لباب الالباب اورنورالدین عبدالرحمٰن جامی کی نفحات الانس اس کے احوال پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہیں۔عہد قاچار کے اہم شاعر رضا قلی خان ہدایت نے بھی اپنی تصنیف گلستانِ ارم یا بکتاش نامہ میں رابعہ کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اگرچہ رابعہ کا عہد قطعیت کے ساتھ متعین کرنا آسان نہیں لیکن مختلف روایات کی روشنی میں اس کا زمانہ 914ء اور 943ء کے درمیان کا ٹھہرتا ہے ۔
یہ وہ زمانہ ہے جس میں رودکی سامانی حکمران نصر دوم کے ہاں درباری شاعر تھا ۔اگرچہ رابعہ کی شہرت اس کی فارسی شاعری سے وابستہ ہے لیکن فارسی کے ساتھ ساتھ وہ عربی میں شعر کہنے میں بھی کامل مہارت رکھتی تھی۔ محمد عوفی کے مطابق وہ تھی تو عورت مگر علم و فضل میں مردوں سے بر تر تھی۔رابعہ خضداری کے مندرجہ ذیل اشعارعربی شاعری میں اس کے مرتبے کی کسی قدرعکاسی کرتے ہیں۔
شَاقَنیِ نَاءِح’‘ مِنّ اْلَاطْیَار ھاَجَ سقّمیِ وَ ھَاجَ لِی تَذْکَارِی قُلْتُ لِلطَّیْر لِمَ تَنُو ح و تَبْکیِ! فیِ دُجَی اللَّیْلِ وَ النجُّوُمُ دَرَارِی!
ترجمہ: ایک نوحہ کناں پرندے نے میرے دل میں شوق محبت پیدا کر دیا۔ اس نے میرے مرض عشق کو برافروختہ کیا اور یاد محبت کو تازہ کر دیا۔ میں نے اس پرندے سے پوچھا کہ رات کی تاریکی میں جب آسمان پر ستارے روشن ہیں ،توتو کس لیے آہ زاری کر رہا ہے۔
عربی شاعری میں اپنی دسترس اوراپنی خوبصورتی کی بنا پر رابعہ کو زینِ عرب کہا جاتا تھا ۔ عوفی نے رابعہ کے مندرجہ ذیل اشعار کی روشنی میں اس کا ایک اور لقب مگس روئین بھی لکھا ہے : خبر دھند کہ بارید بر سر ایوب ز آسمان ملخان و سرھمہ زریں اگر ببارہ ازیں ملخ براو از صبر! سزد کہ بارد برمن یکی مگس رویین ترجمہ: خبر ملی ہے کہ حضرت ایوب کے سر پر بارش برسی اور آسمان سے مکڑیاں ایسے نازل ہوئیں کہ ان کا سر سنہری ہو گیا ۔ اگر مکڑیوں کی یہ بارش ان پر ان کے صبر کیوجہ سے برسی پھر تو لازم ہے کہ مجھ پر کانسی کی مکھیوں کی بارش ہو جن پر کسی بلا کے نزول سے فرق نہیں پڑتا۔ فرید الدین عطار کے مطابق رابعہ کا والد کعب ایک عرب رئیس تھا جو آل سامان کے عہد میں بلخ ، قزدار، قندھار وسیستان میں اپنی تلوار کے جوہر دکھاتا رہا۔ اس کا ایک بیٹا حارث اور ایک بیٹی رابعہ تھی جو اپنے باپ کی لاڈلی اور حسن و جمال میں بے مثل تھی۔
اعلیٰ درجہ کی شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ فنون سپہ گری سے اس درجہ آراستہ تھی کہ دشمنوں میں گھس کر ان کی صفیں توڑ دیتی تھی۔ اس کی رجزیہ شاعری فوجوں کا دل بڑھا کر فتح و نصرت کی طرف ان کی رہنمائی کرتی تھی۔ غرض باپ کے دل کا چین اور قرار تھی۔ جب کعب کی وفات کا وقت آیا تو اس نے حارث کو اپنی بہن کی دل جوئی اور خوشنودی کا خیال رکھنے کی وصیت کی ۔ باپ کے انتقال کے بعد کعب جانشین ہوا۔اس نے اپنی رعیت اور لشکر کو خوش رکھا اور بہن کی خاطر داری میں بھی کبھی کمی نہ کی۔ حارث کا ایک نہایت خوبصورت ترک غلام تھا جس کا نام بکتاش تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ رابعہ نے اسے دیکھا اور ہزار جان سے اس پر نثار ہوئی۔ اس میں ہمت نہ تھی کہ اس بات کو کسی سے کہ سکتی ۔ جذبے کی بے تابی نے اسے بیمار کر دیا۔ علاج معالجہ ہوا مگر بے سود ۔بالآخر اپنی دایہ کے سامنے اسے اقرار کرتے ہی بنی کہ اسے بکتاش سے محبت ہے۔
دایہ کے ذریعے سلسلہ پیغام رسانی شروع ہوا تو بکتاش بھی تیغ عشق سے گھائل ہو گیا۔ رابعہ نے اپنے جذبے میں لافانی کلام رقم کیا۔ اس کی آہ و زاری نے اشعار کا روپ دھار لیا۔ ایک دن جب وہ باغ میں ٹہلتی ہوئی یہ اشعار پڑھ رہی تھی۔ الا ای باد شبگیری گزر کن زمن آن ترک یغما را خبرکن بگو کزتشنگی آبم تو بردی ببردی آبم وخوابم بہ بردی ترجمہ: اے رات کو چلنے والی ہوا کبھی اس کے کوچے سے بھی گزر اور میرے حالِ زار کی اس غارت گرِ ہوش و خرد کو خبر دے ۔ کہنا کہ محبت کی تشنگی نے میری آب و تاب مجھ سے چھین لی ۔ میری چمک دمک ، سکون و اطمینان، نیندیں سبھی مجھ سے جدا ہو گئیں۔ اتفاقاً اس کے بھائی حارث نے بھی یہ اشعار سن لئے ۔اس نے برہم ہو کر بہن سے اس واہیات کلام کہنے کی وجہ دریافت کی۔ رابعہ نے اشعار میں قدرے ترمیم کر کے اسے مطمئن کر دیا۔ لیکن شاید ایک وہم سا تھا جو حارث کے دل میں بیٹھ گیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد دشمن نے حارث پر حملہ کر دیا ۔ حارث اپنی فوج کے ساتھ نکلا اور داد شجاعت دینے لگا۔ بکتاش بھی اس کی جانب سے جنگ میں مصروف تھا کہ ناگہاں ایک تیر اسے لگا۔ وہ تیورا کر گرنے والا تھا کہ رابعہ جو مردانہ بھیس بدل کر جنگ میں شریک تھی اس کی مدد کو آپہنچی ۔ اس نے حملہ پر آمادہ سپاہیوں کو موت کی گھاٹ اتارا۔ پھر دشمنوں کے نرغہ سے بکتاش کو صاف نکال کر اپنی صفوں میں پہنچا کر غائب ہوگئی۔
اس کی بہادری نے سپاہ کو ششدر کر دیا۔ کوشش کے باوجود یہ سراغ نہ لگ سکا کہ بکتاش کی جان کس نے بچائی تھی۔ ایک دن رودکی ، جو اپنے عہد کا عظیم شاعر تھا، رابعہ کے شہر سے گزرا ۔ اس نے اس کے اشعار کی شہرت سنی تو امتحاناً چند اشعار اسے لکھ بھیجے۔ جواباً زین عرب نے بھی ان اشعار کا جواب اعلیٰ شاعری سے دیا۔ رودکی اس کی جودتِ طبع پر حیران ہوا۔ جان گیا کہ یہ جذبہ محبت کے بغیر جنم نہیں لے سکتا۔جب وہ بخارا پہنچا تو اسے ایک ایسی مجلس میں اپنے اشعار سنانے پڑھے جس میں حارث بھی شریک تھا۔ نشہ کے عالم میں اس نے اپنے کلام کی بجائے رابعہ کے اشعار پڑھنے شروع کر دیئے ۔ مجلس میں بڑی تعریف ہو ئی۔چونکہ کیفیتِ کلام مختلف تھی سو شاہ بخارا نے استاد سے پوچھا کہ یہ کس کے اشعار ہیں۔ رودکی نے جواباً کہا یہ کسی دختر کعب کا کلام ہے جو ایک غلام پر جان چھڑکتی ہے۔ حارث نے سب کچھ سنا۔ مجلس میں کچھ نہ کہا واپس پہنچا تو بہن پر جاسوس مقرر کئے تاکہ معاملہ کی تہہ تک پہنچ سکے ۔دوسری طرفبکتاش رابعہ کے اشعار جہاں محفوظ رکھتا تھا وہاں اتفاقاًاس کے ایک دوست کی رسائی ہو گئی۔ اسے یہ خطوط اور اشعار ملے تو وہ انہیں لے کر حارث کے پاس آپہنچا ۔ حارث کے حکم پر بکتاش کو گرفتار کرنے کے بعد ایک تاریک کنویں میں قید کر دیاگیا۔ اس کے بعداُس نے ایک حمام گرم کروایا اورفصاد کو بلا کر حکم دیاکہ رابعہ کے دونوں ہاتھوں کی فصد کھول دی جائے ۔
جب خون بہنا جاری ہو گیا تو اسے حمام میں بھجوا کر تمام دروازے اینٹ اور چونے سے بند کر وا دیے۔ رابعہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بھی اپنی محبت کو نہیں بھولی۔ اس کے دونوں ہاتھوں سے لہو رواں تھا اور وہ اپنے ہی خون سے دیواروں پر برابر اشعار رقم کر رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس نے تمام دیواریں اپنے خونین نقوش سے رنگین بنا دیں۔ خون کی آخری بوند بھی بہہ گئی تو وہ نعش بے جان ہو کر فرش پر گر پڑی ۔ دوسرے دن حمام توڑا گیا تو اس کی لاش خون میں نہائی ہوئی پڑی تھی ۔ دیواروں پر ہر طرف اس کے یاس آمیز اشعار رقم تھے۔
(کاش کہ میرا تن جان سکتا کہ میرے دل پر کیا گزری ۔ کاش کہ میرے دل کو خبر ہو سکتی کہ میرے تن کا کیا حال ہوا۔ کاش کہ میں تیری محبت سے سلامتی کے ساتھ نجات پاسکتی مگر افسوس میں اس کے لیے درکار تاب و تواں ہی نہیں رکھتی ۔) روایات میں ہے کہ بکتاش موقع پاکر قید سے آزاد ہو گیا ۔ ایک صبح اس نے حارث کو قتل کر ڈالا ۔ پھر وہ رابعہ کی قبر پر جا پہنچا ۔ اپنے خنجر کو سینے میں مارا اور خود بھی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوکر رابعہ کی قبر پر گرپڑا۔ رابعہ اگرچہ اپنی محبت میں جان سے گزر گئی لیکن اس جذبے کے تحت اس نے لازوال کلام رقم کیا ۔اس کی کچھ اور مثالیں درج ذیل ہیں۔
دعوت من بر تو آن شد کا نیر دت عاشق کناد
بریکی سنگیں دلی نا مہرباں چوں خویشن
تابدانی درد عشق و داغ مہرو غم خوری
تابہ ھجر اندر بھیجی و بدانی قدر من
ترجمہ: تیرے حق میں میری دُعا ہے کہ تیرے جذبہ عشق میں زیادتی ہو۔ تُو کسی ایسے سخت دل محبوب کے تیر محبت کا شکار بنے جو تیری ہی طرح نا مہربان اور بے مروت ہو۔ تجھے بھی علم ہو کہ دردِعشق کیا ہوتا ہے ۔ محبت کا داغ کیا قیامت ڈھاتا ہے اور اس کا غم کیسے گھلا دیتا ہے ۔ تجھے بھی ہجر کی کشمکش سے واسطہ پڑے ۔ پھر تو جان سکے کہ میر ی قدر و قیمت کیاہے۔
ای خداوند! یکی بار جفا کارش دہ
دلبر عشوہ گرو سرکش و عیارش دہ
تابداند کہ شبِ ما بہ چساں می گزرد
غم عشقش دہ و عشقش دہ و بسیارش دہ
ترجمہ: اے خداوند! اُس کا واسطہ ایک بار تو کسی جفا کرنے والے سے ڈال ۔ اسے ایک ایسا محبوب عطاکرجو ناز برداری کروانا جانتا ہو، سرکشی کی خو رکھتا ہو اور چالبازی کے حربوں سے لیس ہو تاکہ اسے بھی معلوم ہو کہ میری شبِ ھجر کیسے گزرتی ہے۔ اسے عشق دے، غم عشق دے اور فراواں دے۔
رابعہ نے اپنی ایک خوبصورت غزل میں اپنی محبت اور اپنے فلسفہ محبت پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے ۔
عشق اُو باز اندر آوردم بہ بند
کوشش بسیار نامد سود مند
توسنی کردم ندانستم ہمی
کزکشیدن سخت تر گردد کمند
عشق دریای کرانہ ناپدید
کی تواں کردن شنا ای ھوشمند
عشق را خواہی کہ تاپایان بری
پس بباید ساخت با ھر ناپسند
زشت باید دید و انگارید خوب
زھر باید خورد و پندارید قند
ترجمہ: میں اُس کی محبت کے جال میں ایسے گرفتار ہو گئی کہ اس سے نکلنے کی ہر کاوش اور ہر کوشش بیکار ثابت ہوئی۔ مجھے نہیں علم اس رخشِ وحشی پر میں کب سوار ہوئی ۔ جتنا باگ کو کھینچتی ہوں اتنا ہی کمند کا حلقہ تنگ ہو جاتا ہے۔ دریائے عشق کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔ کوئی ہوش مند اسے عبور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ۔عشق کا تقاضا ہے کہ ہر ناپسند شے سے نباہتے ہوئے آخری سانس تک اپنے جذبے میں صادق رہا جائے ۔ قبیح چیز دیکھی جائے اور اسے خوبصورت سمجھا جائے۔ زہر کھایا جائے اور اسے قند بھی خیال کیا جائے۔
خضدار کے نواح میں واقع ’’مِیری ‘‘کے ساسانی اور غزنوی عہد سے تعلق رکھنے والے قدیم ٹیلے کے پہلو میں جو آج کل ’’میری بُٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یہ دونوں محبت کرنے والے ابدی نیند سو رہے ہیں۔قبر کی بے سروسامانی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رابعہ خضداری کو عورتوں کے حقوق کی نمائندہ، حریت فکر اور محبت کی پیکر قراردینے والی مقامی یا غیرمقامی تنظیمیں اس خاتون کو بہت حد تک فراموش کر چکی ہیں۔ قبر پر کوئی ایسا تفصیلی کتبہ موجود نہیں جو اس عظیم شاعرہ کے حالاتِ زندگی یا کلام پر روشنی ڈال سکے۔ کوئی ایسا سرسبز و شاداب قطعہ زمین یا تحقیقی مرکز بھی دیکھنے میں نہیں آتا جس سیبرصغیر سے تعلق رکھنے والی ،فارسی کی اس اولین نظم نگار کی شخصیت یا شاعری کا رنگ وآہنگ جھلکے ۔ بلخ والوں نے البتہ رابعہ کو فراموش نہیں کیا۔ وہاں بھی رابعہ سے منسوب ایک قبر مرجع خلائق ہے۔ بلوچستان کی طرح افغانستان میں بھی بہت سے ہسپتالوں ،تعلیمی اداروں اور تنظیموں کا نام رابعہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اسے افغانستان کی پہلی اور واحد ملکہ بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ اس پر بنائی جانے والی فلم ’’رابعہ بلخی‘‘ 1965ء میں سامنے آئی اور اسے متعدد بار ٹیلیویژن اور تھیٹر پر دکھایا گیا ۔ نوجوان نسل اسے عشق و محبت کا استعارہ خیال کرتی ہے اور اس کی قبر پر حاضری اپنے جذبہ سرشاری کی تکمیل سمجھتی ہے ۔ شیخ فرید الدین عطار نے کعب کو بلخ کا حاکم قرار دیا ہے۔
اس اعتبار سے کچھ لوگ ، بالخصوص اہل ایران ، رابعہ خضداری کو ایرانی شعراء کی صف میں شمار کرتے ہوئے اسے رابعہ بلخی قرار دیتے ہیں۔ جن لوگوں کے خیال میں رابعہ کا تعلق خضدار سے ہے ان کے دلائل کی بنیادمحمد عوفی کی لباب الالباب میں بیان کردہ روایت کے ساتھ ساتھ اس امر پر ہے کہ آل سامان کی تاریخ میں حاکمانِ بلخ کے ضمن میں کسی حارث یا کعب کا ذکر نہیں ملتا ۔ اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو کہیں نہ کہیں بالضرور مذکور ہوتا۔ بہر حال رابعہ کا تعلق خضدار سے ہو یا بلخ سے ،اس سے منسوب داستان کی حقیقت کچھ بھی ہو جو اشعار رابعہ کے ساتھ منسوب ہیں وہ اسے ایک لافانی شاعرہ کی حیثیت سے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
ربط
http://www.sindhsagar.com/index.php/personalities/30-2013-08-08-03-14-00