رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے ۔ (نظم: انتظار) ۔ از مخدوم محی الدین

فاتح

لائبریرین
انتظار
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے

خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان بر افگندہ نقاب آئے گا

نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا

آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی

پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے
سجدے مسرور کہ معبود کو ہم پا ہی گئے

شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی

صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا! تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی

میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے

آ بھی جا تا کہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا تا ترے قدموں پہ مری جاں نکلے

مخدوم محی الدین​
یہی نظم جگجیت سنگھ اور آشا بھوسلے کی آوازوں میں سنیے:
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ۔۔۔۔! بہت اعلیٰ۔۔۔۔!

یہ کلام (کچھ تور مروڑ کر) کمار سانو نے بھی گایا ہے اور ہم اُس پر بھی خوش تھے۔ :)
 
Top