رات دیکھا کمال سجناں کا

ایم اے راجا

محفلین
ایک تازہ غزل حاضر ہے آپکی آرا کیلیئے۔

رات دیکھا کمال سجناں کا
چاند میں تھا جمال سجناں کا

پھول، خوشبو، بہار اور شبنم
ساتھ لایا خیال سجناں کا

بادلو جانا پار دریا کے
پوچھ کر آنا حال سجناں کا

ہو خزاں یا بہار کا موسم
روپ دیکھا بحال سجناں کا

پھول رکھنا کتابوں میں میری
شوق تھا بے مثال سجناں کا

ساتھ ہے میرے آج بھی دیکھو
دردِ دل لا زوال سجناں کا

جان میں جان آگئی پھر سے
لائے بادل ہیں حال سجناں کا

جانے کیوں لوگ آجکل سارے
پوچھتے ہیں سوال سجناں کا

مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، غم اور ملال سجناں کا​
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے راجا صاحب، مطلع اچھا ہے۔

دوسرا شعر بہت اچھا ہے، واہ واہ

پھول، خوشبو، بہار اور شبنم
ساتھ لایا خیال سجناں کا

فقط اس میں 'اور' تھوڑا سا 'مس فٹ' ہے، اسکو اگر بدل سکیں، مختلف مصرعے ہو سکتے ہیں خود بھی کوشش کریں:

پھول، خوشبو، بہار، شبنم، رنگ
ساتھ لایا خیال سجناں کا
یا

نغمہ، خوشبو، بہار، گل، شبنم
ساتھ لایا خیال سجناں کا

وغیرہ وغیرہ!

اسی طرح مقطع میں بھی 'اور' جچ نہیں رہا،

مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، غم اور ملال سجناں کا

دراصل 'اور' کسی بھی چیز کو مخصوص کر دیتا ہے، یعنی مقطع میں 'اور' سے یہ مطلب نکل رہا ہے کہ شاعر کو فقط درد، غم اور ملال تینوں ہی عوارض لاحق ہیں جن سے اس کو مرنے کا خدشہ ہے :)جب کہ میرے خیال میں آپ یہ کہنا چا رہے ہیں کہ درد، غم، اور ملال جیسے کئی مسائل ہیں جن میں آپ مبتلا ہیں، لیکن 'اور' ان کو فقط تین تک روک رہا ہے یعنی لمیٹڈ ہو گئے ہیں:


مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، غم، دکھ، ملال سجناں کا

وغیرہ وغیرہ!

اور

پھول رکھنا کتابوں میں میری
شوق تھا بے مثال سجناں کا

اس میں دیکھیں کہ 'میں اور میری' میں میم تنافر پیدا کر رہا ہے اور شعر کے آہنگ میں بھی توازن نہیں رہا اور روانی بھی مجروح ہو رہی ہے، فقط انہی الفاظ کو آگے پیچھے کرنے سے دیکھیے

پھول رکھنا مری کتابوں میں
شوق تھا بے مثال سجناں کا
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی تو اس بات کی ہیکہ آپ نے اپنی رائے دی ہے، بہت دنوں کے بعد کچھ بولے ہیں، جسکے لیئے خصوصی شکریہ۔
میں مندرجہ بالا اشعار کو درست کر کے پیش کرتا ہوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی آپکے مشورے کیمطابق شعر تبدیل کر دیئے ہیں۔

رات دیکھا کمال سجناں کا
چاند میں تھا جمال سجناں کا

پھول، خوشبو، بہار، رنگ، شبنم
ساتھ لایا خیال سجناں کا

بادلو جانا پار دریا کے
پوچھ کر آنا حال سجناں کا

ہو خزاں یا بہار کا موسم
روپ دیکھا بحال سجناں کا

پھول رکھنا مری کتابوں میں
شوق تھا بے مثال سجناں کا

ساتھ ہے میرے آج بھی دیکھو
دردِ دل لا زوال سجناں کا

جان میں جان آگئی پھر سے
لائے بادل ہیں حال سجناں کا

جانے کیوں لوگ آجکل سارے
پوچھتے ہیں سوال سجناں کا

مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، دکھ، غم، ملال سجناں کا
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہ یہ سجناں کون سا لفظ ہے۔۔۔ ہندی میں محبوب کے لئے ’سجنا‘ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب ہندی کا ردیف استعمال کیا جائے تو پوری غزل کا مزاج بھی ہندی ہونا چاہئے۔ بہر حال مجھے بہت سے قافیے پسند نہیں آئے۔
کمال، جمال، بحال، لازوال والے اشعار میں قافیہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرا تفصیل سے بعد میں دیکھوں گا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ استادِ محترم۔ ویسے سجنا اور سجناں کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہیں سجنا اور کہیں سجناں پڑھا سو ایک سا وزن جان کر ن غنہ لگا دیا، رہا سوال مزاج کا تو ہم کیا جانیں مزاج کو ہم تو اپنا مزاج جانتے ہیں جب اور جیسا ہوا ویسا کہہ ڈالا:)
 

الف عین

لائبریرین
اطلاع کے لئے۔۔ میری نظر سے یہ پہلی بار سجناں گزرا ہے۔ قافیے بلکہ مکمل زبان ہندی نما ہو تو یہ ردیف قافیہ قابلِ قبول ہے۔ بہر حال بدل کر دیکھتا ہوں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب راجا بھائی آخر کار غزل محفل پر آ ہی گی بہت اچھی غزل ہے اور وارث صاحب بہت شکریہ آپ بہت دنوں کے بعد اس طرح سامنے آئیں ہیں مجھے بھی بہت خوشی ہوئی شکریہ اعجاز صاحب آپ کا بھی بہت بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
رات دیکھا کمال جاناں کا
چاند میں تھا جمال جاناں کا
//// ساری ردیف بدل دی ہے، اب لگتا ہے کہ قابلِ قبول ہے۔

پھول، خوشبو، بہار، رنگ، شبنم
/// رنگ کے اس استعمال کو میں درست نہیں سمجھتا۔ اس کے علاوہ شبنم اور بہار دونوں سے محبوب کا خیال آنا بعید ہےشبنم تو بہت موہوم ہوتی ہے اور بہار ایسی شے نہیں جو اچانک آئے اور محبوب کا احساس دلائے۔۔ اس کو یوں کہو
رنگ، خوشبو، نسیم،پھول، دھنک

ساتھ لایا خیال جاناں کا
//// اس کو ’ساتھ لائے ‘ کر دو۔ پہلے مصرعے میں جمع کا صیغہ ہے۔ یعنی سارے عناصر۔۔
رنگ، خوشبو، نسیم،پھول، دھنک
ساتھ لائے خیال جاناں کا

بادلو جانا پار دریا کے
پوچھ کر آنا حال جاناں کا
///چلے گا

ہو خزاں یا بہار کا موسم
روپ دیکھا بحال جاناں کا
// یہ قافیہ غلط ہے، اس کو پھر کہو یا شعر ہی نکال دو۔

پھول رکھنا مری کتابوں میں
شوق تھا بے مثال جاناں کا
///اچھا شعر ہے

ساتھ ہے میرے آج بھی دیکھو
دردِ دل لا زوال جاناں کا
/// پہلا مصرع رواں نہیں۔ ، دوسرے مصرع میں بھی دل کا درد ہے یا جاناں کا۔
اس کو یوں کہو تو بات اور بھی بہتر ہو جائے
۔
یہ تو دھڑکن کے ساتھ رہتا ہے
درد ہے لازاوال جاناں کا

جان میں جان آگئی پھر سے
لائے بادل ہیں حال جاناں کا
/// دوسرا مصرع رواں نہیں۔ ‘لائے بادل ہیں‘ کی نشست کی وجہ سے۔ یا تو اس کو ابر کر دو
ابر لائے ہیں حال جاناں کا
یا
ابر لے آئے حال۔۔۔۔۔۔

جانے کیوں لوگ آجکل سارے
پوچھتے ہیں سوال جاناں کا
یہ قافیہ بھی درست نہیں، تفہیم بھی درست نہیں ہو رہی۔ کیا سوال ہے جاناں کا؟ اس کو بھی بدل دو یا نکال دو۔

مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، دکھ، غم، ملال جاناں کا
/// دوسرے مصرع میں تو سارے ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ملال وغیرہ بھی جاناں کا نہیں ہوتا۔۔ اس کی جدائی کا ہوتا ہے۔ اس پر اور غور کروں گا کہ کیسے ہو سکتا ہے۔
 

محمد نعمان

محفلین
بہت شکریہ راجہ بھائی غزل پیش کرنے کے لیے اور مبارکباد بھی۔۔۔
وارث بھائی اور استاد محترم اعجاز صاحب کا شکریہ کہتے کہتے ہم تھک گئے ہیں کہ انکی اتنی چاہت ہے کہ ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور شکریہ تو ہم ادا کر ہی نہیں سکتے۔۔۔
 

محمد نعمان

محفلین
استاد محترم بٹن دبا کر بھی جی نہیں بھرتا تو پھر الفاظ میں سیرابی ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں مگر تشنگی برقرار رہتی ہے کہ
؂ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ کیا
 

ایم اے راجا

محفلین
رات دیکھا کمال جاناں کا
چاند میں تھا جمال جاناں کا
//// ساری ردیف بدل دی ہے، اب لگتا ہے کہ قابلِ قبول ہے۔

پھول، خوشبو، بہار، رنگ، شبنم
/// رنگ کے اس استعمال کو میں درست نہیں سمجھتا۔ اس کے علاوہ شبنم اور بہار دونوں سے محبوب کا خیال آنا بعید ہےشبنم تو بہت موہوم ہوتی ہے اور بہار ایسی شے نہیں جو اچانک آئے اور محبوب کا احساس دلائے۔۔ اس کو یوں کہو
رنگ، خوشبو، نسیم،پھول، دھنک

ساتھ لایا خیال جاناں کا
//// اس کو ’ساتھ لائے ‘ کر دو۔ پہلے مصرعے میں جمع کا صیغہ ہے۔ یعنی سارے عناصر۔۔
رنگ، خوشبو، نسیم،پھول، دھنک
ساتھ لائے خیال جاناں کا

بادلو جانا پار دریا کے
پوچھ کر آنا حال جاناں کا
///چلے گا

ہو خزاں یا بہار کا موسم
روپ دیکھا بحال جاناں کا
// یہ قافیہ غلط ہے، اس کو پھر کہو یا شعر ہی نکال دو۔

پھول رکھنا مری کتابوں میں
شوق تھا بے مثال جاناں کا
///اچھا شعر ہے

ساتھ ہے میرے آج بھی دیکھو
دردِ دل لا زوال جاناں کا
/// پہلا مصرع رواں نہیں۔ ، دوسرے مصرع میں بھی دل کا درد ہے یا جاناں کا۔
اس کو یوں کہو تو بات اور بھی بہتر ہو جائے
۔
یہ تو دھڑکن کے ساتھ رہتا ہے
درد ہے لازاوال جاناں کا

جان میں جان آگئی پھر سے
لائے بادل ہیں حال جاناں کا
/// دوسرا مصرع رواں نہیں۔ ‘لائے بادل ہیں‘ کی نشست کی وجہ سے۔ یا تو اس کو ابر کر دو
ابر لائے ہیں حال جاناں کا
یا
ابر لے آئے حال۔۔۔۔۔۔

جانے کیوں لوگ آجکل سارے
پوچھتے ہیں سوال جاناں کا
یہ قافیہ بھی درست نہیں، تفہیم بھی درست نہیں ہو رہی۔ کیا سوال ہے جاناں کا؟ اس کو بھی بدل دو یا نکال دو۔

مار ڈالے نہ اب کہیں راجا
درد، دکھ، غم، ملال جاناں کا
/// دوسرے مصرع میں تو سارے ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ملال وغیرہ بھی جاناں کا نہیں ہوتا۔۔ اس کی جدائی کا ہوتا ہے۔ اس پر اور غور کروں گا کہ کیسے ہو سکتا ہے۔
سب سے پہلے السلام علیکم۔
پھر شکریہ کہ آپ اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود طالبانِ سخن کو راہ سخن کی صحیح سمت دکھاتے ہیں۔
حضور ایک گزارش ہیکہ اگر آپ مندرجہ بالا غزل کے مزاج اور ہندی اور اردو مزاج پر تھوڑی روشنی ڈال دین تو مجھ سمیت بہت س مبتدی اس سے فیض حاصل کر سکتے ہیں، اسکے علاوہ آپ نے فرمایا کہ بحال کا قافیہ درست نہیں اگر کچھ مزید اسکی صحت اور نا موافقیت کے بارے میں فرما دیں تو یہ بھی مبتدیوں کے لیئے سبقِ بے بہا ہو گا۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا، ہندی مزاج کی غزل اس وقت ہوتی ہے جب اس میں اکثر الفاظ ہندی کے ہوں، تراکیب ہندی کی ہوں، تہذیبی علامات ہندی کی ہوں (مطلب ہندوستان کی۔ جو پاکستانی بھی ہو سکتی ہیں، جیسے ساون، بسنت (جو ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں منایا جاتا ہے) اب جب غزل میں ایسے الفاظ ہوں تو مجموعی تاثر ہندی یا ہندوستانی کا ہوگا۔ اس صورت میں فارسی تراکیب سے پرہیز لازم ہے۔ سجنا بہر حال ہندی گیتوں میں استعمال ہوتا ہے، عام طور پر ایک عورت کی طرف سے مرد محبوب کے لئے۔ (ہندی شاعری کی واحد متکلم عورت ہی ہے) اور اسی مزاج کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس غزل میں تم نے قوافی بھی فارسی رکھے ہیں۔ وہ اس سے میل نہیں کھاتے۔ اس لئے میں نے ردیف ہی بدلنے کو ترجیح دی۔
اب آؤ بحال کی طرف ۔ بحال سے مراد عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ پہلے طبیعت خراب تھی، اور اب کچھ بہتر ہے۔ تو کہا جاتا ہے کہ بحال ہو گئی۔
روپ دیکھا بحال سجناں کا
یہ تمہارا استعمال سمجھ میں نہیں آیا۔ روپ کیسے بحال ہو سکتا ہے؟ تم نے کیا مطلب سوچ کر یہ شعر کہا تھا؟
 

ایم اے راجا

محفلین
راجا، ہندی مزاج کی غزل اس وقت ہوتی ہے جب اس میں اکثر الفاظ ہندی کے ہوں، تراکیب ہندی کی ہوں، تہذیبی علامات ہندی کی ہوں (مطلب ہندوستان کی۔ جو پاکستانی بھی ہو سکتی ہیں، جیسے ساون، بسنت (جو ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں منایا جاتا ہے) اب جب غزل میں ایسے الفاظ ہوں تو مجموعی تاثر ہندی یا ہندوستانی کا ہوگا۔ اس صورت میں فارسی تراکیب سے پرہیز لازم ہے۔ سجنا بہر حال ہندی گیتوں میں استعمال ہوتا ہے، عام طور پر ایک عورت کی طرف سے مرد محبوب کے لئے۔ (ہندی شاعری کی واحد متکلم عورت ہی ہے) اور اسی مزاج کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس غزل میں تم نے قوافی بھی فارسی رکھے ہیں۔ وہ اس سے میل نہیں کھاتے۔ اس لئے میں نے ردیف ہی بدلنے کو ترجیح دی۔
اب آؤ بحال کی طرف ۔ بحال سے مراد عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ پہلے طبیعت خراب تھی، اور اب کچھ بہتر ہے۔ تو کہا جاتا ہے کہ بحال ہو گئی۔
روپ دیکھا بحال سجناں کا
یہ تمہارا استعمال سمجھ میں نہیں آیا۔ روپ کیسے بحال ہو سکتا ہے؟ تم نے کیا مطلب سوچ کر یہ شعر کہا تھا؟
استادِ محترم، جیسا کہ موسم انسانی زندگی اور رنگ و روپ پر اثر انداز ہوتے ہیں، آپ دیکھیں ہر موسم میں انسانی رنگ و روپ الگ ہوتا ہے، سردی اور خزاں میں جلد خشک اور اجڑی ہوئی جس ہم کریموں وغیرہ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شاعر کہہ رہا ہیکہ میرے محبوب کا حسن و جمال ایسا لاثانی ہیکہ وہ ہر موسم میں بحال ( ٹھیک اور حسین) ہی رہتا ہے۔ شعر کے پسِ پردہ سائنسی ریسرچ بھی کارفرما ہے:))

رہا سوال ہندی اور فارسی و عربی کا تو میں نے سوچا کہ جب استاد نصرت فتح علیخان کلاسیکی موسیقی اور پاپ موسیقی کا مکسچر بنا کر مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ سکتے ہیں تو راجا تم کیوں نہیں سو ایسا کر ڈالا جو کہ میری کم علمی کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ گیا:)
 

ایم اے راجا

محفلین
سر جاناں کی جگہ کچھ اور اگر لایا جائے۔
اور ایک مزید سوال کہ کیا یہاں سجنا لانا ممنوع ہے میرا مطلب ہے فارسی مزاج کی غزلوں میں یا ضرورتِ شعری میں لایا جاسکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
سجنا چل تو سکتا ہے لیکن اس صورت میں الفاظ زیادہ تر ہندی ہونا چاہئے، فارسی الفاظ میں سجنا اچھا نہیں لگے گا۔
 

مغزل

محفلین
راجہ صاحب ، آپ سے گزارش ہے کہ تبدیلوں کے بعد اپنا کلام دوبارہ پیش کریں تاکہ تازہ صورتحال سے آگاہی حاصل ہو،
 
Top