مہدی نقوی حجاز
محفلین
سہیل: یہ پھر کس نے دستک دی؟
انور: کوئی بھٹک گیا ہوگا
سہیل: ہمارے کوئی ختم ہونے کو ہیں
انور: ہمارا احساس گرم ہے
سہیل: تم نے ٹھنڈی محبت کا نام سنا ہے؟
انور: تم دن بہ دن شاعر ہوتے جا رہے ہو
سہیل: شاعروں کی انگلیاں پتھر کی ہوتی ہیں
انور: پتھر کی انگلیوں پر تم نے ایک نظم لکھی تھی!
سہیل: ٹھیک کہتے ہو، کوئلے ختم ہوئے تو اسے آگ میں جھونک دیں گے
انور: یہ دروازہ بھی لکڑی کا ہے
سہیل: ہاں، دیکھو کوئی مسلسل اس پر دستک دے رہا ہے
انور: اس آواز میں عجیب اک ترنم ہے
سہیل: تم بھی تو میز، دروازوں، کتابوں پر طبلہ نوازی کرتے ہو!
انور: میرے طبلے پچھلے دسمبر نذرِ آتش ہو گئے تھے
سہیل: دسمبر کی راتیں 'نورا' کے کرتوتوں سے بھی زیادہ کالی ہیں
انور: راکھ میں آخری چنگاری کو دیکھو
سہیل: میرے احساس کی طرح فنا ہو گئی
انور: میں دروازہ کھول آتا ہوں
ثمینہ: سہیل تم کوئلے کا بندوبست کرو، میری ٹانگیں جم رہی ہیں
سہیل: تمہاری ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں
ثمینہ: تم گستاخ ہو!
سہیل: 'انور' کہاں ہے؟
ثمینہ: باہر بھیڑیے بھوکے تھے
سہیل: مجھے تمہارے اندر کے جانور سے دلچسپی ہے
ثمینہ: میری کمر پر سانپ کا نیلا نشان ہے
سہیل: سچ؟ لیکن وہ نشان تو عین میں سینے پر ہے!
ثمینہ: دیکھو آگ بالکل بجھ گئی ہے
سہیل: تمہاری آنکھوں میں ابھی چنگاریاں ہیں
ثمینہ: تم بھوکے کتے ہو، جو رات ہونے کا انتظار کرتا ہے۔
سہیل: کاش میں تمہیں اپنے دانتوں سے کاٹ سکتا
ثمینہ: تمہارے منہ سے جیسے پانی ٹپک رہا ہو
سہیل: تمہارا سینہ سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہے
ثمینہ: کیا تم اس کی ٹھنڈی گہرائی محسوس کرنا چاہتے ہو؟
سہیل: میری گرم سانسیں تمہیں اور ٹھنڈا کر دیں گی
ثمینہ: تم جوان ہو اور مضبوط
سہیل: تم عورت بالکل نہیں
ثمینہ: تمہارے بالوں میں میری انگلیاں الجھ رہی ہیں
سہیل: اور تمہارے بالوں سے میرے گناہ
ثمینہ: تمہاری گردن پر یہ تل تمہارے گناہوں کی طرح کالا ہے
سہیل: اس میں خون گرم ہے
ثمینہ: تمہارے اندر سے خون کی لپٹ آ رہی ہے!
سہیل: یہ خنجر تیس سال پرانا ہے
ثمینہ: تمہارا پیار اس سے زیادہ تیز ہے
سہیل: اسے اپنے سینے کی گہرائی میں اتار دو، تمہارا خون گرم ہے!
ثمینہ: میں تم سے محبت کرتی ہوں
سہیل: مجھے زندہ رہنا ہے
ثمینہ: تمہارا تھوک بھی تلخ ہے
سہیل: تمہارے ہونٹ شیرین!
ثمینہ: بھیڑیے اب بھی بھوکے ہیں
سہیل: آگ مکمل بجھ چکی ہے!
(تاثر یافتہ از "کوئلے" سعادت حسن منٹو)
(مہدی نقوی حجازؔ)
انور: کوئی بھٹک گیا ہوگا
سہیل: ہمارے کوئی ختم ہونے کو ہیں
انور: ہمارا احساس گرم ہے
سہیل: تم نے ٹھنڈی محبت کا نام سنا ہے؟
انور: تم دن بہ دن شاعر ہوتے جا رہے ہو
سہیل: شاعروں کی انگلیاں پتھر کی ہوتی ہیں
انور: پتھر کی انگلیوں پر تم نے ایک نظم لکھی تھی!
سہیل: ٹھیک کہتے ہو، کوئلے ختم ہوئے تو اسے آگ میں جھونک دیں گے
انور: یہ دروازہ بھی لکڑی کا ہے
سہیل: ہاں، دیکھو کوئی مسلسل اس پر دستک دے رہا ہے
انور: اس آواز میں عجیب اک ترنم ہے
سہیل: تم بھی تو میز، دروازوں، کتابوں پر طبلہ نوازی کرتے ہو!
انور: میرے طبلے پچھلے دسمبر نذرِ آتش ہو گئے تھے
سہیل: دسمبر کی راتیں 'نورا' کے کرتوتوں سے بھی زیادہ کالی ہیں
انور: راکھ میں آخری چنگاری کو دیکھو
سہیل: میرے احساس کی طرح فنا ہو گئی
انور: میں دروازہ کھول آتا ہوں
ثمینہ: سہیل تم کوئلے کا بندوبست کرو، میری ٹانگیں جم رہی ہیں
سہیل: تمہاری ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں
ثمینہ: تم گستاخ ہو!
سہیل: 'انور' کہاں ہے؟
ثمینہ: باہر بھیڑیے بھوکے تھے
سہیل: مجھے تمہارے اندر کے جانور سے دلچسپی ہے
ثمینہ: میری کمر پر سانپ کا نیلا نشان ہے
سہیل: سچ؟ لیکن وہ نشان تو عین میں سینے پر ہے!
ثمینہ: دیکھو آگ بالکل بجھ گئی ہے
سہیل: تمہاری آنکھوں میں ابھی چنگاریاں ہیں
ثمینہ: تم بھوکے کتے ہو، جو رات ہونے کا انتظار کرتا ہے۔
سہیل: کاش میں تمہیں اپنے دانتوں سے کاٹ سکتا
ثمینہ: تمہارے منہ سے جیسے پانی ٹپک رہا ہو
سہیل: تمہارا سینہ سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہے
ثمینہ: کیا تم اس کی ٹھنڈی گہرائی محسوس کرنا چاہتے ہو؟
سہیل: میری گرم سانسیں تمہیں اور ٹھنڈا کر دیں گی
ثمینہ: تم جوان ہو اور مضبوط
سہیل: تم عورت بالکل نہیں
ثمینہ: تمہارے بالوں میں میری انگلیاں الجھ رہی ہیں
سہیل: اور تمہارے بالوں سے میرے گناہ
ثمینہ: تمہاری گردن پر یہ تل تمہارے گناہوں کی طرح کالا ہے
سہیل: اس میں خون گرم ہے
ثمینہ: تمہارے اندر سے خون کی لپٹ آ رہی ہے!
سہیل: یہ خنجر تیس سال پرانا ہے
ثمینہ: تمہارا پیار اس سے زیادہ تیز ہے
سہیل: اسے اپنے سینے کی گہرائی میں اتار دو، تمہارا خون گرم ہے!
ثمینہ: میں تم سے محبت کرتی ہوں
سہیل: مجھے زندہ رہنا ہے
ثمینہ: تمہارا تھوک بھی تلخ ہے
سہیل: تمہارے ہونٹ شیرین!
ثمینہ: بھیڑیے اب بھی بھوکے ہیں
سہیل: آگ مکمل بجھ چکی ہے!
(تاثر یافتہ از "کوئلے" سعادت حسن منٹو)
(مہدی نقوی حجازؔ)
آخری تدوین: