امین شارق
محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
رات ڈھلتی ہے دِن نکلتا ہے
یُوں جہاں کا ِنظام چلتا ہے
جو اکڑ کر زمیں پہ چلتا ہے
ایک نا ایک دِن پِھسلتا ہے
رات اور دِن بدلتے رہتے ہیں
ایک کو دُوسرا نِگلتا ہے
آگے بڑھنے کی نفسا نفسی میں
ایک کو دُوسرا کُچلتا ہے
فانی دُنیا میں ہے ثبات کہاں؟
چڑھتا سُورج بھی دیکھ ڈھلتا ہے
میرے رب کی ہی مہربانی سے
آنے والا عذاب ٹلتا ہے
جِس کا جو ہے نصیب ملتا ہے
جلنے والا ہمیشہ جلتا ہے
عشق تو ہی بتا کہ پروانہ
حُسن کی آگ میں کیوں جلتا ہے؟
سب سنبھلتے ہیں پر، نگاہوں سے
گِرنے والا کہاں سنبھلتا ہے
زِندگی کیوں گزاری عِصیاں میں؟
کس لئے ہاتھ اب تُو ملتا ہے؟
جب سے دیکھا ہے تُجھ کو جانِ غزل
دِل بہت سِینے میں مچلتا ہے
جس طرح بدلیں ہیں ترے تیور
ایسے موسم بھی کب بدلتا ہے؟
چھوڑتا جو نہیں اُمیدِ بہار
ایک دن وہ شجر بھی پھلتا ہے
تُو سُناتا ہی رہ غزل شارؔق
تیرے شعروں سے دِل بہلتا ہے
یُوں جہاں کا ِنظام چلتا ہے
جو اکڑ کر زمیں پہ چلتا ہے
ایک نا ایک دِن پِھسلتا ہے
رات اور دِن بدلتے رہتے ہیں
ایک کو دُوسرا نِگلتا ہے
آگے بڑھنے کی نفسا نفسی میں
ایک کو دُوسرا کُچلتا ہے
فانی دُنیا میں ہے ثبات کہاں؟
چڑھتا سُورج بھی دیکھ ڈھلتا ہے
میرے رب کی ہی مہربانی سے
آنے والا عذاب ٹلتا ہے
جِس کا جو ہے نصیب ملتا ہے
جلنے والا ہمیشہ جلتا ہے
عشق تو ہی بتا کہ پروانہ
حُسن کی آگ میں کیوں جلتا ہے؟
سب سنبھلتے ہیں پر، نگاہوں سے
گِرنے والا کہاں سنبھلتا ہے
زِندگی کیوں گزاری عِصیاں میں؟
کس لئے ہاتھ اب تُو ملتا ہے؟
جب سے دیکھا ہے تُجھ کو جانِ غزل
دِل بہت سِینے میں مچلتا ہے
جس طرح بدلیں ہیں ترے تیور
ایسے موسم بھی کب بدلتا ہے؟
چھوڑتا جو نہیں اُمیدِ بہار
ایک دن وہ شجر بھی پھلتا ہے
تُو سُناتا ہی رہ غزل شارؔق
تیرے شعروں سے دِل بہلتا ہے