رات ڈھلنے کے انتظار میں ہے غزل نمبر 80 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
رات ڈھلنے کے انتظار میں ہے
دن نکلنے کے انتظار میں ہے

کتنا نادان یہ پروانہ ہے
شمع جلنے کے انتظار میں ہے

ایک خواہش ہے تجھ کو پانے کی
جو مچلنے کے انتظار میں ہے

ایک تیرے سوا زمانہ میرے
ساتھ چلنے کے انتظار میں ہے

ایک دن وہ بھی ہم سخن ہوگا
دال گلنے کے انتظار میں ہے

سرد مہری کبھی تو جائے گی
ہاں پگھلنے کے انتظار میں ہے

تیز بارش میں تھامیں ہم ان کو
بس پھسلنے کے انتظار میں ہے

اے فلک کتنے ستم ڈھائے گا
کیا مسلنے کے انتظار میں ہے

جانے کس کا نصیب ہے یہ دل
پھل یہ پھلنے کے انتظار میں ہے

تجھ سے ناراض نہیں رہ سکتا
دل بہلنے کے انتظار میں ہے

کاہل انسان کام سے پہلے
ہاتھ ملنے کے انتظار میں ہے

ہم بھی شارؔق ملیں گے دلبر سے
رُت بدلنے کے انتظار میں ہے

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
دو بحروں کا اختلاط ہو گیا ہے اس میں بھی، فاعلاتن مفاعلن فعلن اور فاعلاتن فعلاتن فعلن، کچھ الفاظ ترتیب بدلنے سے درست ہو جائے گی
رات ڈھلنے کے انتظار میں ہے
دن نکلنے کے انتظار میں ہے
درست

کتنا نادان یہ پروانہ ہے
شمع جلنے کے انتظار میں ہے
.. ہے یہ پروانہ
درست ہو جائے گا

ایک خواہش ہے تجھ کو پانے کی
جو مچلنے کے انتظار میں ہے
... ٹھیک

ایک تیرے سوا زمانہ میرے
ساتھ چلنے کے انتظار میں ہے
... زمانہ مرے

ایک دن وہ بھی ہم سخن ہوگا
دال گلنے کے انتظار میں ہے
... درست ہے بحر میں مگر دال نہیں گلی!

سرد مہری کبھی تو جائے گی
ہاں پگھلنے کے انتظار میں ہے
.. ہاں سے مطلب؟ کون پگھلنا چاہ رہا ہے؟

تیز بارش میں تھامیں ہم ان کو
بس پھسلنے کے انتظار میں ہے
... واضح نہیں ہو سکا، Bus کا ذکر ہے؟
انتظار تو اس چیز کا ہوتا ہے جس کے ہونے کی تمنا ہو،

اے فلک کتنے ستم ڈھائے گا
کیا مسلنے کے انتظار میں ہے
... ستم کی جگہ ظلم وزن میں آئے گا
کس کو مسلنے؟ کہیں تو 'ہم' کایا جائے

جانے کس کا نصیب ہے یہ دل
پھل یہ پھلنے کے انتظار میں ہے
... پھل پھلتا نہیں، پکتا ہے، اس کا پیڑ یا پودا پھلتا ہے

تجھ سے ناراض نہیں رہ سکتا
دل بہلنے کے انتظار میں ہے
... ہو نہیں سکتا
وزن میں آتا ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

کاہل انسان کام سے پہلے
ہاتھ ملنے کے انتظار میں ہے
.. درست

ہم بھی شارؔق ملیں گے دلبر سے
رُت بدلنے کے انتظار میں ہے
.. ٹھیک
 
Top