علی صہیب
محفلین
وقت گزرا ہے عجب سرعتِ رفتار کے ساتھ
رات پھر آئی ہے تاریکیِ آثار کے ساتھ
وحشت و سوزش و آزاریِ افکار کے ساتھ
آئی ہے میری تمناؤں کی قاتل بن کر
لائی یادوں کا دھواں میری جوانی کی فغاں
ہر طرف خوف کے قدموں کی وہی چاپ اٹھے
جس سے پھر جسم مرا روح مری کانپ اٹھے
ٹمٹماتے ہوئے کچھ آس کے بے خوف چراغ
اور کچھ امید کی جلتی ہوئی قندیلیں ہیں
جو مقابل ہیں شبِ خوف کے اس لشکر کے
دیکھیے معرکہ اب کون یہاں جیتے گا
آس جیتے گی کہ پھر وہم و گماں جیتے گا
ہائے تقدیر سے کب کون کہاں جیتے گا
علی صہیب
رات پھر آئی ہے تاریکیِ آثار کے ساتھ
وحشت و سوزش و آزاریِ افکار کے ساتھ
آئی ہے میری تمناؤں کی قاتل بن کر
لائی یادوں کا دھواں میری جوانی کی فغاں
ہر طرف خوف کے قدموں کی وہی چاپ اٹھے
جس سے پھر جسم مرا روح مری کانپ اٹھے
ٹمٹماتے ہوئے کچھ آس کے بے خوف چراغ
اور کچھ امید کی جلتی ہوئی قندیلیں ہیں
جو مقابل ہیں شبِ خوف کے اس لشکر کے
دیکھیے معرکہ اب کون یہاں جیتے گا
آس جیتے گی کہ پھر وہم و گماں جیتے گا
ہائے تقدیر سے کب کون کہاں جیتے گا
علی صہیب
آخری تدوین: