راجہ مہدی علی خاں پر پہلا تحقیقی مقالہ

Rashid Ashraf

محفلین
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کلام-راجہ-مہدی-علی-خاں-تبصرے.9120/

انتظامیہ کی جانب سے درج بالا لنک پر کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ اطلاع یہاں ایک علاحدہ پوسٹ کی شکل میں دے رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ راجہ مہدی علی خاں پر اس سے قبل کوئی تحقیق مقالہ نہیں لکھا گیا اور نہ ہی ان کے سوانحی کہیں حالات دستیاب تھے۔ برصغیر میں ان پر تاحال ایک ہی تحقیقی مقالہ (پی ایچ ڈی) لکھا گیا ہے جو کتابی شکل میں 2006 میں دکن سے شائع ہوا تھا۔ زیر نظر کتاب (مقالہ) کے مرتب و مصنف نے پہلے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ہندوپاک میں راجہ مہدی علی خاں پر کوئی کام تو نہیں ہوا۔ اس تصدیق کے بعد ہی انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔ پاکستان میں اس بات کی تصدیق انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی سے کی۔

صفحہ 393 تا 538، راجہ مہدی علی خاں کا غیرمطبوعہ کلام (صرف نظمیں) تحقیق کے بعد یکجا کیا گیا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں کا پہلا مجموعہ کلام " انداز بیاں اور"، 1962 میں اکادمی پنجاب ٹرسٹ لاہور نے شائع کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہنوپاک کے مختلف ادبی جرائد کے طنز و مزاح نمبروں میں ان کے کلام کا حصہ شائع ہوتا رہا۔

دکن سے ان دنوں 75 سالہ صحافی فرید تبسم خاں کراچی آئے ہوئے ہیں۔ آج صبح (15 اپریل 2012) ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راجہ مہدی علی خاں پر مقالے کی خبر ان ہی سے ملی ہے۔

راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات

The Litrary Contributions Of Raja Mehdi Ali Khan
ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر
ناشر: مصنف نے حیدرآباد دکن سے شائع کی
سن اشاعت: 2006
صفحات: 540

عبدالقدیر مقدرنے اس کے علاوہ راجہ صاحب کے خطوط پر مشتمل ایک علاحدہ کتاب بھی مرتب کی ہے جو فروری 2011 میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی تھی۔ اس میں سوانحی حالات درج ہیں۔ کتاب کی تفصیل یہ ہے:

خط لکھیں گے گرچہ مطلب
راجہ مہدی علی خاں کے خطوط کا مجموعہ
مرتب: ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر
ناشر: تمہید پبلیکیشنز نظام آباد-حیدرآباد دکن
صفحات: 208
سن اشاعت: فروری 2011
 

Rashid Ashraf

محفلین
انٹرنیٹ (وکیپیڈیا) پر راجہ مہدی علی خاں کی تاریخ پیدائش 1928 درج ہے جو کہ غلط ہے، وہ 23 ستمبر 1925 کو وزیر آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح تاریخ وفات کے باب میں سن وفات درج ہے۔
اسی طرح وکیپیڈیا پر لکھا ہے کہ:
Raja Mehdi Ali Khan (Urdu: راجہ مہدی علی خان ) was born in Karimabad in undivided India.

جب آپ Karimabad ، جو ایک قابل رسائی لنک ہے، پر جاکر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے راجہ صاحب تو شاید نسلا میمن تھے اور کراچی کے مشہور علاقے کریم آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وزیر آباد کو کریم آباد کردیا گیا ہے اور اس طرح یہ غلطی نہ جانے کتنی جگہ نقل کی گئی ہوگی۔ راقم نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہے کہ انٹرنیٹ پر شخصیات کے متعلق معلومات غلط درج کی گئی ہیں، اسی طرح شاعری یا شعرا حضرات کے نام غلط ہیں۔ آج کا صحافی یا لکھنے والا انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرکے اپنا مضمون تیار کرتا ہے، خاکسار کو اس کا تجربہ جیو ٹی کے ساتھ ابن صفی پر پروگرام کی 5 ماہ طویل ریکاڈنگ کے دوران ہوچکا ہے۔ نتیجتا اغلاط ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل کی جاتی ہیں اور سلسلہ دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایم آر شاہد کو الواح قبور اور قبرستانوں کے احوال لکھنے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ آپ شاید یقین نہیں کریں گے کہ ایم آر شاہد کی کتابوں میں موجود مواد جامعہ پنجاب کے مرحوم پروفیسر اسلم کی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے، اسلم صاحب نے وفیات کی مشہور زمامہ کتابوں خفتگان خاک لاہور اور خفتگان کراچی میں کئی غلطیاں کیں جنہیں ایم آر شاہد نے من و عن دوہرا دیا۔
 

راشد اشرف

محفلین
بین السطور لکھا گیا ہے کہ راجہ مہدی علی خان کا پہلا شعری مجموعہ 1962 میں شائع ہوا۔ یہ پاکستان کے قیام کے بعد کی بات ہے، غیر منقسم ہندوستان میں شائع ہونے والے ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام مضراب تھا، یہ 1944 میں شائع ہوا تھا۔
اسی طرح راجہ صاحب کی جائے پیدائش وزیر آباد درست ہے، وہ وزیر آباد کے ایک گاؤں کرم آباد میں پیدا ہوئے تھے جسے وکیپیڈیا نے کراچی کا علاقہ کریم آباد ظاہر کیا ہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
راجہ مہدی علی خاں نے ایک ہندوستانی فلم میں بھی کام کیا تھا، بحثیت اداکار یہ ان کی پہلی اور آخری فلم تھی، اس کا نام آٹھ دن تھا اور یہ 1946 میں بنی تھی۔ اس فلم میں سعادت حسن منٹو اور اوپندر ناتھ اشک نے بھی مختصر کردار ادا کیے تھے۔آٹھ دن میں راجہ صاحب، اشوک کمار کے بہنوئی بنے تھے
 

راشد اشرف

محفلین
زباں پر ذکر منٹو دن میں دس بار
کبھی لار کر نہ دی اک کالی شلوار
لحاف اک بھی نہیں اور ذکر عصمت
بتادے یہ کہاں کی ہے شرافت
تبسم واجدہ کا کیا کروں گی
میں اس سے پیٹ کیا اپنا بھروںگی ؟
مرا دل بھوک سے رنجور اگر ہے
مجھے کیا ہاجرہ مسرور اگر ہے
کلام میر بھی ہے جوش بھی ہے
نہیں ہے گھر میں آٹا ہوش بھی ہے ؟
اگر فاقوں سے آیا غیظ مجھ کو
سنایا فیض احمد فیض مجھ کو
کبھی آنسو نہ بندی کے سکھائے
بڑے صوفی تبسم بن کے آئے

(حسینہ اور ادب)
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ راشد، چلو مقدر صاحب کے مقالے کی خبر آپ کو مل گئی۔ افسوس کہ ان کے پاس اپنے مقالے، اور ’خط لکھیں گے۔۔‘ کی ان پیج فائلیں فارمیٹ ہو گئیں۔ بہر حال تمہید۔ ان کے جریدے کے دو شمارے مجھے مل چکے ہیں۔ ہر شمارے میں وہ اپنے پاس سے راجہ مہدی کا غیر مطبوعہ کلام شامل کرتے ہیں۔ اس وقت میں امریکہ میں ہوں مگر وہ ای میل نہیں کر سکے، پہلے تو سی ڈی ڈاک سے بھجوا دیں تھیں۔ ’تمہید‘ کے بعد کے شمارے بھی میرے غیاب میں گھر پر ہی پڑے ہوں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ راجہ کا کلام جو ان کے پاس ٹائپ ہو چکا ہے، اسے حاصل کر لوں، مگر موصوف کا خیال ہے کہ وہ کلیات جمع کر رہے ہیں، اور مکمل کلیات کی ان پیج فائل فراہم کریں گے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
بہت شکریہ جناب
دونوں کتابیں خاں صاحب نے تحفتا پیش کی ہیں۔ مقالہ جامع و دلچسپ ہے اور محنت سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ فرمائیے کہ کیا مصنف کا ای میل مل سکتا ہے ؟ مزاح کے باب میں ایک جگہ انہوں نے ابن صفی کا ذکر کیا ہے اور انہیں اسرار الحق (ابن صفی کو غالبا ابن فرید لکھا ہے) لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ "ہزاروں" جاسوسی ناولز کے مصنف تھے۔ 2006 میں اسے لکھتے وقت اگر وہ انٹرنیٹ ہی کی مدد لے لیتے تو کم از کم پی ایچ ڈی کے اس قابل قدر مقالے میں یہ غلطی نہ ہوتی۔
یہ فرمائیے کہ کیا آپ حیدرآباد کے قومی زبان (دفتر اطلاعت) کے ابن صفی نمبر سے واقف ہیں ؟ یہ گزشتہ برس بورڈ کی منظوری سے شائع ہوا تھا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
راجہ مہدی علی خاں کو کسی جاننے والے نے ذیا بطیس کی شکایت ہونے پر پانی میں چونا ملا کر پینے کا مشورہ دیا تھا، خاں صاحب نے اس پر عمل کیا، نتیجتا ان کے گردے ناکارہ ہوگئے اور اسی کے سبب کم عمری میں انتقال کرگئے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
کل کی محفل میں حاضرین کی فرمائش پر فرید تبسم خاں صاحب نے حیدرآبادی لہجے میں ایک شاعر کا کلام سنایا اور شرکاء جھوم جھوم اٹھے۔ حیدرآبادی شیروانی ان پر خوب بھلی لگ رہی تھی۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ جناب
دونوں کتابیں خاں صاحب نے تحفتا پیش کی ہیں۔ مقالہ جامع و دلچسپ ہے اور محنت سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ فرمائیے کہ کیا مصنف کا ای میل مل سکتا ہے ؟ مزاح کے باب میں ایک جگہ انہوں نے ابن صفی کا ذکر کیا ہے اور انہیں اسرار الحق (ابن صفی کو غالبا ابن فرید لکھا ہے) لکھا ہے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ "ہزاروں" جاسوسی ناولز کے مصنف تھے۔ 2006 میں اسے لکھتے وقت اگر وہ انٹرنیٹ ہی کی مدد لے لیتے تو کم از کم پی ایچ ڈی کے اس قابل قدر مقالے میں یہ غلطی نہ ہوتی۔
یہ فرمائیے کہ کیا آپ حیدرآباد کے قومی زبان (دفتر اطلاعت) کے ابن صفی نمبر سے واقف ہیں ؟ یہ گزشتہ برس بورڈ کی منظوری سے شائع ہوا تھا۔
انٹر نیٹ کی مدد سے ہمارے جید علماء کہاں واقف ہیں؟ بہر حال یہ دونوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں میں نے بھی۔ مصنف کا ای میل آئ ڈی ای میل سے بھیجتا ہوں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ لاہور کے معروف ادبی پرچے الحمراء کے تازہ شمارے اپریل 2012 میں مقدر صاحب کا راجہ مہری علی خاں پر مضمون شائع ہوا ہے، پرچہ آج ہی لاہور سے کراچی پہنچا ہے
 
Top