بانو قدسیہ راجہ گدھ سے اقتباس '

زونی

محفلین


" تمہیں بھی اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی سیمی ،،،،، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اور کوئی صورت نہیں ہوتی !"


وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔


میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔


آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔




راجہ گدھ (بانو قدسیہ )
 

حجاب

محفلین
زونی ، راجہ گدھ پڑھی ہے کیا ؟ کتنی بار میں سمجھ آئی راجہ گدھ ؟؟ میں نے بھی لی تھی :rolleyes: میرے چھوٹے بھائی نے 2 بار پڑھی میں نے پوچھا کیسی ہے کہنے لگا اچھی ہے پڑھو پاگل نہ ہونا بس :roll: میں نے پڑھنی شروع کی تھوڑی دیر بعد ہی چھوڑ دی پھر آج تک نہیں پڑھی :blush: اتنا مشکل مجھے نہیں سمجھ آیا :roll:
 
زونی یہ قیوم نہیں بانو قدسیہ بول رہی ہے - :) ویسے میرا مشورہ ہے کہ راجہ گدھ کے سحر سے آزاد ہو جاؤ - :)

بانو قدسیہ ہی بول رہی ہے مگر کس قدر سچ کہ رہی ہے ۔ ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم معاشرے کا اصل روپ نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ایک فریم بنالیا ہے اور اسی کو ساری دنیا سمجھے بیٹھے ہیں ۔ جس طرح انسان اس کی اقدار اور سوچ میں تنوع ہے اسی طرح معاشرے کا مختلف معاملات پر ردعمل بھی مختلف ہو سکتا ہے ۔ خود کو تہذیب کے نام پر دانت نکوستے ہوئے دیکھنا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور بانو نے قیوم کی شکل میں ہمیں آئینہ ہی تو دکھایا ہے ۔ گناہ کرنا اور اسی کو اپنے ہی دیئے ہوئے جواز سے ثابت کرنا کوئی حضرت انسان سے سیکھے ۔
 
زونی ، راجہ گدھ پڑھی ہے کیا ؟ کتنی بار میں سمجھ آئی راجہ گدھ ؟؟ میں نے بھی لی تھی :rolleyes: میرے چھوٹے بھائی نے 2 بار پڑھی میں نے پوچھا کیسی ہے کہنے لگا اچھی ہے پڑھو پاگل نہ ہونا بس :roll: میں نے پڑھنی شروع کی تھوڑی دیر بعد ہی چھوڑ دی پھر آج تک نہیں پڑھی :blush: اتنا مشکل مجھے نہیں سمجھ آیا :roll:

اگر راجہ گدھ کو کہانی یا ناول سمجھ کر پڑھیں گے تو کبھی شاید سمجھ نہ آسکے ایک الجھا ہوا پلاٹ لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی الجھا ہوا پلاٹ انسانی سوچ کی الجھنوں کو سلجھاتا ہوا اسے معاشرے کا سچ دکھاتا ہوا آخر تک لے جاتا ہے ۔ پہلی بار یہ کتاب 1995میں پڑھی تھی اور آج تک جب بھی پڑھی ہر بار انسانی سوچ کے نئے پہلوؤں سے آگاہی ہوئی ۔

ہماری اپنی منافقتوں اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی جبلی کمزوریوں کا بہترین آئینہ ہے ۔ ضرورت صرف اسے ناول سمجھ کر پڑھنے کی نہیں بلکہ اس کا "مطالعہ" انسان کے مطالعے کی کوشش سمجھ کر کرنے کی ہے
 

زونی

محفلین
زونی یہ قیوم نہیں بانو قدسیہ بول رہی ہے - :) ویسے میرا مشورہ ہے کہ راجہ گدھ کے سحر سے آزاد ہو جاؤ - :)




جی بالکل بانو قدسیہ بول رہی ہیں لیکن آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں ، وضاحت کریں پلیز فرخ بھائی :)



مشورے کیلئے بہت شکریہ لیکن یہ تو ایسا ہی مشورہ ھے جیسے میں آپ سے کہوں کہ غالب کے سحر سے آزاد ہو جائیں ;)
ویسے آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں اس کے سحر میں گرفتار ہوں :grin:
 

زونی

محفلین
ہماری اپنی منافقتوں اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی جبلی کمزوریوں کا بہترین آئینہ ہے ۔ ضرورت صرف اسے ناول سمجھ کر پڑھنے کی نہیں بلکہ اس کا "مطالعہ" انسان کے مطالعے کی کوشش سمجھ کر کرنے کی ہے





بلکل صحیح کہا فیصل بھائی ، بانو قدسیہ کے فلسفے کو سمجھنے کیلئے پہلے انسانی شخصیت اور اسکے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ ضروری ھے، رائے دینے کیلئے بہت شکریہ:)
 

زونی

محفلین
زونی ، راجہ گدھ پڑھی ہے کیا ؟ کتنی بار میں سمجھ آئی راجہ گدھ ؟؟ میں نے بھی لی تھی :rolleyes: میرے چھوٹے بھائی نے 2 بار پڑھی میں نے پوچھا کیسی ہے کہنے لگا اچھی ہے پڑھو پاگل نہ ہونا بس :roll: میں نے پڑھنی شروع کی تھوڑی دیر بعد ہی چھوڑ دی پھر آج تک نہیں پڑھی :blush: اتنا مشکل مجھے نہیں سمجھ آیا :roll:


وہ ادب ہی کیا جس کی سمجھ آ جائے ،،،،،;)

ہاں حجاب پہلے ایک ہی بار پڑھی ھے اور آجکل دوبارہ بیچ بیچ میں سے پڑھ رہی ہوں ، سمجھ تو کافی حد تک آ ہی گئی لیکن آج سے پانچ سال پہلے پڑھتی تو یقیناً میرے اوپر سے گزر جاتی :grin: ویسے میں ایک مشورہ دوں جب کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے تو اسے اوپر اوپر سے پڑھو اور پھر دو چار ماہ بعد دوبارہ پڑھو تو سمجھ آنا شروع ہو جائے گی اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو مزید دو چار ماہ بعد پڑھیں اور پھر بھی سمجھ نہ آئے تو کوئی اور کتاب پڑھیں افاقہ ہو گا ;):grin:
یہ میرا آزمودہ نسخہ ھے ، کام نہ کرے تو پیسے واپس :hatoff:
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی بالکل بانو قدسیہ بول رہی ہیں لیکن آپ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں ، وضاحت کریں پلیز فرخ بھائی :)



مشورے کیلئے بہت شکریہ لیکن یہ تو ایسا ہی مشورہ ھے جیسے میں آپ سے کہوں کہ غالب کے سحر سے آزاد ہو جائیں ;)
ویسے آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں اس کے سحر میں گرفتار ہوں :grin:


:) خوب کہا زونی لیکن بانو قدسیہ اور غالب کا کوئی موازنہ ہی نہیں - بانو قدسیہ نے جن معاشرتی مسائل کو سمجھانے کے لئے افسانے، ناول، اور ڈرامے لکھ مارے ہیں - غالب نے اپنے اشعار میں ان مسائل کی بہت خوبصورتی سے وضاحت کی ہے - غالب کے چند اشعار ہی بانو قدسیہ کے تمام کام پر بھاری ہیں‌- اسی لئے میرا نثر سے رابطہ کچھ کٹ گیا ہے - کیونکہ نثر میں بہت لمبی لمبی تحریریں لکھنی پڑتی ہیں جبکہ نظم میں چند اشعار میں ہی ان مسائل پر بات کی جا سکتی ہے بہر حال اس سے نثر کی اہمیت کم نہیں ہوتی- یہ میری اپنی رائے ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں -

راجہ گدھ ایسا ناول ہے کہ جو بھی اسے پڑھتا ہے وہ اکثر اسکے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بہت عرصے تک مبتلا رہتا ہے - چاہے وہ زبان سے اسکا اظہار کرے یا نہ کرے - میں نے راجہ گدھ شاید 2 یا تین مرتبہ پڑھا ہے - پہلی بار تب پڑھا تھا جب میں کالج میں‌ سالِ اوّل کا طالب علم تھا - راجہ گدھ پڑھنے کے بعد کچھ ایسا سحر میں گرفتار ہوا کہ جب بھی لارنس گارڈن (جناح باغ) جاتا تو بابا ترت مراد کے مزار پر بھی جاتا اور سوچتا کہ سیمی اور قیوم کہاں بیٹھتے ہوں گے وغیرہ وغیرہ - لیکن پھر کچھ سال بعد چیزیں زیادہ بہتر نظر آنے لگیں - میں نے شاید بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کا کوئی ڈرامہ ایسا نہیں‌ ہوگا جو میں نے نہ دیکھا ہو - خیر اصل میں بانو قدسیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ نظریات کو پہلے سے صحیح مان کر کہانی یا ناول لکھتی ہیں جسے انگریزی میں (pre supposition ) کہا جاتا ہے اور اسی فلسفلے یا نظریے کو بنیاد بنا کر وہ افسانہ، کہانی یا ناول لکھتی ہیں یعنی بنیادی طور پر وہ اپنی ہر تحریر میں ایک مخصوص نظریے کی تبلیغ کر رہی ہوتی ہیں جسکے نتیجے میں وہ تحریر تخلیقی نہیں بلکہ کسی حد تک پروپگنڈہ بن جاتا ہے -
بانو قدسیہ کا یہی ایک مسئلہ ہے جسکی وجہ سے وہ بہت پائے کی ادیب نہیں بن سکیں ورنہ انکے فقرے بہت کاٹ دار ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر انکی تحریر میں کوئی خاص بات یا تخلیقی ہنر نظر نہیں آتا - پورے راجہ گدھ میں ایک چھوٹے سے نظریے کو اتنا طول دیا ہے یعنی "حرام کھانے کے نتیجے میں انسان عشقِ لاحاصل سے دوچار ہوتا ہے جو کہ بے سمتی، بے راہ وری اور آخر میں ڈپریشن اور خودکشی پر منتج ہوتا ہے" صرف یہ بات بیان کرنے کے لئے انہوں نے پورا ناول لکھ مارا لیکن پورے ناول میں بات نکلی تو بس اتنی یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا - :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرا خیال ہے میری مندرجہ بالا تحریر سے وارث صاحب کو اس کا جواب بھی مل گیا ہوگا کہ میں نے عمیرہ احمد اور بانو قدسیہ کا کیوں موازنہ کرنا چاہا - کیونکہ میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں بانو قدسیہ کی تحریریں بھی بچگانہ نظر آتی ہیں چہ جائیکہ میں عمیرہ احمد کو پڑھوں -
 

زونی

محفلین
فرخ بھائی آپ صحیح کہہ رہے ہیں فکشن پڑھ پڑھ کر کچھ ایسا ہی حال ہوتا ھے اسی لیے تو میں ناول کم پڑھتی ہوں:grin: لیکن یہاں وہ والا معاملہ نہیں ھے مجھے بانو قدسیہ مصنفہ کے طور پر پسند ہیں اور اس ناول کے کئی حصے بھی بہت اچھے لکھے ہیں انہوں نے لیکن میں اسکے سحر میں مبتلا نہیں ہوں کیونکہ ھے تو یہ فکشن ہی ، میں نے یہ ناول ایک ڈیڑھ سال پہلے ہی پڑھا ھے اور اب میرا خیال ھے کہ میں اس ایج میں ہوں کہ کسی بھی چیز کے سحر میں آسانی سے مبتلا نہیں ہو سکتی جب تک کہ ذاتی ارادہ شامل نہ ہو لیکن جس ایج میں آپ نے پڑھی اس عمر میں ایسا ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں:)

اور pre suppositionکا بھی صحیح کہا ، مجھے بھی کبھی کبھی ایسا لگتا ھے لیکن میرا خیال ھے کہ ہر رائٹر کے کچھ مخصوص نظریات ہوتے ہیں جس کا وہ کسی نہ کسی طور پرچار کر رہا ہوتا ھے اور چونکہ فکشن ھے تو بال کی کھال اتارنا بھی لازم ھے :grin: اسی لیے مجھے ذاتی طور پہ فکشن پسند نہیں ھے اور ناول تو میں بہت کم پڑھتی ہوں وہ بھی کورس کی کتابوں کی خشکی دور کرنے کیلئے :grin:
 

علی ذاکر

محفلین
اسلام و علیکم:
راجہ گدھ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ناول پڑھے ھیں‌
لیکن راجہ گدھ جیسا ناول میں نے آج تک نھیں پڑھا یہ ایک ایسا منفرد ناول ھے کے اس کے بعد بانو قدسیہ سے اس جیسا ناول کبھی لکھا ھی نھیں گیا میں نے اس ناول کے بارے میں بہت تعریف سنی تھی اور اتفاق سے اُن دنوں میں نے بانو قدسیہ کا ایک اور ناول شروع کیا ھوا تھا اس کا نام تھا (حاصل گھاٹ بائے بانو قدسیہ) مجھے اس کی تھریر اچھی لگی تو میں نے سوچا کیوں نہ بانو جی کا ایک اور ناول پڑھا جائے اور جب میں نے راجہ گدھا پڑھنا شروع کیا اس کے بعد میں نے بانو جی کے تمام ناول پڑھے اور میں یہ کھہ سکتا ھوں کہ میں نے ان کو پڑھ کے اپنا وقت ضایع نھی کیا بلکہ کچھ حاصل ھی کیا ھے
 

زونی

محفلین
بانو قدسیہ کا یہی ایک مسئلہ ہے جسکی وجہ سے وہ بہت پائے کی ادیب نہیں بن سکیں ورنہ انکے فقرے بہت کاٹ دار ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر انکی تحریر میں کوئی خاص بات یا تخلیقی ہنر نظر نہیں آتا - پورے راجہ گدھ میں ایک چھوٹے سے نظریے کو اتنا طول دیا ہے یعنی "حرام کھانے کے نتیجے میں انسان عشقِ لاحاصل سے دوچار ہوتا ہے جو کہ بے سمتی، بے راہ وری اور آخر میں ڈپریشن اور خودکشی پر منتج ہوتا ہے" صرف یہ بات بیان کرنے کے لئے انہوں نے پورا ناول لکھ مارا لیکن پورے ناول میں بات نکلی تو بس اتنی یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا -







فرخ بھائی آپ کا نہیں خیال کہ نثر میں خصوصاً ناول ، افسانہ میں یہی روایت رہی ھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کی نشاندہی کرنے کیلئے پانچ چھ سو صفحات لکھ دیے جاتے ہیں اور کئی بار تو ایسے مسائل بھی جو مسائل ہوتے ہی نہیں :)
اور آپ کے خیال میں بانو قدسیہ اچھی ادیب نہیں بن سکیں کیا لیکن پڑھی تو بہت جاتی ہیں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی آپ کا نہیں خیال کہ نثر میں خصوصاً ناول ، افسانہ میں یہی روایت رہی ھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کی نشاندہی کرنے کیلئے پانچ چھ سو صفحات لکھ دیے جاتے ہیں اور کئی بار تو ایسے مسائل بھی جو مسائل ہوتے ہی نہیں :)
اور آپ کے خیال میں بانو قدسیہ اچھی ادیب نہیں بن سکیں کیا لیکن پڑھی تو بہت جاتی ہیں :)

میرا خیال ہے کہ جو ادیب ایک آدھ مسئلے کے لئے افسانے یا ناول لکھتے ہیں وہ اچھے ادیب تو بن سکتے ہیں‌ لیکن عالمی معیار کے ادیب نہیں بن سکتے جیسے عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، اور شاید کرشن چندر بھی- ایسے ادیب منٹو، قرآۃ العین اور غلام عباس اور راجندر سنگھ بیدی جیسے ادیبوں کا مقابلہ نہیں‌ کرسکے اول الذکر اچھے ادیب ہیں‌ لیکن پھر بھی عالمی معیار کے نہیں ہیں جبکہ ثانی الذکر بہت اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں اور عالمی معیار پر بھی انہیں رکھا جا سکتا ہے - ثانی الذکر نے بہت تخلیقی تحریریں عوام کو دی ہیں انہوں نے اپنی ایک ایک تحریر میں کئی مسائل کی نشاندہی کی ہے بلکہ ان کے اسباب کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے - اور جہاں تک پڑھے جانے کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ تو اخبار پڑھا جاتا ہے اخبار کی ادبی حیثیت سے آپ اچھی طرح واقف ہوں گی - :)
 

جیہ

لائبریرین

- پورے راجہ گدھ میں ایک چھوٹے سے نظریے کو اتنا طول دیا ہے یعنی "حرام کھانے کے نتیجے میں انسان عشقِ لاحاصل سے دوچار ہوتا ہے جو کہ بے سمتی، بے راہ وری اور آخر میں ڈپریشن اور خودکشی پر منتج ہوتا ہے" صرف یہ بات بیان کرنے کے لئے انہوں نے پورا ناول لکھ مارا لیکن پورے ناول میں بات نکلی تو بس اتنی یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا - :)

؟ کسی ستم ظریف نے "یوسف علیہ السلام" کا قصہ کس خوبی سے چند الفاظ میں سمویا ہے کہ۔۔۔۔۔۔

پدرے بود۔ پسر دارد۔ گم کردہ، بازیافت‌یعنی ۔۔۔۔۔ ایک صاحب تھے ، اس کا ایک بیٹا تھا۔ گم ہو گیا، مل گیا۔ :)

بانو قدسیہ کو ناول لکھنے کی بجائے ایک مضمون لکھنا چاہیے تھا کہ۔۔۔۔

آدمی خود کشی تب کرتا ہے جب وہ دیوانہ ہو جاتا ہے ۔ دیونگی چار وجوہات سے آتی ہے ۔ ایک عشق لا حاصل۔ دو۔ لا متناہی تجسس ۔ تین موت سے آگاہی ۔ چار رزق حرام۔

بھلا اتنی سی بات کے لئے ناول لکھنے کی کیا ضرورت تھی;)
 
عالمی پائے کی ادیب ہونے کے لیئے کن شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ شرائط کون طے کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں معلومات درکار ہیں ۔ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اس سلسلے میں معلومات دے سکے ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
عالمی پائے کی ادیب ہونے کے لیئے کن شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ شرائط کون طے کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں معلومات درکار ہیں ۔ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو اس سلسلے میں معلومات دے سکے ۔
آپ بھی سادہ ہیں میر کی طرح اجی جو ہمارے من پسند ہوں وہ عالمی پائے کہ اور جو نہ ہوں وہ عالمی تو کیا کسی بھی پائے کہ لائق ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔:mrgreen:
 

زونی

محفلین
بانو قدسیہ کو ناول لکھنے کی بجائے ایک مضمون لکھنا چاہیے تھا کہ۔۔۔۔

آدمی خود کشی تب کرتا ہے جب وہ دیوانہ ہو جاتا ہے ۔ دیونگی چار وجوہات سے آتی ہے ۔ ایک عشق لا حاصل۔ دو۔ لا متناہی تجسس ۔ تین موت سے آگاہی ۔ چار رزق حرام۔





اور اگر مضمون کو سمجھانے کیلئے دوبارہ ایک ناول لکھنا پڑتا تو ،،،،،،،،:grin:
 
Top