نیرنگ خیال
لائبریرین
حضرت عمرؓ نے مدائن کے لیے نئے امیر کا تقرر فرما کر اُنھیں مدائن کی طرف روانہ فرمایا،تواہل شہرنئے امیر کی آمد کی خبر سن کر اُن کے استقبال کے لیے گروہوں کی شکل میں باہر نکل آئے۔ اُن کا شوق و رغبت انھیں اس صحابی جلیل کی ملاقات کے لیے کشاں کشاں لیے جا رہا تھا جس کے زہد وورع کے بارے میں انھوں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ انھوں نے فتوحاتِ عراق میں ان کی شجاعت و طاقت کے قصے بھی سن رکھے تھے۔
لوگ آنے والے سوار کے انتظار میں تھے کہ اچانک ایک اُجلا شخص دکھائی دیا۔وہ ایک گدھے پر سوار تھا جس کے اوپر بوسیدہ پالان پڑا تھا۔ آدمی اپنی ٹانگیں لٹکائے، دونوں ہاتھوں میں روٹی اور نمک پکڑے درویشانہ انداز میں اپنا کھانا تناول کررہا تھا۔
آدمی جب لوگوں کے درمیان میں پہنچتا ہے،تو وہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ گورنر حُذیفہ بن یمان ہی ہیں جن کے استقبال کے لیے وہ گھروں سے نکلے ہیں۔ لوگوں نے جب اُنھیں دیکھا،تو قریب تھا کہ حیرانی سے ان کے ہوش اُڑجاتے۔ لیکن تعجب میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا حضرت عمرؓ سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس طرز زندگی کے حامل شخص کے علاوہ کسی اور کو گورنری کے لیے منتخب کرتے؟
اہل مدائن کو ان کی حیرانی و تعجب پر معذور سمجھنا چاہیے کیونکہ انھوں نے نہ ایرانیوں کے دور حکومت میں اور نہ اس سے قبل اس طرز جلیل کا کوئی گورنر دیکھا تھا۔
حضرت حُذَیفہؓ چلتے جارہے تھے اور لوگوں کا ہجوم چہار اطراف سے آپؓ کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ جب حضرت حذیفہؓ نے دیکھا کہ لوگوں کی نظریں آپؓ کے اوپر اس طرح گڑی ہیں گویا وہ آپؓ سے کوئی بات سننے کے منتظر ہیں،تو آپؓ نے لوگوں کے چہروں پر ایک جائزاتی نظر ڈالی پھر فرمایا: ’’فتنوں کی جگہوں سے دور رہو!‘‘
لوگوں نے پوچھا: ابوعبداللہ! فتنوں کی جگہیں کون سی ہیں؟
آپؓ نے فرمایا:’’حکمرانوں کے دروازے!…تم میں سے کوئی کسی امیر و گورنر کے در پر جاتا ہے، تو اس کے جھوٹ کی تصدیق کرتا اور اس کی ایسی مدح سرائی کرتا ہے جس کا وہ اہل نہیں۔‘‘
نئے گورنرِ شہر کا یہ حیرت انگیزمگر’’خوشگوار آغاز‘‘ تھا۔
لوگوں نے نئے گورنر سے جو کچھ سنا،اس سے فوراً اندازہ لگالیاکہ وہ پوری کی پوری دنیا سے اس قدر نفرت نہیں رکھتے اور نہ اس کے نقائص کو اس قدرحقارت سے دیکھتے ہیں جتنی نفرت و احتقار نفاق سے رکھتے ہیں۔
یہ ابتدا نئے حاکم شہر کی شخصیت اور طرزِ حکومت کی بہترین اور کھری تعبیر تھی۔
حضرت حذیفہؓ بن یمان ایک ایسے آدمی تھے کہ آپؓ نے منفرد طبیعت کے ساتھ زندگی کا استقبال کیا۔ ایسی طبیعت جو نفاق سے نفرت کرنے اور اسے دور ہی سے دیکھ لینے کی حیران کن صلاحیت رکھتی تھی۔ جب سے آپؓ اور آپؓ کے بھائی صفوانؓ اپنے باپ کی صحبت میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آئے تھے اور ان تینوں کو اسلام نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا تب سے حضرت حُذیفہَؓ نے ایک ایسے شجاع و قوی اور پاکیزہ و مستقیم شخص کی حیثیت سے دین کو قبول کر رکھا تھاجو بزدلی و نفاق اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہو۔ آپؓ نے سپیدۂ صبح کے مانند واضح اور روشن رسولﷺ کے سایہ میں تربیت پائی جن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی تھا نہ دل کی گہرائیوںکا کوئی راز پوشیدہ تھا۔یعنی وہ صادق و امین رسول جو حق پر قائم طاقتوروں سے محبت کرتے اور لگی لپٹی رکھنے، نمودو نمائش کرنے اور دھوکا فریب کرنے والوں کو بُرا جانتے تھے!!
اس دین کے دائرے میں، اس رسولﷺ کے سامنے اور صحابہؓ کے اس عظیم ہر اوّل دستے کے وسط میں نفاق سے نفرت کے میدان کے علاوہ کوئی اور میدان نظر نہیں آتا جس میں حضرت حذیفہؓ کی صلاحیتیں اور جوہر اس قدر نکھر کر سامنے آئے ہوں۔ آپؓ کی یہ قابلیت و کمال ترقی کی اوجِ ثریا پر پہنچ گیا تھا۔
چہروں کو پڑھنے کے فن میں آپؓ کو تخصیص کا درجہ حاصل تھا۔ آپؓ ایک ہی نظر میں چہرے کو پڑھ لیتے اور پوشیدہ گہرائیوں کی تہ تک پہنچ جاتے اور کسی دقت کے بغیر مخفی مسائل کا ادراک کر لیتے۔ آپ اس فن میں اپنی مرضی کی انتہا تک پہنچ چکے تھے حتیٰ کہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ جیسے ذہین و دانشور آپؓکی رائے سے استفادہ کرتے اور آدمیوں کے انتخاب و جائزے میں آپؓ کی بصیرت سے مدد لیتے۔
رسول اللہﷺنے حضرت حذیفہؓ کی شخصیت کا گہرائی سے جائزہ لیا، توآپؓ کی شخصیت میں تین صفات ابھر کر سامنے آئیں۔
(۱)بے مثال ذہانت جو گتھیوں کو سلجھانے میں کام دے۔
(۲)حق گوئی و بے باکی جو اپنے مالک کی پکار پر ہر وقت تیار رہے۔
(۳)رازوں کو اس دقت سے سر بستہ رکھنا کہ کوئی ان کا سراغ نہ لگا سکے۔
رسول اللہﷺ مناسب آدمی کو مناسب جگہ متعین کرنے کی حکمت عملی کے ذریعے اپنے صحابہؓ کی خوبیوں کومنظر پر لاتے اور ان کی شخصیتوں میں موجود مخفی طاقتوں سے کام لیتے تھے۔
مدینہ میں سب سے بڑی مشکل جس کا مسلمانوں کو سامنا تھا،وہ یہود اور ان کے حامیوںکا وجود تھا جو آپﷺ کے خلاف سازشیں اور چالیں تیار کرتے رہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ بن یمان کو ان منافقین کے نام بتادیے تھے اور یہ ایسا راز تھا جو نبی ﷺ نے اپنے صحابہؓ میں سے کسی اور کو نہیں بتایا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ آپؓ ان منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھیں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کو لاحق خطرات کا توڑ کریں۔ اسی روز سے حضرت حذیفہؓ کو ’’راز دارِ رسولﷺ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حضرت حذیفہؓ نے زندگی بھر منافقین کے رازوں کو بطور امانت محفوظ رکھا۔ اس معاملے میں خلفائے راشدین بھی آپؓ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجاتا،تو حضرت عمرؓبن خطاب پوچھتے: کیا حذیفہؓ اس کی نماز جنازہ پڑھنے آئے ہیں؟
اگر لوگ کہتے کہ ہاں آئے ہیں،تب حضرت عمرؓ اس میت کی نماز جنازہ پڑھاتے اور اگر لوگ کہتے کہ حضرت حذیفہؓ نہیں آئے، تو حضرت عمرؓ اس میت کے بارے میں شک سے دوچار ہوجاتے اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے رک جاتے۔
ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ سے پوچھا کیا میرے ذمہ دارانِ حکومت میں بھی کوئی منافق ہے؟
حضرت حذیفہؓ نے کہا: ایک ہے۔
حضرت عمرؓ نے کہا: مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔
حضرت حذیفہؓ نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گا۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: پھر حضرت عمرؓ نے اس کو معزول کرکے دم لیا جیسے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتادیاگیاہو۔
حضرت حذیفہؓ کو عقل کی پختگی اور رائے کی عمدگی کا وافر حصہ ملاتھا جس نے آپؓ کو یہ سوچ عطا کردی تھی کہ جو شخص اس زندگی میں خیر کا طالب ہواس کے لیے خیر روزِروشن کی طرح واضح ہے البتہ ایسی چیز ہے جو ناما نوس بھی ہے اور سربستہ بھی۔ اس لحاظ سے ایک عقل مند و دانا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات و تصورات میں شر کے مطالعے پر زور دے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حذیفہؓ نے اپنے آپ کوشراوراَسرار اور نفاق اور منافقین کے مطالعے کے لیے مخصوص کرلیا تھا۔
آپؓ کہتے ہیں:’’لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں یہ شرمجھے نہ پہنچ جائے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’یا رسول اللہﷺ! پہلے ہم جاہلیت اور شر کی زندگی گزاررہے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر عطاکی، تو کیا اس خیر کے بعدبھی کسی شر کا امکان باقی ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘
میں نے پوچھا:’’تو کیا اس شر کے بعد پھر خیر آئے گی؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ہاںخیر ہوگی (لیکن)اس میں دخن ہوگا۔‘‘
میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا؟
آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:’’ایسی قوم آئے گی جو میرا طریقہ چھوڑ کر دوسروں کا طریقہ اختیارکرے گی اور میری ہدایت کے بجائے دوسروں کی ہدایت اپنائے گی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ کو نہ پہچان سکوگے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا اِس خیر کے بعد بھی شر کا امکان ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:’’ہاں!جہنم کے دروازوں پر کچھ پکارنے والے ہوں گے جو بھی ان کی پکار پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’یارسول اللہﷺ! اگر میں اس وقت (صورت حال) کو پالوں، توآپؓ مجھے کیا نصیحت فرمائیں گے؟‘‘
آپﷺنے فرمایا: ’’مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام (رہنما)سے چمٹے رہنا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ہی نہ ہو اور ان کا کوئی امام ہی نہ ہو، تو پھر کیا کروں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’پھر تمام فرقوں سے الگ رہو اور درخت کی جڑ سے چمٹے رہو حتیٰ کہ اس حالت میں تمھیں موت آجائے!‘‘(یعنی الگ تھلگ رہ کرہی اسلام پرقائم ہو)
حضرت حذیفہؓ بن یمان نے ساری زندگی شر اور فتنوں پر بصیرت و بصارت کی آنکھ کھولے رکھی تاکہ خودبھی اس سے بچیں اور لوگوں کو بھی اس سے بچانے کی سعی کریں۔ آپؓ نے دنیا کا مشاہدہ کرتے، انسانوں کی کڑی خبر رکھتے اور زمانے کے حالات کو جانتے ہوئے اس کام پر قلب و نگاہ کی نظر مرکوز کیے۔آپ فلسفیانہ اسلوب اور دانشورانہ فراست سے مسائل پر غور و خوض کرتے۔ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپﷺ نے لوگوں کو گمراہی سے ہدایت اورکفر سے ایمان کی طرف بلایا۔ جس نے ان کی دعوت کو قبول کرنا تھا۔ اس طرح حق کو اختیار کرکے جومرُدہ تھازندہ ہوگیا اورجو زندہ تھاباطل پراَڑکرمردہ ہوگیا۔ پھرنبوت کا دور گزر گیااور اُس کے نہج پرخلافت کا آغاز ہوا۔ پھر مطلق العنانی کا دور دورہ ہوا۔ جن لوگوں نے دل، زبان، اورہاتھ سے اس کو نا پسند سمجھا درحقیقت یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے حق کو اختیار کیا۔ اورجنھوں نے اپنا ہاتھ تو روکے رکھا،مگردل و زبان سے اسے نا گوار سمجھا۔ان لوگوں نے حق کا ایک شعبہ ترک کیا۔ اور ان لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اس کو دل سے برا جانا نہ زبان اور ہاتھ سے، یہ توزندہ ہی مُردہ تھے۔‘‘
حضرت حذیفہؓ دل اور ہدایت و ضلالت کی زندگی کے بارے میں کہتے ہیں:
دل چار قسم کے ہوتے ہیں:
قلب اغلف: ایک کافرکادل ہوتاہے۔
قلب مصفح :دوسرے یہ منافق کا دل ہوتا ہے۔
قلب اَجرد:اس دل میںایک چراغ ہوتا ہے جو روشنی دیتا رہتاہے۔ یہ دل مومن کو نصیب ہوتا ہے۔
(۴)ایسا دل جس میںنفاق بھی ہوتا ہے اور ایمان بھی۔اس دل میں ایمان کی مثال ایک درخت جیسی ہے جس کو عمدہ خوشگوار پانی فائدہ دیتا رہتا ہے اور نفاق کی مثال زخم جیسی ہے جس کو پیپ اور خون کے بہنے سے سکون ملتا ہے۔ بالآخر ان دونوں (نفاق اور ایمان) میں سے ایک چیز غالب آجاتی ہے‘‘۔
حضرت حذیفہؓ کی شر کے متعلق آگاہی اور اس کے خلاف نبرد آزمارہنے کے اصرارنے آپؓکی زبان اور گفتگو میں ذرا تلخی پیدا کردی تھی۔ آپؓ اپنی اس سلبی صفت کی خبر بھی جرأت مندانہ انداز میں دیتے ہیں، کہتے ہیں۔
’’میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ اہل و عیال پر میری زبان کچھ سخت ہوتی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یہ چیز کہیں مجھے جہنم میں نہ لے جا ڈالے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: ’’تمھاری مغفرت طلبی کا کیا حال ہے؟ میں نے غرض کیا،میں تو ایک دن میں ستر ستر بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
یہ ہیں حضرت حذیفہؓ بن یمان…منافقت کے دشمن اور وضاحت کے دوست! ایسے طرز کے آدمی کا ایمان مضبوط نہیں، تو اور کیا ہوگا؟ اس کے عہدِ وفاداری کی جڑیں گہری نہیں تو اور کیا ہوں گی؟ واقعتاً حضرت حذیفہؓ اپنے ایمان وفاداری میں ایک مضبوط اور وفاشعار انسان تھے۔
اُحد کے روز آپؓ نے اپنے باپ کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا۔یہ قتل غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا۔ مسلمانوں نے انھیں مشرکین کا فرد سمجھتے ہوئے قتل کردیا۔ اتفاق سے حضرت حذیفہؓ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔آپؓ نے تلواریں بلند ہوتے دیکھیں، تو تلوار زنوں کومخاطب کیاکہ یہ میرے باپ ہیں…میرے باپ ہیں…یہ میرے باپ ہیں!لیکن موت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا ،تو انھیں گہرادُکھ اور نِدامت ہوئی مگر حضرت حذیفہؓ نے کہا:’’اللہ تمھیں معاف فرمائے وہی سب سے بڑا رحیم ہے‘‘۔
پھر آپؓ اپنی تلوارلے کر اُحدکی جنگ میں کودپڑے جس میں خوب داد شجاعت دی اوراپنافرض اداکیا۔ معرکہ اختتام کوپہنچا اور آپؓکے باپ کے قتل کی خبررسول اللہ ﷺ کوملی، تو آپﷺنے ان کے قتل کی دیت ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن حضرت حذیفہؓ نے دیت لینے سے انکار کردیا اور اس رقم کو مسلمانوں پرصدقہ کردیا۔ آپؓکی اس سخاوت نے آپؓ کورسول اللہ ﷺ کا اور زیادہ محبوب بنادیا۔
حضرت حذیفہؓ بن یمان کا ایمان اور وفا شعاری ہر قسم کی کمزوری ودرماندگی سے نا آشنا تھے بلکہ آپؓ توکسی دشواری کے تصورسے بھی خالی تھے۔ غزوہ خندق میں کفارقریش اور ان کے یہودی حلیفوں کی صفوں میں انتشاربرپاہوجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے چاہا کہ ان کے آخری لمحات میں دشمن کی سرگرمیوں کاکھوج لگا یاجائے۔
رات بڑی تاریک اورمہیب تھی۔ آندھی اور طوفان کا ایسا زور تھا کہ صحراکے مضبوط پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہلتے نظر آرہے تھے۔ یہ موقع اورمحل سب کا سب دشمن کے حصار اورنرغے میں تھا۔ خوف و پریشانی کا عالم تھا۔ ہلاک کر ڈالنے والی بھوک نے اصحابِ رسولﷺ کے اندر کمزوری و ناتوانی کے آثار نمایاں کردیے تھے۔
اس صورت حال میں کون تھا جو ایسی قوت کا مالک ہو کہ تباہ کن خطرات دیکھتے ہوئے بھی دشمن کی صفوں میں جا گھسے اور رسول اللہﷺ کو اس کی خبر لا کر دے۔
رسول اللہﷺ صحابہؓ میں سے ایک شخص کو منتخب کرتے ہیں جو اس انتہائی دشوار گزار مہم کو سر کرے گا۔
یہ بہادر قوی کون ہے جو اس مہم کوسرکرنے کے لیے تیار ہوتا ہے؟
یہ حضرت حذیفہؓ ہیں، رسول اللہ ﷺانھیں پکارتے ہیں، توآپ لبیک کہتے ہوئے حاضرِ خدمت ہوجاتے ہیں۔ آپؓ خود یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سچ سچ بتاتے ہیں کہ اگرچہ وہ اس تفویض کی گئی مہم سے خوفزدہ تھے اور اس کے نتائج سے ڈر رہے تھے کیونکہ بھوک اورسردی کی شدت اورایک ماہ سے زائد عرصہ سے جاری محاصرے کے باعث پیدا ہونے والی شدید تھکاوٹ کے باعث اس کام کوسرانجام دینے کی ہمت نہ ہورہی تھی،لیکن معاملہ اس رات عجیب و غریب رہا۔ وہ اپنے لشکر سے نکل کر دشمن کی چھائونی تک پہنچ گئے اور کمال ہوشیاری سے محاصرہ توڑتے ہوئے قریش کے لشکر میں جا گھسے۔ تند و تیز ہوا نے چھائونی کے چراغ گل کردیے اور خیمے اکھاڑ دیے تھے۔حضرت حذیفہؓ نے دشمن کی صفوں کے درمیان میں جگہ بنالی۔
اسی دوران قریش کے کمانڈر ابو سفیان کو خدشہ ہوا کہ کہیں اندھیرے میں دشمن کے در انداز ان کی صفوں میں نہ گھس آئیں۔ اس نے فوراً کھڑے ہوکر لشکر کو متنبہ کرنا شروع کردیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اس کی بلند ہوتی یہ بات سنی کہ: اے قریش!تم میں سے ہرکوئی اپنے ساتھی پر نظر رکھے اور اس کاہاتھ پکڑلے اور اس کانام بھی معلوم کرلے۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھ لیا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا فلاں بن فلاں!
یوں حضرت حذیفہؓ نے دشمن کے لشکر میں اپنے آپ کو محفوظ بنالیا۔
اس کے بعد اچانک ابو سفیان نے لشکر کو مخاطب کرکے کہا:’’ اے قریش! اللہ کی قسم! جب سے ہم اس جگہ ٹھہرے ہیں ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہورہے ہیں۔ بنو قریظہ ہمارا معاہدہ توڑ چکے ہیں اور ہمیں ان سے تکلیف دہ صورت حال کا سامنا ہے۔ طوفان نے بھی تباہی مچائی ہے اور تمھیں معلوم ہے کہ ہماری ہانڈیاں محفوظ رہی ہیں نہ آگ جل رہی ہے اور نہ ہمارا کوئی خیمہ ہی قائم رہا ہے،لہٰذا اس جگہ کو چھوڑ دو اور چل پڑو، میں تو جارہا ہوں۔‘‘
پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ بقیہ لشکر نے بھی اس کی متابعت کی اور وہ بھی چل پڑے۔ حضرت حذیفہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور آپ کو دشمن کے فرار کی خوشخبری سنائی۔ حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: اگر اللہ کے رسولﷺ نے مجھے پابند نہ کیا ہوتا کہ تم واپس میرے پاس آنے تک کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرو گے، تو میں ابو سفیان کو اپنے نیزے سے مار ڈالتا۔
اگر مجھے پابند نہ کیا گیا ہوتا
اگر کوئی حضرت حذیفہؓ کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے اور فکر،فلسفہ اور حقیقت کی معرفت پر ڈیرے ڈال لینے کی آپؓ کی صفت پر غور و خوض کرتا ہے، تو وہ جنگ و قتال کے میدانوں میں ان سے کسی شجاعانہ کارنامے کی توقع کم ہی کرسکتا ہے۔ لیکن حضرت حذیفہؓ میدانِ جنگ میں اپنے بارے میں تمام گمانوں کو غلط ثابت کردیتے ہیں۔ یہ بات بڑی مشکل ہے کہ مسجد و گرجا کا ایک عبادت گزار و متفکر مزاج شخص اٹھے اور تلوار لے کر بُت پرستی و گمراہی کے لشکر وں کے مقابل آ کھڑا ہو اور اپنی حیران کن عبقریت کا مظاہرہ کرے۔
ہمارے لیے حضرت حذیفہؓ کے بارے میں یہی خبر کافی ہے کہ آپؓ تین میں سے تیسرے یا پانچ میں سے پانچوں فرد ہیں جنھیں پورے عراق کی فتح میں سبقت و اوّلیت حاصل ہے۔جبکہ ہمدان، رے اور دینور انہی کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ نہاوند کے عظیم معرکے میں ڈیڑھ لاکھ ایرانی جمع تھے۔امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے مسلم افواج کا کمانڈر حضرت نعمانؓ بن مقرن کو مقرر کیا اور حضرت حذیفہؓ کو لکھا کہ وہ کوفہ سے ایک لشکر لے کر نعمانؓ کے پاس پہنچ جائیں۔
حضرت عمرؓ نے افواجِ مسلمین کو لکھا کہ:جب تمام مسلمان لشکر جمع ہوجائیں، تو ہر امیر اپنے لشکر کی کمانڈ کرے اور تمام لشکروں کی مجموعی کمانڈ نعمانؓ بن مقرن کریں۔ اگر نعمانؓ شہید ہوجائیں، تو حذیفہؓ علَمِ جہاد تھام لیں اگر وہ بھی شہید ہوجائیں، توجریرؓبن عبداللہ لشکر کے سپریم کمانڈربن جائیں۔حضرت عمرؓ نے یکے بعد دیگرے سات نام لیے جن کو ہنگامی صورت میں مسلمان لشکروں کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
دونوں افواج میدانِ جنگ میں آمنے سامنے آگئیں۔ ایرانی ایک لاکھ پچاس ہزار کی تعداد میں تھے اور مسلمان صرف تیس ہزار تھے۔ جنگ ایسی شدت کے ساتھ برپا ہوئی کہ اس کی مثال دینا مشکل ہے۔ شدت کے اعتبار سے تاریخ کا ایک شدید ترین معرکہ برپا ہوا۔ مسلمان کمانڈر نعمانؓ بن مقرن جام شہادت نوش کر گئے۔ قبل اس کے کہ اسلامی پر چم سرنِگوں ہو کر زمین بوس ہوتا، نیا کمانڈر آگے بڑھا اور پرچم کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ پھر عظیم جوانمردی اور پورے جوش و جذبے سے جھنڈے کو فتح و نصرت کی ہوائوں سے آشنا کردیا۔ یہ نئے کمانڈر حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ تھے۔
حضرت حذیفہؓ نے فوراً جھنڈا تھاما اور لشکر کو سختی سے منع کردیا کہ معرکہ ختم ہونے تک نعمانؓ بن مقرن کی موت کی خبر ہرگز افشانہ ہو۔ پھر حضرت نعیمؓ بن مقرن کو بلایا اور ان کے بھائی نعمانؓ بن مقرن کے اعزاز میں انھیں کمانڈر بنادیا۔ لڑائی اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری تھی۔ لیکن یہ سب کچھ چند لمحات میں ہوگیا پھر آپؓ یہ کہتے ہوئے طوفان کی طرح ایرانیوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑے:
ترجمہ:’’ اللہ ہی سب سے بڑا ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔
ترجمہ:’’اللہ ہی سب سے بڑا ہے جس نے اپنے لشکر کو نصرت سے نوازا۔‘‘
پھر آپؓ نے بھی اپنے گھوڑے کی لگام کھینچی اور اپنے لشکر کی طرف متوجہ ہوکر بلند آواز سے کہا:
اے متبعین محمدﷺ! یہ اللہ کی جنتیں تمھارے استقبال کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ انھیں زیادہ دیر انتظار نہ کراؤ۔ اے مردانِ بدر! آگے بڑھو! اے خندق، اُحد اور تبوک کے مردانِ جری! آگے بڑھو!
اگرچہ حضرت حذیفہؓ نے لڑائی میں اس سے زیادہ اور بڑا کردار ادا نہیں کیا،تاہم آپؓ نے پوری جرأت مندی سے جنگ اور اس کے شوق کو پورا کیا۔
آخر کار جنگ کا اختتام ایران کی رسوا کن شکست پر ہوا۔ ایسی شکست جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی!
مدائن کی آب و ہوا عرب مسلمانوں کے مزاج کے خلاف تھی اس سے انھیں بہت زیادہ اَمراض و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، تو حضرت عمرؓ نے مدائن کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو خط لکھا کہ وہ کسی اچھی اور پُر فضا جگہ تلاش کرنے کے بعد مسلمانوں کو فوراً وہاں منتقل کردیں۔
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص مسلمانوں کو لے کر کوفہ منتقل ہوگئے اور اسے مستقل قیام گاہ بنالیا۔ اس وقت جس شخص کو نئی جگہ اورزمین کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی وہ حضرت حذیفہؓ بن یمان تھے جو سلمانؓ بن زیاد کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے لیے ایک مناسب جگہ کی تلاش میں نکلے۔ یہ دونوں حضرات کوفہ کی سرزمین میں جاپہنچے،یہ زمین ریتلی،کنکریلی اور چٹیل ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے اس کی مٹی میں صحت و عافیت کی بو پائی،تو اپنے ساتھی سے کہا: ٹھہرنے کے لیے یہ جگہ ہوگی۔ان شاء اللہ!
اس طرح کوفہ شہر کی حد بندی ہوئی، خاکہ بنایا گیا اور تعمیراتی ہاتھوں نے اسے ایک آباد و شاد شہر میں تبدیل کردیا۔ مسلمانوں کا وہاں منتقل ہونا تھا کہ ان کے بیمار شفایاب ہونے لگے اور کمزور طاقت پکڑنے لگے اور ان کے رگ وریشوں میں صحت و عافیت کی حرکت پیدا ہوگئی۔
حضرت حذیفہؓ ہمیشہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے: ’’ تمھارے اچھے لوگ وہ نہیں جو آخرت کی خاطر دنیا چھوڑ دیں، نہ وہ اچھے ہیں جو دنیا کی خاطر آخرت چھوڑدیں۔ بلکہ اچھے وہ ہیں جو اِس سے بھی اپنا حصہ لیتے ہیں اور اُس سے بھی!
36 ہجری کے ایک روز آپؓ داعی اجل کی پکار پر لبیک کہہ گئے۔ جب آپؓ سفر آخرت کی تیاری میں تھے تو کچھ دوست آپؓ کے پاس آئے، توآپ نے ان سے پوچھا: اب کیا وقت ہے؟ انھوں نے کہا ہم
صبح کے قریب ہیں تو آپؓ دعا کرنے لگے:’’ میں ایسی صبح سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں جو مجھے جہنم میں لے جا ڈالے!‘‘پھر آپ نے ان سے پوچھا: کہ تم اپنے ساتھ کفن بھی لائے ہو؟
انھوں نے کہا: ہاں!
کہا: مجھے دکھاؤ!
جب کفن دیکھا،تو اسے دیدہ زیب اور جدید پایا۔ ہونٹوں پر آخری استہزائی مسکراہٹ لاتے ہوئے گویا ہوئے:’’میرا کفن اس طرح کا نہیں ہوسکتا۔ مجھے تو دو بیضوی تھیلے کافی ہیں جن کے ساتھ قمیض نہ ہو۔ میں قبر میں کم سے کم چیز چھوڑنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس سے بہتر لباس پہنا دیا جائے گا یا پھر اس سے برا لباس میری قسمت میں ہوگا!‘‘
پھر آپؓ کہنے لگے:’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میںامیری کے مقابلے میں فقیری کو پسند کرتا رہاہوں، اِعزاز کے مقابلے میں بے مائیگی کو پسند کرتا رہا ہوں اور زندگی کے مقابلے میں موت کو پسند کرتا رہاہوں۔‘‘
اس کے بعد آپ منہ میں کچھ بولے، تو پاس بیٹھے لوگوں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔
آپ کہہ رہے تھے: ’’ موت کو خوش آمدید، دوست بڑے چاؤسے آیا ہے، جو اس سے شرمندہ ہواوہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ‘‘
اس کے بعد متقی و پرہیزگار اور گمنام و شفاف عظیم رازدار روح اللہ کے جوار میں پہنچ گئی۔
ربط: اردو ڈائجسٹ ستمبر 2013
لوگ آنے والے سوار کے انتظار میں تھے کہ اچانک ایک اُجلا شخص دکھائی دیا۔وہ ایک گدھے پر سوار تھا جس کے اوپر بوسیدہ پالان پڑا تھا۔ آدمی اپنی ٹانگیں لٹکائے، دونوں ہاتھوں میں روٹی اور نمک پکڑے درویشانہ انداز میں اپنا کھانا تناول کررہا تھا۔
آدمی جب لوگوں کے درمیان میں پہنچتا ہے،تو وہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ گورنر حُذیفہ بن یمان ہی ہیں جن کے استقبال کے لیے وہ گھروں سے نکلے ہیں۔ لوگوں نے جب اُنھیں دیکھا،تو قریب تھا کہ حیرانی سے ان کے ہوش اُڑجاتے۔ لیکن تعجب میں مبتلا ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا حضرت عمرؓ سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس طرز زندگی کے حامل شخص کے علاوہ کسی اور کو گورنری کے لیے منتخب کرتے؟
اہل مدائن کو ان کی حیرانی و تعجب پر معذور سمجھنا چاہیے کیونکہ انھوں نے نہ ایرانیوں کے دور حکومت میں اور نہ اس سے قبل اس طرز جلیل کا کوئی گورنر دیکھا تھا۔
حضرت حُذَیفہؓ چلتے جارہے تھے اور لوگوں کا ہجوم چہار اطراف سے آپؓ کو گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔ جب حضرت حذیفہؓ نے دیکھا کہ لوگوں کی نظریں آپؓ کے اوپر اس طرح گڑی ہیں گویا وہ آپؓ سے کوئی بات سننے کے منتظر ہیں،تو آپؓ نے لوگوں کے چہروں پر ایک جائزاتی نظر ڈالی پھر فرمایا: ’’فتنوں کی جگہوں سے دور رہو!‘‘
لوگوں نے پوچھا: ابوعبداللہ! فتنوں کی جگہیں کون سی ہیں؟
آپؓ نے فرمایا:’’حکمرانوں کے دروازے!…تم میں سے کوئی کسی امیر و گورنر کے در پر جاتا ہے، تو اس کے جھوٹ کی تصدیق کرتا اور اس کی ایسی مدح سرائی کرتا ہے جس کا وہ اہل نہیں۔‘‘
نئے گورنرِ شہر کا یہ حیرت انگیزمگر’’خوشگوار آغاز‘‘ تھا۔
لوگوں نے نئے گورنر سے جو کچھ سنا،اس سے فوراً اندازہ لگالیاکہ وہ پوری کی پوری دنیا سے اس قدر نفرت نہیں رکھتے اور نہ اس کے نقائص کو اس قدرحقارت سے دیکھتے ہیں جتنی نفرت و احتقار نفاق سے رکھتے ہیں۔
یہ ابتدا نئے حاکم شہر کی شخصیت اور طرزِ حکومت کی بہترین اور کھری تعبیر تھی۔
حضرت حذیفہؓ بن یمان ایک ایسے آدمی تھے کہ آپؓ نے منفرد طبیعت کے ساتھ زندگی کا استقبال کیا۔ ایسی طبیعت جو نفاق سے نفرت کرنے اور اسے دور ہی سے دیکھ لینے کی حیران کن صلاحیت رکھتی تھی۔ جب سے آپؓ اور آپؓ کے بھائی صفوانؓ اپنے باپ کی صحبت میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آئے تھے اور ان تینوں کو اسلام نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا تب سے حضرت حُذیفہَؓ نے ایک ایسے شجاع و قوی اور پاکیزہ و مستقیم شخص کی حیثیت سے دین کو قبول کر رکھا تھاجو بزدلی و نفاق اور جھوٹ سے نفرت کرتا ہو۔ آپؓ نے سپیدۂ صبح کے مانند واضح اور روشن رسولﷺ کے سایہ میں تربیت پائی جن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی تھا نہ دل کی گہرائیوںکا کوئی راز پوشیدہ تھا۔یعنی وہ صادق و امین رسول جو حق پر قائم طاقتوروں سے محبت کرتے اور لگی لپٹی رکھنے، نمودو نمائش کرنے اور دھوکا فریب کرنے والوں کو بُرا جانتے تھے!!
اس دین کے دائرے میں، اس رسولﷺ کے سامنے اور صحابہؓ کے اس عظیم ہر اوّل دستے کے وسط میں نفاق سے نفرت کے میدان کے علاوہ کوئی اور میدان نظر نہیں آتا جس میں حضرت حذیفہؓ کی صلاحیتیں اور جوہر اس قدر نکھر کر سامنے آئے ہوں۔ آپؓ کی یہ قابلیت و کمال ترقی کی اوجِ ثریا پر پہنچ گیا تھا۔
چہروں کو پڑھنے کے فن میں آپؓ کو تخصیص کا درجہ حاصل تھا۔ آپؓ ایک ہی نظر میں چہرے کو پڑھ لیتے اور پوشیدہ گہرائیوں کی تہ تک پہنچ جاتے اور کسی دقت کے بغیر مخفی مسائل کا ادراک کر لیتے۔ آپ اس فن میں اپنی مرضی کی انتہا تک پہنچ چکے تھے حتیٰ کہ امیرالمومنین حضرت عمرؓ جیسے ذہین و دانشور آپؓکی رائے سے استفادہ کرتے اور آدمیوں کے انتخاب و جائزے میں آپؓ کی بصیرت سے مدد لیتے۔
رسول اللہﷺنے حضرت حذیفہؓ کی شخصیت کا گہرائی سے جائزہ لیا، توآپؓ کی شخصیت میں تین صفات ابھر کر سامنے آئیں۔
(۱)بے مثال ذہانت جو گتھیوں کو سلجھانے میں کام دے۔
(۲)حق گوئی و بے باکی جو اپنے مالک کی پکار پر ہر وقت تیار رہے۔
(۳)رازوں کو اس دقت سے سر بستہ رکھنا کہ کوئی ان کا سراغ نہ لگا سکے۔
رسول اللہﷺ مناسب آدمی کو مناسب جگہ متعین کرنے کی حکمت عملی کے ذریعے اپنے صحابہؓ کی خوبیوں کومنظر پر لاتے اور ان کی شخصیتوں میں موجود مخفی طاقتوں سے کام لیتے تھے۔
مدینہ میں سب سے بڑی مشکل جس کا مسلمانوں کو سامنا تھا،وہ یہود اور ان کے حامیوںکا وجود تھا جو آپﷺ کے خلاف سازشیں اور چالیں تیار کرتے رہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ بن یمان کو ان منافقین کے نام بتادیے تھے اور یہ ایسا راز تھا جو نبی ﷺ نے اپنے صحابہؓ میں سے کسی اور کو نہیں بتایا تھا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ آپؓ ان منافقین کی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھیں اور ان سے اسلام اور مسلمانوں کو لاحق خطرات کا توڑ کریں۔ اسی روز سے حضرت حذیفہؓ کو ’’راز دارِ رسولﷺ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حضرت حذیفہؓ نے زندگی بھر منافقین کے رازوں کو بطور امانت محفوظ رکھا۔ اس معاملے میں خلفائے راشدین بھی آپؓ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ جب کوئی مسلمان فوت ہوجاتا،تو حضرت عمرؓبن خطاب پوچھتے: کیا حذیفہؓ اس کی نماز جنازہ پڑھنے آئے ہیں؟
اگر لوگ کہتے کہ ہاں آئے ہیں،تب حضرت عمرؓ اس میت کی نماز جنازہ پڑھاتے اور اگر لوگ کہتے کہ حضرت حذیفہؓ نہیں آئے، تو حضرت عمرؓ اس میت کے بارے میں شک سے دوچار ہوجاتے اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے رک جاتے۔
ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ سے پوچھا کیا میرے ذمہ دارانِ حکومت میں بھی کوئی منافق ہے؟
حضرت حذیفہؓ نے کہا: ایک ہے۔
حضرت عمرؓ نے کہا: مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔
حضرت حذیفہؓ نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گا۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: پھر حضرت عمرؓ نے اس کو معزول کرکے دم لیا جیسے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتادیاگیاہو۔
حضرت حذیفہؓ کو عقل کی پختگی اور رائے کی عمدگی کا وافر حصہ ملاتھا جس نے آپؓ کو یہ سوچ عطا کردی تھی کہ جو شخص اس زندگی میں خیر کا طالب ہواس کے لیے خیر روزِروشن کی طرح واضح ہے البتہ ایسی چیز ہے جو ناما نوس بھی ہے اور سربستہ بھی۔ اس لحاظ سے ایک عقل مند و دانا کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات و تصورات میں شر کے مطالعے پر زور دے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حذیفہؓ نے اپنے آپ کوشراوراَسرار اور نفاق اور منافقین کے مطالعے کے لیے مخصوص کرلیا تھا۔
آپؓ کہتے ہیں:’’لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں یہ شرمجھے نہ پہنچ جائے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’یا رسول اللہﷺ! پہلے ہم جاہلیت اور شر کی زندگی گزاررہے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر عطاکی، تو کیا اس خیر کے بعدبھی کسی شر کا امکان باقی ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘
میں نے پوچھا:’’تو کیا اس شر کے بعد پھر خیر آئے گی؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ہاںخیر ہوگی (لیکن)اس میں دخن ہوگا۔‘‘
میں نے پوچھا: اس کا دخن کیا ہوگا؟
آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:’’ایسی قوم آئے گی جو میرا طریقہ چھوڑ کر دوسروں کا طریقہ اختیارکرے گی اور میری ہدایت کے بجائے دوسروں کی ہدایت اپنائے گی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ کو نہ پہچان سکوگے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا اِس خیر کے بعد بھی شر کا امکان ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:’’ہاں!جہنم کے دروازوں پر کچھ پکارنے والے ہوں گے جو بھی ان کی پکار پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’یارسول اللہﷺ! اگر میں اس وقت (صورت حال) کو پالوں، توآپؓ مجھے کیا نصیحت فرمائیں گے؟‘‘
آپﷺنے فرمایا: ’’مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام (رہنما)سے چمٹے رہنا۔‘‘
میں نے پوچھا:’’اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ہی نہ ہو اور ان کا کوئی امام ہی نہ ہو، تو پھر کیا کروں؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا:’’پھر تمام فرقوں سے الگ رہو اور درخت کی جڑ سے چمٹے رہو حتیٰ کہ اس حالت میں تمھیں موت آجائے!‘‘(یعنی الگ تھلگ رہ کرہی اسلام پرقائم ہو)
حضرت حذیفہؓ بن یمان نے ساری زندگی شر اور فتنوں پر بصیرت و بصارت کی آنکھ کھولے رکھی تاکہ خودبھی اس سے بچیں اور لوگوں کو بھی اس سے بچانے کی سعی کریں۔ آپؓ نے دنیا کا مشاہدہ کرتے، انسانوں کی کڑی خبر رکھتے اور زمانے کے حالات کو جانتے ہوئے اس کام پر قلب و نگاہ کی نظر مرکوز کیے۔آپ فلسفیانہ اسلوب اور دانشورانہ فراست سے مسائل پر غور و خوض کرتے۔ فرمایا کرتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپﷺ نے لوگوں کو گمراہی سے ہدایت اورکفر سے ایمان کی طرف بلایا۔ جس نے ان کی دعوت کو قبول کرنا تھا۔ اس طرح حق کو اختیار کرکے جومرُدہ تھازندہ ہوگیا اورجو زندہ تھاباطل پراَڑکرمردہ ہوگیا۔ پھرنبوت کا دور گزر گیااور اُس کے نہج پرخلافت کا آغاز ہوا۔ پھر مطلق العنانی کا دور دورہ ہوا۔ جن لوگوں نے دل، زبان، اورہاتھ سے اس کو نا پسند سمجھا درحقیقت یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے حق کو اختیار کیا۔ اورجنھوں نے اپنا ہاتھ تو روکے رکھا،مگردل و زبان سے اسے نا گوار سمجھا۔ان لوگوں نے حق کا ایک شعبہ ترک کیا۔ اور ان لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اس کو دل سے برا جانا نہ زبان اور ہاتھ سے، یہ توزندہ ہی مُردہ تھے۔‘‘
حضرت حذیفہؓ دل اور ہدایت و ضلالت کی زندگی کے بارے میں کہتے ہیں:
دل چار قسم کے ہوتے ہیں:
قلب اغلف: ایک کافرکادل ہوتاہے۔
قلب مصفح :دوسرے یہ منافق کا دل ہوتا ہے۔
قلب اَجرد:اس دل میںایک چراغ ہوتا ہے جو روشنی دیتا رہتاہے۔ یہ دل مومن کو نصیب ہوتا ہے۔
(۴)ایسا دل جس میںنفاق بھی ہوتا ہے اور ایمان بھی۔اس دل میں ایمان کی مثال ایک درخت جیسی ہے جس کو عمدہ خوشگوار پانی فائدہ دیتا رہتا ہے اور نفاق کی مثال زخم جیسی ہے جس کو پیپ اور خون کے بہنے سے سکون ملتا ہے۔ بالآخر ان دونوں (نفاق اور ایمان) میں سے ایک چیز غالب آجاتی ہے‘‘۔
حضرت حذیفہؓ کی شر کے متعلق آگاہی اور اس کے خلاف نبرد آزمارہنے کے اصرارنے آپؓکی زبان اور گفتگو میں ذرا تلخی پیدا کردی تھی۔ آپؓ اپنی اس سلبی صفت کی خبر بھی جرأت مندانہ انداز میں دیتے ہیں، کہتے ہیں۔
’’میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ اہل و عیال پر میری زبان کچھ سخت ہوتی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یہ چیز کہیں مجھے جہنم میں نہ لے جا ڈالے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: ’’تمھاری مغفرت طلبی کا کیا حال ہے؟ میں نے غرض کیا،میں تو ایک دن میں ستر ستر بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
یہ ہیں حضرت حذیفہؓ بن یمان…منافقت کے دشمن اور وضاحت کے دوست! ایسے طرز کے آدمی کا ایمان مضبوط نہیں، تو اور کیا ہوگا؟ اس کے عہدِ وفاداری کی جڑیں گہری نہیں تو اور کیا ہوں گی؟ واقعتاً حضرت حذیفہؓ اپنے ایمان وفاداری میں ایک مضبوط اور وفاشعار انسان تھے۔
اُحد کے روز آپؓ نے اپنے باپ کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا۔یہ قتل غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا۔ مسلمانوں نے انھیں مشرکین کا فرد سمجھتے ہوئے قتل کردیا۔ اتفاق سے حضرت حذیفہؓ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔آپؓ نے تلواریں بلند ہوتے دیکھیں، تو تلوار زنوں کومخاطب کیاکہ یہ میرے باپ ہیں…میرے باپ ہیں…یہ میرے باپ ہیں!لیکن موت کا فیصلہ ہوچکا تھا۔
جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا ،تو انھیں گہرادُکھ اور نِدامت ہوئی مگر حضرت حذیفہؓ نے کہا:’’اللہ تمھیں معاف فرمائے وہی سب سے بڑا رحیم ہے‘‘۔
پھر آپؓ اپنی تلوارلے کر اُحدکی جنگ میں کودپڑے جس میں خوب داد شجاعت دی اوراپنافرض اداکیا۔ معرکہ اختتام کوپہنچا اور آپؓکے باپ کے قتل کی خبررسول اللہ ﷺ کوملی، تو آپﷺنے ان کے قتل کی دیت ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن حضرت حذیفہؓ نے دیت لینے سے انکار کردیا اور اس رقم کو مسلمانوں پرصدقہ کردیا۔ آپؓکی اس سخاوت نے آپؓ کورسول اللہ ﷺ کا اور زیادہ محبوب بنادیا۔
حضرت حذیفہؓ بن یمان کا ایمان اور وفا شعاری ہر قسم کی کمزوری ودرماندگی سے نا آشنا تھے بلکہ آپؓ توکسی دشواری کے تصورسے بھی خالی تھے۔ غزوہ خندق میں کفارقریش اور ان کے یہودی حلیفوں کی صفوں میں انتشاربرپاہوجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے چاہا کہ ان کے آخری لمحات میں دشمن کی سرگرمیوں کاکھوج لگا یاجائے۔
رات بڑی تاریک اورمہیب تھی۔ آندھی اور طوفان کا ایسا زور تھا کہ صحراکے مضبوط پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہلتے نظر آرہے تھے۔ یہ موقع اورمحل سب کا سب دشمن کے حصار اورنرغے میں تھا۔ خوف و پریشانی کا عالم تھا۔ ہلاک کر ڈالنے والی بھوک نے اصحابِ رسولﷺ کے اندر کمزوری و ناتوانی کے آثار نمایاں کردیے تھے۔
اس صورت حال میں کون تھا جو ایسی قوت کا مالک ہو کہ تباہ کن خطرات دیکھتے ہوئے بھی دشمن کی صفوں میں جا گھسے اور رسول اللہﷺ کو اس کی خبر لا کر دے۔
رسول اللہﷺ صحابہؓ میں سے ایک شخص کو منتخب کرتے ہیں جو اس انتہائی دشوار گزار مہم کو سر کرے گا۔
یہ بہادر قوی کون ہے جو اس مہم کوسرکرنے کے لیے تیار ہوتا ہے؟
یہ حضرت حذیفہؓ ہیں، رسول اللہ ﷺانھیں پکارتے ہیں، توآپ لبیک کہتے ہوئے حاضرِ خدمت ہوجاتے ہیں۔ آپؓ خود یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سچ سچ بتاتے ہیں کہ اگرچہ وہ اس تفویض کی گئی مہم سے خوفزدہ تھے اور اس کے نتائج سے ڈر رہے تھے کیونکہ بھوک اورسردی کی شدت اورایک ماہ سے زائد عرصہ سے جاری محاصرے کے باعث پیدا ہونے والی شدید تھکاوٹ کے باعث اس کام کوسرانجام دینے کی ہمت نہ ہورہی تھی،لیکن معاملہ اس رات عجیب و غریب رہا۔ وہ اپنے لشکر سے نکل کر دشمن کی چھائونی تک پہنچ گئے اور کمال ہوشیاری سے محاصرہ توڑتے ہوئے قریش کے لشکر میں جا گھسے۔ تند و تیز ہوا نے چھائونی کے چراغ گل کردیے اور خیمے اکھاڑ دیے تھے۔حضرت حذیفہؓ نے دشمن کی صفوں کے درمیان میں جگہ بنالی۔
اسی دوران قریش کے کمانڈر ابو سفیان کو خدشہ ہوا کہ کہیں اندھیرے میں دشمن کے در انداز ان کی صفوں میں نہ گھس آئیں۔ اس نے فوراً کھڑے ہوکر لشکر کو متنبہ کرنا شروع کردیا۔ حضرت حذیفہؓ نے اس کی بلند ہوتی یہ بات سنی کہ: اے قریش!تم میں سے ہرکوئی اپنے ساتھی پر نظر رکھے اور اس کاہاتھ پکڑلے اور اس کانام بھی معلوم کرلے۔
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھ لیا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا فلاں بن فلاں!
یوں حضرت حذیفہؓ نے دشمن کے لشکر میں اپنے آپ کو محفوظ بنالیا۔
اس کے بعد اچانک ابو سفیان نے لشکر کو مخاطب کرکے کہا:’’ اے قریش! اللہ کی قسم! جب سے ہم اس جگہ ٹھہرے ہیں ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہورہے ہیں۔ بنو قریظہ ہمارا معاہدہ توڑ چکے ہیں اور ہمیں ان سے تکلیف دہ صورت حال کا سامنا ہے۔ طوفان نے بھی تباہی مچائی ہے اور تمھیں معلوم ہے کہ ہماری ہانڈیاں محفوظ رہی ہیں نہ آگ جل رہی ہے اور نہ ہمارا کوئی خیمہ ہی قائم رہا ہے،لہٰذا اس جگہ کو چھوڑ دو اور چل پڑو، میں تو جارہا ہوں۔‘‘
پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ بقیہ لشکر نے بھی اس کی متابعت کی اور وہ بھی چل پڑے۔ حضرت حذیفہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور آپ کو دشمن کے فرار کی خوشخبری سنائی۔ حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں: اگر اللہ کے رسولﷺ نے مجھے پابند نہ کیا ہوتا کہ تم واپس میرے پاس آنے تک کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرو گے، تو میں ابو سفیان کو اپنے نیزے سے مار ڈالتا۔
اگر مجھے پابند نہ کیا گیا ہوتا
اگر کوئی حضرت حذیفہؓ کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے اور فکر،فلسفہ اور حقیقت کی معرفت پر ڈیرے ڈال لینے کی آپؓ کی صفت پر غور و خوض کرتا ہے، تو وہ جنگ و قتال کے میدانوں میں ان سے کسی شجاعانہ کارنامے کی توقع کم ہی کرسکتا ہے۔ لیکن حضرت حذیفہؓ میدانِ جنگ میں اپنے بارے میں تمام گمانوں کو غلط ثابت کردیتے ہیں۔ یہ بات بڑی مشکل ہے کہ مسجد و گرجا کا ایک عبادت گزار و متفکر مزاج شخص اٹھے اور تلوار لے کر بُت پرستی و گمراہی کے لشکر وں کے مقابل آ کھڑا ہو اور اپنی حیران کن عبقریت کا مظاہرہ کرے۔
ہمارے لیے حضرت حذیفہؓ کے بارے میں یہی خبر کافی ہے کہ آپؓ تین میں سے تیسرے یا پانچ میں سے پانچوں فرد ہیں جنھیں پورے عراق کی فتح میں سبقت و اوّلیت حاصل ہے۔جبکہ ہمدان، رے اور دینور انہی کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ نہاوند کے عظیم معرکے میں ڈیڑھ لاکھ ایرانی جمع تھے۔امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے مسلم افواج کا کمانڈر حضرت نعمانؓ بن مقرن کو مقرر کیا اور حضرت حذیفہؓ کو لکھا کہ وہ کوفہ سے ایک لشکر لے کر نعمانؓ کے پاس پہنچ جائیں۔
حضرت عمرؓ نے افواجِ مسلمین کو لکھا کہ:جب تمام مسلمان لشکر جمع ہوجائیں، تو ہر امیر اپنے لشکر کی کمانڈ کرے اور تمام لشکروں کی مجموعی کمانڈ نعمانؓ بن مقرن کریں۔ اگر نعمانؓ شہید ہوجائیں، تو حذیفہؓ علَمِ جہاد تھام لیں اگر وہ بھی شہید ہوجائیں، توجریرؓبن عبداللہ لشکر کے سپریم کمانڈربن جائیں۔حضرت عمرؓ نے یکے بعد دیگرے سات نام لیے جن کو ہنگامی صورت میں مسلمان لشکروں کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
دونوں افواج میدانِ جنگ میں آمنے سامنے آگئیں۔ ایرانی ایک لاکھ پچاس ہزار کی تعداد میں تھے اور مسلمان صرف تیس ہزار تھے۔ جنگ ایسی شدت کے ساتھ برپا ہوئی کہ اس کی مثال دینا مشکل ہے۔ شدت کے اعتبار سے تاریخ کا ایک شدید ترین معرکہ برپا ہوا۔ مسلمان کمانڈر نعمانؓ بن مقرن جام شہادت نوش کر گئے۔ قبل اس کے کہ اسلامی پر چم سرنِگوں ہو کر زمین بوس ہوتا، نیا کمانڈر آگے بڑھا اور پرچم کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ پھر عظیم جوانمردی اور پورے جوش و جذبے سے جھنڈے کو فتح و نصرت کی ہوائوں سے آشنا کردیا۔ یہ نئے کمانڈر حضرت حذیفہؓ بن یمانؓ تھے۔
حضرت حذیفہؓ نے فوراً جھنڈا تھاما اور لشکر کو سختی سے منع کردیا کہ معرکہ ختم ہونے تک نعمانؓ بن مقرن کی موت کی خبر ہرگز افشانہ ہو۔ پھر حضرت نعیمؓ بن مقرن کو بلایا اور ان کے بھائی نعمانؓ بن مقرن کے اعزاز میں انھیں کمانڈر بنادیا۔ لڑائی اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری تھی۔ لیکن یہ سب کچھ چند لمحات میں ہوگیا پھر آپؓ یہ کہتے ہوئے طوفان کی طرح ایرانیوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑے:
ترجمہ:’’ اللہ ہی سب سے بڑا ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔
ترجمہ:’’اللہ ہی سب سے بڑا ہے جس نے اپنے لشکر کو نصرت سے نوازا۔‘‘
پھر آپؓ نے بھی اپنے گھوڑے کی لگام کھینچی اور اپنے لشکر کی طرف متوجہ ہوکر بلند آواز سے کہا:
اے متبعین محمدﷺ! یہ اللہ کی جنتیں تمھارے استقبال کے لیے تیار کھڑی ہیں۔ انھیں زیادہ دیر انتظار نہ کراؤ۔ اے مردانِ بدر! آگے بڑھو! اے خندق، اُحد اور تبوک کے مردانِ جری! آگے بڑھو!
اگرچہ حضرت حذیفہؓ نے لڑائی میں اس سے زیادہ اور بڑا کردار ادا نہیں کیا،تاہم آپؓ نے پوری جرأت مندی سے جنگ اور اس کے شوق کو پورا کیا۔
آخر کار جنگ کا اختتام ایران کی رسوا کن شکست پر ہوا۔ ایسی شکست جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی!
مدائن کی آب و ہوا عرب مسلمانوں کے مزاج کے خلاف تھی اس سے انھیں بہت زیادہ اَمراض و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، تو حضرت عمرؓ نے مدائن کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو خط لکھا کہ وہ کسی اچھی اور پُر فضا جگہ تلاش کرنے کے بعد مسلمانوں کو فوراً وہاں منتقل کردیں۔
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص مسلمانوں کو لے کر کوفہ منتقل ہوگئے اور اسے مستقل قیام گاہ بنالیا۔ اس وقت جس شخص کو نئی جگہ اورزمین کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی وہ حضرت حذیفہؓ بن یمان تھے جو سلمانؓ بن زیاد کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے لیے ایک مناسب جگہ کی تلاش میں نکلے۔ یہ دونوں حضرات کوفہ کی سرزمین میں جاپہنچے،یہ زمین ریتلی،کنکریلی اور چٹیل ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے اس کی مٹی میں صحت و عافیت کی بو پائی،تو اپنے ساتھی سے کہا: ٹھہرنے کے لیے یہ جگہ ہوگی۔ان شاء اللہ!
اس طرح کوفہ شہر کی حد بندی ہوئی، خاکہ بنایا گیا اور تعمیراتی ہاتھوں نے اسے ایک آباد و شاد شہر میں تبدیل کردیا۔ مسلمانوں کا وہاں منتقل ہونا تھا کہ ان کے بیمار شفایاب ہونے لگے اور کمزور طاقت پکڑنے لگے اور ان کے رگ وریشوں میں صحت و عافیت کی حرکت پیدا ہوگئی۔
حضرت حذیفہؓ ہمیشہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے: ’’ تمھارے اچھے لوگ وہ نہیں جو آخرت کی خاطر دنیا چھوڑ دیں، نہ وہ اچھے ہیں جو دنیا کی خاطر آخرت چھوڑدیں۔ بلکہ اچھے وہ ہیں جو اِس سے بھی اپنا حصہ لیتے ہیں اور اُس سے بھی!
36 ہجری کے ایک روز آپؓ داعی اجل کی پکار پر لبیک کہہ گئے۔ جب آپؓ سفر آخرت کی تیاری میں تھے تو کچھ دوست آپؓ کے پاس آئے، توآپ نے ان سے پوچھا: اب کیا وقت ہے؟ انھوں نے کہا ہم
صبح کے قریب ہیں تو آپؓ دعا کرنے لگے:’’ میں ایسی صبح سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں جو مجھے جہنم میں لے جا ڈالے!‘‘پھر آپ نے ان سے پوچھا: کہ تم اپنے ساتھ کفن بھی لائے ہو؟
انھوں نے کہا: ہاں!
کہا: مجھے دکھاؤ!
جب کفن دیکھا،تو اسے دیدہ زیب اور جدید پایا۔ ہونٹوں پر آخری استہزائی مسکراہٹ لاتے ہوئے گویا ہوئے:’’میرا کفن اس طرح کا نہیں ہوسکتا۔ مجھے تو دو بیضوی تھیلے کافی ہیں جن کے ساتھ قمیض نہ ہو۔ میں قبر میں کم سے کم چیز چھوڑنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس سے بہتر لباس پہنا دیا جائے گا یا پھر اس سے برا لباس میری قسمت میں ہوگا!‘‘
پھر آپؓ کہنے لگے:’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میںامیری کے مقابلے میں فقیری کو پسند کرتا رہاہوں، اِعزاز کے مقابلے میں بے مائیگی کو پسند کرتا رہا ہوں اور زندگی کے مقابلے میں موت کو پسند کرتا رہاہوں۔‘‘
اس کے بعد آپ منہ میں کچھ بولے، تو پاس بیٹھے لوگوں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی۔
آپ کہہ رہے تھے: ’’ موت کو خوش آمدید، دوست بڑے چاؤسے آیا ہے، جو اس سے شرمندہ ہواوہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ‘‘
اس کے بعد متقی و پرہیزگار اور گمنام و شفاف عظیم رازدار روح اللہ کے جوار میں پہنچ گئی۔
ربط: اردو ڈائجسٹ ستمبر 2013