نور وجدان
لائبریرین
ابتدائے آفرنیش سے اب تلک جذبہِ دل پر حکمرانی کرنے والے انسان، سربندگی سے نکل جانے والے، کامل یقین والے لوگوں کو حیات دوامی بخشی گئی.جذبہِ دل پر حکمرانی کیسے ممکن ہے؟ کون اس قوی قوت پر حاکم ہوسکتا ہے؟ جذبات سے بڑی قوت حیات، اس کی تخلیق کرنے والی قوت ہے....نورِ ازل کا ربط جب نورِ حیات سے قائم ہونے لگتا ہے تب انسان کو نیابت کی سواری ملنے لگتی ہے ... زندگی کے مقصد کی تعمیل اسی مداروی حرکت میں ہے ...چاند روح میں روشنی کیے رہتا ہے جبکہ نور ازل آفتاب کی مانند جگمانے لگتا ہے تو انسان جو ذات میں شجر ہوتے سایہ دار برگد کا روپ ہوتا ہے، مثلِ آفتاب ہوجاتا ہے ...
آزاد روحیں غلامی قبول نہیں کرتیں ماسوا معبودِ حق کے .... اس لیے لگن، شوق انکے وجدان کو حرکت دیے رکھتا ہے ...یہ روم کا رومی چاند سے مثلِ آفتاب کیسے ہوا؟ کوئی شمس تھا جس نے رومی کے جلال کو توانا سرخ لہروں سے نیا جنم دیا تھا ... شمس تو ایسے رومی کی محبت میں الجھا جیسے کائنات کا حصول اسی نور میں ہے جو جلال الدین رومی کے سینے میں مدفن تھا .... شمس نے نورِ ازل کا طواف کیا اور نورِ حیات سے چمکتا نور رومی کو سونپ دیا ... رومی کے لفظوں میں دوامیت شمس کے نورحیات سے ہوئی تھی .... شمس کی تقدیر میں قربانی لکھی تھی ...
ہجرت بھی انوکھا جذبہ تھا، برق جو شمس کے دل میں چنگاری دیتی وہ شعلہ بن کے رومی کے سینے میں چمکتی تھی .... سوال یہ ہے کہ شمس تو فنائیت میں مجذوب تھا، اسکو رومی سے کیا غرض تھی؟ رومی کا کلمہ آیتہ الکرسی کی مانند عرش سے فرش تک جڑا لوحِ محفوظ کی خبر دیتا تھا تو شمس ماہِ وصال کی آبرو رکھتے فاذکرونی اذکرکم کرتے ذاکرین کی جماعت کا نائب تھا .. الم کی مثال ہستی نے کمال شوق سے رومی کی تربیت کی. یہ آدابِ گفتگو جو مثنوی میں ملتے ہیِ اسکی آگہی شمس کی دیدہِ بینا سے ملی ...
جب تخلیق کا مادہ رکھا جاتا ہے تو ذاکرین و منکرین کی جماعت ساتھ مخلق ہوتی ہے.... یہ نوری ...ناری ...آبی ... خاکی موجودات ارضی و سماوی لشکر کی مانند ہمرقاب ہوتے معاون ہوتے ہیں .... اسی نے جن و انس کو پیدا کیا ...شمس کو ذاکرین کی جماعت کا سردار بنا کے کائنات میں چاند سا کردیا ... اس کے قلب کو صیقل کرتے حدت جاودانی بخشتے آفتابی نور سے سرفراز کیا..
آزاد روحیں غلامی قبول نہیں کرتیں ماسوا معبودِ حق کے .... اس لیے لگن، شوق انکے وجدان کو حرکت دیے رکھتا ہے ...یہ روم کا رومی چاند سے مثلِ آفتاب کیسے ہوا؟ کوئی شمس تھا جس نے رومی کے جلال کو توانا سرخ لہروں سے نیا جنم دیا تھا ... شمس تو ایسے رومی کی محبت میں الجھا جیسے کائنات کا حصول اسی نور میں ہے جو جلال الدین رومی کے سینے میں مدفن تھا .... شمس نے نورِ ازل کا طواف کیا اور نورِ حیات سے چمکتا نور رومی کو سونپ دیا ... رومی کے لفظوں میں دوامیت شمس کے نورحیات سے ہوئی تھی .... شمس کی تقدیر میں قربانی لکھی تھی ...
ہجرت بھی انوکھا جذبہ تھا، برق جو شمس کے دل میں چنگاری دیتی وہ شعلہ بن کے رومی کے سینے میں چمکتی تھی .... سوال یہ ہے کہ شمس تو فنائیت میں مجذوب تھا، اسکو رومی سے کیا غرض تھی؟ رومی کا کلمہ آیتہ الکرسی کی مانند عرش سے فرش تک جڑا لوحِ محفوظ کی خبر دیتا تھا تو شمس ماہِ وصال کی آبرو رکھتے فاذکرونی اذکرکم کرتے ذاکرین کی جماعت کا نائب تھا .. الم کی مثال ہستی نے کمال شوق سے رومی کی تربیت کی. یہ آدابِ گفتگو جو مثنوی میں ملتے ہیِ اسکی آگہی شمس کی دیدہِ بینا سے ملی ...
جب تخلیق کا مادہ رکھا جاتا ہے تو ذاکرین و منکرین کی جماعت ساتھ مخلق ہوتی ہے.... یہ نوری ...ناری ...آبی ... خاکی موجودات ارضی و سماوی لشکر کی مانند ہمرقاب ہوتے معاون ہوتے ہیں .... اسی نے جن و انس کو پیدا کیا ...شمس کو ذاکرین کی جماعت کا سردار بنا کے کائنات میں چاند سا کردیا ... اس کے قلب کو صیقل کرتے حدت جاودانی بخشتے آفتابی نور سے سرفراز کیا..
آخری تدوین: