شاھد رضا
محفلین
یونیورسٹی ٹرپ........
میری کلاس کی 80 فیصد لڑکیاں لفٹینوں سے اور باقی 20 فیصد لڑکیاں کم سے کم کسی تگڑے بیوروکریٹ سے شادی کرنا چاہتی تھیں. میں خاموشی سے یونیورسٹی کے دو سال اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کے ہر ہفتے نئے سے نئے اور امیر سے امیر گھروں سے آتے رشتوں کی کہانیاں سنتا رہتا اور ہر بار وہ خود فریبی کا شکار لڑکیاں کلاس میں فخر سے ہم غریب لڑکوں کو سناتیں یا پھر اپنے اپنے دل بہلانے کیلے باآواز بلند کلاس میں بتاتیں کہ کس طرح ایک اسسٹنٹ کمشنر لڑکے کے گھر والے اُن کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہیں مانیں.
احساس کمتری کی ان آخری حدوں کو چُھوتی لڑکیوں کے پاس میں کبھی نہیں گیا اور خاموشی سے یونیورسٹی کے دو سال کلاس کے سب سے غریب اور خاموش لڑکے کی حیثیت سے گزار دیئے، ہاں اگر کسی پہ دل آیا بھی تو میری غربت مرے پیار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی اور جس پرانی اور کھٹارا بائیک پر میں یونیورسٹی دو سال سے آ رہا تھا کچھ اس کی حالت دیکھ کر بھی میرا پیار اور کسی کا اظہار ٹھنڈا پڑ جاتا.
یہ یونیورسٹی کے آخری دن اور ہمارا آخری لانگ ٹرپ تھا، واپسی کی آخری رات سب لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی ڈائری پر ایک دوسرے کو الودائی آٹوگرافس دے رہے تھے، میری ڈائری پر ہر لڑکی نے تعزیت کی حدوں کو چُھوتی ہمدردری میں میرے لیے دعا کی کہ زندگی میں مجھے اچھی جاب اچھا گھر نصیب ہو اور ہاں جس لڑکی سے کبھی پیار کی بھیک میں دھتکارا گیا تھا وہ لڑکی کچھ شرمندہ سی تھی اس نے آٹوگراف میں لکھا کہ کاش ہمارے فیملی سٹیٹس ایک سے ہوتے تو دنیا میں کیا ممکن نہیں تھا کاش....
یہ ٹرپ کا اختتامی سفر تھا آخری لمحات میں آخری سا سفر جس نے دو سال سے چھپائے تمام راز کھول دیئے مگر تب جب بہت دیر ہو چکی تھی اور سب کے سب اپنے ظرف اور ذات سمیت تولے جا چکے تھے.
ہمارے ڈین کی اور کلاس کی تمام لڑکیوں کی بے انتہا فرمائش پر ہماری بس ایک اہم سرکاری ادارے کی وسیع و عریض عمارت کے سامنے کھڑی تھی اور وردی میں ملبوس ایک سرکاری اہلکار مسلسل ہمارے سینیئر ترین استاد کی اس بات پر بےعزتی کر رہا تھا کہ ہم یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ اور سٹاف اس بلڈنگ کے اندر کیسے اور کیونکر جا سکتے ہیں میں کبھی مر کر بھی نہیں چاہتا تھا کہ جو راز دو سال تک کسی کے آگے آشکار نہیں ہوا آج ہو جائے مگر یہ کیا کہ آج سوال باپ جیسے استاد کی عزت کا تھا اور پھر اسی خیال میں میں نے بس کی سب سے پیچھے والی سیٹ سے اس سرکاری اہلکار کو ایک بلکل مختلف لہجے انداز اور آواز سے بلایا یہ لہجہ اور آواز آج اتنی مختلف تھی کہ پوری بس نے پیچھے مڑ کر میری طرف حیرت سے دیکھا اور سوچا کہ جب اتنے سینیئر لوگ کوئی بات نہیں منوا سکتے تو مجھے آخر کیا سوجھی اپنی بی عزتی کروانے کی.
قربان جایئے اُن اہلکاروں پر جو شکلوں، لہجوں اور انداز کو کروڑوں میں پہچان جاتے ہیں وہی بدتمیز اہلکار تقریباً دوڑتا ہوا آیا اور باآواز بلند کہا یس سر! میں نے آہستہ سے پوچھا کہ یہاں ایڈجوٹنٹ صاحب کون ہیں اور پھر اس کے کچھ دیر کے بعد کے مناظر کچھ اس طرح کے تھے کے ایک پروٹوکول تھا سلیوٹ تھے اور ایک حیرت تھی جو کلاس کے ہر لڑکے اور خصوصاً لڑکیوں کے چہروں پر تھی.
مجھے ان ہمدردوں سے نکل کر محبتوں میں تبدیل ہوتی شکلوں سے آج کوئی سروکار نہیں تھا کہ ظرف اور ذاتیں آزمائی جا چکی تھیں. بچھڑتے ان لمحوں میں ملنے کو اور نام و منصب کے مرہون پیار کرنے کو اب بہت دیر ہو چکی تھی اور ویسے بھی چند دنوں میں مجھے واپس اپنی یونٹ جوائن کرنی تھی اور میری دو سال کی اسٹڈی لیو بھی پوری ہو چکی تھی.
میری کلاس کی 80 فیصد لڑکیاں لفٹینوں سے اور باقی 20 فیصد لڑکیاں کم سے کم کسی تگڑے بیوروکریٹ سے شادی کرنا چاہتی تھیں. میں خاموشی سے یونیورسٹی کے دو سال اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کے ہر ہفتے نئے سے نئے اور امیر سے امیر گھروں سے آتے رشتوں کی کہانیاں سنتا رہتا اور ہر بار وہ خود فریبی کا شکار لڑکیاں کلاس میں فخر سے ہم غریب لڑکوں کو سناتیں یا پھر اپنے اپنے دل بہلانے کیلے باآواز بلند کلاس میں بتاتیں کہ کس طرح ایک اسسٹنٹ کمشنر لڑکے کے گھر والے اُن کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہیں مانیں.
احساس کمتری کی ان آخری حدوں کو چُھوتی لڑکیوں کے پاس میں کبھی نہیں گیا اور خاموشی سے یونیورسٹی کے دو سال کلاس کے سب سے غریب اور خاموش لڑکے کی حیثیت سے گزار دیئے، ہاں اگر کسی پہ دل آیا بھی تو میری غربت مرے پیار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی اور جس پرانی اور کھٹارا بائیک پر میں یونیورسٹی دو سال سے آ رہا تھا کچھ اس کی حالت دیکھ کر بھی میرا پیار اور کسی کا اظہار ٹھنڈا پڑ جاتا.
یہ یونیورسٹی کے آخری دن اور ہمارا آخری لانگ ٹرپ تھا، واپسی کی آخری رات سب لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی ڈائری پر ایک دوسرے کو الودائی آٹوگرافس دے رہے تھے، میری ڈائری پر ہر لڑکی نے تعزیت کی حدوں کو چُھوتی ہمدردری میں میرے لیے دعا کی کہ زندگی میں مجھے اچھی جاب اچھا گھر نصیب ہو اور ہاں جس لڑکی سے کبھی پیار کی بھیک میں دھتکارا گیا تھا وہ لڑکی کچھ شرمندہ سی تھی اس نے آٹوگراف میں لکھا کہ کاش ہمارے فیملی سٹیٹس ایک سے ہوتے تو دنیا میں کیا ممکن نہیں تھا کاش....
یہ ٹرپ کا اختتامی سفر تھا آخری لمحات میں آخری سا سفر جس نے دو سال سے چھپائے تمام راز کھول دیئے مگر تب جب بہت دیر ہو چکی تھی اور سب کے سب اپنے ظرف اور ذات سمیت تولے جا چکے تھے.
ہمارے ڈین کی اور کلاس کی تمام لڑکیوں کی بے انتہا فرمائش پر ہماری بس ایک اہم سرکاری ادارے کی وسیع و عریض عمارت کے سامنے کھڑی تھی اور وردی میں ملبوس ایک سرکاری اہلکار مسلسل ہمارے سینیئر ترین استاد کی اس بات پر بےعزتی کر رہا تھا کہ ہم یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ اور سٹاف اس بلڈنگ کے اندر کیسے اور کیونکر جا سکتے ہیں میں کبھی مر کر بھی نہیں چاہتا تھا کہ جو راز دو سال تک کسی کے آگے آشکار نہیں ہوا آج ہو جائے مگر یہ کیا کہ آج سوال باپ جیسے استاد کی عزت کا تھا اور پھر اسی خیال میں میں نے بس کی سب سے پیچھے والی سیٹ سے اس سرکاری اہلکار کو ایک بلکل مختلف لہجے انداز اور آواز سے بلایا یہ لہجہ اور آواز آج اتنی مختلف تھی کہ پوری بس نے پیچھے مڑ کر میری طرف حیرت سے دیکھا اور سوچا کہ جب اتنے سینیئر لوگ کوئی بات نہیں منوا سکتے تو مجھے آخر کیا سوجھی اپنی بی عزتی کروانے کی.
قربان جایئے اُن اہلکاروں پر جو شکلوں، لہجوں اور انداز کو کروڑوں میں پہچان جاتے ہیں وہی بدتمیز اہلکار تقریباً دوڑتا ہوا آیا اور باآواز بلند کہا یس سر! میں نے آہستہ سے پوچھا کہ یہاں ایڈجوٹنٹ صاحب کون ہیں اور پھر اس کے کچھ دیر کے بعد کے مناظر کچھ اس طرح کے تھے کے ایک پروٹوکول تھا سلیوٹ تھے اور ایک حیرت تھی جو کلاس کے ہر لڑکے اور خصوصاً لڑکیوں کے چہروں پر تھی.
مجھے ان ہمدردوں سے نکل کر محبتوں میں تبدیل ہوتی شکلوں سے آج کوئی سروکار نہیں تھا کہ ظرف اور ذاتیں آزمائی جا چکی تھیں. بچھڑتے ان لمحوں میں ملنے کو اور نام و منصب کے مرہون پیار کرنے کو اب بہت دیر ہو چکی تھی اور ویسے بھی چند دنوں میں مجھے واپس اپنی یونٹ جوائن کرنی تھی اور میری دو سال کی اسٹڈی لیو بھی پوری ہو چکی تھی.