فرحت کیانی
لائبریرین
ہر طرف دُھوپ ہے ، مگر کوئی
راستے میں نہیں شجر کوئی
زندگی کی طویل راہوں میں
ہم نے پایا نہ ہمسفر کوئی
مجھ کو ہنسنے کبھی نہیں دیتا
میرے اندر ہے ایسا ڈر کوئی
کارِ دُنیا کہ کارِ عشق ہو دوست
کام آیا نہیں ہُنر کوئی
دے گیا زخم عمر بھر کے لئے
بن کے آیا تھا چارہ گر کوئی
منزلوں پر رشی پہنچ جاتی
مل سکا پر نہ راہبر کوئی
گزشتہ دنوں ایک میٹنگ میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک تحفہ دیا۔ جب کھولا تو وہ ان کی شاعری کی کتاب تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ شاعرہ بھی ہیں اور جلد ہی ان کی دوسری کتاب چھپنے والی ہے۔ اب چونکہ مجھ پر وہ کتاب پڑھنا فرض ہو گیا تھا تو آج بہت دنوں بعد فرصت پاتے ہی پہلا کام یہ کیا۔ شاعری کے میدان میں نوارد ہونے کے باوجود ان کا کلام 'قابلِ پڑھ' لگا۔ سوچا اب یہ بھی میرا فرض ہے کہ کچھ یہاں شیئر کر دوں۔
راشدہ حیدر رشی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ کتاب کا نام 'اے ہوا! میرے چاند سے کہنا' ہے اور ناشر 'اربابِ ادب پبلیکیشنز' ہیں۔
راستے میں نہیں شجر کوئی
زندگی کی طویل راہوں میں
ہم نے پایا نہ ہمسفر کوئی
مجھ کو ہنسنے کبھی نہیں دیتا
میرے اندر ہے ایسا ڈر کوئی
کارِ دُنیا کہ کارِ عشق ہو دوست
کام آیا نہیں ہُنر کوئی
دے گیا زخم عمر بھر کے لئے
بن کے آیا تھا چارہ گر کوئی
منزلوں پر رشی پہنچ جاتی
مل سکا پر نہ راہبر کوئی
گزشتہ دنوں ایک میٹنگ میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی۔ جاتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک تحفہ دیا۔ جب کھولا تو وہ ان کی شاعری کی کتاب تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ شاعرہ بھی ہیں اور جلد ہی ان کی دوسری کتاب چھپنے والی ہے۔ اب چونکہ مجھ پر وہ کتاب پڑھنا فرض ہو گیا تھا تو آج بہت دنوں بعد فرصت پاتے ہی پہلا کام یہ کیا۔ شاعری کے میدان میں نوارد ہونے کے باوجود ان کا کلام 'قابلِ پڑھ' لگا۔ سوچا اب یہ بھی میرا فرض ہے کہ کچھ یہاں شیئر کر دوں۔
راشدہ حیدر رشی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ کتاب کا نام 'اے ہوا! میرے چاند سے کہنا' ہے اور ناشر 'اربابِ ادب پبلیکیشنز' ہیں۔