چوہدری لیاقت علی
محفلین
رام پور کا میر ۔ نظام شاہ نظام
از
چوہدری لیاقت علی
خطہ رام پور اپنی ایک جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ اردو شاعری میں اگرچہ اس خطے کو ایک علیحدہ دبستان تسلیم نہیں کیا جاتا، تاہم جتنے بڑے نام اس ریاست سے جڑے ہیں وہ اس کو ایک دبستان قرار دینے کے لیئے کافی ہیں۔ داغ نے یہاں دو مختلف اوقات میں قیام کیا۔ اسی طرح یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی اہم شاعر نظام شاہ نظام بھی ہیں، جن پر وہ تحقیق نہ ہوسکی اور جنہیں اتنی شہرت نصیب نہیں ہوئی جن کے وہ حقدار تھے۔ پی ایچ ڈی کے ایک ریسرچ فیلو محمد فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ دہلوی نے نظام شاہ نظام کی طرز پر قریب قریب ۶۳ غزلیں کہیں۔ ایسا اکثر ہوا کہ ہماری شاعری میں ایک شاعر کسی اور شاعر کی شہرت کی روشنی میں اتنا روشن نہ ہو سکا۔قائم چاند پوری اور مصحفی اس کی مثالیں ہیں۔ دونوں میر اور سودا کی روشنی میں جیسے چھپ سے گئے۔ ان میں مصحفی غریب توانشاء کے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنے۔ مصحفی کی مکمل کلیات پر ۱۹۶۳ء میں کام شروع ہوا اور یہ ۱۹۹۵ء میں مکمل ہوئی۔نظام شاہ نظام شاعری میں ایک بہت منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ یہ وہی رنگ ہے جسے داغ دہلوی نے اپنی ذہانت اور صلاحیت اور گہرا کر دیا۔ تاہم محقق اس بات پر متفق ہیں کہ بانکپن، شوخی، معاملہ گوئی اور ادا بندی کی طرز ڈالنے والے نظام ہیں۔ جیسا کہ فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ نے ۶۳ غزلیں طرز نظام پر لکھیں، تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ نظام کے کئی مصرعے، داغ دہلوی نے ادنیٰ تصرف سے اپنا لیئے ہیں۔ تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف داغ بلکہ امیر بھی معاملہ گوئی اور ادا بندی میں نظام کے متبع نظر آئیں گے۔
نظام کے کلام میں زبان سادہ اور خیالات کی ایسی چاشنی موجود ہے کہ ان کا کلام لگتا نہیں کہ انیسویں صدی کا لکھا ہو ا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
سمجھتا محبت کے قابل جو ہم کو
وہ نا آشنا آج اتنا نہ ہوتا
کسی پر نہ ظاہر ہو احوال دل کا
نہ آنسو گرے چشم نم دیکھنا
یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا
راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا
ہمارے محقق اور ادارے اس جوہر نایاب سے اب تک پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔حالانکہ ان کا کلیات مجلس ترقی ادب نے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا تھا۔اس کے باوجود بھی ان کی شناخت ان کے ایک مصرعے سے ہی ہوتی رہی۔ ارباب علم کی یہی روایتی پہلو تہی بہت سے اہم نام اوجھل کرنے کا سبب رہی۔ تاہم اب بھی وقت ہے اگر ہمارے تحقیقی ادارے اور ناقدین دھڑے بندی اور تعصب کو چھوڑ کر کام کریں تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
نظام شاہ نظام کا تعلق سید عبدالقادر جیلانی کے خانوادے سے ہے۔ آپ کے جد امجد سید عبداللہ شاہ پاکستانی قبائیلی علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ اس وقت روہیل کھنڈ پر علی محمد خان کی حکومت تھی جو اس ریاست کے بانی بھی تھے۔ سید عبداللہ شاہ روہیل کھنڈ میں عوام الناس کی روحانی رہ نمائی کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سید محمد شاہ نے ان کی جگہ سنبھالی۔ریاست روہیل کھنڈ کے تقسیم ہونے کے بعد سید محمد شاہ رام پور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی یہیں بسر کی۔ رام پور آنے کے بعد سید محمد شاہ کے دونوں بیٹے فتح علی شاہ اور چراغ علی شاہ ریاست کے رسالہ سواروں میں ملازم ہو گیا۔ فتح علی شاہ کے بھی دو بیٹے تھے حافظ محمد شاہ اور حافظ احمد شاہ۔ یہ دونوں بھی رسالہ دار تھے۔ انہیں حافظ احمد شاہ کے ہاں ۱۸۱۹ء میں نظام شاہ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ رام پور کے محلہ گھیر سخی میں رہائش پذیر تھے۔نظام کے دو بھائی اور ایک بہن تھے۔نظام نے ابتدائی تعلیم محلے میں موجود مدرسے سے حاصل کی۔اسی مدرسے میں انہوں نے عربی اور فارسی کی استعداد بڑھائی۔
ریاست رام پور میں اس وقت نواب احمد علی خاں کی حکمرانی تھی جو خود بھی شاعری کرتے تھے اور اس کی سر پرستی بھی فرماتے تھے۔ یوں کہا جائے کہ دبستان رام پور پورے عروج پر تھا۔کریم اللہ خاں کرم،اخوند ذادہ احمد خاں غفلت، اللہ داد طالب اور نواب احمد یار خاں افسرداد سخن دے رہے تھے۔ نہ صرف مقامی بلکہ بیرونی اہل علم کی سر پرستی بھی کی جاتی تھی۔ یہ رنگ دیکھ کر نظام بھی متاثر ہوئے اور شاعری شروع کر دی۔ ابتدااپنے مرشد میاں احمد علی شاہ سے اصلاح لی جو فارسی اور اردو ،دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ یہ زمانہ ۱۸۳۹ء کا ہے۔ اس زمانے میں نظام نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ رام پور میں علی بخش بیمارجو مصحفی کے شاگرد رشید تھے، کے آنے کے بعد نظام ان کے شاگرد ہوگئے۔ مروجہ روایات کے مطابق نظام نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی اور ۱۸۳۹ء میں ان کی شادی ہوگئی۔ آپ کی آٹھ اولادیں صغر سنی میں فوت ہوئیں ۔ ریاست رام پور میں نواب محمد سعید خاں جو ناظم تخلص کرتے تھے، کے عہد حکمرانی میں شاعری کو اور بھی سر پرستی ملی۔ نظام کے بھی ان سے ربط بڑھے اور حکم حاکم کے مصداق نظام ،ناظم کے شاگرد ہو گئے۔
اس دور میں جو بیرونی شعراء رام پور میں قیام پذیر تھے ان میں امیر مینائی اور نواب مرزا خان داغ دہلوی نہایت اہم شاعر تھے۔داغ نے جو اثر نظام کی صحبت سے حاصل کیا وہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں ۔اپنے تحقیقی مضمون کے حاشیوں میں محمد فیصل مجاز نے تحریر کیا ہے کہ مرزا نوشہ ایک دفعہ رام پور گئے ۔ وہاں نظام کا کلام سنا تو بے حد متاثر ہوئے اور فرما یا کہ رام پور میں ایسے بھی دماغ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تو رام پور کے میر ہیں۔ میر رام پور نے ۱۸۷۲ء میں وفات پائی۔
نظام پر بہت کم لکھا گیا۔ آپ کا تذکرہ سخن شعراء اور تذکرہ نادر میں ملتا ہے۔ نظام پر نیاز فتح پوری نے ایک تفصیلی مضمون ۱۹۲۴ء میں لکھا۔ کلب علی خاں فائق نے نظام کا پورا کلیات مجلس تر قی اردو کے تحت ۱۹۶۵ء میں شائع کیا۔
پروفیسر سید عابد علی عابد نے کلیات نظام کے فلیپ پر کچھ یوں کہا:
نظام اپنا ایک منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ جس میں داغ کا سا تیور، بانکپن اور شوخی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ یہ دراصل انہی کا رنگ کے جسے داغ نے اپنی شگفتہ مزاجی سے اور چوکھا کر دیا ہے۔
نیاز فتح پوری نے اپنے مضمون جو نگار میں شائع ہوا ہے لکھتے ہیں :
میاں نظام شاہ کے رنگ کے متعلق عام طور پر یہی مشہور ہے کہ وہ ادابندی کے بڑے مشتاق تھے؛ان کے ہاں معاملہ بند ی بھی بکثرت نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں سوز و جرات کا مقلد کہا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک مصوری کے لحاظ سے یہ بعض مقامات پر جرات سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔اور جذبات نگاری کی حیثیت سے تو ان کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ وہاں تک جرات کا خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔
پروفیسرعبدالشکور اپنی کتاب نظام رام پوری میں یوں سخن آراء ہیں:
نظام کا رنگ سخن قدیم ہے لیکن وہ رنگ جدید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنے والے متغزلین کی رہ نمائی کرتے ہیں۔؛ اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ جدید اور قدیم رنگ کے درمیان ایک دلآویز سمجھوتا ہیں اور وہ اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں قدیم رنگ کے نقوش کے ساتھ جدید رنگ کے چھاپے ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے کلام میں موجودہ انداز شاعری کے مقام سے ،آنے والے دور کی شاعری رنگ ڈھنگ صاف نظر آتا ہے۔
سید نظام شاہ کی شاعری شوخی، ادابندی اور معاملہ گوئی کا ایک نیا دبستان ہے۔ مکالمہ نگاری، ہجر و خیال، وصل اور ندرت خیالی کی ایک ایسی شوخ تصویر نظر آتی ہے کہ شاعری پڑھ کر دل و دماغ معطر اور تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔ نظام نے محبوب کی جدائی اور ملاپ ؛دونوں رنگ بڑی خوبصورتی سے سموئے ہیں۔ ان کے اشعار میں حسرت بھی ہے، تمنا بھی۔کہیں حیا ہے تو کہیں شوخی۔نظام کا سب سے بڑا فن ہجر و وصال کا ذکر نہیں بلکہ ان کیفیات کو اس طرح ظا ہر کرنا ہے کہ قاری بھی جیسے ان محسوسات کو چھو سکے۔ ان کیفیات کا اظہار انہوں نے بڑے قدرتی انداز میں کیا ہے۔اس میں کہیں بھی انہوں نے مصنوعی رنگ اختیار نہیں کیا۔ اگرچہ نظام نے معاملہ بندی اور ادا گوئی جیسی اصناف کو عروج پر پہنچایا تاہم ان پر کسی بھی اہم محقق یا ادارے نے زیادہ کام نہیں کیا، اسی لیئے مندرجہ بالا صفات انہیں پر ختم ہو گئیں۔ ایک اہم رام پوری شاعر اور نظام کے پرستار دور آفریدی ایک جملے میں ان کی شاعری کا رنگ سمیٹتے ہیں:
نظام کے سارے کلام میں اپنے محبوب کی قربت اور ا س سے پیدا شدہ حالات کی دھوپ چھاؤں ہے۔
نظام کے کلام کے رنگ کچھ اس طرح عیاں ہوتے ہیں کہ جیسے محبوبانہ طرز ادا دکھلانا مقصود ہو تو:
غیر کے دھوکے میں قاصد سے مرا خط لے کر
پڑھنے کو پڑھ تو لیا، نام مگر چھوڑ دیا
غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ
میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھورا چھوڑ دیا
اگر کہیں محبوب کے طعن و تشنیع کی عکاسی ہے تو اس طرح ہے
گر کہتے ہیں کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا
کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا،نہیں ہوتا
اگر کہیں بے رخی و بے نیازی کا اظہار ہے تو کچھ یوں:
شب وصل ایسے وہ منہ پھیر کر سوئے نہ پھر چونکے
کہا کس کس طرح میں نے ذرا کروٹ ادھر لینا
وہ وصل میں بھی جدا ہی پڑے رہے روٹھے
رسائی پر بھی یہ عالم ہے نا رسائی کا
دل شکستہ کا مضموں لکھا تھا ہائے نصیب
سو پرزے پرزے ہوا اس سے خط مرا نہ کھلا
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دل گیر کے ساتھ
خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ
اور اس شعر میں تو کمال کیا کہ
اب میں ہوں،تم ہو، کون ہے کس کا خیال ہے؟
کیا اس کا ذکر ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو
ادا بندی کے باب میں نظام کی شاعری میں اپنے محبوب کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز کی خوش مذاقی، ایک حیا آمیز رومانیت، ایک البیلی سی طمانیت، ایک دور سے آتے ہوئے کسی ساز کی آواز اور ایک ترنم ہے۔ جس کی ایک دلکش سی تصویر ان اشعار میں نظر آتی ہے:
بنانا شب و روز وہ بگڑے بال
وہ آئینہ دو دو، پہر دیکھنا
دل تو اس بزم سے اٹھنے کو نہیں ہوتا نظام
ان کو پروا نہیں رہتے رہو، جاتے جاؤ
آ گئی بے پردہ وہ صورت نظر
آنکھ کی جب بند، پردا کھل گیا
اور یہ چند اشعار تو ان کی پہچان مانے جاتے ہیں:
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں!
کیا منہ پہ اس نے رکھ لیئے آنکھیں چرا کے ہاتھ
قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا
گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
تاہم صرف یہ کہنا کہ نظام کی شاعری میں یہی رنگ ہیں تو ایسا کہنا با لکل غلط ہو گا۔ ان کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ بھی جھلکتا ہے ، کہیں میر کی سی یاسیت نظر آتی ہے تو کہیں مومن کا رنگ تغزل۔اس میں کہیں بزرگی کا اظہار ہے، کہیں نامہ بر کا تذکرہ، کہیں اس میں نصحیتیں ہیں تو کہیں دربان کا خوف۔ ان تمام مروجہ عناصر اور جدیدیت پسند عناصر مل کر نظام کو ایک مکمل شاعر بناتے ہیں۔ یہ چند اشعار اس کی یوں تائید کریں گے:
تمہیں یہ بھی کبھی خیال آیا
کہ کوئی راہ دیکھتا ہو گا
دیکھ کر اس کا پھیر لینا منہ
اور حسرت سے دیکھنا میرا
گو اور کچھ نہ شکوؤں سے حاصل ہوا مجھے
اس بات کا ہے شکر کہ وہ ہم سخن نہ ہوا
افسوس اضطراب مرا مانع آگیا
آمادہ قتل پر جو وہ نازک فگن ہوا
لپیٹے منہ پڑے رہنا تری کچھ یاد لا لا کر
بنایا کرتے ہیں اب دل سے ہم دو دو، پہر باتیں
جو مجھے دیکھنے کو آتا ہے
پھر وہ بار دگر نہیں آتا
اب ستم بھی سہا نہیں جاتا
اور شکایت بھی کی نہیں جاتی
پھر تسلی کی کون سی صورت
خواب میں بھی نظر نہیں آتے
نظام کی سب سے بڑی شناخت ان کی زبان کی سادگی ہے۔ اپنے دور کے حساب سے انہوں نے نہایت صاف اور سادہ زبان استعمال کی۔ ایسے دور میں جب ادق اور گنجلک استعارے اور مشکل الفاظ استعمال کرنا اچھی شاعری کی دلیل سمجھی جاتی تھی ایک ایسی زبان لکھنا کہ آج بھی وہ اجنبی محسوس نہ ہو، بلا شبہ نظام کا قد اپنے معاصرین سے بڑھا دیتی ہے۔ میں ابن صفی کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ ایک نابغہ اپنے وقت سے آگے نکل کر سوچتا ہے۔ تو نظام بھی اپنے دور کے ایک نابغہ روزگار شاعر تھے۔ انہوں نے ایسے شعر تخلیق کیئے کہ جن سے ان کا زور بیان ظاہر ہوتا ہے:
میں تو دیکھوں اس، کیا ہے کوئی میرا کاغذ؟
یہ ابھی آپ نے تکیے میں جو رکھا کاغذ
کچھ زمانے سے نرالی ہے طبیعت میری
آپ کا پیار بھی ہے،آپ کی تکرار پسند
دل میں خوش ہوتا ہوں کیا کیا ظاہرا کیا کیا ہیں غم
چپکے چپکے ان کا ہنسنا مجھ کو گریاں دیکھ کر
کہتے ہیں وہ مجھے کہ مرض کچھ نہیں تجھے
اے مرگ! اب تک آئی نہ تو آفریں تجھے
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
’ہاں‘ تو کہتے ہو مگر ساتھ ’ نہیں ‘تھوڑی سی
گو ہے شب فراق سے یہ کم شب وصال
گھبراتے ہو ابھی سے ، ابھی تو سحر نہیں
نہیں معلوم اس کا کیا باعث
روز کہتے ہیں، پر نہیں آتے
محروم مجھ کو یاں سے نہ ایسا اٹھائیے
کچھ جھوٹ سچ تو دے کے دلاسا، اٹھائیے
چھپتی ہے ایسی بات بھی،ظاہر ہے ، مجھ پہ سب
گویا تمہارے ساتھ تھا میں بھی جدھر گئے
جرات سے بلند اور رام پور کا میر کہلانے والے نظام آخر کس کسوٹی کے تحت ایک بہترین شاعر کے طو ر پر نہ ابھر سکے ۔ میرے ذاتی خیال میں جس کا میں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں کہ داغ دہلوی کی رام پور میں موجودگی ، ان کے اثر رسوخ اور شہرت کی چکا چوند روشنی سے نظام جیسے دب سے گئے۔تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ نظام کی کلیات آج سے پچاس برس پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے کل کلام کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ وہ کتنے بڑے شاعر تھے۔ وگرنہ یہ درویش منش شاعر تو پہلے ہی اپنے محبوب کے در پر سب سے بے نیاز ہو کر تو بیٹھا ہی ہوا ہے:
کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ
از
چوہدری لیاقت علی
خطہ رام پور اپنی ایک جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ اردو شاعری میں اگرچہ اس خطے کو ایک علیحدہ دبستان تسلیم نہیں کیا جاتا، تاہم جتنے بڑے نام اس ریاست سے جڑے ہیں وہ اس کو ایک دبستان قرار دینے کے لیئے کافی ہیں۔ داغ نے یہاں دو مختلف اوقات میں قیام کیا۔ اسی طرح یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی اہم شاعر نظام شاہ نظام بھی ہیں، جن پر وہ تحقیق نہ ہوسکی اور جنہیں اتنی شہرت نصیب نہیں ہوئی جن کے وہ حقدار تھے۔ پی ایچ ڈی کے ایک ریسرچ فیلو محمد فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ دہلوی نے نظام شاہ نظام کی طرز پر قریب قریب ۶۳ غزلیں کہیں۔ ایسا اکثر ہوا کہ ہماری شاعری میں ایک شاعر کسی اور شاعر کی شہرت کی روشنی میں اتنا روشن نہ ہو سکا۔قائم چاند پوری اور مصحفی اس کی مثالیں ہیں۔ دونوں میر اور سودا کی روشنی میں جیسے چھپ سے گئے۔ ان میں مصحفی غریب توانشاء کے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنے۔ مصحفی کی مکمل کلیات پر ۱۹۶۳ء میں کام شروع ہوا اور یہ ۱۹۹۵ء میں مکمل ہوئی۔نظام شاہ نظام شاعری میں ایک بہت منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ یہ وہی رنگ ہے جسے داغ دہلوی نے اپنی ذہانت اور صلاحیت اور گہرا کر دیا۔ تاہم محقق اس بات پر متفق ہیں کہ بانکپن، شوخی، معاملہ گوئی اور ادا بندی کی طرز ڈالنے والے نظام ہیں۔ جیسا کہ فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ نے ۶۳ غزلیں طرز نظام پر لکھیں، تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ نظام کے کئی مصرعے، داغ دہلوی نے ادنیٰ تصرف سے اپنا لیئے ہیں۔ تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف داغ بلکہ امیر بھی معاملہ گوئی اور ادا بندی میں نظام کے متبع نظر آئیں گے۔
نظام کے کلام میں زبان سادہ اور خیالات کی ایسی چاشنی موجود ہے کہ ان کا کلام لگتا نہیں کہ انیسویں صدی کا لکھا ہو ا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
سمجھتا محبت کے قابل جو ہم کو
وہ نا آشنا آج اتنا نہ ہوتا
کسی پر نہ ظاہر ہو احوال دل کا
نہ آنسو گرے چشم نم دیکھنا
یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا
راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا
ہمارے محقق اور ادارے اس جوہر نایاب سے اب تک پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔حالانکہ ان کا کلیات مجلس ترقی ادب نے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا تھا۔اس کے باوجود بھی ان کی شناخت ان کے ایک مصرعے سے ہی ہوتی رہی۔ ارباب علم کی یہی روایتی پہلو تہی بہت سے اہم نام اوجھل کرنے کا سبب رہی۔ تاہم اب بھی وقت ہے اگر ہمارے تحقیقی ادارے اور ناقدین دھڑے بندی اور تعصب کو چھوڑ کر کام کریں تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
نظام شاہ نظام کا تعلق سید عبدالقادر جیلانی کے خانوادے سے ہے۔ آپ کے جد امجد سید عبداللہ شاہ پاکستانی قبائیلی علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ اس وقت روہیل کھنڈ پر علی محمد خان کی حکومت تھی جو اس ریاست کے بانی بھی تھے۔ سید عبداللہ شاہ روہیل کھنڈ میں عوام الناس کی روحانی رہ نمائی کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سید محمد شاہ نے ان کی جگہ سنبھالی۔ریاست روہیل کھنڈ کے تقسیم ہونے کے بعد سید محمد شاہ رام پور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی یہیں بسر کی۔ رام پور آنے کے بعد سید محمد شاہ کے دونوں بیٹے فتح علی شاہ اور چراغ علی شاہ ریاست کے رسالہ سواروں میں ملازم ہو گیا۔ فتح علی شاہ کے بھی دو بیٹے تھے حافظ محمد شاہ اور حافظ احمد شاہ۔ یہ دونوں بھی رسالہ دار تھے۔ انہیں حافظ احمد شاہ کے ہاں ۱۸۱۹ء میں نظام شاہ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ رام پور کے محلہ گھیر سخی میں رہائش پذیر تھے۔نظام کے دو بھائی اور ایک بہن تھے۔نظام نے ابتدائی تعلیم محلے میں موجود مدرسے سے حاصل کی۔اسی مدرسے میں انہوں نے عربی اور فارسی کی استعداد بڑھائی۔
ریاست رام پور میں اس وقت نواب احمد علی خاں کی حکمرانی تھی جو خود بھی شاعری کرتے تھے اور اس کی سر پرستی بھی فرماتے تھے۔ یوں کہا جائے کہ دبستان رام پور پورے عروج پر تھا۔کریم اللہ خاں کرم،اخوند ذادہ احمد خاں غفلت، اللہ داد طالب اور نواب احمد یار خاں افسرداد سخن دے رہے تھے۔ نہ صرف مقامی بلکہ بیرونی اہل علم کی سر پرستی بھی کی جاتی تھی۔ یہ رنگ دیکھ کر نظام بھی متاثر ہوئے اور شاعری شروع کر دی۔ ابتدااپنے مرشد میاں احمد علی شاہ سے اصلاح لی جو فارسی اور اردو ،دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ یہ زمانہ ۱۸۳۹ء کا ہے۔ اس زمانے میں نظام نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ رام پور میں علی بخش بیمارجو مصحفی کے شاگرد رشید تھے، کے آنے کے بعد نظام ان کے شاگرد ہوگئے۔ مروجہ روایات کے مطابق نظام نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی اور ۱۸۳۹ء میں ان کی شادی ہوگئی۔ آپ کی آٹھ اولادیں صغر سنی میں فوت ہوئیں ۔ ریاست رام پور میں نواب محمد سعید خاں جو ناظم تخلص کرتے تھے، کے عہد حکمرانی میں شاعری کو اور بھی سر پرستی ملی۔ نظام کے بھی ان سے ربط بڑھے اور حکم حاکم کے مصداق نظام ،ناظم کے شاگرد ہو گئے۔
اس دور میں جو بیرونی شعراء رام پور میں قیام پذیر تھے ان میں امیر مینائی اور نواب مرزا خان داغ دہلوی نہایت اہم شاعر تھے۔داغ نے جو اثر نظام کی صحبت سے حاصل کیا وہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں ۔اپنے تحقیقی مضمون کے حاشیوں میں محمد فیصل مجاز نے تحریر کیا ہے کہ مرزا نوشہ ایک دفعہ رام پور گئے ۔ وہاں نظام کا کلام سنا تو بے حد متاثر ہوئے اور فرما یا کہ رام پور میں ایسے بھی دماغ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تو رام پور کے میر ہیں۔ میر رام پور نے ۱۸۷۲ء میں وفات پائی۔
نظام پر بہت کم لکھا گیا۔ آپ کا تذکرہ سخن شعراء اور تذکرہ نادر میں ملتا ہے۔ نظام پر نیاز فتح پوری نے ایک تفصیلی مضمون ۱۹۲۴ء میں لکھا۔ کلب علی خاں فائق نے نظام کا پورا کلیات مجلس تر قی اردو کے تحت ۱۹۶۵ء میں شائع کیا۔
پروفیسر سید عابد علی عابد نے کلیات نظام کے فلیپ پر کچھ یوں کہا:
نظام اپنا ایک منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ جس میں داغ کا سا تیور، بانکپن اور شوخی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ یہ دراصل انہی کا رنگ کے جسے داغ نے اپنی شگفتہ مزاجی سے اور چوکھا کر دیا ہے۔
نیاز فتح پوری نے اپنے مضمون جو نگار میں شائع ہوا ہے لکھتے ہیں :
میاں نظام شاہ کے رنگ کے متعلق عام طور پر یہی مشہور ہے کہ وہ ادابندی کے بڑے مشتاق تھے؛ان کے ہاں معاملہ بند ی بھی بکثرت نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں سوز و جرات کا مقلد کہا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک مصوری کے لحاظ سے یہ بعض مقامات پر جرات سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔اور جذبات نگاری کی حیثیت سے تو ان کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ وہاں تک جرات کا خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔
پروفیسرعبدالشکور اپنی کتاب نظام رام پوری میں یوں سخن آراء ہیں:
نظام کا رنگ سخن قدیم ہے لیکن وہ رنگ جدید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنے والے متغزلین کی رہ نمائی کرتے ہیں۔؛ اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ جدید اور قدیم رنگ کے درمیان ایک دلآویز سمجھوتا ہیں اور وہ اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں قدیم رنگ کے نقوش کے ساتھ جدید رنگ کے چھاپے ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے کلام میں موجودہ انداز شاعری کے مقام سے ،آنے والے دور کی شاعری رنگ ڈھنگ صاف نظر آتا ہے۔
سید نظام شاہ کی شاعری شوخی، ادابندی اور معاملہ گوئی کا ایک نیا دبستان ہے۔ مکالمہ نگاری، ہجر و خیال، وصل اور ندرت خیالی کی ایک ایسی شوخ تصویر نظر آتی ہے کہ شاعری پڑھ کر دل و دماغ معطر اور تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔ نظام نے محبوب کی جدائی اور ملاپ ؛دونوں رنگ بڑی خوبصورتی سے سموئے ہیں۔ ان کے اشعار میں حسرت بھی ہے، تمنا بھی۔کہیں حیا ہے تو کہیں شوخی۔نظام کا سب سے بڑا فن ہجر و وصال کا ذکر نہیں بلکہ ان کیفیات کو اس طرح ظا ہر کرنا ہے کہ قاری بھی جیسے ان محسوسات کو چھو سکے۔ ان کیفیات کا اظہار انہوں نے بڑے قدرتی انداز میں کیا ہے۔اس میں کہیں بھی انہوں نے مصنوعی رنگ اختیار نہیں کیا۔ اگرچہ نظام نے معاملہ بندی اور ادا گوئی جیسی اصناف کو عروج پر پہنچایا تاہم ان پر کسی بھی اہم محقق یا ادارے نے زیادہ کام نہیں کیا، اسی لیئے مندرجہ بالا صفات انہیں پر ختم ہو گئیں۔ ایک اہم رام پوری شاعر اور نظام کے پرستار دور آفریدی ایک جملے میں ان کی شاعری کا رنگ سمیٹتے ہیں:
نظام کے سارے کلام میں اپنے محبوب کی قربت اور ا س سے پیدا شدہ حالات کی دھوپ چھاؤں ہے۔
نظام کے کلام کے رنگ کچھ اس طرح عیاں ہوتے ہیں کہ جیسے محبوبانہ طرز ادا دکھلانا مقصود ہو تو:
غیر کے دھوکے میں قاصد سے مرا خط لے کر
پڑھنے کو پڑھ تو لیا، نام مگر چھوڑ دیا
غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ
میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھورا چھوڑ دیا
اگر کہیں محبوب کے طعن و تشنیع کی عکاسی ہے تو اس طرح ہے
گر کہتے ہیں کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا
کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا،نہیں ہوتا
اگر کہیں بے رخی و بے نیازی کا اظہار ہے تو کچھ یوں:
شب وصل ایسے وہ منہ پھیر کر سوئے نہ پھر چونکے
کہا کس کس طرح میں نے ذرا کروٹ ادھر لینا
وہ وصل میں بھی جدا ہی پڑے رہے روٹھے
رسائی پر بھی یہ عالم ہے نا رسائی کا
دل شکستہ کا مضموں لکھا تھا ہائے نصیب
سو پرزے پرزے ہوا اس سے خط مرا نہ کھلا
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دل گیر کے ساتھ
خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ
اور اس شعر میں تو کمال کیا کہ
اب میں ہوں،تم ہو، کون ہے کس کا خیال ہے؟
کیا اس کا ذکر ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو
ادا بندی کے باب میں نظام کی شاعری میں اپنے محبوب کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز کی خوش مذاقی، ایک حیا آمیز رومانیت، ایک البیلی سی طمانیت، ایک دور سے آتے ہوئے کسی ساز کی آواز اور ایک ترنم ہے۔ جس کی ایک دلکش سی تصویر ان اشعار میں نظر آتی ہے:
بنانا شب و روز وہ بگڑے بال
وہ آئینہ دو دو، پہر دیکھنا
دل تو اس بزم سے اٹھنے کو نہیں ہوتا نظام
ان کو پروا نہیں رہتے رہو، جاتے جاؤ
آ گئی بے پردہ وہ صورت نظر
آنکھ کی جب بند، پردا کھل گیا
اور یہ چند اشعار تو ان کی پہچان مانے جاتے ہیں:
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں!
کیا منہ پہ اس نے رکھ لیئے آنکھیں چرا کے ہاتھ
قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا
گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
تاہم صرف یہ کہنا کہ نظام کی شاعری میں یہی رنگ ہیں تو ایسا کہنا با لکل غلط ہو گا۔ ان کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ بھی جھلکتا ہے ، کہیں میر کی سی یاسیت نظر آتی ہے تو کہیں مومن کا رنگ تغزل۔اس میں کہیں بزرگی کا اظہار ہے، کہیں نامہ بر کا تذکرہ، کہیں اس میں نصحیتیں ہیں تو کہیں دربان کا خوف۔ ان تمام مروجہ عناصر اور جدیدیت پسند عناصر مل کر نظام کو ایک مکمل شاعر بناتے ہیں۔ یہ چند اشعار اس کی یوں تائید کریں گے:
تمہیں یہ بھی کبھی خیال آیا
کہ کوئی راہ دیکھتا ہو گا
دیکھ کر اس کا پھیر لینا منہ
اور حسرت سے دیکھنا میرا
گو اور کچھ نہ شکوؤں سے حاصل ہوا مجھے
اس بات کا ہے شکر کہ وہ ہم سخن نہ ہوا
افسوس اضطراب مرا مانع آگیا
آمادہ قتل پر جو وہ نازک فگن ہوا
لپیٹے منہ پڑے رہنا تری کچھ یاد لا لا کر
بنایا کرتے ہیں اب دل سے ہم دو دو، پہر باتیں
جو مجھے دیکھنے کو آتا ہے
پھر وہ بار دگر نہیں آتا
اب ستم بھی سہا نہیں جاتا
اور شکایت بھی کی نہیں جاتی
پھر تسلی کی کون سی صورت
خواب میں بھی نظر نہیں آتے
نظام کی سب سے بڑی شناخت ان کی زبان کی سادگی ہے۔ اپنے دور کے حساب سے انہوں نے نہایت صاف اور سادہ زبان استعمال کی۔ ایسے دور میں جب ادق اور گنجلک استعارے اور مشکل الفاظ استعمال کرنا اچھی شاعری کی دلیل سمجھی جاتی تھی ایک ایسی زبان لکھنا کہ آج بھی وہ اجنبی محسوس نہ ہو، بلا شبہ نظام کا قد اپنے معاصرین سے بڑھا دیتی ہے۔ میں ابن صفی کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ ایک نابغہ اپنے وقت سے آگے نکل کر سوچتا ہے۔ تو نظام بھی اپنے دور کے ایک نابغہ روزگار شاعر تھے۔ انہوں نے ایسے شعر تخلیق کیئے کہ جن سے ان کا زور بیان ظاہر ہوتا ہے:
میں تو دیکھوں اس، کیا ہے کوئی میرا کاغذ؟
یہ ابھی آپ نے تکیے میں جو رکھا کاغذ
کچھ زمانے سے نرالی ہے طبیعت میری
آپ کا پیار بھی ہے،آپ کی تکرار پسند
دل میں خوش ہوتا ہوں کیا کیا ظاہرا کیا کیا ہیں غم
چپکے چپکے ان کا ہنسنا مجھ کو گریاں دیکھ کر
کہتے ہیں وہ مجھے کہ مرض کچھ نہیں تجھے
اے مرگ! اب تک آئی نہ تو آفریں تجھے
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
’ہاں‘ تو کہتے ہو مگر ساتھ ’ نہیں ‘تھوڑی سی
گو ہے شب فراق سے یہ کم شب وصال
گھبراتے ہو ابھی سے ، ابھی تو سحر نہیں
نہیں معلوم اس کا کیا باعث
روز کہتے ہیں، پر نہیں آتے
محروم مجھ کو یاں سے نہ ایسا اٹھائیے
کچھ جھوٹ سچ تو دے کے دلاسا، اٹھائیے
چھپتی ہے ایسی بات بھی،ظاہر ہے ، مجھ پہ سب
گویا تمہارے ساتھ تھا میں بھی جدھر گئے
جرات سے بلند اور رام پور کا میر کہلانے والے نظام آخر کس کسوٹی کے تحت ایک بہترین شاعر کے طو ر پر نہ ابھر سکے ۔ میرے ذاتی خیال میں جس کا میں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں کہ داغ دہلوی کی رام پور میں موجودگی ، ان کے اثر رسوخ اور شہرت کی چکا چوند روشنی سے نظام جیسے دب سے گئے۔تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ نظام کی کلیات آج سے پچاس برس پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے کل کلام کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ وہ کتنے بڑے شاعر تھے۔ وگرنہ یہ درویش منش شاعر تو پہلے ہی اپنے محبوب کے در پر سب سے بے نیاز ہو کر تو بیٹھا ہی ہوا ہے:
کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ