رانگ نمبر

ھارون رشید

محفلین
ملٹی نیشنل کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ اچانک وارڈ روب پر لٹکے قیمتی کوٹ کی جیب میں سے موبائل کی گھنٹی بجی۔ ایک صاحب دوڑ کر گئے اور فون نکال کر اٹینڈ کرلیا۔ دوسری طرف خاتون کی آواز تھی :
ہیلو ہنی ! میں آج دفتر سے جلدی گھر جا رہی تھی سوچا تھوڑی شاپنگ کر لوں ۔ میرے پاس تمھارا کریڈٹ کارڈ ہے ۔ میں سوچ رہی ہوں وہ جو پچھلے ہفتے جیولری کی دکان پر ڈائمنڈ کا سیٹ دیکھا تھا۔ تقریباً 2000 ڈالرز کا۔ کیا وہ خرید لوں۔
صاحب: ہاں ڈارلنگ خرید لو۔ کوئی بات نہیں۔
خاتون: ارے ہاں وہ پراپرٹی ایجنٹ بھی تو راستے ہی میں ہے۔ میں اپنے نام پہ بنگلہ لینا چاہتی ہوں تم نے مجھے پچھلی برتھ ڈے پر ایک بنگلہ گفٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے 3 ملین ڈالرز کا ایک بنگلہ بہت پسند ہے۔ کیا وہ بھی خرید لوں؟
صاحب : ہاں بھئی خرید لو۔ لیکن پلیز میں میٹنگ میں ہوں۔
خاتون: اوہ میں دنیا کی کتنی خوش قسمت خاتون ہوں کہ مجھے تم جیسا پیار کرنے والا شوہر ملا۔ صرف ایک آخری بات۔ تمھیں تو پتہ ہے مجھے سپورٹس کار کا بہت شوق ہے۔ مجھے ایک نئی سپورٹس کار بہت اچھی لگ رہی ہے ۔ ابھی وہیں کھڑی ہوں اگر بولو تو تمھارے کریڈٹ کارڈ سے 5۔1 ملین ڈالرز کی یہ گاڑی بھی خرید لوں؟
صاحب : اچھا وہ بھی خرید لو۔ آخر ساری دولت تمھارے لیے ہی تو ہے۔
خاتون: تھینک یو سویٹ ہارٹ۔ آئی لو یو ویری مچ۔ بائے بائے
ان صاحب نے بھی بائے کہہ کر فون واپس کوٹ کی جیب میں رکھا اور واپس باقی ڈائریکٹرز کی طرف مڑ کر پوچھا ۔
یہ کوٹ اور موبائیل کس کا ہے ؟
 
Top