راوی کے کنارے از چراغ حسن حسرت

راوی کے کنارے

(چراغ حسن حسرت)


چل دیکھ نظارے چھٹکے ہوئے تارے
اور نور کے دھارے راوی کے کنارے


آئی ہے سیہ رات پہنے ہوئے بانات
زلفوں کو سنوارے راوی کے کنارے


کرتی ہے ہوا سے گھنگھور گھٹاسے
کچھ برق اشارے راوی کے کنارے


مینہ کا جو تھما زور جھنکارتے ہیں مور
پنکھ اپنے پسارے راوی کے کنارے


جگنو ہیں چمکتے ہیرے ہیں دمکتے
اُڑتے ہیں شرارے راوی کے کنارے​
 
راوی کے کناروں کو شرمندہ نہ کریں۔ اکثر گزر ہوتا ہے، اب مور جگنو تو نہیں بھینسیں ضرور نظر آتی ہیں بیچ دریا کے چرتے ہوئے۔
کیا ہی لاہور تھا - باغات اور دریا - اور اب افسوس!
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:
Top