غزل قاضی
محفلین
راکھ
میں رات ایسے جزیرے میں تھا جہاں مجھ کو
ہر ایک ٹھوس حقیقت مِلی گماں کی طرح
پکارتا تھا پُراَسرار عالم موجود
تھکی تھکی ہُوئی ارواح ِ رفتگاں کی طرح
دَمک رہا تھا ہر اک گوشہ ء وطن لیکن
خزاں کی دھوپ میں صحرائے بیکراں کی طرح
مَیں اپنی قوم سے اپنی زباں میں گویا تھا
زبان ِ شہر ِ خموشاں کے ترجماں کی طرح
سجے ہُوئے تھے سنگھاسن پہ عارضی حاکم
قوائے ارض و سما کے مزاج داں کی طرح
ہر ایک شخص طلب گار تھا کہ شام و سحر
اُسی کا نام لیا جائے اور اذاں کی طرح
مصطفیٰ زیدی
(کوہ ِ ندا)