سید شہزاد ناصر
محفلین
ہم نے چند ہفتے قبل فرانس کی جدید شاعری کا جائزہ اپنے کالم میں شروع کیا تھا۔ یہ مطالعہ چار ہفتے جاری رہا، اس کے بعد اسے روک دیا گیا۔ روکنے کے کئی اسباب تھے۔ اوّل تو یہی، جیسا کہ ایک کالم میں اس سے پہلے عرض بھی کیا جاچکا کہ موضوع کی طوالت کہیں قارئین کے لیے اکتاہٹ کا باعث نہ ہو، اس لیے اس موضوع کو ہم مسلسل زیرِ مطالعہ رکھنے کے بجائے گاہے گاہے اس کے مختلف پہلوئوں پر بات کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ گزشتہ دنوں کراچی کی صورتِ حال نے ذہن اور اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا تھا، جس کا اظہار اس سے قبل دو کالموں میں کیا گیا۔ بہرحال اس بار ہم پھر فرانسیسی شاعری کے جائزے کی طرف واپس آتے ہیں۔
آج ہم جس شاعر کی بات کرنے چلے ہیں وہ واقعتاً ایک عجوبۂ روزگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے فرانسیسی شاعری ہی کو نہیں، بلکہ بعد ازاں اس کے زیرِاثر ہونے والی تمام دنیا کی جدید شاعری کو اپنے وژن، میجری اور اپنی زبان کے بالکل ہی انفرادی اسلوب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس نے لڑکپن ہی میں اپنی پہلی نظم تخلیق کی۔ اس کو اکثر تنقید نگار اور شعرا جدید شاعری کا باوا آدم کہتے ہیں۔ اس نے شاعری کے روایتی اور ہم عصر تمام اسالیب کو انتہائی کامیابی سے اپنایا، لیکن اس کی شاعرانہ صلاحیت اور استعداد شاعری کی جس صنف میں اپنے کمال کو پہنچی وہ تھی نثری نظم۔ اس شاعر کا نام تھا رمبو… جسے ہمارے ہاں راں بو کہا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام ژاں نکولاآغتیوغ رمبو(Cean Nicolas Aurthur Rimbaud) تھا۔
راں بو، بیلجیم کی سرحد سے ملتے ہوئے فرانس کے شہر شاغل ویل میں 20 اکتوبر 1854ء میں پیدا ہوا تھا۔ جب اس کی عمر 6 برس کی ہوئی تو اس کے والد اور والدہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور پھر اس کی پرورش اس کی والدہ نے کی جوکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے انتہائی تسلط پسند تھی اور حد درجے کی مذہبی بھی۔ بڑے ہوکر اس نے شاغل ویل کے کالج میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ہر مضمون میں ایک غیر معمولی لیاقت رکھنے والا طالب علم کہلایا جانے لگا، لیکن اس کی ماں اسے دوسرے لڑکوں سے ملنے نہیں دیتی تھی اور بذاتِ خود اسے کالج لے جاتی اور واپس گھر لایا کرتی تھی۔
اس کالج کے ایک پروفیسر نے، جس کا نام جارج ایزامبارڈ تھا، راں بو سے دوستانہ مراسم اختیار کیے اور اسے رومانیت پسندوں اور پارناسی ین کی شاعری پڑھنے کا مشورہ دیا، اور اس کا ادبی ذوق اور تخلیقی مزاج دیکھتے ہوئے یہ رائے بھی دی کہ وہ اپنی شاعری کی باقاعدہ تخلیق کا عمل شروع کردے۔ ایزامبارڈ نے 1870ء میں جب فرانس اور پروشیا کی جنگ کا آغاز ہوا تو کالج کو خیرباد کہہ دیا۔اس کے کالج سے چلے جانے کے بعد راں بو نے چار مرتبہ گھر سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس میں سے ایک کوشش صرف ایزامبارڈ کی تلاش کے سلسلے میں تھی۔
کچھ تنقید نگاروں نے راں بو کے شاعرانہ اسلوب میں اچانک تبدیلی کو اس بات پر محمول کیا کہ یہ اسلوب ان زیادتیوں کے نتیجے کے طور پر اختیار کیا گیا جو جنگ کے زمانے میں فوجیوں نے راں بو پر کیں۔ لیکن یہ محض ایک قیاس ہے، اس کی تصدیق کبھی نہیں ہوسکی۔ بہرحال یہ تو اس کی اُس زمانے کی شاعری پڑھ کر کوئی بھی قاری اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس عرصے میں راں بو کسی نہ کسی نفسیاتی دھچکے سے ضرور دوچار ہوا ہوگا۔ اس کی کم عمری کی جذباتی شاعری آہستہ آہستہ ایک ایسی شاعری میں منقلب ہوئی جس میں ہمیں زندگی سے بڑھتی ہوئی بیزاری اور کلبیت یا مردم بیزاری کا بڑھتا ہوا احساس غلبہ پاتا دکھائی دیتا ہے۔
1871ء میں راں بو نے تین اہم خطوط تحریر کیے… دو ایزامبارڈ کے نام، اور ایک اپنے دوست پول دیمنی کے نام۔ ان خطوط میں پہلی مرتبہ اس نے اپنے جمالیاتی فلسفے کے اہم نکات بیان کیے۔ اس کے ان خطوط کو ایک خواب دیکھنے والے یا رویا پسند کے خطوط کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان خطوط کو ادب کے مؤرخین اور نقادوں نے بارہا بہت استغراق سے پڑھا تاکہ وہ راں بو کی شاعری کا ایسا فہم حاصل کرسکیں جو اس کا حق تھا۔1871ء ہی میں اس نے پول ورلین کو، جو اُس وقت فرانس کا اہم ترین شاعر سمجھا جاتا تھا، بھی خط لکھا اور اپنی کچھ نظمیں بھی اس خط کے ساتھ ورلین کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجیں۔ اس خط کے جواب میں ورلین نے راں بو کو پیرس آنے اور اپنے پاس رہنے کی دعوت دی۔ راں بو نے اس دعوت کو فوراً قبول کرلیا اور پیرس جاکر ورلین اور اس کی اہلیہ کے ساتھ رہنے لگا۔
راں بو کی سوسائٹی سے بیزاری اور ورلین سے بڑھتے ہوئے ناپسندیدہ تعلقات کے سبب ورلین کی ازدواجی زندگی تباہ ہوکر رہ گئی۔ آگے چل کر اس کی ہمہ وقت کی شراب نوشی اور پیرس کی ادبی اور ثقافتی انجمنوں سے انتہائی غیر مہذبانہ سلوک کرنے کے بعد راں بو نے ورلین کی میزبانی کو خیرباد کہہ دیا۔ راں بو کے رخصت ہونے کے بعد ورلین نے اپنی بیوی سے ازسرِنو ازدواجی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک بار پھر راں بو سے پیرس لوٹنے کی استدعا کی جو راں بو نے قبول کرلی۔ اس کے بعد راں بو اور ورلین کے 1872ء تا 1873ء کے برطانیہ اور بیلجیم کے دورے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں راں بو مشرقی مذاہب اور علم کیمیا کے مطالعے میں مگن تھا اور اس قدر کہ دن رات یہ مطالعہ جاری رہتا، اور اسے جاری رکھنے کے لیے راں بو نے نیند اُڑانے والی دوائوں کا کثرت سے استعمال کیا اور ساتھ ہی بہت سی واہمہ ساز ادویات کا بھی۔ اُس زمانے میں اس کی تخلیقی استعداد اپنے عروج پر تھی۔ دوسری طرف راں بو اور ورلین کے تعلقات بگڑتے رہے اور یہ بگاڑ اس حد کو پہنچ گیا کہ جب راں بو نے ورلین سے علیحدگی کے فیصلے کا اعلان کیا تو ورلین نے پستول سے راں بو پر گولی چلا دی جو راں بو کی کلائی میں پیوست ہوگئی۔ راں بو اس واقعے کے بعد اپنی ماں کے پاس واپس چلا گیا۔ اسی دوران اس نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ کو مکمل کیا۔ اس نظم کے عنوان کا انگریزی ترجمہA Season In Hell ہے۔ جب کہ ورلین نے دو سال سخت سزا میں جیل میں گزارے۔ یہ سزا اسے راں بو پر گولی چلانے کی وجہ سے دی گئی تھی۔ جب راں بو کا زخم مندمل ہوگیا اور وہ روبہ صحت ہوا تو پیرس واپس گیا اور اس نے اپنی نظم ورلین کے حوالے کی۔اس کے بعد راں بو نے شاعری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ یہ فیصلہ راں بو نے اُس وقت کیا جب کہ اُس کی عمر صرف 21 سال تھی۔ اس نے اپنی زندگی مہم جوئی میں گزارنے کا تہیہ کیا اور یورپ، ایتھوپیا اور ابیسینیا میں اسلحہ کی سپلائی اور غلاموں کی تجارت میں حصہ لیا۔ اگرچہ وہ شاعری کو سلام کرکے تاجرانہ زندگی میں ہمہ تن مشغول ہوچکا تھا لیکن دوسری طرف اس کا نام فرانس میں ایک نہایت اہم شاعر کی حیثیت سے اُبھرا اور اس کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی۔ ورلین نے یہ سمجھ کر کے راں بو مرچکا ہے، 1886ء میں راں بو کی نظم ’’رخشندگی‘‘ (Illuminations) شائع کروا دی۔ 1891ء میں راں بو کو ٹانگ کا کینسر ہوگیا اور وہ علاج کروانے کے لیے فرانس کے شہر مارسعی پہنچ گیا۔ اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ واپس اپنی ماں کے پاس چلا گیا، لیکن اس کی حالت بگڑنے لگی اور اسے پھر مارسعی لوٹنا پڑا۔ بالآخر وہ 10 نومبر 1891ء کو اس دارِِ فانی سے 37 برس کی عمر میں کوچ کر گیا اور اسے شاغل ویل میں دفن کردیا گیا۔
راں بو کی ابتدائی شاعری کے زمانے کی جو نظم مقبول ہوئی اس کا عنوان تھا ’’سورج ابھی چمکا ہوا تھا‘‘۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ نظم اس نے 10 برس کی عمر میں تخلیق کی تھی، لیکن اس کی بیشتر نظمیں 1869ء اور 1872ء کے درمیان لکھی گئیں۔ ورلین نے راں بو کی کلیات کے نام سے ان تمام نظموں کو1895ء میں شائع کروایا۔ گو یہ نظمیں اس کی روایتی نظموں میں شمار کی گئیں۔ اس کے موضوعات عام طور سے بورژوائی تہذیب سے روگردانی اور عیسائیت سے انحراف سے متعلق ہیں، لیکن آپ ان نظموں میں اس کی آئندہ کی شاعری میں تلخی اور بیزاری کے پرتو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کلیات میں جو قابلِ ذکر اور توجہ طلب نظمیں شامل ہیں وہ ہیں: ’’میری لاابالی‘‘ ( محبوب)، ’’موسیقی کے نام‘‘، ’’شام کی مناجات‘‘ (عیسائیت کے خلاف ایک نظم)، راں بو کی مشہور ترین اوّلین نظم ’’مخمور نائو‘‘ ہے، جو اُس وقت تخلیق کی گئی جب راں بو 16 برس کا تھا، جو روایتی تشبیہات کے ساتھ ایسی تشبیہات بھی پیش کرتی ہے جن کا تعلق تاثریت اور علامتوں سے ہے۔
16 برس کی عمر ہی میں اس نے شاعری پر اپنے نظریات کا برملا اظہار کیا اور معاشرے میں شاعر کے رول سے متعلق، اپنے ان خطوط میں جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، اپنے نظریے کا بھی۔ ایک اور بھی قابلِ ذکر نظم اسی زمانے کی ہے، جس کا عنوان’’ سات سالہ شاعر‘‘ ہے، جس میں ان تمام توقعات سے جو مذہب سے متعلق تھیں، بغاوت کی گئی تھی۔ اس کی ماں اس کے لیے بیک وقت ایک عذاب اور شاعری کی دیوی تھی۔ اپنی بعد کی نظموں میں راں بو نے اپنے پہلے کے اسلوب کو بالکل ترک کردیا اور نثری نظمیں تخلیق کرنے لگا، جن کی بہترین مثالیں ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ اور ’’رخشندگی‘‘ ہیں۔ اس بات پر نقادوں میں ابھی تک اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا کہ ان میں سے کون سی نظم پہلے تخلیق کی گئی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ’’رخشندگی‘‘ پہلے اور ’’دوزخ کی رُت‘‘ بعد میں لکھی گئی، لیکن بعض دوسرے نقاد اس کے برعکس رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ دونوں نظمیں اپنے انتہائی انفرادی اسلوب اور بعید از فہم و ادراک حرف و بیاں کی وجہ سے ابھی تک دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
راں بو کی نظمیں جس طرح اس کی زندگی میں سنسنی خیز تھیں اسی طرح اس کی موت کے بعد بھی سنسنی خیز سمجھی جاتی ہیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ جو تبدیلی راں بو کی تنقید میں نمایاں ہوئی، وہ مجموعی طور پر اس کی شاعری سے زیادہ اس کی نظموں کی فرداً فرداً قدر و قیمت کے تعین سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’’مخمور نائو‘‘ اس کی ایک زمانے سے مشہور نظم تھی اور اکثر نقادوں نے اس کی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مدح سرائی کی، لیکن اب یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اس نظم کو اتنا انفرادی نہیں سمجھا جاتا جیسے کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، اور اب اس کی تعریف اور مدح سرائی میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ روبرٹ گرئیر کوہن کے مطابق راں بو کی اکثر نظمیں جو ’’رخشندگی‘‘ میں شامل ہیں بعید از فہم ہیں اور ان کے ادراک کے لیے نت نئی حکمتِ عملیاں جنم لے رہی ہیں۔ نقاد راں بو کی شاعری کو کلی طور پر سمجھنے کے لیے اس کی زندگی کی رنگارنگی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس کی زندگی میں جو کلیدی اشارہ اب تلاش کیا گیا ہے، وہ ہے راں بو کا تساہل اور محنت کشی سے گریز۔ یہ نکتہ کرسٹن کروس کا اٹھایا ہوا ہے۔ اس نے اس ضمن میں دلیل کے طور پر اس کی نظم ’’ گندہ خون‘‘ (Bad Blood) کی مثال دی جس میں راں بو جفاکشی سے منحرف ہونے اور محنت کا کوئی کام نہ کرنے کی بات کرتا ہے، اور کرسٹن کروس نے یہی بات اس کے خطوط میں بھی ڈھونڈ نکالی۔ ری ان ہارڈ کا خیال ہے کہ راں بو کے اپنی ماں کی نصیحت کے باوجود ورلین سے بے وفائی کے احساسِ جرم کو اس کی نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن راں بو سے متعلق گفتگو کو اس مقام پر ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کی مشہور ترین نظموں نے ساری دنیا کے ادب کو کیا دیا، اس کو جاننے کے لیے ابھی راں بو کی شاعری اور اس شاعری کے اس کی زندگی سے ارتباط پر اس دور کے تنقید نگاروں اور قارئین کی آرا کو جاننا بہت ضروری ہے۔یہ کام ہم اگلے کالم میں کریں گے۔ ان شا اﷲ۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48300
آج ہم جس شاعر کی بات کرنے چلے ہیں وہ واقعتاً ایک عجوبۂ روزگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے فرانسیسی شاعری ہی کو نہیں، بلکہ بعد ازاں اس کے زیرِاثر ہونے والی تمام دنیا کی جدید شاعری کو اپنے وژن، میجری اور اپنی زبان کے بالکل ہی انفرادی اسلوب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس نے لڑکپن ہی میں اپنی پہلی نظم تخلیق کی۔ اس کو اکثر تنقید نگار اور شعرا جدید شاعری کا باوا آدم کہتے ہیں۔ اس نے شاعری کے روایتی اور ہم عصر تمام اسالیب کو انتہائی کامیابی سے اپنایا، لیکن اس کی شاعرانہ صلاحیت اور استعداد شاعری کی جس صنف میں اپنے کمال کو پہنچی وہ تھی نثری نظم۔ اس شاعر کا نام تھا رمبو… جسے ہمارے ہاں راں بو کہا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام ژاں نکولاآغتیوغ رمبو(Cean Nicolas Aurthur Rimbaud) تھا۔
راں بو، بیلجیم کی سرحد سے ملتے ہوئے فرانس کے شہر شاغل ویل میں 20 اکتوبر 1854ء میں پیدا ہوا تھا۔ جب اس کی عمر 6 برس کی ہوئی تو اس کے والد اور والدہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور پھر اس کی پرورش اس کی والدہ نے کی جوکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے انتہائی تسلط پسند تھی اور حد درجے کی مذہبی بھی۔ بڑے ہوکر اس نے شاغل ویل کے کالج میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ہر مضمون میں ایک غیر معمولی لیاقت رکھنے والا طالب علم کہلایا جانے لگا، لیکن اس کی ماں اسے دوسرے لڑکوں سے ملنے نہیں دیتی تھی اور بذاتِ خود اسے کالج لے جاتی اور واپس گھر لایا کرتی تھی۔
اس کالج کے ایک پروفیسر نے، جس کا نام جارج ایزامبارڈ تھا، راں بو سے دوستانہ مراسم اختیار کیے اور اسے رومانیت پسندوں اور پارناسی ین کی شاعری پڑھنے کا مشورہ دیا، اور اس کا ادبی ذوق اور تخلیقی مزاج دیکھتے ہوئے یہ رائے بھی دی کہ وہ اپنی شاعری کی باقاعدہ تخلیق کا عمل شروع کردے۔ ایزامبارڈ نے 1870ء میں جب فرانس اور پروشیا کی جنگ کا آغاز ہوا تو کالج کو خیرباد کہہ دیا۔اس کے کالج سے چلے جانے کے بعد راں بو نے چار مرتبہ گھر سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس میں سے ایک کوشش صرف ایزامبارڈ کی تلاش کے سلسلے میں تھی۔
کچھ تنقید نگاروں نے راں بو کے شاعرانہ اسلوب میں اچانک تبدیلی کو اس بات پر محمول کیا کہ یہ اسلوب ان زیادتیوں کے نتیجے کے طور پر اختیار کیا گیا جو جنگ کے زمانے میں فوجیوں نے راں بو پر کیں۔ لیکن یہ محض ایک قیاس ہے، اس کی تصدیق کبھی نہیں ہوسکی۔ بہرحال یہ تو اس کی اُس زمانے کی شاعری پڑھ کر کوئی بھی قاری اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس عرصے میں راں بو کسی نہ کسی نفسیاتی دھچکے سے ضرور دوچار ہوا ہوگا۔ اس کی کم عمری کی جذباتی شاعری آہستہ آہستہ ایک ایسی شاعری میں منقلب ہوئی جس میں ہمیں زندگی سے بڑھتی ہوئی بیزاری اور کلبیت یا مردم بیزاری کا بڑھتا ہوا احساس غلبہ پاتا دکھائی دیتا ہے۔
1871ء میں راں بو نے تین اہم خطوط تحریر کیے… دو ایزامبارڈ کے نام، اور ایک اپنے دوست پول دیمنی کے نام۔ ان خطوط میں پہلی مرتبہ اس نے اپنے جمالیاتی فلسفے کے اہم نکات بیان کیے۔ اس کے ان خطوط کو ایک خواب دیکھنے والے یا رویا پسند کے خطوط کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان خطوط کو ادب کے مؤرخین اور نقادوں نے بارہا بہت استغراق سے پڑھا تاکہ وہ راں بو کی شاعری کا ایسا فہم حاصل کرسکیں جو اس کا حق تھا۔1871ء ہی میں اس نے پول ورلین کو، جو اُس وقت فرانس کا اہم ترین شاعر سمجھا جاتا تھا، بھی خط لکھا اور اپنی کچھ نظمیں بھی اس خط کے ساتھ ورلین کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجیں۔ اس خط کے جواب میں ورلین نے راں بو کو پیرس آنے اور اپنے پاس رہنے کی دعوت دی۔ راں بو نے اس دعوت کو فوراً قبول کرلیا اور پیرس جاکر ورلین اور اس کی اہلیہ کے ساتھ رہنے لگا۔
راں بو کی سوسائٹی سے بیزاری اور ورلین سے بڑھتے ہوئے ناپسندیدہ تعلقات کے سبب ورلین کی ازدواجی زندگی تباہ ہوکر رہ گئی۔ آگے چل کر اس کی ہمہ وقت کی شراب نوشی اور پیرس کی ادبی اور ثقافتی انجمنوں سے انتہائی غیر مہذبانہ سلوک کرنے کے بعد راں بو نے ورلین کی میزبانی کو خیرباد کہہ دیا۔ راں بو کے رخصت ہونے کے بعد ورلین نے اپنی بیوی سے ازسرِنو ازدواجی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک بار پھر راں بو سے پیرس لوٹنے کی استدعا کی جو راں بو نے قبول کرلی۔ اس کے بعد راں بو اور ورلین کے 1872ء تا 1873ء کے برطانیہ اور بیلجیم کے دورے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں راں بو مشرقی مذاہب اور علم کیمیا کے مطالعے میں مگن تھا اور اس قدر کہ دن رات یہ مطالعہ جاری رہتا، اور اسے جاری رکھنے کے لیے راں بو نے نیند اُڑانے والی دوائوں کا کثرت سے استعمال کیا اور ساتھ ہی بہت سی واہمہ ساز ادویات کا بھی۔ اُس زمانے میں اس کی تخلیقی استعداد اپنے عروج پر تھی۔ دوسری طرف راں بو اور ورلین کے تعلقات بگڑتے رہے اور یہ بگاڑ اس حد کو پہنچ گیا کہ جب راں بو نے ورلین سے علیحدگی کے فیصلے کا اعلان کیا تو ورلین نے پستول سے راں بو پر گولی چلا دی جو راں بو کی کلائی میں پیوست ہوگئی۔ راں بو اس واقعے کے بعد اپنی ماں کے پاس واپس چلا گیا۔ اسی دوران اس نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ کو مکمل کیا۔ اس نظم کے عنوان کا انگریزی ترجمہA Season In Hell ہے۔ جب کہ ورلین نے دو سال سخت سزا میں جیل میں گزارے۔ یہ سزا اسے راں بو پر گولی چلانے کی وجہ سے دی گئی تھی۔ جب راں بو کا زخم مندمل ہوگیا اور وہ روبہ صحت ہوا تو پیرس واپس گیا اور اس نے اپنی نظم ورلین کے حوالے کی۔اس کے بعد راں بو نے شاعری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ یہ فیصلہ راں بو نے اُس وقت کیا جب کہ اُس کی عمر صرف 21 سال تھی۔ اس نے اپنی زندگی مہم جوئی میں گزارنے کا تہیہ کیا اور یورپ، ایتھوپیا اور ابیسینیا میں اسلحہ کی سپلائی اور غلاموں کی تجارت میں حصہ لیا۔ اگرچہ وہ شاعری کو سلام کرکے تاجرانہ زندگی میں ہمہ تن مشغول ہوچکا تھا لیکن دوسری طرف اس کا نام فرانس میں ایک نہایت اہم شاعر کی حیثیت سے اُبھرا اور اس کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی۔ ورلین نے یہ سمجھ کر کے راں بو مرچکا ہے، 1886ء میں راں بو کی نظم ’’رخشندگی‘‘ (Illuminations) شائع کروا دی۔ 1891ء میں راں بو کو ٹانگ کا کینسر ہوگیا اور وہ علاج کروانے کے لیے فرانس کے شہر مارسعی پہنچ گیا۔ اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ واپس اپنی ماں کے پاس چلا گیا، لیکن اس کی حالت بگڑنے لگی اور اسے پھر مارسعی لوٹنا پڑا۔ بالآخر وہ 10 نومبر 1891ء کو اس دارِِ فانی سے 37 برس کی عمر میں کوچ کر گیا اور اسے شاغل ویل میں دفن کردیا گیا۔
راں بو کی ابتدائی شاعری کے زمانے کی جو نظم مقبول ہوئی اس کا عنوان تھا ’’سورج ابھی چمکا ہوا تھا‘‘۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ نظم اس نے 10 برس کی عمر میں تخلیق کی تھی، لیکن اس کی بیشتر نظمیں 1869ء اور 1872ء کے درمیان لکھی گئیں۔ ورلین نے راں بو کی کلیات کے نام سے ان تمام نظموں کو1895ء میں شائع کروایا۔ گو یہ نظمیں اس کی روایتی نظموں میں شمار کی گئیں۔ اس کے موضوعات عام طور سے بورژوائی تہذیب سے روگردانی اور عیسائیت سے انحراف سے متعلق ہیں، لیکن آپ ان نظموں میں اس کی آئندہ کی شاعری میں تلخی اور بیزاری کے پرتو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کلیات میں جو قابلِ ذکر اور توجہ طلب نظمیں شامل ہیں وہ ہیں: ’’میری لاابالی‘‘ ( محبوب)، ’’موسیقی کے نام‘‘، ’’شام کی مناجات‘‘ (عیسائیت کے خلاف ایک نظم)، راں بو کی مشہور ترین اوّلین نظم ’’مخمور نائو‘‘ ہے، جو اُس وقت تخلیق کی گئی جب راں بو 16 برس کا تھا، جو روایتی تشبیہات کے ساتھ ایسی تشبیہات بھی پیش کرتی ہے جن کا تعلق تاثریت اور علامتوں سے ہے۔
16 برس کی عمر ہی میں اس نے شاعری پر اپنے نظریات کا برملا اظہار کیا اور معاشرے میں شاعر کے رول سے متعلق، اپنے ان خطوط میں جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، اپنے نظریے کا بھی۔ ایک اور بھی قابلِ ذکر نظم اسی زمانے کی ہے، جس کا عنوان’’ سات سالہ شاعر‘‘ ہے، جس میں ان تمام توقعات سے جو مذہب سے متعلق تھیں، بغاوت کی گئی تھی۔ اس کی ماں اس کے لیے بیک وقت ایک عذاب اور شاعری کی دیوی تھی۔ اپنی بعد کی نظموں میں راں بو نے اپنے پہلے کے اسلوب کو بالکل ترک کردیا اور نثری نظمیں تخلیق کرنے لگا، جن کی بہترین مثالیں ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ اور ’’رخشندگی‘‘ ہیں۔ اس بات پر نقادوں میں ابھی تک اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا کہ ان میں سے کون سی نظم پہلے تخلیق کی گئی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ’’رخشندگی‘‘ پہلے اور ’’دوزخ کی رُت‘‘ بعد میں لکھی گئی، لیکن بعض دوسرے نقاد اس کے برعکس رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ دونوں نظمیں اپنے انتہائی انفرادی اسلوب اور بعید از فہم و ادراک حرف و بیاں کی وجہ سے ابھی تک دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
راں بو کی نظمیں جس طرح اس کی زندگی میں سنسنی خیز تھیں اسی طرح اس کی موت کے بعد بھی سنسنی خیز سمجھی جاتی ہیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ جو تبدیلی راں بو کی تنقید میں نمایاں ہوئی، وہ مجموعی طور پر اس کی شاعری سے زیادہ اس کی نظموں کی فرداً فرداً قدر و قیمت کے تعین سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’’مخمور نائو‘‘ اس کی ایک زمانے سے مشہور نظم تھی اور اکثر نقادوں نے اس کی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مدح سرائی کی، لیکن اب یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اس نظم کو اتنا انفرادی نہیں سمجھا جاتا جیسے کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، اور اب اس کی تعریف اور مدح سرائی میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ روبرٹ گرئیر کوہن کے مطابق راں بو کی اکثر نظمیں جو ’’رخشندگی‘‘ میں شامل ہیں بعید از فہم ہیں اور ان کے ادراک کے لیے نت نئی حکمتِ عملیاں جنم لے رہی ہیں۔ نقاد راں بو کی شاعری کو کلی طور پر سمجھنے کے لیے اس کی زندگی کی رنگارنگی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس کی زندگی میں جو کلیدی اشارہ اب تلاش کیا گیا ہے، وہ ہے راں بو کا تساہل اور محنت کشی سے گریز۔ یہ نکتہ کرسٹن کروس کا اٹھایا ہوا ہے۔ اس نے اس ضمن میں دلیل کے طور پر اس کی نظم ’’ گندہ خون‘‘ (Bad Blood) کی مثال دی جس میں راں بو جفاکشی سے منحرف ہونے اور محنت کا کوئی کام نہ کرنے کی بات کرتا ہے، اور کرسٹن کروس نے یہی بات اس کے خطوط میں بھی ڈھونڈ نکالی۔ ری ان ہارڈ کا خیال ہے کہ راں بو کے اپنی ماں کی نصیحت کے باوجود ورلین سے بے وفائی کے احساسِ جرم کو اس کی نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن راں بو سے متعلق گفتگو کو اس مقام پر ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کی مشہور ترین نظموں نے ساری دنیا کے ادب کو کیا دیا، اس کو جاننے کے لیے ابھی راں بو کی شاعری اور اس شاعری کے اس کی زندگی سے ارتباط پر اس دور کے تنقید نگاروں اور قارئین کی آرا کو جاننا بہت ضروری ہے۔یہ کام ہم اگلے کالم میں کریں گے۔ ان شا اﷲ۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48300