ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احباب کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اس کے اکثر اشعار چند سال پہلے پاکستان سے واپسی کے سفر کے دوران لکھے گئے تھے۔ اگر آج کل کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ شعر اتنےپرانے محسوس نہیں ہوتے ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔
راہبر دیکھ لئے ، راہ گزر دیکھ آئے
بیچ رستے سے ہم انجامِ سفر دیکھ آئے
عارضے اتنے نہیں جتنے مسیحا ہیں نصیب
غمگسار اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ آئے
دیکھنے جس کو گئے تھے وہی بستی نہ ملی
یاد کے اجڑےہوئے چند کھنڈر دیکھ آئے
نہ وہ منظر رہے باقی ، نہ وہ آنکھیں ہی رہیں
شہر ِ رفتہ کو بہ اندازِ دگر دیکھ آئے
اُس گلی میں بھی ہوا جانا جدھر جنت تھی
ہم سے دیکھا ہی نہ جاتا تھا مگر دیکھ آئے
ڈگمگائے تھے جہاں ہوش کے مدہوش قدم
ہجر پہلو میں لئے پھروہ ڈگر دیکھ آئے
محفلِ غیر بھی اُجڑی ہوئی دیکھی اِس بار
بزمِ یاراں کو بھی ہم زیر و زبر دیکھ آئے
رشکِ افلاک ہیں وہ لوگ کہ جب دل چاہا
تری دہلیز پہ پہنچے ، ترا در دیکھ آئے
ہم کھڑے تکتے ہیں قسمت کے ستاروں کوظہیرؔ
دیکھنے والے تو مریخ و قمر دیکھ آئے
***
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔ (پاکستان سے واپسی پر) ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲
بیچ رستے سے ہم انجامِ سفر دیکھ آئے
عارضے اتنے نہیں جتنے مسیحا ہیں نصیب
غمگسار اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ آئے
دیکھنے جس کو گئے تھے وہی بستی نہ ملی
یاد کے اجڑےہوئے چند کھنڈر دیکھ آئے
نہ وہ منظر رہے باقی ، نہ وہ آنکھیں ہی رہیں
شہر ِ رفتہ کو بہ اندازِ دگر دیکھ آئے
اُس گلی میں بھی ہوا جانا جدھر جنت تھی
ہم سے دیکھا ہی نہ جاتا تھا مگر دیکھ آئے
ڈگمگائے تھے جہاں ہوش کے مدہوش قدم
ہجر پہلو میں لئے پھروہ ڈگر دیکھ آئے
محفلِ غیر بھی اُجڑی ہوئی دیکھی اِس بار
بزمِ یاراں کو بھی ہم زیر و زبر دیکھ آئے
رشکِ افلاک ہیں وہ لوگ کہ جب دل چاہا
تری دہلیز پہ پہنچے ، ترا در دیکھ آئے
ہم کھڑے تکتے ہیں قسمت کے ستاروں کوظہیرؔ
دیکھنے والے تو مریخ و قمر دیکھ آئے
***
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔ (پاکستان سے واپسی پر) ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲
آخری تدوین: