واصف راہبر ملا ، نہ راہ میں کوئی بھی ہمسفر


راہبر ملا ، نہ راہ میں کوئی بھی ہمسفر
پوچھو نہ ، کس طرح سے ہوئی زندگی بسر

ہر مرحلے پہ ذہن میں ، یہ کشمکش رہی
ہستی سے ہو مُفر ، کہ مراحل سے ہو مُفر

ہم کو خودی نے ، اپنا خدا ہی بنا دیا !
جب بےخودی ملی ، تو گِرے پائے یار پر !

وارث ہے میکدے کا وہی رِند تشنہ کام !
جس کی نظر ہو ، گردشِ لیل و نہار پر

وہ دن کہاں گئے کہ ، محبت تھی زندگی !
اب وہ نظر کہاں ہے ، کہاں دل ، کہاں جگر

آوارگانِ عشق نے ، منزل کو پا لیا
راہوں میں سر پٹختی رہی ، عقل عمر بھر

تاثیر ڈھونڈتی تھی ، کبھی آہِ نارسا
اب ڈھونڈتا ہے ، آہ کو ، روتا ہوا اثر

دل پہ تیری جفا کے سوا ، اور بھی ہیں داغ
تاروں کی روشنی بھی رہی ، زینتِ قمر

واصف کو کس نے ہوش سے بیگانہ کر دیا
فطرت جنوں پسند تھی ، لیکن نہ اس قدر

حضرت واصف علی واصف

 
Top