راہبہ

صائمہ شاہ

محفلین
راہبہ

راہبہ !
سچ بتا ! واقعی جسم ناپاک ہے؟
پھر مقدّس محبّت کے اُجلے پرندے نے
اس میں ہی کیوں گھر بنایا؟
کبوتر ہمیشہ انہی گنبدوں پر اترتے ہیں
جن سے خدا تک پہنچنے کا
نورانی زینہ ملے
جنّتی ہجر کا چاک سینہ سِلے
پھول دل کا کھلے !

راہبہ !
دل کی محراب میں
تو اکیلی کھڑی
کیسی آواز کی منتظر ہے
خدا آدمی کے بنائے ہوئے
معبدوں میں اترتا نہیں
وہ کیوں آسمانوں سے مٹّی پہ آئے
ہمیں کیوں نہ وہ نور گھر میں بلائے
جہاں آسمانی گھڑی پر
ہمیشہ وہی وقت رہتا ہے
جو تیرے میرے بچھڑنے کا تھا!

راہبہ !
تو نے اپنے بدن سے
اتاری ہوئی ریشمی زندگی
کن مزاروں پہ ڈالی
ترے غم کی اُترن
کہاں میری پوشاک ہے
میں تو اپنے الاو میں جلتا ہوا !
اس زمانے کی گلیوں سے
تنہا، اداس، اپنے کشکول میں
دل کے ٹکڑے گراتا ہوا
یوں گزر جاؤں گا
جیسے تیرے محَلکے سے
خوابوں کی ڈاریں گزرتی ہیں
لیکن تری نیند کی چھتریوں پر اترتی نہیں

راہبہ !
رات کی کالی چادر میں
کب تک چھپائے گی تو
میرے دن کا لہو
روبرو دل کے رکھ دے سبُو
پیاس کی پیاس تک دے بجھا !

علی محمّد فرشی
 

نایاب

لائبریرین
عجب پر تاثر نظم ہے ۔ پل پل رنگ بدلتی ہے ۔
کبھی انتہائی پستی میں دھکیل دیتی ہے کبھی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے ۔
بہت پرپیچ بہت گہری ہے ۔۔۔
راہبہ !
سچ بتا ! واقعی جسم ناپاک ہے؟
پھر مقدّس محبّت کے اُجلے پرندے نے
اس میں ہی کیوں گھر بنایا؟
کبوتر ہمیشہ انہی گنبدوں پر اترتے ہیں
جن سے خدا تک پہنچنے کا
نورانی زینہ ملے

بہت دعائیں
 
Top