شیرازخان
محفلین
- غزل
اس کا اپنے دل پہ اتنا دھاں بھی نہیں تھا
اب زمیں پاؤں تلے سے نکلنے لگی تھی
اب مرے سر پہ کھڑا آسماں بھی نہیں تھا
قافلہ لٹنے کا دکھ اک طرف تھا مگر اب
وہ جو ہمراہ تھا مرے، کارواں بھی نہیں تھا
اس کا صدمہ تھا عجب جو گیا ہی نہیں ہے
جو جلا تھا وہ مرا آشیاں بھی نہیں تھا
کیونکر برسی ہیں شیرؔ از آنکھیں یکایک
آج تو بارش کا نام و نِشاں بھی نہیں تھا