راہیں از منشا یاد (ایک جائزہ)

راہیں ۔ منشا یاد
ایک جائزہ


ناول اطالوی زبان کے لفظ Noveela سے ماخوذ ہے۔ لغت کی رو سے ناول کے معنی کسی نئی اور انوکھی بات کے ہیں۔ اصطاحا ناول کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے ایک طویل نثری قصہ(بیانیہ) جو فرضی یا حقیقی کرداروں اور واقعات پرمشتمل اور عام طور کسی ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے ۔ عالمی ادب میں ناول سترہویں صدی کے اوائل میں نمودار ہوا۔
ڈینئیل ڈیفو کا ناول رابنسن کروسو اور Miguel de Cervantes کا ناول Don Quixoteانگریزی زبان کے ابتدائی ناول ہیں۔ دیگر زبانوں میں بھی انتہائی شاندار ناول لکھے گئے جو اپنے موضوع اورکرداروں میں تنوع کے باعث انگریزی زبان کے ناولوں سے بھی زیادہ پر کشش ہیں۔ ان میں ڈوما ، ٹالسٹائی، ترگنیف، گورکی شامل ہیں۔ آج بھی ددسب سے زیادہ معروف مصنف ایسے ہیں جو ہسپانوی اور پرتگالی زبان میں لکھتے ہیں اور موجودہ زمانے کے بہترین ناول نگار ہیں۔ جی ہاں میں مارکیز اور کوۂلو کی بات کر رہا ہوں۔ مارکیز کے لئے تو طلسماتی حقیقت پسندی(Magical Realism) کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اردو زبان کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں جنہوں نے ۱۸۶۹ء میں مراۃالعروس نامی ناول لکھا ۔ تاہم اس میں وہ لوازمات شامل نہیں تھے جو ایک ناول کے لئے ضروری ہیں۔ تاہم آپ کے ذہن میں دو چیزیں واضح ہوں کہ ایک تو اردو زبان بھی نوعمری کے مراحل میں تھی دوسرے ڈپٹی صاحب ایک مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہے تھے۔ اس ناول کے بعد مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤجان ادا کو اردو زبان کا پہلا مکمل ناول کہہ سکتے ہیں۔ جس میں باقاعدہ ایک مربوط پلاٹ کے ساتھ انسانی جذبات اور محسوسات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کے بعد قاضی عبدالغفار اور پریم چند نے بہت اہم نقوش چھوڑیں ہیں۔ برصغیر کا سب سے اہم واقعہ اس کی تقسیم ہے اور اس ایک واقعہ نے انتہائی ان مٹ نقش چھوڑے ہیں لوگوں کی زندگیوں پر بھی اورادباء کے ذہنوں پر بھی۔ اس دور میں قرہ العین حیدر نے آگ کا دریا نامی ناول لکھ کراردو ناول کی تاریخ بدل دی۔ انہی کے ہم عصروں میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ شامل ہیں جنہوں نے اردو ادب میں ناول کو ایک نئے درجہ پر پہنچایا۔ ان کے بعد عبداللہ حسین، رحیم گل اور منشا یاد کے نام آتے ہیں۔
منشا یاد اردو ادب کا ایک انتہائی معتبر نام ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈرامہ نگار ان کا نام ادبی حلقوں کے لئے نیا نہیں۔ وہ نہ صرف اردو بلکہ پنجابی کے بھی بہت بڑے ناول نگار ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کو ایک بہت بڑا ناول راہیں کی صورت میں دیا ہے۔ یہ چند سطور اسی ناول کے متعلق ہیں۔ تاہم منشا یاد صاحب کا مختصر تعارف۔ آپ ۱۹۳۷ء میں فاروق آباد جو شیخوپورہ کے قریب ہے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے رسول میں واقع فنی مہارت کے مشہور ادارے سے انجینرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ ۱۹۶۴ء میں فاضل اردو، ۱۹۶۵ء میں بی اے اور ۱۹۶۷ء میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ۱۹۵۸ء میں کیا اور ۱۹۹۷ء میں سی ڈی اے سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر سبکدوش ہوئے۔ انہوں نے اکتوبر ۲۰۱۱ء میں وفات پائی۔

یہ تحریرمنشا یاد صاحب کے ناول راہیں جو ان کے پنجابی ناول کا ترجمہ ہے کا ایک جائزہ ہے۔ اس ناول کو اردو کے قالب میں ڈالنے کا کام انہوں نے خود سر انجام دیا۔ اسی لئے کتاب کا مجموعی تاثر برقرار رہا ۔ تاہم یہ اہم ناول ان کی وفات کے بعد ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ ان کا پنجابی ناول ٹانواں ٹانواں تارا ایک بہت بڑا ناول ہے۔ اس ناول کو بھارت میں مخصوص رسم الخط گورمکھی اور شاہ مکھی میں چھاپا گیا۔ یہ ناول امرتسر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے اور اس پر ایک ایم فل کی ڈگری جاری ہو چکی ہے۔ قارئین اس ناول پر مبنی ڈرامہ راہیں دیکھ چکے ہیں۔ اس ناول سے ماخوذ یہ ڈرامہ ۱۹۹۹ء میں آن ائیر ہوا اورآج یہ ڈرامہ پی ٹی وی کے انتہائی مشہور ڈراموں میں سے ایک ہے۔ تاہم اس ڈرامے میں اصل پلاٹ سے ہٹ کر کافی تبدیلیاں کی گئیں۔تاہم منشا صاحب کی تحریر میں چھپا پیغام سب لوگوں تک پہنچا، سب نے اسے محسوس کیا اور پذیرائی بخشی۔اس ڈرامے کے ساتھ ہی راقم نے اس ناول کو پنجابی زبان میں پڑھنے کی کوشش کی ۔ تاہم پنجابی زبان پڑھنے میں انتہائی مشکل زبان ہے۔ اسی لئے آج اس ناول کو اردو میں پڑھ کر بے حد مزہ آیا اور میں دل سے ایک بات کا قائل ہو گیا کہ اگر ہجرت سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک کی پاکستانی تاریخ کو ایک تحریر میں سمو دیا جائے تو اسے راہیں کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس ناول کو پڑھنے کے بعد جو پہلا تاثر ذہن میں آتا ہے وہ مصنف کی زبان اور بیان پر گرفت ہے۔ آپ نے خود بھی غور کیا ہو گا کہ ایسی تمام تحاریر جن میں گاؤں کی روایتی سادگی اور اپنی مٹی ، اس سے جڑے رشتے ، دوستی اور خلوص ہو وہ ان تمام فرضی قصوں سے زیادہ مشہور ہوتے ہیں۔ جن میں دولت کی چکاچوند، دیس بدیس، کاریں یا دیگر لوازمات ہوں ۔ مصنف کی تحریر میں ان کا گاؤں میں گزرا بچپن اورجیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہجرت کا انتہائی گہرا تاثر نظر آتا ہے۔ پھر فاضل مصنف پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو و فارسی زبان پر بھی قادر تھے لہذا ان کی یہ مہارت بھی ان کی تحریر میں واضح نظر آتی ہے۔ اسی ضمن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اپنی اس کتاب میں انہوں نے ادق اور کڈھب الفاظ کی جگہ انتہائی آسان اور سلیس زبان لکھی جسے قاری انتہائی آسانی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریر میں جابجا پنجابی کے شعر انگوٹھی میں نگینوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ کئی دفعہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مصنف نے ان اشعار کے ذریعے اسی کتاب میں درج واقعات کو منظوم شکل میں بیان کر دیا ہے۔ پورا ناول اس طرح لکھا گیا ہے کہ تحریر کی سادگی اور روانی دل کو چھوتی ہے اور اور ایک دفعہ کتاب شروع کر لیں تو اسے ختم کئے بنا چین نہیں آتا۔اس ناول کی شکل میں اردو ذبان میں ایک ایسے ناول کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بغیر اردو ناول کی تاریخ ادھوری ہے۔

ناول کا دوسرا تاثر اس کا منظر نامہ ہے۔ ہر مصنف ایک اچھا مشاہدہ کار ہوتا ہے۔ جو ہر چیز سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اسے قرینے سے اپنی تحریر کی شکل دیتا ہے۔ اس پورے ناول میں مصنف کا ذاتی مشاہدہ جابجا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس کمال کی منظر نگاری کی ہے جیسا کہ مشہور فارسی شاعر انوری کہتا ہے کہ جب میں شاعری کرتا ہوں تو الفاظ اور استعارے میرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور میں انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا چلا جاتا ہوں۔اپنی ایسی ہی قوت تخلیق سے اس ناول میں انہوں نے چاہ کلاں اور چاہ خورد گاؤں اور دریا آباد نامی قصبہ تخلیق کیا۔ یہ ان کے قلم کی تخیلی طاقت ہے کہ یہ ٖفرضی علاقے ہمیں اپنے ارد گرد محسوس ہوتے ہیں۔اس پوری تحریر میں انہوں نے ایسے حالات بیان کئے ہیں کہ کہیں سے بھی ان میں تصنع اور بناوٹ محسوس نہیں ہوتا۔ ایسی ہی کمال کی منظر نگاری پر مارکیز کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ اگرلاطینی امریکہ دنیا کے نقشے پر موجود نہ ہوتا تب بھی یہ مارکیز کی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ شاید یہ علاقے کہیں موجود ہوں لیکن اگر کہیں نہیں بھی ہیں تو بھی یہ قاری کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ قاری خود کو ان میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے۔ اس ناول کی مثال ایک ایسے کینوس کی سی ہے جس میں بہت سارے دائرے موجود ہیں مگر ان تمام پیچ و خم کے باوجود یہ پورا کینوس ایک ہی تصویر دکھائی دیتا ہے۔ اس ایک ناول میں اتنی کہانیاں اور اتنے گھماؤ پھراؤ موجود ہیں کہ ان کو ایک ساتھ لے کر چلنا مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے۔ مگر مصنف نہایت چابکدستی سے ان تمام کہانیوں کو ایک دھاگے میں پرو کر انہیں منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔

اس ناول میں پنجاب کے روایتی گاؤں اور قصبات میں بسنے والے عوام و خواص مزکور ہیں۔ اسی طرح شہر میں بسنے والے اہم کردار وں میں نظر آتے ہیں۔ گاؤں میں بسنے والے چودھری، پیر، کمہار، کمی، مزارع، میراثی و مولوی اپنی تمام تر جملہ خوبیوں اور خامیوں سمیت نظر آتے ہیں۔ شہر میں رہنے والے صنعت کار، وکیل، اخبار نویس، سیاستدان اس ناول میں اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جزنگاری کی اوج یہ کہ گاؤں میں ہونے والی تمام تقریبات خواہ بارات ہو، سالانہ عرس ہو، کبڈی کے مقابلے ہوں، روایتی پنچایت ہویا کوئی جلسہ، ہر واقعہ اپنی منسلک جزئیات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگر منظر کسی شہر کا ہے تو شہریوں کی مخصوص ذہنی اپچ، رہن سہن، موقع پرستی، شر انگیزی، دیگر خصائل من و عن پیش کئے گئے ہیں جیسا کہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ منشا یاد کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ زندگی کو اسی انداز میں پیش کرتے ہیں جیسی وہ بسر ہوتی ہے، ویسی نہیں جیسا اسے ہونا چاہیئے۔ انہوں نے اپنے ہیرو کو عام آدمی ہی رہنے دیا اسے سپر مین نہیں بنادیا۔ اگر آپ دیہات کا ذکر پڑھ رہیں تو آپ خود کو دیہات میں سانس لیتا پائیں گے اگر منظر کسی شہر کا ہے تو اس میں شہریت درجہ اتم نظر آتی ہے۔ اس منظر نامے میں قیام پاکستان کے وقت کی ہنگامہ خیزیاں بھی اپنی تمام تر خونخواری کے ساتھ موجود ہیں۔ ان تمام واقعات میں منشا یاد کے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی شامل ہوں گے تبھی یہ تحریر انتہائی پر اثر ہوئی۔ روایتی چودہریوں اور ملکوں کا اپنے مزارعوں سے سلوک، اپنے سے کم تر انسانوں کی بے عزتی، جھوٹے مقدمات، سازشیں، بے جا مداخلت، جعلی پیر، لڑکیوں کا اغواء غرض اس پورے منظر نامے میں معاشرے کی ایک انتہائی گھمبیر شکل دکھائی گئی ہے۔ جہاں ایک طرف ہمیں یہ گھناؤنی حقیقت نظر آتی ہے وہیں ہمیں اس ناول میں وہ تمام اقدار بھی نظر آتی ہیں جن کی بناء پر آج بھی ہمارا معاشرہ کسی نہ کسی طور قائم ہے۔ روایتی سادگی ، مہمان نوازی، دریا دلی، وعدہ نبھانا، دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھنا، ہمسایوں کا رشتہ داروں سے بڑھ کر خیال رکھنا، بے لوث خدمت، گاؤں کے ہر فرد کو اپنا سمجھنا، کڑے وقت میں تمام برادری کا متحد ہونا۔ نظام کو بدلنے کی لگن، دوستی، وفا ۔ اس ناول میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں جو اسے ایک بہت بڑا ناول بناتے ہیں۔

منشا یاد نے اس ناول میں ایسے لازوال کردار تخلیق کئے ہیں جو ذہنوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں۔ مثبت ہوں یا منفی ، تمام کردار اپنی جملہ خصوصیات سمیت موجود ہیں۔ اس ناول کا ہیرو خالد نامی شخص ہے جو روایتی کرداروں کی طرح خوبصورت ، ذہین، محنتی ،نرم دل ، بے لوث اور خوش قسمت ہے(ماسوائے محبت کے معاملات کے)ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک عام انسان بھی ہے۔ جو کبھی کبھار جذباتی فیصلے بھی کرتا ہے۔ خالد کا تعلق چاہ خورد کے ایک انتہائی دین دار اور نیک نام خانوادے سے ہے جن کی زمینوں پر قبضہ ہو چکاہے۔ اس کا ایک بھائی جو دماغی مرض کا شکار ہے اغوا کر لیا جاتا ہے، اس کی ایک بیوہ بہن ہے جو گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی ہے۔ وہ انتہائی کڑی محنت سے ، تمام نامساعد حالات کا مقابلہ کرتاہے۔ اور ایک اچھا مقام حاصل کرتا ہے۔ وہ دریا آباد نامی قصبے میں ایک نامی وکیل کی حیثیت سے اپنا مقام بناتا ہے۔ اس کے بعد وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے اور روایتی سیاستدانوں کے آگے بے بس ہو کر اپنا ذہنی توازن ہی کھو دیتا ہے۔ مجھے منشا یاد کی اس بات نے بہت متاثر کیا کہ ہر ناول روایتی کہانیوں کی طرح Happy Endingsپر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس میں زندگی کی تمام تر کٹھنائیاں بھی دکھائی جا سکتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں ایک عام انسان جس دشواری سے گزرتا ہے اس کی بھی عکاسی کی جاسکتی ہے۔ اس ناول میں ہیروئین کا کردار فرح نامی لڑکی نے ادا کیا ہے۔ وہ بھی ہمارے معاشرے سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی لڑکی ہے مگر وہ ان تمام لڑکیوں سے کہیں زیادہ حوصلہ مند اور ثابت قدم ہے کہ اپنے خالد کے انتظار میں وہ ساری عمر بتا دیتی ہے، خود گھل جاتی ہے مگر خالد کے لئے ہمیشہ ایک گرم جوشی و التفات کا ذریعہ ہے۔ ان دونوں کی محبت حسرت موہانی کی شاعری میں موجود رومان کی طرح ہے کہ عاشق تو دل دینے کے لئے بے تاب ہے مگر محبوب بے اعتنائی برت رہا ہے۔ آخر کا جب عاشق اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے تو محبوب بہت دیر میں اس کے جذبات کو سمجھتا ہے، مگر جب وہ اس کو اپنا مان لیتا ہے تو تمام عمر صرف اسی کے انتظارمیں گزاردیتا ہے۔ اگرچہ دونوں کاملن اس کہانی میں ممکن نہیں ہو پاتا مگر ان کا آپس میں اظہار محبت، دونوں کے درمیان کی کیمسٹری، چھپن چھپائی جیسا پیار، ہر ادا، ہر منظر دل میں جیسے کھب سا جاتا ہے۔ اس ناول کا انجام تمام ناولوں مے مختلف ہے مگر مجموعی دلچسپی کم نہیں ہو پاتی۔ کہانی کو تیسرا اہم کردار نجمہ عرف نجی سناری کا ہے جو چاہ کلاں کے سناروں کی بیٹی ہے۔ایک عجیب مگر دلچسپ اتفاق کے تحت وہ خالد سے یک طرفہ محبت شروع کر دیتی ہے۔ بلکہ اس کے نام پر دھوکے سے بلا کر اغوا کر لی جاتی ہے اور تہی دامن ہو جاتی ہے۔ گو بعد میں اس کا اغوا کار اس سے نکاح کر لیتا ہے تاہم نجی جس کرب سے گزرتی ہے اسے الفاظ کا قالب میں ڈھالنا صرف منشا صاحب کا خاصہ ہے۔ نجی خالد کے لئے بدنام ہوگئی، برباد ہوگئی مگر خالد نے اسے دیکھا تک نہیں۔ ایک بڑا دلچسپ موقعہ جب خالد کے تمام دوست نجمہ کو دیکھنے کے بہانے اس کے گھر جاتے ہیں گو خالد ان کا ساتھ نجی کے گاؤں آتا ہے مگر وہاں جا کر سو جاتا ہے۔ کہانی میں بہت بعد جب وہ اسے دیکھتا ہے تو تاسف کا اظہار کرتا ہے کہ اگر اسے دیکھ لیتا تو شاید وہ اسی کے ساتھ اپنی زندگی گزار لیتا۔ اس وقت تک تو وہ فرح کی زلفوں کا اسیر بھی نہیں ہوا تھا۔ تاہم یہ سوچ بھی اسے ایک عام آدمی ظاہر کرتی ہے جو اپنے فیصلوں پر پچھتاتا بھی ہے اور انہیں غلط بھی تسلیم کرتاہے، اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ خالد کا دوست انور اس کہانی کے اخیر تک ہر چیز میں خالد کا شریک ، ممد و معاون ہے۔ بعد میں وہ نجی سے شادی کر لیتا ہے اور تب بتاتا ہے کہ وہ پہلے دن سے ہی نجی کو پسند کرتاہے۔ انور دریا آباد میں کاروبار شروع کرتا ہے اور ملکوں اور چودھریوں کے ستائے ہوئے دیہاتیوں کو نوکریاں دیتا ہے۔ انور کا بڑا بھائی عباس عرف باسو کبڈی کا بہت بڑا کھلاڑی ، خالد کا بہنوئی بن جاتا ہے۔ خالد یہ رشتہ تمام گاؤں برادری سے لڑ کر کرتا ہے۔ باسو کے اندر کا کھلاڑی تمام عمر اپنی چھب دکھلاتا ہے۔ گاؤں کے چودھریوں کے ذاتی انتقام کا نشانہ اس کی ٹانگ کٹنے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس ناول میں جہاں پنجاب کے روایتی کردار اپنی سادہ لوحی اور وفا شعاری کے ساتھ نظر آتے ہیں وہیں کریہہ صورت و کردار وڈیرے، جعلی پیر، نااہل پولیس، بکاؤ صحافی ، روایتی سیاستدان تمام کے تمام اپنی منسلکہ برائیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ خالد کی بیوی کا کردار بھی اس کہانی میں ایک اہم موڑ رکھتا ہے۔ سادہ لوح مگر ایک انتہائی دین دارمگر اس کی خالد سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی متاہلانہ زندگی انتہائی بے کیف گزرتی ہے۔ خالد صرف اور صرف انسانی جذبے کے تحت نجی سناری کی بیٹی کو اپنے گھر پر رکھ لیتا ہے اس کی تعلیم کا ذمہ لیتا ہے گو بعد میں اس کی یہی نیکی اس کے گلے پڑتی ہے۔

جب ایک اچھے کھلاڑی کو عمدہ کھیل پیش کرنے پر انعام کی بجائے سزا دی جائے، مثالی حسن کے نمونے کو روند کر تباہ حال کر دیا جائے، ذہین اور پڑھاکو بچوں کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں، نیک اور بے غرض لوگوں پر جھوٹے مقدمات بنا دئیے جائیں، انسانی ہمدردی کو بوالہوسی کا نام دے دیا جائے، رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جائے، نااہل لوگ پیسے اور ذاتی تعلقات پر بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں، اس مٹی سے محبت کرنے والوں پر رقیق الزام لگا کر انھیں پاگل کر دیا جائے، تو ذہن میں ایک انتہائی گھناؤنی تصویر ابھرتی ہے۔ ہجرت کے زخم پھر تازہ ہوجاتے ہیں۔ ذہانت، حب الوطنی، ہمدردی و ایثار کے پیکر کے پیکر کو اس معاشرے کے ناسور عوامل جن میں جھوٹے پیر، وڈیرے، زرد صحافت کے علمبردار، بے کردار سیاستدان مل کر مٹی پھنکوا دیتے ہیں اور پتھر چبوانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خالد کی زندگی کے بہت سے پہلو ہمارے سامنے آئے، جذباتی وابستگی کے، بے کیفی کے، جدوجہد کے، الزامات کے، مگر وہ اجتماعی بھلائی Greater Good لے لئے ہمہ تن جدوجہد میں مصروف رہا۔ اس نے اس تباہ حال اور کینسر زدہ نظام کو کس کس طرح بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کتنے خارزار رستوں پر چلا، کبھی اپنی آپا کے لئے ساری برادری کی مخالفت مول لی، کبھی اپنے بچوں کے لئے اپنی محبت قربان کی، کبھی ایک مظلوم بچی کے لئے اپنی بیوی تک کی ناراضگی برداشت کی،صرف اور صرف ان انسانی قدروں کے لئے جو تیزی سے معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ عارف عبدالمتین خالد کی جدوجہد کو ایک شعر میں یوں سمیٹتے ہیں:

سپنا دیکھتے دیکھتے ہو گئے ہم تو سپنا آپ
چلتے چلتے کچھ ایسے تھکے کہ با قی رہی نہ چاپ

سو وہ سر زمین جس کے لئے ہم نے اتنی قربانیاں دیں وہ کہاں ہے، کیا یہی کچھ ہونا ہمارا مقدر ہے۔اگر آپ خالد ہیں اور کسی حسین چہرے کی طرف مائل ہیں تو یہ حسن کہولت میں بدل جائے گا، اور اگر آپ کسی جمہوری معاشرے کی طلب لئے ہوئے ہیں تو جلد ہی کسی موڑ پر ریت پھانکتے نظر آئیں گے۔اگر آپ اچھے کھلاڑی ہیں تو آپ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گی، اگر آپ حسین ہیں تو آپ کو اس کی سزا دی جائے گی، اگر آپ ایک اچھے گلوکار ہیں تو اپنا شوق صرف میلوں ٹھیلوں میں گانے گا کر پورا کر لیں ۔ ورنہ اٹھیں اور خالد کی طرح اپنی حالت بدلنے کی کوشش کریں۔اس معاشرے اور اس نظام کے لئے بغاوت پیدا کریں کہ ہم یہ ظلم اپنے ساتھ نہیں ہونے دیں گے ہم ایک اور خالد یا نجی نہیں بنیں گے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عارنہیں کہ اس مٹی کی محبت اور اس نظام کو بدلنے کا پیغام جس طرح منشایاد نے اس تحریر کے ذریعے دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ راہیں کی صورت میں اردو زبان میں ایک نہایت اچھے ناول کا اضافہ ہو گیا ہے اور میری رائے میں جب تک اردو زبان زندہ ہے، اس ناول کے تذکرے کے بغیر اس کی تاریخ ادھوری ہے۔
 
بھائی چوہدری لیاقت علی صاحب۔ معاملہ چونکہ ادب کا ہے اس لئے محض رکارڈ کی درستی کے لئے آپ کا تمام تر احترام ملحوض رکھتے ہوئے ایک تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ" میگویئل سروانتے" انگریز نہیں بلکہ ہسپانوی تھے اور ان کا ناول "ڈان کے حوٹے" ہسپانوی ہی میں لکھا گیا تھا۔ یہ البتہ "شیکسپیر" کے ہم عصر تھے۔ " شیکسپیر " کا ڈرامہ " ہیملٹ" اور " سروانتے " کا ناول " ڈان کے حوٹے" ایک ہی سال چھپے تھے۔ دونوں کا 1616 میں انتقال ہوا " سروانتے " کا 22 اپریل کو اور "شیکسپیر " کا 23 اپریل کو۔ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ دونوں کا انتقال 23 اپریل ہی کو ہوا تھا۔
 
بجا فرمایا۔ میں نے جو فائل مختلف رسائل کو بھیجی ہے اس میں اب 'انگریزی زبان کے ابتدائی ناول ' کی جگہ عالمی سطح پر جو ناول ابتداً منصہ شہود پر آئے۔ کر دیا ہے۔ اصلاح کا شکریہ۔ جزاک اللہ خیر
 
Top