راہیں تھیں سنگ لاخ،شناسائی بھی نہ تھی (غزل)۔،۔،۔،،،

راہیں تھیں سنگ لاخ شناسائی بھی نہ تھی
اس پر ستم کہ مجھ میں توانائی بھی نہ تھی

کس فرقے میں شمار مری ذات ہر یہاں
ظالم اگر نہ تھی تو تماشائی بھی نہ تھی

آواز آ رہی تھی جو دل کے مقام سے
ماتم اگر نہیں تو یہ شہنائی بھی نہ تھی

کیسے نہ جانے غم کی تمازت میں بچ گئی
لڑکی گلاب سی گل صحرائی بھی نہ تھی

آخر مسل ہی دی گئی معصوم سی کلی
بچپن پہ اپنے وہ ابھی اترائی بھی نہ تھی

مانا کہ زہد حضرت یوسف نہ مجھ میں تھا
نوشی ! مگر دلیری زلیخائی بھی نہ تھی۔
 
بہت خوب بہت شاندار غزل ہے
بچپن پر اترانا قرین قیاس محسوس نہیں ہو رہا، ہاں جوبن پر اترایا جاتا ہے،
وسلام
بہت خوب بہت شاندار غزل ہے
بچپن پر اترانا قرین قیاس محسوس نہیں ہو رہا، ہاں جوبن پر اترایا جاتا ہے،
وسلام
بہت خوب بہت شاندار غزل ہے
بچپن پر اترانا قرین قیاس محسوس نہیں ہو رہا، ہاں جوبن پر اترایا جاتا ہے،
وسلام
غزل کی پسندیدگی کے لیے شکریہ۔
کچھ میرے جیسے ہوتے ہیں نا۔جو جب چاہیں اپنی کسی بھی چیز یا بات پر اترا سکتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مانا کہ زہد حضرت یوسف نہ مجھ میں تھا
نوشی ! مگر دلیری زلیخائی بھی نہ تھی

پوری غزل ہی خوب ہے۔ لیکن مقطع تو کمال کا ہے۔ بہت خوب!
 
Top