فرخ منظور
لائبریرین
غزل
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ خراباتوں میں
یارب! اس چاند کے ٹکڑے کو کہاں سے لاؤں
روشنی جس کی ہو ان تاروں بھری راتوں میں
تمہیں انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لطف اُن باتوں میں آتا ہے کہ اِن باتوں میں
دوڑ کر دستِ دعا ساتھ دعا کے جاتے
ہائے پیدا نہ ہوئے پاؤں میرے ہاتھوں میں
جلوۂ یار سے جب بزم میں غش آیا ہے
تو رقیبوں نے سنبھالا ہے مجھے ہاتھوں میں
ایسی تقریر سنی تھی نہ کبھی شوخ و شریر
تیری آنکھوں کے بھی فتنے ہیں تری باتوں میں
ہم سے انکار ہوا، غیر سے اقرار ہوا
فیصلہ خوب کیا آپ نے دو باتوں میں
ہفت افلاک ہیں لیکن نہیں کھُلتا یہ حجاب
کونسا دشمنِ عشّاق ہیں ان ساتوں میں
اور سنتے ابھی رندوں سے جنابِ واعظ
چل دئیے آپ تو دو چار صلٰواتوں میں
ہم نے دیکھا انہیں لوگوں کو ترا دم بھرتے
جن کی شہرت تھی یہ ہرگز نہیں ان باتوں میں
بھیجے دیتا ہے انہیں عشق متاعِ دل و جاں
ایک سرکار لُٹی جاتی ہے سوغاتوں میں
دل کچھ آگاہ تو ہو شیوۂ عیاری سے
اس لئے آپ ہم آتے ہیں تری گھاتوں میں
وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صبح ہوئی اُن کی مداراتوں میں
وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغ
رات بھر اب تو گزرتی ہے مناجاتوں میں
(داغ دہلوی)
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ خراباتوں میں
یارب! اس چاند کے ٹکڑے کو کہاں سے لاؤں
روشنی جس کی ہو ان تاروں بھری راتوں میں
تمہیں انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لطف اُن باتوں میں آتا ہے کہ اِن باتوں میں
دوڑ کر دستِ دعا ساتھ دعا کے جاتے
ہائے پیدا نہ ہوئے پاؤں میرے ہاتھوں میں
جلوۂ یار سے جب بزم میں غش آیا ہے
تو رقیبوں نے سنبھالا ہے مجھے ہاتھوں میں
ایسی تقریر سنی تھی نہ کبھی شوخ و شریر
تیری آنکھوں کے بھی فتنے ہیں تری باتوں میں
ہم سے انکار ہوا، غیر سے اقرار ہوا
فیصلہ خوب کیا آپ نے دو باتوں میں
ہفت افلاک ہیں لیکن نہیں کھُلتا یہ حجاب
کونسا دشمنِ عشّاق ہیں ان ساتوں میں
اور سنتے ابھی رندوں سے جنابِ واعظ
چل دئیے آپ تو دو چار صلٰواتوں میں
ہم نے دیکھا انہیں لوگوں کو ترا دم بھرتے
جن کی شہرت تھی یہ ہرگز نہیں ان باتوں میں
بھیجے دیتا ہے انہیں عشق متاعِ دل و جاں
ایک سرکار لُٹی جاتی ہے سوغاتوں میں
دل کچھ آگاہ تو ہو شیوۂ عیاری سے
اس لئے آپ ہم آتے ہیں تری گھاتوں میں
وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صبح ہوئی اُن کی مداراتوں میں
وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغ
رات بھر اب تو گزرتی ہے مناجاتوں میں
(داغ دہلوی)