جاوید اختر راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے

سیما علی

لائبریرین
کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے

جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے

ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے
مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے

راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے

ایک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے

اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں
میری ہر سانس ترے نام لکھی ہو جیسے

جاوید اختر
 
Top