راحیل فاروق
محفلین
خیامؔ کو بہت لوگ جانتے ہیں۔ مگر بہت کم جانتے ہیں۔
وہ اپنی زندگی میں شاعر کے طور پر معروف نہیں تھا۔ یہ آگ تو اس نے اپنی موت کے مدتوں بعد لگائی ہے۔ زندگی میں البتہ خود سلگتا رہا ہو گا۔ مجھے ایسا اس کی رباعیات پڑھ کر لگتا ہے۔ زندگی کی بےثباتی اور انسان کی بےبضاعتی کا جیسا دردمندانہ نقشہ وہ کھینچ گیا ہے شاید دنیا میں پھر نہ کھنچ سکے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ خیامؔ کے افکار اسلامی تعلیمات سے اکثر ٹکراتے ہیں۔ مگر اسی ایمانداری کا تقاضا مجھے یہ تسلیم کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ یہ آدمی کو خدا کے قریب لے آتے ہیں۔ اس کے افکار صحتمندانہ البتہ نہیں ہیں۔ ان میں فنا کا ایسا ہیبتناک جلوہ ہے جو بڑےبڑوں کا پتا پانی کر دینے کو کافی ہے۔ نتیجتاً ایک ایسی بےلگام فراریت بھی ایسی اس کے ہاں پیدا ہو گئی ہے جس کے آگے آنے والی ہر اخلاقی دلیل اپنی آبرو کھو بیٹھتی ہے۔
خیامؔ کے سوانح مشکوک ہیں۔ اس کے عقائد متنازع ہیں۔ اکثر رباعیات کی اس سے نسبت بھی مشتبہ ہے۔
مگر باایںہمہ ہومر کی طرح خیامؔ بھی ایک واہمے کی سی لطافت اور قوت کے ساتھ زمانے کے اعصاب پر سوار ہے۔ میں خیامؔ کی ذات کو اتنا ہی جانتا ہوں اور یہ مجھے کافی ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا اگر کوئی محقق کل ثابت کر دے کہ تمام رباعیاتِ خیامؔ دراصل ایران کی لوکدانش کا شہکار ہیں اور خیامؔ نے ایک رباعی بھی نہیں کہہ رکھی۔
خیامؔ کی رباعیات انسان کا کائنات اور ربِ کائنات کے خلاف عاجزانہ احتجاج ہیں۔ خیامؔ سرکش ہے مگر اپنی اوقات پہچانتا ہے۔ وہ چیختا ہے مگر توڑپھوڑ نہیں کرتا۔ روتا ہے مگر آنسوؤں کو شراب کی طرح پی لینے کا ذوق بھی رکھتا ہے۔ ماتم کرتا ہے مگر زنجیرزنی نہیں کرتا۔ طنز کرتا ہے مگر آنکھیں نہیں ملاتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے خیامؔ ابلیس کا اوتار تھا۔ کمبخت عارف بھی بلا کا تھا اور سرکش بھی۔
میری خواہش ہو گی کہ میں اس دھاگے میں خیامؔ کی چیدہ چیدہ رباعیات مع تراجم و تفہیم کے پیش کروں۔ ترجمے میرے اپنے ہوں گے۔ بلکہ ممکن ہے یہ خیامؔ بھی میرا اپنا ہی ہو۔ اپنی تمام تر لسانی اور علمی بےبضاعتی کا مجھے اعتراف ہے۔ مگر دراصل یہ افکار کم اور احساسات زیادہ ہیں جن کے اظہار کا بیڑا میں اٹھانے جا رہا ہوں۔ اس لیے عذرخواہی ضروری نہیں سمجھتا۔
ملاحظہ ہو پہلی رباعی۔
خدا کی قہاری اور انسان سے اس کے قادرانہ رشتے کا بیان ہے۔ جام سے مراد انسان ہے اور کوزہگر سے خدا۔
فرماتے ہیں کہ ایک جام یعنی بشر ہے کہ عقل اس کی نزاکت و لطافت پر آفریں پکار اٹھتی ہے۔ عقل والے جب انسان کی ذات پر غور کرتے ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ کیا شے قادرِ مطلق نے بنائی ہے۔ اس کے بدن کی ساخت سے لے کر ذہن و قلب کی گہرائیوں تک جدھر جدھر نگاہ جاتی ہے آفریں آفریں کا شور اٹھتا ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہے کہ عقل کو گویا خدا کے اس شہکار پہ اتنا پیار آتا ہے کہ وہ اس کے بوسے لینے لگتی ہے۔ یعنی عالمِ بشریت کی نیرنگیوں پر غور کرنے سے ہمیں انسان سے محبت ہو جاتی ہے۔
پھر خیامؔ پینترا بدلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس جام کو بنانے والے کوزہگر کے رنگ بھی ذرا ملاحظہ ہوں۔ وہ ایسے لطیف اور خوبصورت جام کو بناتا ہے اور بنا چکنے کے بعد، عقل کو انگشتبدنداں کر دینے کے بعد۔۔۔۔ اسے نہایت بےدردی سے زمین پر دے مارتا ہے!
ان دو مصرعوں میں انسان کے انجام کا بیان ہے۔ یعنی خدا اپنی اس قدر خوبصورت اور حیرانکن تخلیق جسے ہم انسان کے نام سے جانتے ہیں کی تمامتر رعنائی اور دلکشی سے اس قدر بےنیاز ہے کہ جب وہ اسے کامل کر چکتا ہے تو اٹھا زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ زمین پر دے مارنے سے مراد سے مراد موت بھی ہو سکتی ہے اور گردشِ روزگار بھی۔ ہر دو صورت میں انسان پر رحم آتا ہے اور خدا سے خوف۔
(جاری ہے)
وہ اپنی زندگی میں شاعر کے طور پر معروف نہیں تھا۔ یہ آگ تو اس نے اپنی موت کے مدتوں بعد لگائی ہے۔ زندگی میں البتہ خود سلگتا رہا ہو گا۔ مجھے ایسا اس کی رباعیات پڑھ کر لگتا ہے۔ زندگی کی بےثباتی اور انسان کی بےبضاعتی کا جیسا دردمندانہ نقشہ وہ کھینچ گیا ہے شاید دنیا میں پھر نہ کھنچ سکے۔
ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ خیامؔ کے افکار اسلامی تعلیمات سے اکثر ٹکراتے ہیں۔ مگر اسی ایمانداری کا تقاضا مجھے یہ تسلیم کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ یہ آدمی کو خدا کے قریب لے آتے ہیں۔ اس کے افکار صحتمندانہ البتہ نہیں ہیں۔ ان میں فنا کا ایسا ہیبتناک جلوہ ہے جو بڑےبڑوں کا پتا پانی کر دینے کو کافی ہے۔ نتیجتاً ایک ایسی بےلگام فراریت بھی ایسی اس کے ہاں پیدا ہو گئی ہے جس کے آگے آنے والی ہر اخلاقی دلیل اپنی آبرو کھو بیٹھتی ہے۔
خیامؔ کے سوانح مشکوک ہیں۔ اس کے عقائد متنازع ہیں۔ اکثر رباعیات کی اس سے نسبت بھی مشتبہ ہے۔
مگر باایںہمہ ہومر کی طرح خیامؔ بھی ایک واہمے کی سی لطافت اور قوت کے ساتھ زمانے کے اعصاب پر سوار ہے۔ میں خیامؔ کی ذات کو اتنا ہی جانتا ہوں اور یہ مجھے کافی ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا اگر کوئی محقق کل ثابت کر دے کہ تمام رباعیاتِ خیامؔ دراصل ایران کی لوکدانش کا شہکار ہیں اور خیامؔ نے ایک رباعی بھی نہیں کہہ رکھی۔
خیامؔ کی رباعیات انسان کا کائنات اور ربِ کائنات کے خلاف عاجزانہ احتجاج ہیں۔ خیامؔ سرکش ہے مگر اپنی اوقات پہچانتا ہے۔ وہ چیختا ہے مگر توڑپھوڑ نہیں کرتا۔ روتا ہے مگر آنسوؤں کو شراب کی طرح پی لینے کا ذوق بھی رکھتا ہے۔ ماتم کرتا ہے مگر زنجیرزنی نہیں کرتا۔ طنز کرتا ہے مگر آنکھیں نہیں ملاتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے خیامؔ ابلیس کا اوتار تھا۔ کمبخت عارف بھی بلا کا تھا اور سرکش بھی۔
میری خواہش ہو گی کہ میں اس دھاگے میں خیامؔ کی چیدہ چیدہ رباعیات مع تراجم و تفہیم کے پیش کروں۔ ترجمے میرے اپنے ہوں گے۔ بلکہ ممکن ہے یہ خیامؔ بھی میرا اپنا ہی ہو۔ اپنی تمام تر لسانی اور علمی بےبضاعتی کا مجھے اعتراف ہے۔ مگر دراصل یہ افکار کم اور احساسات زیادہ ہیں جن کے اظہار کا بیڑا میں اٹھانے جا رہا ہوں۔ اس لیے عذرخواہی ضروری نہیں سمجھتا۔
ملاحظہ ہو پہلی رباعی۔
جامےست کہ عقل آفریں می زندش
ایک جام ہے کہ عقل اس پر عشعش کر اٹھتی ہے
صد بوسہ ز مہر بر جبیں می زندش
اس کے ماتھے پہ محبت سے سیکڑوں بوسے دیتی ہے
ایں کوزہگرِ دہر چنیں جامِ لطیف
یہ دنیا کا کوزہ گر ایسے لطیف جام کو
می سازد و باز بر زمیں می زندش
بناتا ہے اور پھر زمین پر دے مارتا ہے
مفہوم:ایک جام ہے کہ عقل اس پر عشعش کر اٹھتی ہے
صد بوسہ ز مہر بر جبیں می زندش
اس کے ماتھے پہ محبت سے سیکڑوں بوسے دیتی ہے
ایں کوزہگرِ دہر چنیں جامِ لطیف
یہ دنیا کا کوزہ گر ایسے لطیف جام کو
می سازد و باز بر زمیں می زندش
بناتا ہے اور پھر زمین پر دے مارتا ہے
خدا کی قہاری اور انسان سے اس کے قادرانہ رشتے کا بیان ہے۔ جام سے مراد انسان ہے اور کوزہگر سے خدا۔
فرماتے ہیں کہ ایک جام یعنی بشر ہے کہ عقل اس کی نزاکت و لطافت پر آفریں پکار اٹھتی ہے۔ عقل والے جب انسان کی ذات پر غور کرتے ہیں تو حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ کیا شے قادرِ مطلق نے بنائی ہے۔ اس کے بدن کی ساخت سے لے کر ذہن و قلب کی گہرائیوں تک جدھر جدھر نگاہ جاتی ہے آفریں آفریں کا شور اٹھتا ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہے کہ عقل کو گویا خدا کے اس شہکار پہ اتنا پیار آتا ہے کہ وہ اس کے بوسے لینے لگتی ہے۔ یعنی عالمِ بشریت کی نیرنگیوں پر غور کرنے سے ہمیں انسان سے محبت ہو جاتی ہے۔
پھر خیامؔ پینترا بدلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس جام کو بنانے والے کوزہگر کے رنگ بھی ذرا ملاحظہ ہوں۔ وہ ایسے لطیف اور خوبصورت جام کو بناتا ہے اور بنا چکنے کے بعد، عقل کو انگشتبدنداں کر دینے کے بعد۔۔۔۔ اسے نہایت بےدردی سے زمین پر دے مارتا ہے!
ان دو مصرعوں میں انسان کے انجام کا بیان ہے۔ یعنی خدا اپنی اس قدر خوبصورت اور حیرانکن تخلیق جسے ہم انسان کے نام سے جانتے ہیں کی تمامتر رعنائی اور دلکشی سے اس قدر بےنیاز ہے کہ جب وہ اسے کامل کر چکتا ہے تو اٹھا زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ زمین پر دے مارنے سے مراد سے مراد موت بھی ہو سکتی ہے اور گردشِ روزگار بھی۔ ہر دو صورت میں انسان پر رحم آتا ہے اور خدا سے خوف۔
(جاری ہے)