وجاہت حسین
محفلین
ایک حقیر سی کوشش ہے۔ چند رباعیات پیشِ خدمت ہیں۔
ناچار سے، مجبور سے، پڑھ لیں گے سلام
ہم سینہِ رنجور سے پڑھ لیں گے سلام
گو فکرِ معاش میں ہیں جکڑے حافظؔ
اس سال بھی ہم دور سے پڑھ لیں گے سلام
دیکھو ذرا دل کو، کیا نظارہ ہے!
پتھر کا جبل کیوں پارہ پارہ ہے؟
کیوں پھوٹ رہے ہیں یہ غزل کے چشمے؟
کیا عشق کے موسی نے عصا مارا ہے؟
دل حُسن کے جنگل میں لیے تِیر گیا،
پہنے زِرہ مع خنجر و شمشیر گیا،
جب مستِ شکار اِس نے نشانہ باندھا،
تب عشق کا شیر آکے اِسے چیر گیا،
کرتا ہے عشق حال ایسا واللہ
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
چیخے کوئی رام رام مسجد جا کر
مندر میں کرے کوئی اللہ اللہ
تیرے دل پر اگر سیاہی ہوگی
اے عشق کے یوسف! یہ تباہی ہوگی
بچ نکلا نفس کے کنویں سے گر تُو
تو مصر پہ تیری بادشاہی ہوگی
پاؤ گے سایہ نہ کہیں پر صاحب
ہو گرچہ محراب جبیں پر صاحب
محشر میں اگر قدموں پر چلنا ہے
تو سر کے بل چلو زمیں پر صاحب
لکھتا ہے جو وجود کے زیر و بم،
بے شک یہ ہے حافظؔ پر اللہ کا کرم
ہو بات ہنر کی تو اٹھائے نہ اٹھے
فیضانِ مروتؔ ہے جو چلتا ہے قلم
(مروتؔ احمد میرے استادِ محترم کا اسمِ گرامی ہے)
ناچار سے، مجبور سے، پڑھ لیں گے سلام
ہم سینہِ رنجور سے پڑھ لیں گے سلام
گو فکرِ معاش میں ہیں جکڑے حافظؔ
اس سال بھی ہم دور سے پڑھ لیں گے سلام
دیکھو ذرا دل کو، کیا نظارہ ہے!
پتھر کا جبل کیوں پارہ پارہ ہے؟
کیوں پھوٹ رہے ہیں یہ غزل کے چشمے؟
کیا عشق کے موسی نے عصا مارا ہے؟
دل حُسن کے جنگل میں لیے تِیر گیا،
پہنے زِرہ مع خنجر و شمشیر گیا،
جب مستِ شکار اِس نے نشانہ باندھا،
تب عشق کا شیر آکے اِسے چیر گیا،
کرتا ہے عشق حال ایسا واللہ
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
چیخے کوئی رام رام مسجد جا کر
مندر میں کرے کوئی اللہ اللہ
تیرے دل پر اگر سیاہی ہوگی
اے عشق کے یوسف! یہ تباہی ہوگی
بچ نکلا نفس کے کنویں سے گر تُو
تو مصر پہ تیری بادشاہی ہوگی
پاؤ گے سایہ نہ کہیں پر صاحب
ہو گرچہ محراب جبیں پر صاحب
محشر میں اگر قدموں پر چلنا ہے
تو سر کے بل چلو زمیں پر صاحب
لکھتا ہے جو وجود کے زیر و بم،
بے شک یہ ہے حافظؔ پر اللہ کا کرم
ہو بات ہنر کی تو اٹھائے نہ اٹھے
فیضانِ مروتؔ ہے جو چلتا ہے قلم
(مروتؔ احمد میرے استادِ محترم کا اسمِ گرامی ہے)