رباعی

La Alma

لائبریرین
ایفا کوئی وعدۂ عدم کر جائیں
آؤ عہدِ الست ہم دہرائیں
شاید کچھ بندگی کا رہ جائے بھرم
گر یزداں کی خبر، بُتاں سے لائیں​
 
ایفا کوئی وعدۂ عدم کر جائیں
آؤ عہدِ الست ہم دہرائیں
شاید کچھ بندگی کا رہ جائے بھرم
گر یزداں کی خبر، بُتاں سے لائیں​
لا المیٰ صاحبہ ، آپ کی رباعی نظر نواز ہوئی . زبان پر ماشاء اللہ آپ کو عبور حاصل ہے لہٰذا بندشیں تو چست معلوم ہوتی ہیں ، لیکن گستاخی معاف ، مجھے یہاں کچھ مسائل نظر آئے .
ایک تو یہ کہ یاسر صاحب کی طرح میری فہم کی رسائی بھی مفہوم تک نہیں ہو سکی .
دوسرے یہ کہ لفظ ’بتاں‘ اساتذہ كے كلام میں مرکّبات میں دیکھا گیا ہے ، تنہا نہیں . ہاں ، آپ کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہو تو بات الگ ہے . :) یہاں تو قافیہ کی مجبوری بھی نہیں ہے پِھر آپ نے ’ بتوں‘ کیوں نہیں استعمال کیا ؟
تیسرے یہ کہ مجھے مصرعوں كے اوزان بھی سمجھ میں نہیں آئے . مجھے لگتا ہے آپ نے اَخْرَب اور اخرم ارکان ملا دئے ہیں ، جو کم اَز کم مجھے غیر مانوس لگا . ممکن ہے میرا مشاہدہ غلط ہو . رباعی میں میری دلچسپی کم ہے لہذا اِس شعبے میں میرا مطالعہ بھی محدود ہے .
 

La Alma

لائبریرین
رباعی چونکہ سمجھ میں نہیں آئی چنانچہ اچھی ہوگی ۔

ایک تو یہ کہ یاسر صاحب کی طرح میری فہم کی رسائی بھی مفہوم تک نہیں ہو سکی .
میرا نہیں خیال تھا کہ مفہوم تک پہنچنے میں کوئی ایسی مشکل درپیش ہو گی۔ یقینًا بیان میں ہی کوئی نقص رہا ہو گا جو ابلاغ نہیں ہو پایا۔
کہنا یہ مقصود تھا کہ خدا سے کیے گئے عہد کی پاسداری کا لحاظ تو بہرحال ہم پر لازم ہے اور ہم اس کا وقتاً فوقتاً اعادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بندگی کا تقاضا اسکے سوا کچھ اور بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان کچھ ایسا کر جائے کہ جھوٹی خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی خدا کے ہونے کی گواہی دیں۔

دوسرے یہ کہ لفظ ’بتاں‘ اساتذہ كے كلام میں مرکّبات میں دیکھا گیا ہے ، تنہا نہیں .
آپ درست کہہ رہے ہیں یہ زیادہ تر ترکیب میں ہی استعمال ہوا ہے۔ لیکن شاید مفرد حالت میں بھی اس کا استعمال روا ہی ہے۔
“بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا

وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا”
(میر تقی میر)
تیسرے یہ کہ مجھے مصرعوں كے اوزان بھی سمجھ میں نہیں آئے . مجھے لگتا ہے آپ نے اَخْرَب اور اخرم ارکان ملا دئے ہیں ، جو کم اَز کم مجھے غیر مانوس لگا .
مجھے اخرب اور اخرم کے متعلق کچھ علم نہیں۔ بس کچھ واجبی سی معلومات ہیں کہ رباعی شاید اتنی پابند نہیں اور اس کے مختلف اوزان کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس رباعی کے اوزان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، رباعی کے شجرہ اخرب اور اخرم کے اوزان ایک ہی رباعی میں بلا تکلف جمع کیے جا سکتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں ڈھونڈنے پر اساتذہ کی رباعیات بھی مل جائیں گی، سر دست میرزا یاس یگانہ چنگیزی کی ایک رباعی دیکھیئے (یگانہ عروض کے ماہر تھے اور چراغ سخن کے نام سے عروض پر ان کی کتاب سند سمجھی جاتی ہے):

وہ جوش وہ اضطراب منزل میں کہاں
وہ شوقِ طلب تھکے ہوئے دل میں کہاں
شاعر کی تہ کو فلسفی کیا پہنچے
منجدھار کا زور شور ساحل میں کہاں ؟

تیسرا مصرع شجرہ اخرم میں سے ہے جب کہ باقی تین اخرب کے ہیں!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرا نہیں خیال تھا کہ مفہوم تک پہنچنے میں کوئی ایسی مشکل درپیش ہو گی۔ یقینًا بیان میں ہی کوئی نقص رہا ہو گا جو ابلاغ نہیں ہو پایا۔
مجھے دوسرا مصرع کے وزن رباعی کے لحاظ سے کچھ درست نہیں لگا۔ یہ فاعلاتن مفاعلن فعلن/فعلان ۔ میں لگ رہا ہے جو شاید رباعی کے اوزان میں نہیں پڑتا ۔ یا الفاظ کی کچھ لچک شاید کوئی رباعی کی بحر بناتی ہو ۔
مضمون تو ذرا تفکر یا تکلف کر کے کچھ نکالا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک میں سمجھا تھا کہ مجاز سے حقیقت کی منزل کا سفر کریں ۔ یہ آخری مصرع سے حاصل ہوتا ہے باقی مصرع موضوعاتی آمادگی کے ہیں ۔
 

La Alma

لائبریرین
مجھے دوسرا مصرع کے وزن رباعی کے لحاظ سے کچھ درست نہیں لگا۔ یہ فاعلاتن مفاعلن فعلن/فعلان ۔ میں لگ رہا ہے جو شاید رباعی کے اوزان میں نہیں پڑتا ۔ یا الفاظ کی کچھ لچک شاید کوئی رباعی کی بحر بناتی ہو ۔
مفعولن فاعِلن مفاعیلن فِع
جہاں تک میں سمجھا تھا کہ مجاز سے حقیقت کی منزل کا سفر کریں ۔
بات اب بھی مجاز اور حقیقت کی ہی ہے۔ وہ تو مفہوم کی وضاحت کی کچھ زیادہ ہی سلیس ہو گئی تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔
 
Top