غدیر زھرا
لائبریرین
ربطِ دل زلف سے اس کی جو نہ چسپاں ہوتا
اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا
ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلا کے نہ ہم
اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا
میری زنجیر کی جھنکار نہ کوئی سنتا
شورِ مجنوں نہ اگر سلسلہ جنباں ہوتا
ہر سَحر آئنہ، رہتا ہے تِرا منھ تکتا
دل کی تقلید نہ کرتا تو نہ حیراں ہوتا
وصل کے دن سے بدل کیونکہ شبِ ہجراں ہو
شاید اس طور میں ایّام کا نقصاں ہوتا
طور اپنے پہ جو ہم روتے تو پھر عالم میں
دیکھتے تم کہ وہی نوح کا طوفاں ہوتا
دل میں کیا کیا تھا ہمارے جو نہ ہو جاتی یاس
یہ نگر کاہے کو اس طرح سے ویراں ہوتا
خاکِ پا ہو کے ترے قد کا چمن میں رہتا!
سرو، اِتنا نہ اکڑتا اگر انساں ہوتا
میر بھی دیر کے لوگوں ہی کی سی کہنے لگا
کچھ خدا لگتی بھی کہتا جو مسلماں ہوتا
(میر تقی میر)
اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا
ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلا کے نہ ہم
اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا
میری زنجیر کی جھنکار نہ کوئی سنتا
شورِ مجنوں نہ اگر سلسلہ جنباں ہوتا
ہر سَحر آئنہ، رہتا ہے تِرا منھ تکتا
دل کی تقلید نہ کرتا تو نہ حیراں ہوتا
وصل کے دن سے بدل کیونکہ شبِ ہجراں ہو
شاید اس طور میں ایّام کا نقصاں ہوتا
طور اپنے پہ جو ہم روتے تو پھر عالم میں
دیکھتے تم کہ وہی نوح کا طوفاں ہوتا
دل میں کیا کیا تھا ہمارے جو نہ ہو جاتی یاس
یہ نگر کاہے کو اس طرح سے ویراں ہوتا
خاکِ پا ہو کے ترے قد کا چمن میں رہتا!
سرو، اِتنا نہ اکڑتا اگر انساں ہوتا
میر بھی دیر کے لوگوں ہی کی سی کہنے لگا
کچھ خدا لگتی بھی کہتا جو مسلماں ہوتا
(میر تقی میر)
آخری تدوین: