فرحان محمد خان
محفلین
ربط ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ نہیں ملتا
مجھ کو دھیان گلیوں میں راستہ نہیں ملتا
اس قطارِ روشن میں اک کمی سی لگتی ہے
جس پہ نام تھا تیرا وہ دیا نہیں ملتا
سب کو ایک حسرت ہے دوسرے کے ملنے کی
سب کو اک شکایت ہے دوسرا نہیں ملتا
دل میں ہو تو کچھ کہیے جب نہ ہو تو کیا کہیے
لفظ مل بھی جاتے ہیں مدعا نہیں ملتا
کتنا تنگ کرتی ہیں یہ بھری بُری سڑکیں
اتنے لوگ چلتے ہیں راستہ نہیں ملتا
جس کی آنکھ پتھر ہو جس کا دل لہو روئے
اُس سوا کسی کو بھی دیکھنا نہیں ملتا
یوں تو شہر میں تیرے دوست بھی ہیں دشمن بھی
آدمی کوئی اپنے کام کا نہیں ملتا
مجھ سے کی مسافر نے راستے میں سرگوشی
کب سے ڈھونڈتا ہوں میں اور خدا نہیں ملتا
شب کو چائے خانوں میں اب بھی بھیڑ ہوتی ہے
ہاں مگر کوئی چہرہ آشنا نہیں ملتا
میں دیے جلاتا ہوں طاقِ غم گساری میں
گو دیے جلانے کا کچھ صلا نہیں ملتا
مجھ کو دھیان گلیوں میں راستہ نہیں ملتا
اس قطارِ روشن میں اک کمی سی لگتی ہے
جس پہ نام تھا تیرا وہ دیا نہیں ملتا
سب کو ایک حسرت ہے دوسرے کے ملنے کی
سب کو اک شکایت ہے دوسرا نہیں ملتا
دل میں ہو تو کچھ کہیے جب نہ ہو تو کیا کہیے
لفظ مل بھی جاتے ہیں مدعا نہیں ملتا
کتنا تنگ کرتی ہیں یہ بھری بُری سڑکیں
اتنے لوگ چلتے ہیں راستہ نہیں ملتا
جس کی آنکھ پتھر ہو جس کا دل لہو روئے
اُس سوا کسی کو بھی دیکھنا نہیں ملتا
یوں تو شہر میں تیرے دوست بھی ہیں دشمن بھی
آدمی کوئی اپنے کام کا نہیں ملتا
مجھ سے کی مسافر نے راستے میں سرگوشی
کب سے ڈھونڈتا ہوں میں اور خدا نہیں ملتا
شب کو چائے خانوں میں اب بھی بھیڑ ہوتی ہے
ہاں مگر کوئی چہرہ آشنا نہیں ملتا
میں دیے جلاتا ہوں طاقِ غم گساری میں
گو دیے جلانے کا کچھ صلا نہیں ملتا
سلیم احمد