ربُ العالمین از مولانا ظفر علی خان

بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے


تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاجِ جسم و جاں تو نے

نہیں موقوف خلّاقی تری اس ایک دنیا پر
کئے ہیں ایسے ایسے سینکڑوں پیدا جہاں تو نے

ترے ادراک میں ہے عقل حیراں اور سرگرداں
ہمیں چکر میں ڈالابخش کر وہم و گماں تو نے

بہارِ عارضِ گل سے لگا کر آگ گلشن میں
طیورِ صبح خواں کو کر دیا آتش بجاں تو نے

جوانی میں جسے بخشی دل ٓرائی و رعنائی
بڑھاپے میں اسی عارض پہ ڈالیں جھریاں تو نے

کسی کو تاکہ اپنی سربلندی پر نہ غرہ ہو
ازل سے کی نگوں ساری نصیبِ آسماں تو نے

دلوں کو معرفت کے نور سے تو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر ہمیں اپنا نشاں تو نے

نہ ہو تی گر خودی ہم میں تو جو تُو تھا وہی ہم تھے
یہ پردہ کس لیے ڈالا ہے یارب درمیاں تو نے

بلا طاعت بھی ہم بندے ترے تھے پھر پرستش کی
ہمارے پاؤں کیوں ڈال دی ہیں بیڑیاں تو نے

کشائش عقدۂ زلفِ چلیپا کی جو مشکل تھی
لیا کیوں دل سے پھر دارورسن کا امتحاں تو نے

ہم اب سمجھے کہ شاہنشاہِ ملکِ لامکاں ہے تو
بنایا یک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نے

محمد مصطفےٰؐ کی رحمۃ للّعالمینی سے
بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نے

نمک پروردہ ، تیری شرم کی ہیں لغزشیں میری
گناہ بخشے ہیں میرے ہو کے اکثر مہرباں تو نے

حرم اور دَیر میں بازار تیرا گرم رہتا ہے
ہر یک بستی میں کر رکھی ہے قائم اک دکاں تو نے

چلے ہم نقدِ عصیاں لے کے آمرزش کے سودے کو
کہ نرخ اس جنس کا کچھ بھی نہیں رکھا گراں تو نے

اثر تیری عطاؤں پر نہیں پڑتا خطاؤں کا
جسے پیدا کیا اس کو دیا ہے آب و ناں تو نے

دیا اپنے کرم سے ریزہ مورِ ناتوں کو بھی
لگائے گر سلیماں کے لیے نعمت کے خواں تو نے

ترے دربار سے مجھ کو یہی انعام کیا کم ہے
کیا اپنی ستائش میں مجھے رطب اللساں تو نے

مئے لا تقنطوا کے نشہ میں سرشار رہتا ہوں
سیہ مستوں کو بخشی ہے حیاتَ جاوداں تو نے

 
Top