محمد اجمل خان
محفلین
رب سے ملاقات
جب فارس (ایران) اور برصغیر میں فارسی ادب کا دور دورہ تھا۔ ایران کے ایک شہزادے کے ذہن میں ایک مصرعہ آیا:
’’در ابلق کسے کم دیدہ موجود‘‘ ۔ ۔ ۔(چتکبرا موتی (در ابلق) کسی نے نہیں دیکھا)
شہزادہ نے اپنے شعرا سے کہا دوسرا مصرعہ لگاؤ لیکن ایران کے سارے شعرا دوسرا مصرعہ لگانے میں ناکام رہے۔ شہزادہ بڑا برہم ہوا۔ پھر اس مصرعہ کو بادشاہ جہانگیر کے دربار میں بھیجا گیا جہاں بڑے باکمال شعرا موجود تھے۔جہانگیر نے اپنے شعرا سے کہا کہ ایران کے شہزادے نے ایک مصرعہ بھیجا ہے، اس پر مصرعہ لگاؤ۔ لیکن ہندوستان کے شعرا بھی مصرعہ لگانے میں ناکام رہے۔
عالمگیر کی ایک بیٹی شہزادی زیب النساء بھی شاعرہ تھی۔ جب اس تک بات پہنچی تو اس نے بھی کوشش کی، بہت سوچا اور غور کیا۔ مصرعہ نہیں لگتا۔ پھر شہزادی بناؤ سنگار کرنے بیٹھ گئی۔ بناؤ سنگار کے بعد اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا، سرمہ لگاتے ہی آنکھوں سے آنسو ٹپکا اور شہزادی کے ذہن میں دوسرا مصرعہ آگیا کیونکہ آنکھ سے نکلا ہوا پانی آنسو کی شکل میں پلکوں کے اوپر تھا جو کہ چتکبرا موتی کی مانند جھلک رہا تھا۔ چنانچہ شہزادی گنگنا اُٹھی:
’’دُرِ ابلق کسے کم دیدہ موجود
مگر اشکِ بتان سرمہ آلود“
[چتکبرا موتی (در ابلق) کسی نے نہیں دیکھا مگر محبوب کی آنکھ کا وہ آنسو جو سرمہ لگا ہوا ہو (وہ چتکبرا موتی میں نے دیکھا ہے )]
شعر مکمل ہوگیا۔عالمگیر نے شہزادی کا یہ مصرعہ شہزادہ کو ارسال کر دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ کمال پردہ نشین خاتون نے کیا ہے۔ شہزادہ نے شاعر کے بارے میں استفسار کیا، اس سے ملنا چاہا اور اسے انعام اکرام سے نوازنا چاہا۔ اس دور میں مسلمان عوام و خواص اور امرا سب کی عورتیں ہی شریعت کی پابند تھیں اور زیب النساء بھی شریعت پر کاربند تھیں اور پردہ نشین خاتوں تھیں۔ لہذا زیب النساء کا کسی غیر محرم کے دربار میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن شہزادہ کے ملنے کی خواہش پر زیب النساء نے درج ذیل شعر لکھ بھیجا:
’’در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا‘‘
[یعنی ’’میں اپنے کلام میں اس طرح پوشیدہ ہوں جس طرح پھول کی خوشبو اس کی پنکھڑیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے، کوئی مجھے دیکھنا چاہے تو میرے کلام کو دیکھ لے‘‘]
یعنی مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر کسی کی تمنا اور خواہش ہو کہ وہ مجھے دیکھے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ میرا کلام پڑھے۔ جب وہ میرا کلام پڑھے گا تو وہ زیب النساء کو دیکھ لے گا۔
اور ایسا ہی ہے کہ جب کسی کا کلام پڑھا جاتا ہے تو اس میں وہی ںظر آتا ہے اور پڑھنے کے دوران صاحب کلام سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے۔
تو اللہ کے بندو! قرآن اللہ کا کلام ہے۔ قرآن ہی ہمارے لئے اس دنیا میں اللہ کو دیکھنے کا اور اللہ سے ملاقات کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہذا جو اس دنیا میں اپنے رب کو دیکھنا چاہتا ہو، اپنے رب سے ملاقات کرنا چاہتا ہو تو اسے قرآن میں دل لگانا چاہئے، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ قرآن میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ الْحَمْدُ سے وَالنَّاسِ تک پڑھتے جائیے اور اپنے رب سے ملاقات کرتے جائیے اور رب سے ملاقات کی تیاری کرتے جائیے۔
ایک دن تو رب سے ملنا ہی ہے:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ ﴿٦﴾۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے (6)‘‘۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق(
لہذا اگر آج ہم قرآن کھول کر پڑھتے رہتے ہیں اور اپنے رب سے ملاقات کرتے رہتے ہیں اور آخرت میں اپنے رب سے ملاقات کرنے کی تیاریاں کرتے رہتے ہیں تو ہمیں ہمارا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ﴿٧﴾ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ﴿٨﴾ وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُورًا ﴿٩﴾۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
’’ پھر جس کا نامہ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا (7) اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ( اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا (9)‘‘۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا (10) تو وہ موت کو پکارے گا (11) اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا (12) وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا (13) اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے (14) پلٹنا کیسے نہ تھا، اُس کا رب اُس کے کرتوت دیکھ رہا تھا (15) پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی (16) اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے (17) اور چاند کی جب کہ وہ ماہ کامل ہو جاتا ہے (1 تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے (19) پھر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے (20) اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟ (21) بلکہ یہ منکرین تو الٹا جھٹلاتے ہیں (22) حالانکہ جو کچھ یہ (اپنے نامہ اعمال میں) جمع کر رہے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے (23) لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو (24) البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے (25)۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
دعا کیجئے:
اللہ تعالٰی ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے اور اس کی آیات بینات میں غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآن کریم کے ذریعے ہمیں اپنی ملاقات کا شرف نصیب کرے۔ اللہ تعالٰی قرآن کریم کو ہمارے دل کا نور بنا دے اور اس کی روشنی میں ہمیں گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالٰی ہم سے راضی ہو جائے۔ ہمارا خاتمہ خیر پر ہو اور آخرت میں ہمارا نامۂ اعمال ہمارے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے اور ہمیں ہلکا حساب کے ساتھ جنت میں داخل کر دیا جائے۔ آمین۔
دعاوں کا طالب: محمد اجمل خان
جب فارس (ایران) اور برصغیر میں فارسی ادب کا دور دورہ تھا۔ ایران کے ایک شہزادے کے ذہن میں ایک مصرعہ آیا:
’’در ابلق کسے کم دیدہ موجود‘‘ ۔ ۔ ۔(چتکبرا موتی (در ابلق) کسی نے نہیں دیکھا)
شہزادہ نے اپنے شعرا سے کہا دوسرا مصرعہ لگاؤ لیکن ایران کے سارے شعرا دوسرا مصرعہ لگانے میں ناکام رہے۔ شہزادہ بڑا برہم ہوا۔ پھر اس مصرعہ کو بادشاہ جہانگیر کے دربار میں بھیجا گیا جہاں بڑے باکمال شعرا موجود تھے۔جہانگیر نے اپنے شعرا سے کہا کہ ایران کے شہزادے نے ایک مصرعہ بھیجا ہے، اس پر مصرعہ لگاؤ۔ لیکن ہندوستان کے شعرا بھی مصرعہ لگانے میں ناکام رہے۔
عالمگیر کی ایک بیٹی شہزادی زیب النساء بھی شاعرہ تھی۔ جب اس تک بات پہنچی تو اس نے بھی کوشش کی، بہت سوچا اور غور کیا۔ مصرعہ نہیں لگتا۔ پھر شہزادی بناؤ سنگار کرنے بیٹھ گئی۔ بناؤ سنگار کے بعد اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا، سرمہ لگاتے ہی آنکھوں سے آنسو ٹپکا اور شہزادی کے ذہن میں دوسرا مصرعہ آگیا کیونکہ آنکھ سے نکلا ہوا پانی آنسو کی شکل میں پلکوں کے اوپر تھا جو کہ چتکبرا موتی کی مانند جھلک رہا تھا۔ چنانچہ شہزادی گنگنا اُٹھی:
’’دُرِ ابلق کسے کم دیدہ موجود
مگر اشکِ بتان سرمہ آلود“
[چتکبرا موتی (در ابلق) کسی نے نہیں دیکھا مگر محبوب کی آنکھ کا وہ آنسو جو سرمہ لگا ہوا ہو (وہ چتکبرا موتی میں نے دیکھا ہے )]
شعر مکمل ہوگیا۔عالمگیر نے شہزادی کا یہ مصرعہ شہزادہ کو ارسال کر دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ کمال پردہ نشین خاتون نے کیا ہے۔ شہزادہ نے شاعر کے بارے میں استفسار کیا، اس سے ملنا چاہا اور اسے انعام اکرام سے نوازنا چاہا۔ اس دور میں مسلمان عوام و خواص اور امرا سب کی عورتیں ہی شریعت کی پابند تھیں اور زیب النساء بھی شریعت پر کاربند تھیں اور پردہ نشین خاتوں تھیں۔ لہذا زیب النساء کا کسی غیر محرم کے دربار میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن شہزادہ کے ملنے کی خواہش پر زیب النساء نے درج ذیل شعر لکھ بھیجا:
’’در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا‘‘
[یعنی ’’میں اپنے کلام میں اس طرح پوشیدہ ہوں جس طرح پھول کی خوشبو اس کی پنکھڑیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے، کوئی مجھے دیکھنا چاہے تو میرے کلام کو دیکھ لے‘‘]
یعنی مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر کسی کی تمنا اور خواہش ہو کہ وہ مجھے دیکھے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ میرا کلام پڑھے۔ جب وہ میرا کلام پڑھے گا تو وہ زیب النساء کو دیکھ لے گا۔
اور ایسا ہی ہے کہ جب کسی کا کلام پڑھا جاتا ہے تو اس میں وہی ںظر آتا ہے اور پڑھنے کے دوران صاحب کلام سے ملاقات بھی ہوتی رہتی ہے۔
تو اللہ کے بندو! قرآن اللہ کا کلام ہے۔ قرآن ہی ہمارے لئے اس دنیا میں اللہ کو دیکھنے کا اور اللہ سے ملاقات کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہذا جو اس دنیا میں اپنے رب کو دیکھنا چاہتا ہو، اپنے رب سے ملاقات کرنا چاہتا ہو تو اسے قرآن میں دل لگانا چاہئے، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔ قرآن میں غور و فکر کرنا چاہئے۔ الْحَمْدُ سے وَالنَّاسِ تک پڑھتے جائیے اور اپنے رب سے ملاقات کرتے جائیے اور رب سے ملاقات کی تیاری کرتے جائیے۔
ایک دن تو رب سے ملنا ہی ہے:
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ ﴿٦﴾۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
’’اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے (6)‘‘۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق(
لہذا اگر آج ہم قرآن کھول کر پڑھتے رہتے ہیں اور اپنے رب سے ملاقات کرتے رہتے ہیں اور آخرت میں اپنے رب سے ملاقات کرنے کی تیاریاں کرتے رہتے ہیں تو ہمیں ہمارا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ﴿٧﴾ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ﴿٨﴾ وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُورًا ﴿٩﴾۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
’’ پھر جس کا نامہ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا (7) اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ( اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا (9)‘‘۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا (10) تو وہ موت کو پکارے گا (11) اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا (12) وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا (13) اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے (14) پلٹنا کیسے نہ تھا، اُس کا رب اُس کے کرتوت دیکھ رہا تھا (15) پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی (16) اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے (17) اور چاند کی جب کہ وہ ماہ کامل ہو جاتا ہے (1 تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے (19) پھر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے (20) اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟ (21) بلکہ یہ منکرین تو الٹا جھٹلاتے ہیں (22) حالانکہ جو کچھ یہ (اپنے نامہ اعمال میں) جمع کر رہے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے (23) لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو (24) البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے (25)۔ ۔ ۔ (سورة الإنشقاق)
دعا کیجئے:
اللہ تعالٰی ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے اور اس کی آیات بینات میں غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قرآن کریم کے ذریعے ہمیں اپنی ملاقات کا شرف نصیب کرے۔ اللہ تعالٰی قرآن کریم کو ہمارے دل کا نور بنا دے اور اس کی روشنی میں ہمیں گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالٰی ہم سے راضی ہو جائے۔ ہمارا خاتمہ خیر پر ہو اور آخرت میں ہمارا نامۂ اعمال ہمارے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے اور ہمیں ہلکا حساب کے ساتھ جنت میں داخل کر دیا جائے۔ آمین۔
دعاوں کا طالب: محمد اجمل خان