الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد عبدالرؤوف
عظیم
سید عاطف علی
----------------
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
سوچو ذرا تمہارا اس میں بھلا نہیں ہے ؟
--------
ہم سب خطا کے پُتلے ہم سے خطا تو ہو گی
کوئی بھی اس جہاں میں دودھوں دھلا نہیں ہے
--------
سارے فقیر تیرے جو مانگتے ہیں تجھ سے
ہے کون کہہ سکے جو وہ تو گدا نہیں ہے
----------
ابلیس کے پجاری کچھ لوگ ہیں جہاں میں
کہتے ہیں اس جہاں کا کوئی خدا نہیں ہے
-----------
پیدا کیا ہے سب کو اس ایک ہی خدا نے
کوئی بھی آسماں سے ہرگز گرا نہیں ہے
-----------
فانی جہان سارا نابود ہو گا سب کچھ
اک ذات ہے خدا کی جس کو فنا نہیں ہے
-------
جس نے مجھے ستایا لوگوں کے ساتھ مل کر
اس کے لئے دعائیں ہیں بد دعا نہیں ہے
-----------
ارشد نے جو جلایا تھا دیپ چاہتوں کا
تھیں آندھیاں ہزاروں پھر بھی بجھا نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد عبدالرؤوف
عظیم
سید عاطف علی
----------------
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
سوچو ذرا تمہارا اس میں بھلا نہیں ہے ؟
--------
یہ منقسم بحر ہے، اس کا خیال رکھا جائے
شعر واضح نہیں
ہم سب خطا کے پُتلے ہم سے خطا تو ہو گی
کوئی بھی اس جہاں میں دودھوں دھلا نہیں ہے
--------
پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہو رہی
ہم ہیں خطا کے پتلے.... ہو سکتا ہے
سارے فقیر تیرے جو مانگتے ہیں تجھ سے
ہے کون کہہ سکے جو وہ تو گدا نہیں ہے
----------
یہ بھی واضح نہیں ہوا
ابلیس کے پجاری کچھ لوگ ہیں جہاں میں
کہتے ہیں اس جہاں کا کوئی خدا نہیں ہے
-----------
دو لخت ہے، در اصل عجز بیان ہے، شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابلیس کےپجاری....( جو) کہتے ہیں( کہ) اس جہاں کا....
مگر مصرع کو الگ سے غور دسی دیکھیں تو یہ اپنے آپ میں ہی مکمل جملہ لگتا ہے

پیدا کیا ہے سب کو اس ایک ہی خدا نے
کوئی بھی آسماں سے ہرگز گرا نہیں ہے
آسماں سے گرنا اور اترنا مختلف امر ہیں

----------
فانی جہان سارا نابود ہو گا سب کچھ
اک ذات ہے خدا کی جس کو فنا نہیں ہے
-------
پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہو رہی
فانی ہے دنیا ساری...
کر دو
جس نے مجھے ستایا لوگوں کے ساتھ مل کر
اس کے لئے دعائیں ہیں بد دعا نہیں ہے
-----------
دعائیں اور ہیں کے درمیان وقفہ پیدا ہو رہا ہے
ارشد نے جو جلایا تھا دیپ چاہتوں کا
تھیں آندھیاں ہزاروں پھر بھی بجھا نہیں ہے
وہی منقسم بحر میں بات ٹوٹ رہی ہے
ارشد نے جو کیا تھاچاہت کا دیپ روشن
 
الف عین
(اصلاح)
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
اس بات میں تمہارا ہرگز بُرا نہیں ہے
--------
ہم ہیں خطا کے پُتلے ہم سے خطا تو ہو گی
کوئی بھی اس جہاں میں دودھوں دھلا نہیں ہے
--------
ملتا ہے تیرے در سے مومن ہو یا ہو کافر
ہے کون اس جہاں میں جس کو ملا نہیں ہے
----------
کچھ لوگ اس جہاں میں کرتے ہیں کفر تجھ سے
کہتے ہیں اس جہاں کا کوئی خدا نہیں ہے
-----------
خالق ہے ذات اس کی مخلوق سب جہاں ہے
ہے کون جس کو رب نے پیدا کیا نہیں ہے
-----------
فانی ہے دنیا ساری ہو گی فنا یہ اک دن
اک ذات ہے خدا کی جس کو فنا نہیں ہے
-------
جس نے مجھے ستایا لوگوں کے ساتھ مل کر
کچھ ساتھ اس کے مجھ کو پھر بھی گلہ نہیں ہے
-----------
ارشد نے جو کیا تھا چاہت کا دیپ روشن
تھیں آندھیاں ہزاروں پھر بھی بجھا نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
اس بات میں تمہارا ہرگز بُرا نہیں ہے
--------
واضح نہیں اب بھی

ملتا ہے تیرے در سے مومن ہو یا ہو کافر
ہے کون اس جہاں میں جس کو ملا نہیں ہے
----------
کون ملتا ہے، مومن یا کافر؟ یا جو کچھ ملتا ہےمومن اور کافر کو؟ پہلے مصرع کے دونوں مطالب نکلتے ہیں
خالق ہے ذات اس کی مخلوق سب جہاں ہے
ہے کون جس کو رب نے پیدا کیا نہیں ہے
-----------
تقابل ردیفین ہے، "ہے" کے اختتام کی وجہ سے، ترتیب الٹی جا سکتی ہے
جس نے مجھے ستایا لوگوں کے ساتھ مل کر
کچھ ساتھ اس کے مجھ کو پھر بھی گلہ نہیں
اس کے ساتھ گلہ ہونا محاورہ نہیں، اس سے گلہ ہونا درست محاورہ ہے
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
اس بات میں تمہارا ہرگز بُرا نہیں ہے
جن ٹھوکروں کا حاصل رب سے سوا نہیں ہے
ان ٹھوکروں سے بہتر کچھ باخدا نہیں ہے
یا
اُن سے جہاں میں بہتر کچھ باخدا نہیں ہے
ملتا ہے تیرے در سے مومن ہو یا ہو کافر
ہے کون اس جہاں میں جس کو ملا نہیں ہے
ہر کافر و مسلماں کا ایک تو ہے داتا
حاجت روائیوں کو یاں دوسرا نہیں ہے
یا
حاجت روا کوئی بھی جز دوسرا نہیں ہے
جس نے مجھے ستایا لوگوں کے ساتھ مل کر
کچھ ساتھ اس کے مجھ کو پھر بھی گلہ نہیں ہے
جس نے مجھے ستایا غیروں کے ساتھ مل کر
اس آدمی سے لیکن مجھ کو گلہ نہیں ہے
 
آخری تدوین:
الف عین
(اصلاح)
رب سے ملانے والی ٹھوکر سزا نہیں ہے
سوچو ذرا تمہارا اس میں بھلا نہیں ہے؟
-----------
پاتے ہیں رزق اپنا در سے خدا کے سارے
رازق جہاں کا کوئی بھی دوسرا نہیں ہے
----------
اس کے سوا پکاروں کس کو بتا اے دنیا
میری نظر میں خالق اس کے سوا نہیں ہے
-----------
 

الف عین

لائبریرین
رب سے ملانے والی ٹھوکر سے کیا مراد ہے، یہی واضح نہی
دوسراںشعر درست ہو گیا
تیسرا نیا شعر ہے، لیکن کوئی خاص بات نہیں، اصل شعر ہی روفی کی تجویز کے ساتھ بہتر ہے،( بشرطیکہ آپ کو جنس کی نشان دہی غلط محسوس ہو!! )
 
الف عین
جو راستہ دکھا دے ، ٹھوکر سزا نہیں ہے
سوچو ذرا تمہارا اس میں بھلا نہیں ہے؟
(اصلاح)
استادِ محترم شاید میں بات واضع نہیں کر سکا ۔دراصل میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ انسان کسی غلط راستے پر جا رہا ہو اور اسے ٹھوکر لگے اور اس ٹھوکر سے اس کا احساس بیدار ہو اور وہ سیدھے راستے پہ آ جائے تو یوں یہ ٹھوکر اس کے لئے بُری یا سزا نہیں بلکہ اس میں تو اس کی بہتری ہے۔آپ ہی کوئی بہتر تجویز عطا فرمائیں
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
جو راستہ دکھا دے ، ٹھوکر سزا نہیں ہے
سوچو ذرا تمہارا اس میں بھلا نہیں ہے؟
(اصلاح)
استادِ محترم شاید میں بات واضع نہیں کر سکا ۔دراصل میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ انسان کسی غلط راستے پر جا رہا ہو اور اسے ٹھوکر لگے اور اس ٹھوکر سے اس کا احساس بیدار ہو اور وہ سیدھے راستے پہ آ جائے تو یوں یہ ٹھوکر اس کے لئے بُری یا سزا نہیں بلکہ اس میں تو اس کی بہتری ہے۔آپ ہی کوئی بہتر تجویز عطا فرمائیں
وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ عجز بیان ہے، ما فی الضمیر مکمل واضح نہیں ہوتا، ٹھوکر سزا نہیں ہے ایک مکمل بیان لگتا ہے، یعنی یہ سوچ کر ہی سمجھ میں آتا ہے کہ شاید "وہ ٹھوکر، جو راستہ دکھا دے، در اصل سزا نہیں۔" پھر دوسرے مصرعے میں "اس میں" بھی سوال اٹھتا ہے کہ کس میں؟ ۔ میرے خیال میں مطلع بدل ہی دیں کسی اور خیال کے ساتھ
 
الف عین
---------
(استادِ محترم دونوں میں سے جو مطلع بہتر لگے)
------------
تجھ کو ترے خدا نے کیا کچھ دیا نہیں ہے
کیوں پھر بھی تیرے دل میں یادِ خدا نہیں ہے
-----------یا
دنیا کے پاس میرے دکھ کی دوا نہیں ہے
اس میں خلوص کم ہے اس میں وفا نہیں ہے
 
Top