واضع رہے کہ یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے ۔ کوئی فتویٰ نہیں ۔ لہذا دوست احباب اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے علمی اختلاف کرسکتے ہیں ۔ اس مقالے میں چند عالموں کا استدلال اور رائے بھی موجود ہے ۔ اسی پر مضمون نگار نے چند مقدمات قائم کرکے اپنا استدلال اس سزا کے حوالے سے قائم کیا ہے ۔ جس سے اختلاف کا پورا حق آپ کو حاصل ہے ۔ اس میں چند حدیثوں کا بھی حوالہ ہے ۔ جن کی بابت اس سزا کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ میرے لیئے ان احادیث کے مذید حوالے اور ان میں مکمل بات کا پہلو بھی اسی مقالے میں آشکار ہوا ۔ اگر ان احادیث میں کوئی اضافی یا غیر ضروری بات کا پہلو نظر آتا ہے تو علمی معیار کو سامنے رکھ کر اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ۔ خیر اعتراض کسی بھی پہلو سے ہو مگر اس کی دائرہ علمی بحث تک محدود رہے تو بہت اچھی بات ہوگی ۔ مضمون چونکہ طویل ہے لہذا گذارش یہ ہے کہ اس کے اختیام کے بعد آپ اپنی آراء اور اعتراضات کا آغاز کرسکتے ہیں ۔
شکریہ
رجم کی سزا :
صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف 'اَلزَّانِيةُ وَالزَّانِیْ' کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ ٢١ خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطہ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں، وہ حسب ذیل ہیں:
١۔ امام شافعی نے یہ زاویہ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ٢٢
امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ سورہ نور میں اسی سلسلہ بیان میں آگے چل کر آیت ٨ میں اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ٢-٣ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ٤-٥ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ٦-١٠ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ بِاللّٰهِ اِنَّه، لَمِنَ الْکٰذِبِينَ.(النور٢٤:٨)
''اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔''
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے 'الْعَذَابَ' کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا ،یعنی ١٠٠ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ٢ میں 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں:
الالف واللام الداخلان علی العذاب لا يفيدان العموم لانه لم يجب عليها جميع انواع العذاب فوجب صرفهما الی المعهود السابق والمعهود السابق هو الحد لانه تعالیٰ ذکر فی اول السورة وليشهد عذابهما طائفة من المومنين والمراد منه الحد.(التفسير الکبير ٢٣/١٤٦)
'''العذاب 'پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کا عذاب لازم نہیں، اس لیے' العذاب' سے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ 'حد' کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔''
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ 'العذاب' کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ 'الْعَذَابَ' کا الف لام اسی عذاب ،یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں 'عَذَابَهُمَا' کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے 'العذاب' کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں، بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو 'عَذَابَهُمَا' میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنها بلعانها هو المذکور فی قوله تعالیٰ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وهذا عذاب الحد قطعًا فذکره مضافًا ومعرفًا بلام العهد فلا يجوز ان ينصرف الی عقوبة لم تذکر فی اللفظ ولا دل عليها بوجه ما من حبس او غيره.(زاد المعاد ٩٧٨)
''یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُوْمِنِيْنَ' میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ۔ چنانچہ 'العذاب' سے مراد کوئی ایسی سزا، مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ''
سورہ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورہ نسا(٤) کی آیت ٢٥ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتيْْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(النساء ٤:٢٥)
''پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔''
آیت میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔
مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں کی سزا ہے،٢٣ لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجاے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ 'العذاب' ،یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورہ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے، جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ' کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا، نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے عموم کے علاوہ سورہ نور کی آیت ٨ میں 'يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ' اور سورہ نساء کی آیت ٢٥ میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ بھی صریحاً شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ امام شافعی کی راے کے مطابق اگر یہ مانا جائے کہ یہاں روایت نے قرآن کی 'تخصیص' کی ہے تو یہ تخصیص شرح ووضاحت اور 'بیان' کے طریقے پر نہیں، بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر ہوئی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔
فرض کیجیے کہ قرآن میں سو کوڑوں کی سزا کے شادی شدہ زانیوں پر بھی قابل اطلاق ہونے کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے برعکس شادی شدہ زانیوں کے اس سزا کے دائرہ اطلاق سے خارج ہونے کی دلیل قرآن میں کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن میں بیان ہونے والی سزا کے غیر شادی شدہ زانیوں کے ساتھ خاص ہونے کے لسانی یا عقلی قرائن خود قرآن میں موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی قرائن وشواہد سے یہ بات اخذ کی ہے تو زبان کی ابانت وبلاغت یہ تقاضا کرتی ہے کہ تخصیص کے ان قرائن کا فہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص نہ ہو، بلکہ زبان کا معیاری اور عمدہ ذوق رکھنے والے اصحاب علم بھی ان قرائن کی مدد سے اسی نتیجے تک پہنچ سکیں، لیکن خود امام صاحب کے اعتراف کے مطابق یہ واضح ہے کہ ایسا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ولولا الاستدلال بالسنة وحکمنا بالظاهر قطعنا من لزمه اسم سرقة وضربنا مائة کل من زنی حرًا ثيبًا.(الرساله ٧٢)
''اور اگر سنت سے استدلال نہ کیا جائے اور قرآن کے ظاہر پر ہی فیصلہ کیا جائے تو ہمیں ہر اس شخص کا ہاتھ کاٹنا پڑتا جس سے چوری کا فعل سرزد ہو اور شادی شدہ آزاد زانی کو بھی سو کوڑے ہی لگانے پڑتے۔''
دوسری صورت یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں تو اس تخصیص کے قرائن نہ رکھے ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الگ سے یہ بتا دیا ہو کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلام کے مدعا و مفہوم کے ابلاغ کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ کیا قرآن کی زبان اس کی متحمل نہیں تھی کہ اس تخصیص کے قرائن کو اپنے اندر سمو سکتی؟ پھر یہ کہ جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب، بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ امام شافعی کا یہ نقطہ نظر قرآن مجیدکی زبان کی ابانت اور زبان وبیان کے اسالیب کے حوالے سے ایک عجیب الجھن پیدا کر دیتا ہے اور انھوں نے معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی کوشش کی ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
جاری ہے
شکریہ
رجم کی سزا :
صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف 'اَلزَّانِيةُ وَالزَّانِیْ' کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ ٢١ خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطہ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں، وہ حسب ذیل ہیں:
١۔ امام شافعی نے یہ زاویہ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ٢٢
امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ سورہ نور میں اسی سلسلہ بیان میں آگے چل کر آیت ٨ میں اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ٢-٣ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ٤-٥ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ٦-١٠ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ بِاللّٰهِ اِنَّه، لَمِنَ الْکٰذِبِينَ.(النور٢٤:٨)
''اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔''
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے 'الْعَذَابَ' کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا ،یعنی ١٠٠ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ٢ میں 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں:
الالف واللام الداخلان علی العذاب لا يفيدان العموم لانه لم يجب عليها جميع انواع العذاب فوجب صرفهما الی المعهود السابق والمعهود السابق هو الحد لانه تعالیٰ ذکر فی اول السورة وليشهد عذابهما طائفة من المومنين والمراد منه الحد.(التفسير الکبير ٢٣/١٤٦)
'''العذاب 'پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کا عذاب لازم نہیں، اس لیے' العذاب' سے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ 'حد' کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔''
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ 'العذاب' کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ 'الْعَذَابَ' کا الف لام اسی عذاب ،یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں 'عَذَابَهُمَا' کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے 'العذاب' کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں، بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو 'عَذَابَهُمَا' میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنها بلعانها هو المذکور فی قوله تعالیٰ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وهذا عذاب الحد قطعًا فذکره مضافًا ومعرفًا بلام العهد فلا يجوز ان ينصرف الی عقوبة لم تذکر فی اللفظ ولا دل عليها بوجه ما من حبس او غيره.(زاد المعاد ٩٧٨)
''یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُوْمِنِيْنَ' میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ۔ چنانچہ 'العذاب' سے مراد کوئی ایسی سزا، مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ''
سورہ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورہ نسا(٤) کی آیت ٢٥ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتيْْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(النساء ٤:٢٥)
''پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔''
آیت میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔
مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں کی سزا ہے،٢٣ لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجاے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ 'العذاب' ،یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورہ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے، جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ' کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا، نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے عموم کے علاوہ سورہ نور کی آیت ٨ میں 'يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ' اور سورہ نساء کی آیت ٢٥ میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ بھی صریحاً شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ امام شافعی کی راے کے مطابق اگر یہ مانا جائے کہ یہاں روایت نے قرآن کی 'تخصیص' کی ہے تو یہ تخصیص شرح ووضاحت اور 'بیان' کے طریقے پر نہیں، بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر ہوئی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔
فرض کیجیے کہ قرآن میں سو کوڑوں کی سزا کے شادی شدہ زانیوں پر بھی قابل اطلاق ہونے کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے برعکس شادی شدہ زانیوں کے اس سزا کے دائرہ اطلاق سے خارج ہونے کی دلیل قرآن میں کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن میں بیان ہونے والی سزا کے غیر شادی شدہ زانیوں کے ساتھ خاص ہونے کے لسانی یا عقلی قرائن خود قرآن میں موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی قرائن وشواہد سے یہ بات اخذ کی ہے تو زبان کی ابانت وبلاغت یہ تقاضا کرتی ہے کہ تخصیص کے ان قرائن کا فہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص نہ ہو، بلکہ زبان کا معیاری اور عمدہ ذوق رکھنے والے اصحاب علم بھی ان قرائن کی مدد سے اسی نتیجے تک پہنچ سکیں، لیکن خود امام صاحب کے اعتراف کے مطابق یہ واضح ہے کہ ایسا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
ولولا الاستدلال بالسنة وحکمنا بالظاهر قطعنا من لزمه اسم سرقة وضربنا مائة کل من زنی حرًا ثيبًا.(الرساله ٧٢)
''اور اگر سنت سے استدلال نہ کیا جائے اور قرآن کے ظاہر پر ہی فیصلہ کیا جائے تو ہمیں ہر اس شخص کا ہاتھ کاٹنا پڑتا جس سے چوری کا فعل سرزد ہو اور شادی شدہ آزاد زانی کو بھی سو کوڑے ہی لگانے پڑتے۔''
دوسری صورت یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں تو اس تخصیص کے قرائن نہ رکھے ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الگ سے یہ بتا دیا ہو کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلام کے مدعا و مفہوم کے ابلاغ کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ کیا قرآن کی زبان اس کی متحمل نہیں تھی کہ اس تخصیص کے قرائن کو اپنے اندر سمو سکتی؟ پھر یہ کہ جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب، بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ امام شافعی کا یہ نقطہ نظر قرآن مجیدکی زبان کی ابانت اور زبان وبیان کے اسالیب کے حوالے سے ایک عجیب الجھن پیدا کر دیتا ہے اور انھوں نے معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی کوشش کی ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
جاری ہے