رجم کی سزا

ظفری

لائبریرین
واضع رہے کہ یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے ۔ کوئی فتویٰ نہیں ۔ لہذا دوست احباب اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے علمی اختلاف کرسکتے ہیں ۔ اس مقالے میں چند عالموں کا استدلال اور رائے بھی موجود ہے ۔ اسی پر مضمون نگار نے چند مقدمات قائم کرکے اپنا استدلال اس سزا کے حوالے سے قائم کیا ہے ۔ جس سے اختلاف کا پورا حق آپ کو حاصل ہے ۔ اس میں چند حدیثوں کا بھی حوالہ ہے ۔ جن کی بابت اس سزا کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ میرے لیئے ان احادیث کے مذید حوالے اور ان میں مکمل بات کا پہلو بھی اسی مقالے میں آشکار ہوا ۔ اگر ان احادیث میں کوئی اضافی یا غیر ضروری بات کا پہلو نظر آتا ہے تو علمی معیار کو سامنے رکھ کر اس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ۔ خیر اعتراض کسی بھی پہلو سے ہو مگر اس کی دائرہ علمی بحث تک محدود رہے تو بہت اچھی بات ہوگی ۔ مضمون چونکہ طویل ہے لہذا گذارش یہ ہے کہ اس کے اختیام کے بعد آپ اپنی آراء اور اعتراضات کا آغاز کرسکتے ہیں ۔
شکریہ

رجم کی سزا :
صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف 'اَلزَّانِيةُ وَالزَّانِیْ' کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ ٢١ خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطہ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں، وہ حسب ذیل ہیں:

١۔ امام شافعی نے یہ زاویہ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ ٢٢

امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ سورہ نور میں اسی سلسلہ بیان میں آگے چل کر آیت ٨ میں اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ٢-٣ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ٤-٥ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ٦-١٠ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:

وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ بِاللّٰهِ اِنَّه، لَمِنَ الْکٰذِبِينَ.(النور٢٤:٨)
''اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔''

یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے 'الْعَذَابَ' کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا ،یعنی ١٠٠ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ٢ میں 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں:

الالف واللام الداخلان علی العذاب لا يفيدان العموم لانه لم يجب عليها جميع انواع العذاب فوجب صرفهما الی المعهود السابق والمعهود السابق هو الحد لانه تعالیٰ ذکر فی اول السورة وليشهد عذابهما طائفة من المومنين والمراد منه الحد.(التفسير الکبير ٢٣/١٤٦)
'''العذاب 'پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کا عذاب لازم نہیں، اس لیے' العذاب' سے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ 'حد' کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ' اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔''

رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ 'العذاب' کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ 'الْعَذَابَ' کا الف لام اسی عذاب ،یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں 'عَذَابَهُمَا' کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے 'العذاب' کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں، بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو 'عَذَابَهُمَا' میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:

والعذاب المدفوع عنها بلعانها هو المذکور فی قوله تعالیٰ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وهذا عذاب الحد قطعًا فذکره مضافًا ومعرفًا بلام العهد فلا يجوز ان ينصرف الی عقوبة لم تذکر فی اللفظ ولا دل عليها بوجه ما من حبس او غيره.(زاد المعاد ٩٧٨)
''یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل 'وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُوْمِنِيْنَ' میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ۔ چنانچہ 'العذاب' سے مراد کوئی ایسی سزا، مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ''

سورہ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورہ نسا(٤) کی آیت ٢٥ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتيْْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(النساء ٤:٢٥)
''پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔''

آیت میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔

مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں کی سزا ہے،٢٣ لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجاے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ 'العذاب' ،یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورہ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے، جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ' کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا، نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔

مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کے عموم کے علاوہ سورہ نور کی آیت ٨ میں 'يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ' اور سورہ نساء کی آیت ٢٥ میں 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' کے الفاظ بھی صریحاً شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ امام شافعی کی راے کے مطابق اگر یہ مانا جائے کہ یہاں روایت نے قرآن کی 'تخصیص' کی ہے تو یہ تخصیص شرح ووضاحت اور 'بیان' کے طریقے پر نہیں، بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر ہوئی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔

فرض کیجیے کہ قرآن میں سو کوڑوں کی سزا کے شادی شدہ زانیوں پر بھی قابل اطلاق ہونے کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے برعکس شادی شدہ زانیوں کے اس سزا کے دائرہ اطلاق سے خارج ہونے کی دلیل قرآن میں کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن میں بیان ہونے والی سزا کے غیر شادی شدہ زانیوں کے ساتھ خاص ہونے کے لسانی یا عقلی قرائن خود قرآن میں موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی قرائن وشواہد سے یہ بات اخذ کی ہے تو زبان کی ابانت وبلاغت یہ تقاضا کرتی ہے کہ تخصیص کے ان قرائن کا فہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص نہ ہو، بلکہ زبان کا معیاری اور عمدہ ذوق رکھنے والے اصحاب علم بھی ان قرائن کی مدد سے اسی نتیجے تک پہنچ سکیں، لیکن خود امام صاحب کے اعتراف کے مطابق یہ واضح ہے کہ ایسا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

ولولا الاستدلال بالسنة وحکمنا بالظاهر قطعنا من لزمه اسم سرقة وضربنا مائة کل من زنی حرًا ثيبًا.(الرساله ٧٢)
''اور اگر سنت سے استدلال نہ کیا جائے اور قرآن کے ظاہر پر ہی فیصلہ کیا جائے تو ہمیں ہر اس شخص کا ہاتھ کاٹنا پڑتا جس سے چوری کا فعل سرزد ہو اور شادی شدہ آزاد زانی کو بھی سو کوڑے ہی لگانے پڑتے۔''

دوسری صورت یہ فرض کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں تو اس تخصیص کے قرائن نہ رکھے ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الگ سے یہ بتا دیا ہو کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلام کے مدعا و مفہوم کے ابلاغ کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ کیا قرآن کی زبان اس کی متحمل نہیں تھی کہ اس تخصیص کے قرائن کو اپنے اندر سمو سکتی؟ پھر یہ کہ جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب، بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ امام شافعی کا یہ نقطہ نظر قرآن مجیدکی زبان کی ابانت اور زبان وبیان کے اسالیب کے حوالے سے ایک عجیب الجھن پیدا کر دیتا ہے اور انھوں نے معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی کوشش کی ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔

جاری ہے
 

ظفری

لائبریرین
مولانامودودی نے امام شافعی کے زاویہ نگاہ کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید صرف غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرتا ہے اور اس کے لیے خود قرآن مجید میں قرائن موجود ہیں۔ مولانا نے اس ضمن میں جو استدلال پیش کیا ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

استدلال کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ سورہ نساء (٤)کی آیت ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے زنا کی جو مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اسی سورہ کی آیت ٢٥ میں شادی شدہ لونڈی کے لیے جس سزا کا ذکر کیا ہے، وہ وہی ہے جو سورہ نور(٢٤) کی آیت ٢ میں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' میں 'محصنات' کا لفظ شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں نہیں،بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دی جائے۔ ان دو مقدموں سے مولانا نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ سورہ نسا(٤) کی آیت ٢٥ میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اصل سزا سورہ نور میں بیان ہوئی ہے، اس لیے سورہ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی لازماً غیر شادی شدہ آزاد عورتوں ہی سے متعلق ہے۔ ٢٤

دوسرے مقدمے کے حق میں مولانا نے دو دلیلیں پیش کی ہیں: ایک یہ کہ سورہ نساء (٤)کی آیت ٢٥ کے آغاز میں 'مَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ' میں محصنات کا لفظ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے لیے آیا ہے، اس لیے اسی سیاق میں جب یہ لفظ دوبارہ استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد بھی غیر شادی شدہ آزاد عورتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ زنا کی سزا دراصل اس حفاظت کو توڑنے کی سزا ہے جو عورت کو خاندان یا نکاح کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ شادی شدہ آزاد عورت کو دونوں حفاظتیں میسر ہوتی ہیں، جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک۔ اس کے برعکس، لونڈی خاندان کی حفاظت سے بالکل محروم ہوتی ہے ، جبکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اسے صرف ایک حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری۔ چنانچہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت سے نہیں، جس کو دوہری حفاظت حاصل ہوتی ہے، بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورت سے ہونا چاہیے جسے لونڈی کی طرح ایک ہی حفاظت میسر ہوتی ہے۔ ٢٥

مولانا کا پیش کردہ یہ استدلال، واقعہ یہ ہے کہ ہر لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو ان کا یہ استنتاج عجیب ہے کہ چونکہ سورہ نساء میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے سورہ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی کنوارے زانیوں ہی سے متعلق ہے۔سورہ نساء کی آیت سے واضح ہے کہ سورہ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ چنانچہ یہ بات طے کرنے کے قرائن کہ سورہ نور میں کون سے زانی زیر بحث ہیں، خود سورہ نور میں موجود ہونے چاہییں اور انھی کی روشنی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ سورہ نور کے احکام کا دائرہ اطلاق سورہ نساء کی آیات سے متعین کرنا چاہیے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ سورہ نور میں نہ صرف یہ کہ 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کو کنوارے زانیوں کے ساتھ خاص قرار دینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں، بلکہ 'وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ' میں قرآن نے شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا کی باقاعدہ تصریح بھی کی ہے۔ فرض کیجیے کہ سورہ نور کے احکام کے دائرہ اطلاق کی تعیین کے لیے سورہ نساء (٤)کی آیت ٢٥ ہی قرآن مجید میں واحد بنیاد ہے تو سوال یہ ہے کہ جب تک اس آیت میں مذکورہ قرینہ اگر اسے کوئی قرینہ کہا جا سکے ۔۔۔۔۔۔۔ بہم نہیں پہنچایا گیا تھا، اس وقت تک سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کے منشا تک رسائی کا ذریعہ کیا تھا؟ حکم کو بیان کر دینا ،لیکن اس کے ایک نہایت بنیادی پہلو کے فہم کو معلق رکھتے ہوئے اس کے قرائن کو بعد میں کسی دوسری جگہ پر الگ رکھ دینا آخر زبان وبیان اور بلاغت کا کون سا اسلوب ہے؟

مولانا نے 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ' میں محصنات کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں لینے کے لیے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ بھی بے حد کمزور ہے، کیونکہ بظاہر وہ محض ایک سیاق میں 'الْمُحْصَنٰت' کے دو مرتبہ استعمال ہونے سے یہ اخذ کر رہے ہیں کہ دونوں جگہ اس کا معنی ایک ہی ہونا چاہیے، جبکہ اس استدلال کے لیے عربیت میں کوئی بنیاد موجود نہیں۔ عربی زبان میں 'محصنات' کا لفظ ''آزاد عورتوں''کے مفہوم میں استعمال ہو تو اس کا مصداق بننے والے افراد اپنی حالت کے لحاظ سے شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شادی شدہ بھی، لیکن اس فرق پر کوئی دلالت لفظ کے اپنے مفہوم میں داخل نہیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی جگہ قرینے کی بنا پر اس لفظ کا اطلاق صرف شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورتوں تک محدود ہو جائے، لیکن 'محصنات' کا لفظ موقع کلام سے پیدا ہونے والی اس تخصیص سے قطع نظر فی نفسہٖ محض ''آزاد عورتوں'' کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ زیربحث آیت میں بھی 'مَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْکُمْ اَنْ يَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ' میں لفظ 'محصنات' محض ''آزاد عورتوں'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ''غیر شادی شدہ آزاد عورت'' ہونا اس کا معنی یا اس کے استعمالات میں سے کوئی استعمال نہیں، بلکہ اس میں یہ مفہوم اس کے ساتھ متعلق ہونے والے فعل، یعنی 'يَنْکِحَ' کے تقاضے سے پیدا ہوا ہے اور عربیت کی رو سے یہ تخصیص اسی جملے تک محدود ہے۔ اس کے بعد جب یہ لفظ 'فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ' میں دوبارہ استعمال ہوا ہے تو یہاں بھی اس کا مفہوم محض ''آزاد عورتیں'' ہے، جبکہ 'يَنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ' میں فعل 'يَنْکِحَ' کے تقاضے سے پیدا ہونے والی تخصیص کو یہاں موثر ماننے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ قرینہ۔

ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ مولانا لفظ 'الْمُحْصَنٰت' کے ایک سیاق میں دو مرتبہ وارد ہونے سے نہیں، بلکہ 'نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ' میں 'الْمُحْصَنٰت' پرداخل الف لام سے استدلال کرنا چاہتے ہوں اور ان کا منشا یہ ہو کہ یہ عہد کا الف لام ہے، اس لیے اس کے مدخول کا مفہوم وہی ہونا چاہیے جس میں یہ اسی آیت کے آغاز میں 'يَنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ' میں استعمال ہوا ہے۔ اگر مولانا کی مراد یہ ہے تو عربیت کی رو سے یہ بات بھی قطعاً بے بنیاد ہے، اس لیے کہ اول تو، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ''غیر شادی شدہ آزاد عورت'' لفظ 'الْمُحْصَنٰت' کا کوئی معنی یا اس کے استعمالات میں سے کوئی استعمال نہیں، بلکہ محض فعل 'يَنْکِحَ' کا تقاضا ہے۔ اور بالفرض اسے اس کا کوئی باقاعدہ استعمال مان لیا جائے تو بھی مولانا کا مدعا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ لام عہد کسی لفظ کا مصداق بننے والے افراد کی تعیین پر تو دلالت کرتا ہے، لیکن ایک لفظ کے مختلف معنوں میں سے کسی ایک معنی کو متعین کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتا، اور زیر بحث صورت میں بھی مسئلہ 'الْمُحْصَنٰت' کے افراد کی نہیں، بلکہ مفروضہ طور پر اس کے معنوں میں سے ایک معنی کی تعیین کا ہے۔

مولانا نے اس ضمن میں اکہرے اور دوہرے احصان کا جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ ذہانت آمیز ہے، لیکن اس کا عربی زبان یا قرآن مجید کے مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی زبان میں 'محصنات' کا لفظ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، سادہ طور پر ''آزاد عورتوں'' یا ''شادی شدہ خواتین'' کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ ان دونوں استعمالات کی لسانی تحقیق کے تناظر میں یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ آزاد عورتوں کو خاندان کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور شادی شدہ عورتوں کو نکاح کی۔ اسی طرح عقلی استدلال کی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں، جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک، لیکن جہاں تک عربی زبان کے استعمال کا تعلق ہے تو اہل زبان اس لفظ کو ''آزاد عورت'' یا ''شادی شدہ عورت'' کے بالکل سادہ مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ اکہرے یا دوہرے احصان کا کوئی تصور نہ اہل زبان کے استعمال میں موجود ہے اور نہ قرآن کے الفاظ میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔ اس لیے یہ ایک دقیق نکتہ آفرینی تو ہو سکتی ہے، لیکن الفاظ کا مفہوم ومدلول اور متکلم کا مدعا ومنشا متعین کرنے کا یہ طریقہ زبان وبیان کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔

مولاناکی یہ رائے کہ سورہ نساء (٤)کی آیت ١٥، جہاں زنا کی عبوری سزا بیان کی گئی ہے، صرف غیر شادی شدہ زانیوں سے متعلق تھی، اس وجہ سے بھی محل نظر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث عبادہ میں 'اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا' کاحوالہ دیتے ہوئے صرف کنوارے زانیوں کی نہیں ،بلکہ شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی بیان کی ہے جو اس کی دلیل ہے کہ آیت ١٥ میں بیان ہونے والی عبوری سزا بھی دونوں ہی سے متعلق تھی۔ اگر مولانا کی بات درست مان لی جائے تویہ سوال تشنہ جواب رہتا ہے کہ عبوری سزا صرف غیر شادی شدہ زانیوں کے لیے کیوں بیان کی گئی اور شادی شدہ زانیوں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔

مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس میں کسی ابہام یا احتمال کے بغیر پوری وضاحت کے ساتھ شادی شدہ اور کنوارے زانی کے لیے ایک ہی سزا، یعنی سو کوڑوں کی تصریح کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اور روایات کے مابین تطبیق وتوفیق پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید کے بیان کو محتمل اور ظنی قرار دینے کا نقطہ نظر درست نہیں۔ قرآن کے بیان کا واضح، غیرمبہم اور غیر محتمل ہونا، اس بحث کا بنیادی نکتہ ہے اور اس کو نظر انداز کر کے کی جانے والی توجیہ وتطبیق کی ہر کوشش محض دفع الوقتی ہوگی۔

اصولیین کے ایک گروہ نے رجم کے حکم کو آیت نور کی 'تخصیص' کے بجائے اس پر 'زیادت' قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا ہر قسم کے زانی کے لیے عام ہے، البتہ ان میں سے شادی شدہ زانیوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی صورت میں ایک اضافی سزا بھی مقرر فرمائی ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل اہل علم میں سے بعض شادی شدہ زانی پر دونوں سزائیں نافذ کرنے کے قائل ہیں، جبکہ بعض کی راے میں رجم کی سزا نافذ کرنے کی صورت میں چونکہ کوڑے لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس لیے عملاً ایک ہی سزا نافذ کی جائے گی۔ ٢٦

اس رائے پر بنیادی اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا میں یہ اضافہ آیا سورہ نور کے نزول کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا یا اسے بعد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا؟ اگر دوسری صورت فرض کی جائے تو روایت اسے قبول نہیں کرتی، کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ سورہ نساء کی آیت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جانے والا پہلا حکم یہی تھا۔ چنانچہ سورہ نور کا نزول اس حکم کے ساتھ یا اس کے بعد تو مانا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے نہیں۔ اس کے برعکس پہلی صورت مانی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سو کوڑے لگوانے کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کو جلاوطن، جبکہ شادی شدہ زانی کو سنگ سار کروانا چاہتے ہیں تو دونوں حکموں کے ایک ہی موقع پر نازل کیے جانے کے باوجود قرآن مجید کے اس پوری بات کو خود بیان کرنے سے گریز کرنے اور سزا کا ایک جز قرآن میں، جبکہ دوسرا جز اس سے باہر نازل کی جانے والی وحی میں بیان کرنے کی وجہ اور حکمت کیا ہے ؟

ایک احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے تو زنا کی سزا سو کوڑے ہی مقرر کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پر جلا وطنی اور سنگ ساری کی سزا کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امت پر مطلقاً فرض کی گئی ہے، اس لیے آپ نے قرآن کے علاوہ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر جو حکم دیا، امت کے لیے اسے بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرنا لازم ہے، تاہم یہ مفروضہ بھی اصل الجھن کو حل کرنے میں کسی طور پر مددگار نہیں، اس لیے کہ اصل سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ماننے یا نہ ماننے یا آپ کی اطاعت کے دائرے کو مطلق یا مقید قرار دینے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اجتہاد تھا تو کیا آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم دیا گیا ہو، اس میں اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نفس حکم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر لیں اور کیا آپ کے اجتہادات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ان سزاؤں کے اضافے کو آپ کے اجتہاد پر مبنی ماننے سے دوسرا اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی سزاؤں کے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے زنا کے اعتراف کے ساتھ پیش ہونے والے مجرموں کو اپنے رویے سے واپس پلٹ جانے اور توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور عمومی طور پر بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت کی کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حتی الامکان سزا سے بچنے کا راستہ تلاش کریں۔ اس تناظر میں یہ بات ایک تضاد دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف آپ مجرموں سے سزا کے نفاذ کو ٹالنے کا رجحان ظاہر کر رہے ہوں اور دوسری طرف انھی مجرموں کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو ناکافی سمجھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے ان پر مزید اور زیادہ سنگین سزاؤں کا اضافہ فرما رہے ہوں۔ ان وجوہ سے جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر مبنی قرار دینے کی بات کسی طرح قرین قیاس دکھائی نہیں دیتی۔

جاری ہے
 

ظفری

لائبریرین
ایک مزید احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے صرف نفس زنا کی سزا بیان کی ہے، جبکہ سزا کے نفاذ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر اس میں مجرم کے حالات یا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شناعت کا کوئی مزید پہلو شامل ہو جائے تو اس کی رعایت سے کوئی اضافی سزا بھی اصل سزا کے ساتھ شامل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ شادی شدہ زانی جائز طریقے سے جنسی تسکین کی سہولت موجود ہوتے ہوئے ٢٧ ایک ناجائز راستہ اختیار کرتا اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ بھی بے وفائی اور عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے زانی کے لیے اضافی سزا مقرر کرنے سے قرآن مجید کے حکم پر کوئی زد نہیں پڑتی، تاہم یہ توجیہ اصل مقصود کے اثبات کے لیے ناکافی ہے، کیونکہ یہاں مطلوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سزاؤں کے 'حد' ،یعنی سزا کا لازمی حصہ ہونے کا اثبات ہے، جبکہ قرآن نے ہر قسم کے زانی کے لیے زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اصل سزا یہی ہے۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اضافی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی زائد سزا بیان کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ 'حد ' نہیں ، بلکہ ایک تعزیری سزا ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ اسے اصل سزاکا لازمی حصہ تصور کرتے ہوئے قرآن کی بیان کردہ سزا کے ساتھ مساوی طور پر لازم مانا جائے تو یہ بات قرآن کے صریح بیان کو ناکافی قرار دینے کے مترادف ہے اور اس سے آیت اور روایت کے باہمی تعلق کی کوئی معقول توجیہ بے حد مشکل ہو جاتی ہے۔

٣۔ فقہائے احناف نے رجم کی سزا کے حوالے سے قرآن مجید اور روایت کے باہمی تعارض کونسخ کے اصول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں دو زاویہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں: ایک رائے کے مطابق رجم کا حکم سورہ نور کی آیت کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں ہی کی سزا مشروع کی گئی تھی، لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔٢٨ دوسری راے کی رو سے شادی شدہ اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق سورہ نور کی مذکورہ آیت سے پہلے ہی قائم کیا جا چکا تھا اور کنوارے زانی کو سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطن کرنے، جبکہ شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کے ساتھ رجم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سورہ نور کی آیت نازل ہوئی اور کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ زانی کو رجم سے پہلے سو کوڑے مارنے کی سزا منسوخ قرار پائی۔ ٢٩

ہم یہاں اصول فقہ کی اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ سنت کے ذریعے سے قرآن یا قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کو کلی یا جزوی طور پر منسوخ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس امکان کو اصولاً تسلیم کر لیا جائے تو بھی نسخ کا وقوع ثابت کرنا بے حد مشکل ہے، اس لیے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے حق میں مثبت طور پر کوئی دلیل موجود نہیں، بلکہ اس کے برخلاف قرائن موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورہ نور کی آیت شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم دیے جانے سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور روایت اس کے لیے ناسخ ہے تو عبادہ بن صامت سے مروی روایت اس بات کی نفی کرتی ہے، کیونکہ روایت سے واضح ہے کہ سورہ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد اس موقع سے پہلے زنا سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور 'اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا' کے وعدے کی تکمیل پہلی مرتبہ اسی حکم کے ذریعے سے کی جا رہی تھی۔ اس کے برعکس اگر سورہ نورکی آیت کو اس سے پہلے نازل ہونے والے حکم کے لیے ناسخ مانا جائے تو لازم آئے گا کہ شادی شدہ اور کنوارے، دونوں طرح کے زانیوں کے لیے سو کوڑے ہی حد شرعی قرار پائے، اس لیے کہ سورہ نور میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں نہ صرف یہ کہ کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ بات کہ سورہ نور کی آیت نے کنوارے زانی کے لیے جلاوطنی اور شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا تو منسوخ کر دی، لیکن رجم کا حکم اس کے بعد بھی برقرار رہا، محض تحکم کا درجہ رکھتی ہے۔

٤۔ ایک نقطہ نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت خود قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی جو بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی رہ گیا۔ ٣٠ اس موقف کے حق میں بناے استدلال بالعموم سیدنا عمر کی طرف منسوب ایک روایت کوبنایا جاتا ہے۔ عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا :

ان اللّٰه بعث محمدًا بالحق وانزل عليه الکتاب فکان مما انزل اللّٰه آية الرجم فقراناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم ورجمنا بعده فاخشی ان طال بالناس زمان ان يقول قائل واللّٰه ما نجد آية الرجم فی کتاب اللّٰه فيضلوا بترك فريضة انزلها اللّٰه والرجم فی کتاب اللّٰه حق علی من زنی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البينة او کان الحبل او الاعتراف.(بخاری، رقم ٦٣٢٨)
''اللہ تعالیٰ نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی نازل کی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی۔ چنانچہ ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور اسے یاد کیا۔ (اس پر عمل کرتے ہوئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہے گا کہ بخدا، ہم کتاب اللہ میںرجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ کے اتارے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ جو مرد یا عورت محصن ہونے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ موجود ہوں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ خود اعتراف کر لے تو اللہ کی کتاب میں اس کے لیے رجم کی سزا ثابت ہے۔''

سیدنا عمر کی طرف اس قول کی نسبت کے صحیح ہونے میں ایک اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس خطبے کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں، لیکن خود ان کی رائے قرآن مجید میں رجم کا کوئی باقاعدہ حکم نازل ہونے کے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ان سے مروی دو آثار قابل توجہ ہیں:

علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہہ نے فرمایا کہ ابتدا میں زنا کی سزا یہ تھی کہ خاتون کو گھر میں محبوس کر دیا جائے اور مرد کو زبانی اور جسمانی طور پر اذیت دی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے 'اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِیْ' کی آیت اتاردی، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ ٣١

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ 'يٰۤاَهْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَکُمْ کَثِيْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ' (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی انھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے۔ ٣٢

ان دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں اور اس کے بجاے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع سیدنا عمر کے مذکورہ خطبے کے راوی ہیں جس میں انھوں نے رجم کے قرآن مجید میں نازل ہونے کا ذکرکیا ہے تو پھر ان کا اس سے مختلف راے قائم کرنا بظاہر سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔

رجم کا حکم نازل ہونے کی روایات سیدنا عمر کے علاوہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں اور ان میں قرآن مجید کی یہ آیت 'الشيخ والشيخة اذا زنيا فارجموهما البتة'(بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو لازماً سنگ سار کردو)کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ ٣٣ یہ روایات اس حوالے سے باہم متعارض ہیں کہ رجم کا حکم آیا قرآن مجید کی کسی باقاعدہ آیت کے طور پر نازل ہوا تھا یا قرآن سے باہر کسی الگ حکم کے طور پر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت باقاعدہ قرآن مجید کے ایک حصے کے طور پر نازل ہوئی تھی اور اسی حیثیت سے پڑھی جاتی تھی۔ چنانچہ زر بن حبیش ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ سورہ احزاب اپنے حجم میں سورہ بقرہ کے برابر ہوا کرتی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی: 'الشيخ والشيخة اذا زنيا فارجموهما البتة نکالا من اللّٰه واللّٰه عزيزحکيم' ٣٤۔اس کے برعکس بعض دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ قرآن مجید سے الگ ایک حکم تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات میں اسے قرآن مجید میں لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کثیر بن ا لصلت روایت کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم 'الشيخ والشيخة اذا زنيا فارجموهما البتة' کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مردو عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ٣٥

بہرحال، رجم کا حکم قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اس سے نکال لیا گیا ہو یا ابتدا ہی سے اسے قرآن کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شارع کے پیش نظر اس کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو مذکورہ طریقہ کیوں اختیارکیا گیا؟ اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو اس کی واحد معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم بھی منسوخ ہو چکا ہے، ورنہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ حکم تو دیا گیا تھا، لیکن اسے قرآن مجید کا حصہ بنانے سے بالقصد گریز کیا گیا تو بظاہر یہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی نوعیت کا حکم تھا جسے ابدی شرعی احکام کی حیثیت سے برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اسی سزا کے بیان پر اکتفا کی جسے ابدی طور پر باقی رکھنا ضروری تھا۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رجم کے حکم کے منسوخ ہو جانے کی بات بظاہر معقول دکھائی دیتی ہے، لیکن اس امر کی توجیہ کسی طرح نہیں ہو پاتی کہ نہ صرف سیدنا عمر جیسے بلند پایہ فقیہ معاملے کی اس نوعیت سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود رجم کے ایک شرعی حکم کے طورپر باقی ہونے کے قائل ہیں، بلکہ خلفاے راشدین اور دوسرے اکابر صحابہ کے ہاں بھی متفقہ طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے۔

روایتی علمی ذخیرے میں زیر بحث سوال کے حوالے سے پیش کی جانے والی توجیہات کے غیراطمینان بخش ہونے کے تناظر میں متاخرین میں سے بعض اہل علم نے ان سے ہٹ کر بعض نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک الجھن موجود ہے، مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش،بلکہ ضرورت موجود رہے گی اور اہل علم اگر اس ضمن میں نئی اور متبادل آرا پیش کرتے ہیں تو ان کو سنجیدہ توجہ کا مستحق سمجھا جانا چاہیے۔ یہ توجیہات حسب ذیل ہیں:

٥۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا حکم کسی واضح آیت کی صورت میں نہیں، بلکہ سورہ مائدہ (٥)کی آیات ٤١-٤٣ میں مذکور اس واقعے کے ضمن میں نازل ہوا ہے جس میں یہود کے، منافقانہ اغراض کے تحت، ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے۔ روایات کے مطابق یہ زنا کا مقدمہ تھا اور یہود نے نرم سزا کی توقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تھا، لیکن آپ نے ان پر تورات ہی کی سزا ،یعنی رجم کو نافذ کر دیا۔ ٣٦ مولانا کی راے میں قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر اس کو فی الجملہ حکم کا ماخذ بنانے کے لیے کافی ہے، تاہم قرآن نے رجم کا ذکر اصلاً شریعت محمدیہ کے ایک حکم کے طور پر نہیں بلکہ شریعت موسوی کے آثار وباقیات کے ضمن میں کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے اور وہ عمومی طور پر اسے رجم کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ گویا قرآن کی رو سے زانی کے لیے کوڑے کی سزا تو لازم ہے جبکہ رجم ایک ثانوی سزا ہے جس کو نمایاں اور عملاً رائج نہ کرنا مقصود ہے، اور اگر اس کا ذکر قرآن میں نصاً وتصریحاً کر دیا جاتا تو اس سے اس کی اہمیت نمایاں ہو جاتی اور اس کے نفاذ کو ٹالنے کا مقصد حاصل نہ ہوتا۔ شاہ صاحب کے نزدیک قرآن نے اسی پہلو سے اس سزا کے نفاذ کی شرائط، یعنی مجرم کے شادی شدہ اور مسلمان ہونے کی وضاحت نہیں کی،بلکہ ان کے اخذ واستنباط کو روایات ومقدمات پر چھوڑ دیا ہے تاکہ ان کی تعیین میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے، اور اسی لیے معمولی شبہات اور اعذار کی بنا پر رجم کی سزا کو ساقط کر کے سو کوڑوں کی سزا دینے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ ٣٧

شاہ صاحب کی توجیہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کے رجم کی سزا کو مبہم طور پر بیان کرنے سے مقصود یہ تھاکہ عمومی طور پر رجم کی سزا نافذ نہ کی جائے اور اس کے نفاذ میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے منشا کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے متعین طور پر رجم کی سزا کیوں مقرر کر دی؟ اگر قرآن کا منشا آپ پر بھی واضح نہیں ہو سکا تو بلاغت کے پہلو سے ابہام کا یہ اسلوب کمال نہیں،بلکہ نقص کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اور اگر خود قرآن کا منشاوہی ہے جو روایت میں بیان ہوا ہے تووہی سوال عود کر آتا ہے کہ قرآن خود صاف لفظوں میں اس کی تصریح کیوں نہیں کرتا اور اس کے لیے ایک جگہ زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے مقرر کرنے اور دوسری جگہ رجم کی سزا کا مبہم انداز میں ذکر کرنے اور پھر اس کے نفاذ کی شرائط و تفصیلات کو روایات ومقدمات پر، جو ابھی وجود میں بھی نہیں آئے تھے، منحصر چھوڑ دینے کا پر پیچ طریقہ کیوں اختیارکرتا ہے؟

٦۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ روایت میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے 'محاربہ' اور 'فساد فی الارض' کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو 'فساد فی الارض' کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت 'فساد فی الارض' کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ ٣٨ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد 'الثيب بالثيب جلد مائة والرجم' کے بارے میں مولانا اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ یہاں حرف 'و'جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ ٣٩

اس رائے کو درست ماننے کے نتیجے میں 'رجم' کی بنیاد زانی کا شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اس کے جرم کی نوعیت قرار پاتی ہے۔ اس طرح نہ ہر شادی شدہ زانی کو رجم کرنا لازم رہتا ہے اور نہ کوئی غیر شادی شدہ محض اپنے کنوارے ہونے کی بنا پر اس سزا سے محفوظ قرار پاتا ہے، بلکہ اگر زنا کے جرم میں سنگینی یا شناعت کا کوئی بھی اضافی پہلو پایا جائے تو مجرم کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، اسے رجم کیا جا سکتا ہے۔

رجم کی سزا کو زنا کے عام مجرموں کے بجاے زیادہ سنگین نوعیت کے مجرموں سے متعلق قرار دینے کی مذکورہ توجیہ کو قبول کر لیا جائے تو قرآن مجید اور روایات کا ظاہری تعارض باقی نہیں رہتا۔ یہ راے اس پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے ایک مقدمے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ 'لاقضين بينکما بکتاب اللّٰه'، یعنی میں تمھارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور پھر آپ نے کنوارے زانی کو سو کوڑے مارنے اور جلاوطن کرنے کا، جبکہ شادی شدہ زانیہ کو رجم کرنے کاحکم دیا۔ ٤٠ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی آیت محاربہ ہی وہ واحد مقام ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر جلا وطن کرنے یا عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کا ذکر ہوا ہے۔ شارحین حدیث نے اس مقام پر 'کتاب اللّه'سے اللہ کا حکم یا اس کا قانون مراد لیا ہے، لیکن اگر زانی کو جلا وطن یا سنگ سار کرنے کا ماخذ سورہ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دینے کی راے درست تسلیم کر لی جائے تو 'کتاب اللّه' کے لفظ کی مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں رہتی، البتہ اس امر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ یہ توجیہ رجم سے متعلق تمام روایات پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے یہ محض زنا کے سادہ مقدمات نہیں تھے، بلکہ ان میں سزا پانے والے مجرموں کو درحقیقت آوارہ منشی اور بدکاری کو ایک پیشے اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے کی پاداش میں آیت محاربہ کے تحت رجم کیا گیا۔ اب اگر آیت محاربہ کو رجم کا ماخذ مانا جائے تو یہ ضروری تھا کہ احساس ندامت کے تحت اپنے آپ کو خود قانون کے حوالے کرنے والے مجرم سے درگذر کیا جائے یا کم ازکم سنگین سزا دینے کے بجاے ہلکی سزا پر اکتفا کی جائے، جبکہ قبیلہ غامد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو خود عدالت میں پیش ہونے اور سزا پانے پر خود اصرار کرنے کے باوجود رجم کیا گیا۔ ٤١

ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لائے جانے کے حوالے سے روایات الجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق وتنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا ایک عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے۔ ٤٢ اسی طرح بعض روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو بھی طلب کیا جس کے ساتھ ماعز نے زنا کیا تھا، لیکن کوئی سزا دیے بغیر اسے چھوڑ دیا ٤٣ جو بظاہر اس امر کی دلیل ہے کہ یہ رضامندی کے زنا کا نہیں، بلکہ زنا بالجبر کا واقعہ تھا، تاہم بعض دیگر روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف ماعز کو رجم کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر وہ رجم سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا، ٤٤ بلکہ اس کے سرپرست ہزال سے بھی کہا کہ ''اگر تم اس کے جرم پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔'' ٤٥ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ماعز کا آیت محاربہ کے تحت ماخوذ ہونا قابل فہم نہیں رہتا۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

لا يحل هم امرئ مسلم يشهد ان لا الٰه الا اللّٰه وانی رسول اللّٰه الا باحدی ثلاث: النفس بالنفس والثيب الزانی والمارق من الدين التارك للجماعة.(بخاری، رقم ٦٣٧٠)
''کسی مسلمان کی، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جان لینا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور وہ شخص جو دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ چھوڑ دے۔''

یہاں شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے اور روایت میں اسے عادی مجرموں کے ساتھ مخصوص قراردینے کا کوئی قرینہ بظاہرموجود نہیں۔ یہی صورت حال مزدور کے مقدمے میں دکھائی دیتی ہے اور روایت کے داخلی قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یہ کوئی مستقل یاری آشنائی کا نہیں، بلکہ اتفاقیہ زنا میں ملوث ہو جانے کا ایک واقعہ تھا۔ ٤٦

اسی طرح یہ بات بھی بعض روایات سے بظاہر لگا نہیں کھاتی کہ مجرم کا شادی شدہ ہونا اس سزا کے نفاذ میں محض 'ایک' عامل کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ 'واحد' فیصلہ کن بنیاد کی۔ مثال کے طور پر مزدور کے مقدمے میں اس کے مالک کی بیوی کو رجم کی، جبکہ خود مزدور کو سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور روایت سے اس فرق کی وجہ بظاہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا ہی سمجھ میں آتی ہے۔ 'لَا يَحِلُّ هَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ' میں بھی زانی کے شادی شدہ ہونے کو قتل کے جواز کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، جبکہ کسی اضافی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طور پر موزوں نہیں۔ مزید براں صحابہ کے ہاں، جنھیں رجم کے ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے مقدمے کے احوال وشرائط اور سزا کی نوعیت سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے، اس سزا کے بارے میں جو مجموعی فہم پایا جاتا ہے، وہ بھی اس فرق کے اضافی نہیں، بلکہ اساسی اور حقیقی ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔

مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر قرآن مجید کے ظاہر کو حکم مانا جائے تو زنا کے عام مجرموں کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر روایات کے ظاہراور ان پر مبنی تعامل کو فیصلہ کن ماخذ مانا جائے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کی نفی یا اس کی ایسی توجیہ و تاویل بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتی جس سے روایات کے متبادر مفہوم و مدعا کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ ان کا ظاہری تعارض فی الواقع دور ہو جائے۔ اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کا موجب زیادہ بنتی ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طالب علمانہ راے میں یہ بحث ان چند مباحث میں سے ایک ہے جہاں توفیق وتطبیق کا اصول موثر طور پر کارگر نہیں اور جہاں ترجیح ہی کے اصول پر کوئی متعین راے قائم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً اس صورت میں دو ہی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

جاری ہے
 

ظفری

لائبریرین
ایک یہ کہ روایات سے بظاہر جو صورت سامنے آتی ہے، اس کو فیصلہ کن مانتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ قرآن مجید کا مدعا اگرچہ بظاہر واضح اور غیر محتمل ہے، تاہم یہ محض ہمارے فہم کی حد تک ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے منشا کی تعیین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کے ظاہر کو حکم مانتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا یقینا کوئی ایسا محل ہوگا جو قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو، لیکن چونکہ قرآن کا مدعا ہمارے لیے بالکل واضح ہے، جبکہ روایات کا کوئی واضح محل بظاہر سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے روایات اور ان پر مبنی تعامل کو توجیہ وتاویل یا توقف کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان پر غور وفکر جاری رکھا جائے گا تاآنکہ ان کا مناسب محل واضح ہو جائے۔

اس دوسرے زاویہ نگاہ کے پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ شریعت کے جو احکام قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز نہیں ہو سکتا اور اگر بظاہر کہیں ایسی صورت دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کرنی چاہیے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تصور اصولی طور پر خود صحابہ کے ہاں موجود رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ جب قرآن مجید میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت خوف کی حالت سے مشروط ہے تو امن کی حالت میں اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ ٤٧ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول کرنے میں تردد تھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات قرآن مجید کی آیت 'قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا' ٤٨ کے منافی تھی جس میں حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کو حرام کہا گیا ہے۔ ٤٩

سنت کے جو احکام بظاہر قرآن مجید کے نصوص سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کا یہ زاویہ بھی صحابہ کے ہاں دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ قرآن مجید میں نازل ہونے والے حکم سے پہلے کے دور سے متعلق ہوں۔ مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کر لینے کے جواز کے بارے میں صحابہ کے مابین خاصی بحث موجود رہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کے جواز کے قائل نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا سورہ مائدہ میں وضو کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا عمل تھا:

سلوا هؤلاء الذين يزعمون ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم مسح علی الخفين بعد سورة المائدة واللّٰه ما مسح بعد المائدة. (طبرانی، المعجم الکبير،رقم ١٢٢٨٧)
''ان سے پوچھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ بخدا، آپ نے سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسح نہیں کیا۔''

خود رجم کی سزا کے معاملے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوا۔ ابو اسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ ٥٠

اس طرح یہ بحث دو مختلف اصولی زاویہ ہائے نگاہ میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی بحث قرار پاتی ہے۔ یہ دونوں زاویے عقلی اعتبار سے اپنے اندر کم وبیش یکساں کشش رکھتے ہیں اور اس باب میں انفرادی ذوق اور رجحان کے علاوہ کوئی چیز غالباً فیصلہ کن نہیں ہو سکتی ۔

قرآن مجید میں زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے زانی اور زانیہ، دونوں کو سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ قرآن کے پیش نظر اصلاً زنا بالرضا کی سزا بیان کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سزا کا اطلاق زنا بالجبر پر بھی ہوگا، لیکن چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے زنا کی عام سزا کے ساتھ کسی تعزیری سزا جو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے موت بھی ہو سکتی ہے کا اضافہ، ہر لحاظ سے قانون وشریعت کا منشا تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کوئی متعین سزا تو قرآن وسنت کے نصوص میں بیان نہیں ہوئی، البتہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فیصلے ضرور نقل ہوئے ہیں:

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نماز کے لیے مسجد جاتی ہوئی ایک خاتون کو راستے میں تنہا پا کر اسے پکڑ لیا اور زبردستی اس کے ساتھ بدکاری کر کے بھاگ گیا، لیکن جب اس کے شبہے میں ایک دوسرے شخص کو پکڑ لیا گیا اوراس پر سزا نافذ کی جانے لگی تو اصل مجرم نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنگ سار کرنے کا حکم دے دیا۔ ٥١

اس واقعے سے متعلق روایات میں اس شخص کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی تحقیق کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر یہ شخص کنوارا تھا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ازدواجی حیثیت کی تحقیق کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی تو پھر اس سے یہ بات بآسانی اخذ کی جا سکتی ہے کہ زنا بالجبر کی سزا رضامندی کی سزا کے مقابلے میں زیادہ سخت ہونی چاہیے۔

ایک دوسرے مقدمے میں جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کر لیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر اس میں لونڈی کی رضامندی شامل نہیں تھی تو پھر وہ آزاد ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ اس جیسی کوئی دوسری لونڈی اپنی بیوی کے حوالے کرے۔ ٥٢

یہاں زنا کے مرتکب کے لیے کسی سزا کا ذکر نہیں ہوا۔ ممکن ہے، اس شخص کو کوئی سزا دی گئی ہو، لیکن روایت میں اس کا ذکر نہ ہوا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ وطی کی ہو اور اس طرح حرمت محل میں شبہے کی بنیاد پر اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو۔

صحابہ اور تابعین سے زنا بالجبر کے بعض واقعات میں زنا کی عام سزا دینا منقول ہے۔ ٥٣ ان واقعات میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والی زیادہ تر لونڈیاں تھیں۔ عرب معاشرت میں غلام اور لونڈیاں نہ صرف اخلاقی تربیت سے محروم ہوتے تھے، بلکہ ان میں زنا اور چوری جیسی اخلاقی برائیوں کا پایا جانا ایک عام بات تھی۔ چنانچہ لونڈیوں کے ہاں عفت وعصمت کا تصور ایسا پختہ نہیں تھا کہ اس کے چھن جانے پر وہ محرومی یا ہتک عزت کے کسی شدید احساس کا شکار ہو جائیں۔ اس تناظر میں لونڈیوں کے ساتھ بالجبر زنا پر اگر کوئی سخت تر سزا نہیں دی گئی تو یہ بات قابل فہم ہے۔
سیدنا ابوبکر نے ایک مقدمے میں زنا بالجبرکے مجرم کو پابند کیا کہ وہ اس خاتون کے ساتھ نکاح کر لے، ٥٤ جبکہ عمر بن عبد العزیز اور حسن بصری نے زنا بالجبر کی سزا یہ تجویز کی کہ مجرم پر حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے غلام بنا کر اسی عورت کی ملکیت میںدے دیا جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی تھی۔ ٥٥

تابعی مفسر سدی کی راے یہ تھی کہ اگر خاتون کا باقاعدہ پیچھا کر کے اس کے ساتھ بالجبر زنا کیا جائے تو مجرم کو لازماً قتل کیا جائے گا۔ سدی نے اس کے لیے سورہ احزاب(٣٣) کی آیت ٦١ میںمنافقین کے حوالے سے بیان ہونے والے حکم 'ايْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا' سے استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

هذا حکم فی القرآن ليس يعمل به، لو ان رجلًا او اکثر من ذلك اقتصوا اثر امراة فغلبوها علی نفسها ففجروا بها کان الحکم فيهم غير الجلد والرجم: ان يؤخذوا فتضرب اعناقهم .(تفسير ابن ابی حاتم٧/٣٢٦،رقم١٨٣٨٤)
''قرآن مجید میں یہ ایک ایسا حکم ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی شخص یا کچھ افراد کسی عورت کا پیچھا کریں اور اس کو زبردستی پکڑ کر اس کے ساتھ بدکاری کریں تو ان کی سزا سو کوڑے لگانا یا رجم کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انھیں پکڑ کر ان کی گردنیں اڑا دی جائیں۔''

امام باقر اور امام جعفر صادق بھی زنا بالجبر کے مجرم کو قتل کر دینے کے قائل ہیں۔ ٥٦

جہاں تک باقی فقہی مکاتب فکر کا تعلق ہے تو فقہا اس کو زنا بالرضا کے مقابلے میں سنگین تر جنایت تسلیم کرنے کے باوجود بالعموم اس کے مرتکب کے لیے زنا کی عام سزا ہی تجویز کرتے یا زیادہ سے زیادہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو اس کے مہر کے برابر رقم کا حق دار قرار دیتے ہیں، جبکہ احناف اس کو اس رقم کا مستحق بھی نہیں سمجھتے۔ ٥٧ امام مالک سے منقول ہے کہ اس صورت میں عورت کو مہر کے ساتھ اس کی عزت وناموس اور حیثیت عرفی کے مجروح ہونے کا تاوان بھی دلوایا جائے گا۔ ٥٨

جاری ہے
 

ظفری

لائبریرین
یہ بات بعض صورتوں میں تو شاید نامناسب نہ ہو، لیکن اسے علی الاطلاق درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا بالجبر محض زنا کی دو صورتوں میں سے ایک صورت نہیں، بلکہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا جرم ہے۔ رضامندی کا زنا اصلاً ایک گناہ ہے جس میں 'یہ بات بعض صورتوں میں تو شاید نامناسب نہ ہو، لیکن اسے علی الاطلاق درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا بالجبر محض زنا کی دو صورتوں میں سے ایک صورت نہیں، بلکہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا جرم ہے۔ رضامندی کا زنا اصلاً ایک گناہ ہے جس میں حق اللہ پامال ہوتا ہے ۔ جبکہ زنا بالجبر میں حق اللہ کے ساتھ ساتھ حق العبد پر بھی تعدی کی جاتی اور ایک خاتون سے اس کی سب سے قیمتی متاع چھین لی جاتی ہے۔ فقہا نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ ایک پاک دامن عورت کے لیے جو اپنی عفت اور اپنی عزت نفس کو عزیز رکھتی ہے، عصمت کا لوٹا جانا کوئی مالی نقصان نہیں کہ اس کے بدلے میں اسے کچھ رقم دے کر نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کا شکار ہونے والی خاتون کے زاویہ نظر سے دیکھیے تو نفسیاتی لحاظ سے یہ غالباً قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور ابن تیمیہ نے بجا طور پر اسے 'مثلہ ' (Mutilation) ، یعنی انسانی جسم کی بے حرمتی کے مشابہ قرار دیا ہے۔ ٥٩
بروکلین لا اسکول میں قانون کی استاد پروفیسر سوزن این ہرمن (Susan N. Herman) نے اس ضمن میں نفسیاتی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

''Women who are raped suffer a sense of violation that goes beyond physical injury. They may become distrustful of men and experience feelings of shame, humiliation, and loss of privacy. Victims who suffer rape trauma syndrome experience physical symptoms such as headaches, sleep disturbaces, and fatigue. They may also develop psychological disturbances related to the circumtances of the rape, such as intense fears. Fear of being raped has social as well as personal consequences. For example, it may prevent women from socializing or traveling as they wish.''
(Microsoft Encarta Reference Library 2003, CD edition, article: ''Rape'')
" ''زنا بالجبر کا شکار ہونے والی خواتین پامالی کے ایک احساس کا شکار ہو جاتی ہیں جو جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اس کا امکان ہے کہ وہ مردوں پر اعتبار کھو بیٹھیں اور انھیں شرمندگی، تذلیل اور بے پردگی کے احساسات کا تجربہ ہوتا رہے۔ اس کا شکار ہونے والی جو خواتین " ' Rape trauma syndrome' " زیادتی کے نفسیاتی دھچکے سے پیدا ہونے والی علامات) کا شکار ہو جاتی ہیں، ان میں سر درد، نیند میں خلل اور تھکن کی جسمانی علامات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان میں زیادتی کے حالات سے تعلق رکھنے والے نفسیاتی عدم توازن مثلاً شدید خوف کا پیدا ہو جانا بھی بعید نہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے کا خوف سماجی کے ساتھ ساتھ ذاتی نوعیت کے نتائج مرتب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ خواتین کے سماجی میل جول یا اپنی مرضی سے سفر کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔'' "

مزید یہ کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کے 'نقصان' کو پورا کرنا اور چیز ہے اور جرم کی سنگینی کے تناظر میں مجرم کی جسمانی سزا میں اضافہ ایک بالکل دوسری چیز اور عورت کو عصمت دری کا معاوضہ دلانے کے باوجود اگر مجرم کو کوئی اضافی جسمانی سزا نہیں دی جاتی تو اس سے عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

بعض اہل علم نے زنا بالجبر کو مطلقاً 'حرابہ ' کی ایک صورت قرار دیا ہے۔ لیکن زنا بالجبر کی ہر شکل کو 'حرابہ ' قرار دینا تو غالباً قرین انصاف نہیں ہے اور اس کی کم یا زیادہ سنگین صورتوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہوگا۔ مثال کے طور پر کسی موقع پر وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر کسی خاتون کی عزت لوٹ لینے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اس جرم کا ارتکاب کرنے کوایک ہی درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ پہلی صورت نسبتاً کم سنگین ہے اور اس پرزنا کی سادہ سزا کے ساتھ جبر اور ہتک عزت کی پاداش میں کسی مناسب تعزیری سزا اور جرمانے کا اضافہ کر دینا زیادہ موزوں ہوگا، البتہ جہاں تک کسی خاتون کو اغوا کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرنے یا اجتماعی آبرو ریزی یا خواتین کو برہنہ کر کے سربازار رسوا کرنے یا عصمت و آبرو کے خلاف تعدی کی دیگر سنگین صورتوں کا تعلق ہے جن میں قانون کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور معاشرے میں جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے احساس کو مجروح کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے تو وہ صریحاً حرابہ اور فساد فی الارض کے زمرے میں آتی ہیں اور ایسے مجرموں کو عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی دینے یا ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے جیسی سزاؤں کا مستوجب ٹھہرانا ہر لحاظ سے شریعت کا منشا ہوگا۔ ٦٠
________________________
١- ابو حیان، البحر المحیط٣/٢٠٦۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ٥/٨٧۔
٢- جصاص، احکام القرآن ٣/٤٣۔
٣- طبری، جامع البیان ٤/٢٩٤۔
٤- البقرہ ٢:٢٢٦۔
٥- المجادلہ ٥٨:٢۔
٦- ابن العربی، احکام القرآن ١/٤٥٨۔
٧- ابن عطیہ، المحرر الوجیز ٢/٢٢۔ ابن العربی، احکام القرآن ١/٤٦٥۔
٨- جصاص، احکام القرآن ٣/٤٢۔
٩- رازی، التفسیر الکبیر٩/١٩٠۔
١٠- رازی، التفسیر الکبیر٩/١٨٧۔
١١- النساء ٤:١٩۔''سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔''
١٢- الاحزاب٣٣: ٣٠۔''(اے ازواج نبی) تم میں سے جو کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوگی۔''
١٣- آلوسی، روح المعانی ٤/٢٣٧۔
١٤- آلوسی، روح المعانی ٤/٢٣٦۔
١٥- شافعی، الام ٧/٨٢۔
١٦- احکام القرآن ١/٤٥٧۔
١٧- برہان ١٢٥- ١٢٦۔
١٨- سرخسی، المبسوط ٩/٥٠- ٥١۔ جصاص، احکام القرآن ٣/٢٥٥- ٢٥٦۔ طحاوی، شرح معانی الآثار، رقم ٤٤٧٩۔
١٩- طحاوی، شرح معانی الآثار،رقم ٤٤٧٩۔
٢٠- شیبانی، کتاب الآثار،رقم ٦١٤- ٦١٥۔
٢١- رازی، التفسیر الکبیر ٢٣/١١٧- ١١٨۔
٢٢- شافعی، الرسالہ ٦٦- ٦٧، ٧٢۔

یہاں امام صاحب کے موقف میں ایک داخلی تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ ایک طرف انھوں نے اس مسئلے کو سنت کے ذریعے سے قرآن مجید کی تخصیص کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ یہ فرماتے ہیں کہ سورہ نساء میں زنا کی عبوری سزا مقرر کیے جانے کے بعد سورہ نور کی آیات نازل ہوئیں جن میں زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم کی وضاحت میں وہ تفصیل بیان کی جو عبادہ بن صامت کی روایت میں نقل ہوئی ہے۔ (الام ٧/٨٢) حدیث عبادہ میں شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے کی سزا بیان کی گئی ہے، البتہ اس کے ساتھ اسے رجم کا مستحق بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ روایت قرآن مجیدکی تخصیص کی نہیں، بلکہ اس پر زیادت کی مثال ہے۔ امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا منسوخ ہو چکی ہے، تاہم اس سے صورت حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے کہ عبادہ بن صامت کی روایت میں بیان ہونے والے اصل حکم میں تو، بہرحال اسے شادی شدہ زانی پر بھی قابل اطلاق قرار دیا گیا ہے۔

٢٣- زمخشری، الکشاف ١/٥٣٢۔ ابن عطیہ، المحرر الوجیز ٢/٣٩۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ١/٤٧٨۔
٢٤- تفہیم القرآن٣/٣٢٦۔
٢٥- تفہیم القرآن ١/٣٤٢- ٣٤٣۔
٢٦- ابن عبد البر، الاستذکار ٢٤/٤٩۔ شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ ٢/ ٤٢٧۔
٢٧- جمہور فقہا رجم کی سزا نافذ کرنے کے لیے محض اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ زانی نے زندگی میں ایک مرتبہ نکاح صحیح کے ساتھ کسی مسلمان خاتون کے ساتھ ہم بستری کی ہو، جبکہ امام باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم کی رائے یہ نقل ہوئی ہے کہ رجم کی سزا کا نفاذ صرف ایسے شادی شدہ زانی و زانیہ پر کیا جائے گاجس کے لیے ارتکاب زنا کے وقت بھی شرعی طریقے سے اپنی بیوی باندی یا شوہر سے جنسی استمتاع کا امکان موجود ہو۔ اگر نکاح کے بعد جدائی ہو چکی ہو یا زوجین میں سے کوئی ایک انتقال کر چکا ہو یا خاوند محبوس ہویا گھر سے دور ہو تو زنا کے ارتکاب پر مجرم کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اسے رجم کی سزا نہیں دی جائے گی (الکلینی، الفروع من الکافی ٧/١٧٨-١٧٩۔ القمی، من لا یحضرہ الفقیہ٤/٣٩-٤٠، رقم٥٠٣٦- ٥٠٣٧) امام باقر بیان کرتے ہیں کہ خاوند کی گھر سے دوری اور قید و بند کی صورت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فیصلہ صادر فرمایا۔(الفروع من الکافی٧/١٧٩)
٢٨- ابن الہمام، فتح القدیر ٥/٢٣٠۔
٢٩- سرخسی، المبسوط ٩/٤١- ٤٢۔
٣٠- ابن حزم، المحلیٰ ١١/٢٣٤۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ٢٠/٣٩٨-٣٩٩۔
٣١-طبری، جامع البیان ٤/٢٩٧۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ١٦٦٩١۔
٣٢- نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ٧١٦٢۔
٣٣- مسند احمد، رقم ٢٠٦١٣۔ موطا امام مالک، رقم ٢٥٦٨۔
٣٤- بیہقی، رقم١٦٦٨٨۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ٧١٥٠۔
٣٥- بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ١٦٦٩٠۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ٧١٤٨۔
٣٦- بخاری، رقم ٤١٩٠۔
٣٧- فیض الباری ٥/٢٣٠،٦/٣٥٣-٣٥٤۔ مشکلات القرآن ١٦٥- ١٦٦، ٢١٣۔
٣٨- تدبر قرآن ٥/٣٦٧ - ٣٦٩۔
٣٩- تدبر قرآن ٥/٣٧٤۔ رجم کو زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہ سمجھنے والے بعض دیگر اہل علم نے اس سے مختلف ماخذ بھی متعین کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اس حکم کا ماخذ سورہ احزاب (٣٣)کی آیت ٦١ کے الفاظ 'اَيْْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلاً' (یہ جہاں ملیں، ان کو پکڑ لیا جائے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے) کو قرار دیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے منافقین کی فتنہ پردازیوں اور بالخصوص مسلمان خواتین کے حوالے سے ان کے مفسدانہ اور شرانگیز طرزعمل سے نمٹنے کے لیے انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ (عنایت اللہ سبحانی، حقیقت رجم ٢٠٢-٢٠٧۔ محمد طفیل ہاشمی، حدود آرڈی نینس کتاب وسنت کی روشنی میں ١٢٧ - ١٣٦) جبکہ بعض اہل علم قرآن مجید میں رجم کا کوئی ماخذ متعین کیے بغیر اسے حد کے بجائے محض ایک تعزیری سزا قرار دیتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے دی۔ (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: رجم اصل حد ہے یا تعزیر؟ ٥٥، ٩٣ -٩٥۔ فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ٦٣٢ - ٦٤٤)
٤٠- بخاری، رقم ٢٤٩٨۔
٤١- مسلم، رقم ٣٢٠٨۔
٤٢- مسلم، رقم ٣٢٠٣- ٣٢٠٦۔
٤٣- ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ٤/٣٢٣۔
٤٤- بخاری، رقم ١٣٤٨۔
٤٥- الموطا، رقم ١٢٩٠۔
٤٦- بخاری، رقم ٢٥٢٣۔
٤٧- مسلم، رقم ٦٨٦۔
٤٨- الانعام ٦: ١٤٥۔ ''تم کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، میں اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا رگوں سے بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے یا ایسا جانور ہو جسے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔''
٤٩- بخاری، رقم ٥٢٠٩۔ المستدرک، رقم ٣٢٣٦۔
٥٠- بخاری، رقم ١٧٠٢۔
٥١- ابوداؤد،ر قم ٤٣٧٩۔ ترمذی، رقم ١٤٥٤۔
٥٢- نسائی، رقم ٣٣١٠۔ ابو داؤد، رقم ٣٨٦٨۔
٥٣- موطا امام مالک، رقم ١٣٠٠- ١٣٠٢۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ٢٨٤٢١ - ٢٨٤٢٧۔
٥٤- مصنف عبد الرزاق، رقم ١٢٧٩٦۔
٥٥- مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ٢٨٤٢٣- ٢٨٤٢٦۔
٥٦- الکلینی، الفروع من الکافی٧/١٨٩۔القمی، من لا یحضرہ الفقیہ٤/٤١،رقم ٥٠٤١،٥٠٤٢، ٥٠٤٤۔
٥٧- الموطا،رقم ٢٢٩٤۔ الشافعی، الام ٣/٢٧٢۔ سرخسی، المبسوط ٩/٦١- ٦٢۔
٥٨- سحنون بن سعید،المدونۃ الکبریٰ ١٦/٢٥٤۔
٥٩- مجموع الفتاویٰ ٢٠/٥٦٦۔
٦٠- اس بات کو تقلیدی جمود ہی کا کرشمہ سمجھنا چاہیے کہ١٩٩٧ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے اجتماعی آبرو ریزی (Gang Rape) پر سزائے موت کا قانون منظور کیا تو بعض مذہبی حلقوں نے اس قانون کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی، تاہم جناب ابو عمار زاہد الراشدی نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا: ''ایک ہی جرم مختلف مواقع اور حالات کے حوالے سے الگ الگ نوعیت اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی مختلف نوعیتوں کا یہ فرق علمائے احناف کے ہاں تو بطور خاص تسلیم کیا جاتا ہے۔.اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو ''گینگ ریپ '' زنا کی عام تعریف سے ہٹ کر ایک الگ، بلکہ اس سے زیادہ سنگین جرم قرار پاتا ہے، اس ليے کہ اجتماعی بدکاری کی صورت میں زنا کے ساتھ دو مزید جرم بھی شامل ہو جاتے ہیں: ایک یہ کہ یہ بدکاری عملاً دوسرے لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے جس میں تذلیل اور تشہیر کا پہلو پایا جاتا ہے اور انتقام کے لیے خود ساختہ صورت اختیار کرنا بجاے خود جرم ہے۔ پھر اس موقع پر اگر ہتھیار کی موجودگی اور نمایش بھی کی گئی ہو تو تخویف اور جبر کا ایک تیسرا جرم بھی اس کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور ان تمام جرائم کا مجموعہ ''گینگ ریپ'' ہے جس کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لےے اگر ''حدود شرعیہ'' سے ہٹ کر بطور تعزیر الگ سزا مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تو اسے شرعی اصولوں سے تجاوز قرار دینا کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہو گا۔ ہمارا خیال ہے کہ ''گینگ ریپ'' کی انسانیت سوز وارداتوں میں جس طرح مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لےے موت کی سزا کا یہ قانون ایک مناسب، بلکہ ضروری قانون ہے اور شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔'' (ابو عمار زاہد الراشدی، عصر حاضر میں اجتہاد ١٨٤-١٨٦)
عمار خان ناصر
 
میرے خیال میں ظفری صاحب کا مضمون کافی معلومات افزاء ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ فاروق صاحب کس بات پر خوش ہو رہے ہیں۔ مضمون میں‌ایسی کوئی بات نہیں جو فاروق صاحب کے موقف کی تائید کرتی ہو۔ مصنف نے خالص علمی انداز میں روایات کی تفہیم پر بحت کی ہے لیکن کہیں سے بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ مصنف ان تمام روایات سے انکاری ہے۔
اور فاروق صاحب کی اس بات پر بھی کافی سر دھننے کو جی چاہا کہ'بہترین کنوینشنل معلومات' ہیں ۔ بہت خوب;):):rolleyes:
 
ساری ہی عبارت کو بغور پڑھا ہے۔ اس مقدمہ کا نتیجہ کیا نکلا؟

کیا سورۃ النور کی ان آیات کے بعد بھی نبی اکرم نے --- تحریف شدہ تورات- کی موت بذریعہ سنگساری کی سزا کو جاری رکھا؟

والسلام
 

باسم

محفلین
مضمون نگار نے ایک ضابطہ
یہ بات طے کرنے کے قرائن کہ سورہ نور میں کون سے زانی زیر بحث ہیں، خود سورہ نور میں موجود ہونے چاہییں اور انھی کی روشنی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ سورہ نور کے احکام کا دائرہ اطلاق سورہ نساء کی آیات سے متعین کرنا چاہیے۔
لکھ کر مودودی صاحب کے استدلال کو "ہر لحاظ سے بالکل بے بنیاد " تو کہا
مگر بھول گئے کہ یہی طریقہ استدلال وہ خود بھی آزماچکے ہیں
سورہ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورہ نسا(٤) کی آیت ٢٥ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔
اگر یہ طریقہ استدلال بے بنیاد ہے تو ان کا استدلال بھی اسی کے تحت آتا ہے اور اگر درست ہے تو مودودی صاحب کا موقف بظاہر ان سے مضبوط ہے۔
 
Top