ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احباِبِ کرام ! میں نے فرمائشی کلام کم لکھا ہے اور جو لکھا ہے وہ عموماً محفوظ نہیں کیا ۔ لکھ کر دے دیا ۔یہ ایک نظم ہے جو برسوں پہلے اپنی ایک بھتیجی کی شادی کے موقع پر میں نے اپنی والدہ محترمہ (مرحومہ) کی خواہش پر لکھی تھی ۔ یہ نظم اپنے بھائی صاحب کی طرف سے لکھی ہے یعنی یہ ایک خطابیہ ہے بیٹی کی رخصتی کے موقع پر ۔ چونکہ اس سے اچھی یادیں وابستہ ہیں اس لئے یہ نظم مجھے پسند ہے ۔آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید آپ کو بھی اس کی شاعری پسند آئے ۔

رخصتی

راحتِ جاں ناز پرور سب مسرّت تم سے ہے
افتخار و شادمانی کی یہ دولت تم سے ہے
خانۂ آباد کی یہ شان و شوکت تم سے ہے
رونقِ بزمِ عروسی کی ضمانت تم سے ہے

محفلِ شادی کی رونق دائمی ہو شاد باد
رنگِ عشرت سے مزیّن آرسی ہو شاد باد
آنے والی زندگی کی ہرگھڑی ہو شاد باد
اک نئے جیون کی خاطر رخصتی ہو شاد باد

دیر تک تازہ گلابوں کی مہک باقی رہے
پھول چہرے پر تبسم کی دھنک باقی رہے
عمر بھر تابندہ سہرے کی چمک باقی رہے
اِن سہاگن چوڑیوں کی ہر کھنک باقی رہے

ہو مبارک تم کو اپنی زندگانی کا سفر
اک نئے بندھن میں دل کی شادمانی کا سفر
اک نئی دنیا میں دشتِ جاودانی کا سفر
رحمتِ حق سے ہو ثابت کامرانی کا سفر

زندگی کے راستے میں آگہی ہو ہر قدم
آرزوئیں کامراں ہوں بس خوشی ہو ہر قدم
جس طرف جاؤ سفر میں روشنی ہو ہر قدم
رشک سے منزل تمہی کو دیکھتی ہو ہر قدم

چاند تاروں سے سجی اِک کہکشاں تم کو ملے
تم جہاں جاؤ مقدّر مہرباں تم کو ملے
ہمسفر کا ساتھ اپنے جاوداں تم کو ملے
بجلیوں سے دُور ہو وہ آشیاں تم کو ملے

آج بچپن کی سکھی سنگت سے ناتا توڑ کر
اپنے پیاروں کی رفاقت سے توجہ موڑ کر
اک نئی نسبت سے اپنی ہر تمنا جوڑ کر
اپنے بابل کے بھرے گھر کو اکیلا چھوڑ کر

کہہ رہی ہو الوداع اشکوں بھری آنکھوں کے سنگ
لگ کے سینے رو رہی ہو بھایئوں بہنوں کے سنگ
لو تمہیں رخصت کیا اب اَن کہے لفظوں کے سنگ
جاؤ تم مہماں سرا سے اپنے گھر خوشیوں کے سنگ

میٹھی یادوں کی مہکتی سی ہوائیں اپنے ساتھ
بھَولے بچپن کی سنہری سی فضائیں اپنے ساتھ
اپنے دامن میں بھرے گھر کی وفائیں اپنے ساتھ
نورِ دل ماں باپ کی لے جا دعائیں اپنے ساتھ

لو مبارک ہو تمہیں وقتِ سفر اب الوداع
باندھ کر اشکوں کے سب لعل و گہر اب الوداع
جاؤ بابل کے نگر سے اپنے گھر اب الوداع
اے مری دختر مری نورِ نظر اب الوداع

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2005


 
آخری تدوین:
احباِبِ کرام ! میں نے فرمائشی کلام کم لکھا ہے اور جو لکھا ہے وہ عموماً محفوظ نہیں کیا ۔ لکھ کر دے دیا ۔یہ ایک نظم ہے جو برسوں پہلے اپنی ایک بھتیجی کی شادی کے موقع پر میں نے اپنی والدہ محترمہ (مرحومہ) کی خواہش پر لکھی تھی ۔ یہ نظم اپنے بھائی صاحب کی طرف سے لکھی ہے یعنی یہ ایک خطابیہ ہے بیٹی کی رخصتی کے موقع پر ۔ چونکہ اس سے اچھی یادیں وابستہ ہیں اس لئے یہ نظم مجھے پسند ہے ۔آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید آپ کو بھی اس کی شاعری پسند آئے ۔

رخصتی

راحتِ جاں ناز پرور سب مسرّت تم سے ہے
افتخار و شادمانی کی یہ دولت تم سے ہے
خانۂ آباد کی یہ شان و شوکت تم سے ہے
رونقِ بزمِ عروسی کی ضمانت تم سے ہے

محفلِ شادی کی رونق دائمی ہو شاد باد
رنگِ عشرت سے مزیّن آرسی ہو شاد باد
آنے والی زندگی کی ہرگھڑی ہو شاد باد
اک نئے جیون کی خاطر رخصتی ہو شاد باد

دیر تک تازہ گلابوں کی مہک باقی رہے
پھول چہرے پر تبسم کی دھنک باقی رہے
زندگی بھر تاباں سہرے کی چمک باقی رہے
اِن سہاگن چوڑیوں کی ہر کھنک باقی رہے

ہو مبارک تم کو اپنی زندگانی کا سفر
اک نئے بندھن میں دل کی شادمانی کا سفر
اک نئی دنیا میں دشتِ جاودانی کا سفر
رحمتِ حق سے ہو ثابت کامرانی کا سفر

زندگی کے راستے میں آگہی ہو ہر قدم
آرزوئیں کامراں ہوں بس خوشی ہو ہر قدم
جس طرف جاؤ سفر میں روشنی ہو ہر قدم
رشک سے منزل تمہی کو دیکھتی ہو ہر قدم

چاند تاروں سے سجی اِک کہکشاں تم کو ملے
تم جہاں جاؤ مقدّر مہرباں تم کو ملے
ہمسفر کا ساتھ اپنے جاوداں تم کو ملے
بجلیوں سے دُور ہو وہ آشیاں تم کو ملے

آج بچپن کی سکھی سنگت سے ناتا توڑ کر
اپنے پیاروں کی رفاقت سے توجہ موڑ کر
اک نئی نسبت سے اپنی ہر تمنا جوڑ کر
اپنے بابل کے بھرے گھر کو اکیلا چھوڑ کر

کہہ رہی ہو الوداع اشکوں بھری آنکھوں کے سنگ
لگ کے سینے رو رہی ہو بھایئوں بہنوں کے سنگ
لو تمہیں رخصت کیا اب اَن کہے لفظوں کے سنگ
جاؤ تم مہماں سرا سے اپنے گھر خوشیوں کے سنگ

میٹھی یادوں کی مہکتی سی ہوائیں اپنے ساتھ
بھَولے بچپن کی سنہری سی فضائیں اپنے ساتھ
اپنے دامن میں بھرے گھر کی وفائیں اپنے ساتھ
نورِ دل ماں باپ کی لے جا دعائیں اپنے ساتھ

لو مبارک ہو تمہیں وقتِ سفر اب الوداع
باندھ کر اشکوں کے سب لعل و گہر اب الوداع
جاؤ بابل کے نگر سے اپنے گھر اب الوداع
اے مری دختر مری نورِ نظر اب الوداع

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2005


خوبصورت خوبصورت!!!
 

بافقیہ

محفلین
ہمارے علاقے میں خالص عرب نسل رہتی ہے۔ تو آپس میں ہی شادیاں ہوتی ہیں۔ وہ وداع اور رخصتی کا تصور بالکل نہیں۔ بلکہ ہمارے یہاں لڑکیاں مسکراتی ہوئی جاتی ہیں۔ اور دولہا بھی کم از کم ایک مہینہ دلہن کے یہاں قیام کرتا ہے۔ جہاں ان کی خوب خاطر مدارات ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد بھی وقتا فوقتا لڑکی دونوں جگہ رہتی ہے۔
اور یہ بات معیوب ہے کہ لڑکی صرف سسرال میں رہے۔:)
 

بافقیہ

محفلین
ہمارے علاقے میں خالص عرب نسل رہتی ہے۔ تو آپس میں ہی شادیاں ہوتی ہیں۔ وہ وداع اور رخصتی کا تصور بالکل نہیں۔ بلکہ ہمارے یہاں لڑکیاں مسکراتی ہوئی جاتی ہیں۔ اور دولہا بھی کم از کم ایک مہینہ دلہن کے یہاں قیام کرتا ہے۔ جہاں ان کی خوب خاطر مدارات ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد بھی وقتا فوقتا لڑکی دونوں جگہ رہتی ہے۔
اور یہ بات معیوب ہے کہ لڑکی صرف سسرال میں رہے۔:)
غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ روایت پورے ہندوستان میں صرف ہمارے چھوٹے سے علاقے میں رائج ہے۔
 
Top