گلزیب انجم
محفلین
لفٹینٹ خاور شہاب شہید
(یاداں)
تحریر :- گل زیب انجم
جب تک جلیں نہ دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں جنت میں چراغاں نہیں ہوتا
میرے گرائیں(میرے گاوں والے) تم نے ہم سب کو ایک ہی جست میں مات دے دی تو عمر میں ہم سے بہت چھوٹا تها لیکن تیرے سارے کام ہم سے بڑے رہے اور آخر تو ہم سے اتنا بڑا ہو گیا کہ ہم تیری خاک پا کو بهی چهو نہ پائے . تو نے اپنے خون سے نہ صرف خاندان والوں کو رنگین کیا بلکہ پوری وادی کو سینچ دیا تیرے لہو کی بوند بوند آنے والی نسلوں کو سرخرو تو کر گئی بلکہ تجھ سے پہلے والوں کا نام بهی تجھ سے جڑ گیا دوست بہت کم ایسے سپوت ہوتے ہیں جو خاندان کے ساتھ ساتھ علاقے کو دنیا میں ایک نام دے جاتے کتنا مزہ آ رہا تها جب تمام الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا تیرے دهڑے (دهڑا تحصل کھوئی رٹہ سے ملحقہ ایک گاوں) کو تیرے دهڑ سے جوڑ رہے تهے یار کتنے گمنام سے تهے ہم لوگ تو نے کیا ہی ہمیں جلا بخش دی. تو یار بہت چھوٹا سا لفٹین تھا اس علاقے کے کتنے بڑے بڑے وکیل پروفیسرز ڈاکٹرز اور منسٹرز ہیں کتنے ہی ریٹائرڈ کرنل جنرل ہیں باخدا ان کو ساتھ والے پینڈ کے لوگ بهی بہت کم جانتے ہیں لیکن تیری لفٹینی کے صرف ٹو اسٹارز نے پوری کوٹلی کیا بلکہ پورے کشمیر کو چمکا دیا .
دلیری تیرے انگ انگ میں بڑی تهی خوبصورتی سے بڑھ کر تجھ میں غیرت تهی اور سچ پوچھو تو یہی غیرت ہی تیری خوبصورتی تهی کاکول میں باکسنگ رنگ میں حریف کو ناکوں چنے چبوانا ہی تیری دیدہ دلیری کا منہ بولتا ثبوت تها ٹرینگ ایونٹ میں تجھے دوسروں پر برتری حاصل کرنے کا ہمیشہ سے جنون رہا اسالٹ کورس میں چیتے سی تیری پهرتی تیرے مستقبل کی غمازی پر مجبور تهی کرالنگ ٹرنچ سے سانپ کی طرح بل کهاتے گزرنا نو فٹی وال کو پلک جھپکتے ہی پار کر جانا زیگ زگ اور مونکی بریج سے گولی کی طرح گزرتے ہوئے نعرہ حیدری لگانا اور دو گز کی لیڈ کرتے ہوئے اسٹین گن کو ہاتھوں میں اچهال کر اپنی ڈیٹیل کے حوصلے بلند کرنا ٹارگٹ پر پہلی گولی ہٹ کرنے کا جنون بتا رہا تھا کہ تو کل کہکشاں کے جالوں کو راہگزر بنائے گا .
بی او کیوز سے مس کی طرف جاتے ہوئےجب تم پھولوں بهری کیاری سے صرف ایک ہی ہهول توڑ کر سینے کے بٹن سے ٹانکتے تهے تو اکثر آفیسرز تجھ سے اس کی وجہ پوچهتے تهے اور تم مسکراہٹ بکهیرتے ہوئے کہہ دیتے تهے .... بس ....یونہی ,,,,,. لیکن حقیقت تو یہ تهی کہ تم جس پهول کو یہاں سجانا چاہتے تهے اس کا ان کیاریوں سے ملنا محال تها بی او کیوز کو چهوڑ کر فورٹی پونڈر میں راتیں بسر کرنا پڑتی تھی آفسیرز مس کے مینو بهول کر لنگر کی الگ تری والی دال کهانا پڑتی تهی چهاونی کی فیسلٹیز تمبولا جیسے فنکشنز گالف گراونڈ سب کچھ ہی تو چهوڑنا پڑتا تھا اور آخر تو نے دل کی مانی اور یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وانا کے ردالفساد کے لیے والنٹیر ہو گیا یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ وہاں سے سی لیو کیا لانگ ویک اینڈ بهی نہیں ملے گا لیکن تمہیں ان چیزوں کی اب غرض بهی کہاں تهی تجهے بس ایک ہی بات ستائے جا رہی تھی کہ میرے وطن میں امن کیوں نہیں ہوتا میرے وطن کی دهرتی پر دشمن کیوں اپنے پنجے جما رہا ہے کون لوگ ہیں جو فساد پھیلانے جا رہے ہیں بس اب تیری سوچیں یہی تانے بانے بنے جا رہی تھی اور تو سوچوں کے افق پر نظریں جمائے روز معصوم جانوں کو قتل ہوتے دیکھ دیکھ کر سیخ پا ہو رہا تها.
یار تیری ساری باتیں نرالی ہی کیا بلکہ راز درانہ بهی تهی، جب تم فل لفٹین بن کر گهر آئے تمہارے ابو نے کہا یار تمہارے اور میرے سٹارز(راجہ عدالت جو کہ پولیس میں ٹو اسٹار آفیسر ہیں) برابر ہو گے ہیں تو تم نے کتنی معصومیت سے کہا، لیکن رتبے میں تو میں برابر نہیں ہو سکا، اسی طرح جب بڑے بهائی نے تیرے کاندهے پہ ہاتھ رکهتے ہوئے کہا یار تیسرا سٹار جب لگے گا نا تو کاندها بهر جائے گا تو تم نے سینے پر ہاتھ رکهتے ہوئے شہادت والی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر کہا تھا لیکن سینہ چهوٹے سے سٹار سے بهی بهر جاتا ہے اصل میں تم نے بلٹ سے بننے والے سٹار(سوراخ) کو ظاہر کیا تها، اس بات کو تمہارے ابو کے سوا کوئی سمجھ نہ پایا تها لیکن وہ بهی ہلکی سی جنبش لے کر رہ گئے تھے.
بہنوں(کزنز) کے پاس سے گزرتے ہوئے شرارتاً سر پر ہاتھ رکھ کر تهوڑا سا دبا دینا اور پهر ان کے جوابی عمل سے بچنے کے لیے بهاگ کر ماں کے پاس چلا جانا اور اپنا سر ماں کی گود میں چهپا دینا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ انسان خوشی اور غمی کے دونوں پہلو میں ماں کی گود میں پناہ لیتا ہے . اور ماں کی گود ہی اس کی بےقرار سانسوں کو تسکین دے سکتی ہے. تعاقب میں آنے والی(ماموں زاد) بہن کا خطرہ جب ٹل جاتا تو ماں کی گود میں سر رکهے رکهے ہی چهوٹی چھوٹی لیکن دل پر اثر کرنے والی باتیں شروع کر دیتا . ماں پیار سے تیرے سولجر کٹ بالوں پر ہاتھ پهیرتی پهر ناک کی ہڈی پر ہاتھ رکھ کر پوچهتیں خاور اے نکے (ناک) اپر کہہ ہویا . اماں کا سوال پا کر تیرا جواب ہوتا اماں تساں کی دسیا تے اے سی باکسنگ کهینیاں مکا لغا سی . کتنی واری آخیا " کهے" باہس ایہے جی کهیڈے کی . نہیں اماں جی کهیل وغیرہ کرنے سے بندہ چُست رہتا ہے ابهی تیرا یہی کہنا تها کہ پاس سے گزرتی بہن نے اپنی ناک کو ہاتھ کی انگلی سے چپٹا کرتے ہوئے جملہ کسا پاویں ناساں ناں کج نہ ریوے اماں جی چُستی رہنی چاہدی اے، تم نے دیکهتے ہی اپنی ناک اور ہونٹوں کو کهینچ کر نقل لگائی تمہاری یہی نقل دیکھ کر اماں جی کو بهی ہنسی نکل گئی اور تم نے پهر اپنا منہ ان کی گود میں چهپا لیا .
ماں جی کی گود میں سے سر اٹها کر تو نے ان کے ہاتھوں کو تهامتے ہوئے کہا اماں جی بس میرے لیے تین دعائیں ہر نماز کے بعد کیا کرو ، وہ کون سی. اماں کے پوچهنے پر تم نے بتایا ایک یہ کہ اللہ مجهے دنیا و آخرت کے ہر امتحان میں کامیاب کرے، اللہ کامیابی فرمائے اماں نے کہا، دوسری دعا یہ کرنا کہ اللہ حرمین الشریفین کی زیارت نصیب کرے سیدهی سادهی سے دیہاتی ماں یہ لفظ نہ سمجهتے ہوئے آمین نہ کہہ سکی تو تم نے آنکھیں اٹھا کر ماں کے نورانی چہرے کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھا تو ماں نے کہا پتر اے کہہ آخیا ای تب تم نے قدرے ہنستے ہوئے کہا اماں جی مکہ مدینہ جانے کی دعا کے لیے کہا ہے آلہ آلہ . ہن ترہی(تیسری)وی دس خاں، تو تیسری یہ کہ اللہ شہادت نصیب کرے، تیرا یہ کہنا ہی تها کہ ماں کی مامتا کانپ اٹهی لاکھوں شہیدوں کی داستان سن کر جذبہ ایمانی سے تن جانے والی ماں ریت کی دیوار کی طرح مسمار ہو گئی ہونٹ تهرتهرائے تو چشم پرآب سے ساون بهادوں پهوٹ نکلا انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو "د" کی طرح بنا کر رخساروں کی اٹهی ہوئی جگہ سے موٹے موٹے آنسوؤں کو پونچهتے ہوئے روندی سی آواز میں کہا پہلیاں دو نی میں دعا کرساں ترہی نی توں آپوں کری کن (تیسری کی تم خود کر لو ) ماں کی چشم پرنم دیکهتے ہوئے تو نے ہنسانے کے موڈ میں کہا آخر اتهروں کڈی شوڑے نا . نہیں پتر مجهے شہادت سے انکار نہیں اگر یہ بات ہوتی تو تجهے فوج میں بهرتی ہونے کی اجازت ہی نہ دیتی . شہادت کا سلسلہ عید ادم (عہد آدم ) سے چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا یہ اللہ کی دین ہے جس کو نصیب کر دے ماشاءاللہ یہ لیکچر تو بڑا زبردست ہے پهر وہ آنسو ؟ اب تمہارے اس سوال پر ماں جی نے مسکراتے ہوئے کہا وہ تو فرط جذبات سے نکل آئے تهے.
ماں جی تیرے اندر کے خاور شہاب کو دیکھ چکی تهی اب تو تم باتیں کرتے ہو باڈی لینگویج یوز کرتے ہو یہ ان پڑھ سی ماں تو تمہیں اس وقت بھی پڑھ لیتی تهی جب تم ہوں آں کرتے تهے . یار سچ ہے دنیا کا کوئی ڈاکٹر ماں سے بڑھ کر نہیں ہے کیونکہ ایک ڈاکٹرکئی قسم کے ٹیسٹ لینے کے بعد کہتا ہے بچے کے پیٹ میں کیڑے ہیں لیکن ماں صرف بچے کے ہونٹ پر آتے تهوک کو دیکھ کر کہہ دیتی ہے کے بچے کو چُنونے(تهریڈ وارم ) ہیں دنیا کے ماہر نفسیات اور پروفیسرز ماں کے اس فیس ریڈنگ والے عمل کے آگے بےبس دکهائی دیتے ہیں، یہ ماں بولنے والے خاور کو کیسے نہ سمجھ سکتی وہ ارادے کیسے نہ جان پاتی بس ممتا آگے آ گئی اور لبوں کو سی لیا.
یار خاور تم جرنینگ ٹائم گهر گزار کر جانے لگے تم اپنے ابو سے کچھ زیادہ ہی جهک کر ملے وہ ساری زندگی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سخت تھانیدار کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے بهی خود پر قابو نہ رکھ سکے تیرے فرمانبرداری سے جهکے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹهایا پیشانی پر اس محبت اور شفقت سے بوسہ دیا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ کبهی تھانیدار بهی رہے ہیں.انتہائی سخت گیر ہونے کے باوجود اپنے ہونٹوں کی کپکپاہٹ اور گلے کی شریانوں کی تھرتھراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے جهریوں زدہ آنکھوں میں نہ جانے کہاں سے آنسوؤں کے موتی گرنے لگے تم نے ان کی یہ کیفیت اپنی زندگی میں پہلی بار دیکهی پهر کچھ سوچتے ہوئے تم نے اپنی آنکھوں میں شرارتی سی مسکراہٹ لا کر بهائیوں کو دیکھتے ہوئے کہا تکو تساں پچهنے سو ابا وی کدے روئے ہوسن اج تکی کینو، تمہاری اس بات سے سب رنجیدہ چہروں پر مسکراہٹ آ گئی ماسوائے ایک چہرے کے.
چهوٹا سا بیگ اٹها کر تم چلے دائیں بائیں دونوں بهائی پیچھے ابو کهڑے ہوئے ایک سیلفی بنی اماں جو بهیگتی پلکوں کو موٹی سی چادر سے بار بار خشک کر رہیں تھیں ان کا بس اتنا ہی حصہ سیلفی میں آیا, بان کے اس پار کے درخت اور پہاڑ بہت خوبصورت سین دے رہے تھے . تم کتنی بار گهر سے باہر جا چکے تهے لیکن کبهی ٹٹولتی نظروں سے یوں گهر کو نہ دیکها تها، بهابیاں جو روتے ہوئے بهی مسکرانے کی ایکٹنگ کر رہی تهیں انہی میں سے ایک کا ہاتھ پکڑے تمہاری بہن کهڑی تهی جوں ہی تم دونوں کی نظریں ملی پهر نہ تو تجهے اپنی لفٹینی اور ہنس مکھ ہونا یاد رہا نہ اسے بڑے بهائیوں اور ابو کی موجودگی کا احساس رہا وہ بهابهی سے ہاتھ چهڑا کر تیری طرف لپک کر تیرے سینے کے ساتھ اپنا سر لگا دیا تو نے اس کا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کتنی بار چوما کسی کو حساب یاد نہیں ماں باپ اور بھائی آپ کو یوں دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ رکھ سکے تو آخر بهابهی نے ہی دونوں کو دلاسا دیتے ہوئے کہا ایک دوسرے کو خوشی خوشی وداع کرتے ہیں یہ کیا بچوں کی طرح رو رہے ہو تب تم نے اپنے کوٹ کی سائیڈ پاکٹ سے دو دن پہلے کا پڑا ٹشو پیپر نکالا اپنی ناک صاف کرنے کے بعد وہ ٹشو بہن کو دیکهایا تو سب کو ہنسی چهوٹ گئی ماسوائے بہن کے اس نے تیرے ہاتھ سے ٹشو لے کر مٹهی میں بند کر لیا.
28 فروری بٹالین ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ کے دوران تم نے کتنی بار کهڑے ہو کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ سر میں یہ ارادہ کر کے آیا ہوں کہ ردالفساد میں شمولیت یقینی بناوں گا لیکن فوجی نظم و ضبط نے ایسا کرنے سے روکے رکھا بٹالین کمانڈر بریفنگ کے دوران دہشت گردوں کی کارستانیاں بتاتے تو تیرا لو لو کهڑا ہو جاتا وقفہ ٹی بریک میں تم آپس روم سے لاونج میں جاتے ہوئے کتنے بے چین دکهائی دے رہے تھے آفسیرز لاونج میں چائے اور دیگر لوازمات سے ہٹ کر دور کهڑے ہو گے ساتهی آفیسر نے از راہ مزاح کہہ دیا خاور یار بے فکر ہو کر چائے پیو تمہارا نمبر نہیں پڑے گا تو تم نے تلملا کر کہا ،Sorry sir this is your rong thinking میرا چائے نہ پینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں بلکہ مجهے جانی خیل میں وہ بلبلاتے بچے دکهائی دے رہے ہیں جن کو دہشت گرد اپنی سنگینوں پر لٹکا کر لگان محصول کرتے ہیں. میں ٹی بریک کے بعد سی او سے ریکوسٹ کروں گا کہ مجهے کچھ نفری دے کر جانی خیل بهیجا جائے. آفیسر تمہارا کڑک سا جواب سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا .
تم دوران بریفنگ اسقدر جذباتی ہو گے کہ خود ہم کلامی کے انداز میں اٹھ کهڑے ہوئے لیکن
سی او صاحب کے کنکهارنے پر تم دوبارہ اس دنیا میں لوٹے اور ہونٹوں کو سیکڑتے ہویے واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گے . تمام افسران تمہاری اس کیفیت کو بهانپ چکے تھے . روٹ پلان تیار ہوا دشمن کے ہائیڈ اوٹ مقام کو گهیرنے کے لیے مین پاور اور ایمونیشن کے اعداد و شمار کے بعد آفیسر کا مرحلہ آیا تو پہلے تو تم دیکهتے رہے کہ تمہارا نمبر پڑ جائے گا جب کمپنی کمانڈر کمپنی ٹو آئی سی اور کمپنی آفیسر کی سلیکشن میں تمہار نام نہیں آیا تو تم نے سیٹ سے اٹھ کر سیلوٹ کیا اور بڑے تیز لہجے میں کہا سر آئی ایم والنٹیر فار دس آپریشن .
No no first you set and control your self . سر آئی ایم انڈر کنٹرول بٹ میں چاہتا ہوں آپ مجهے بهی اس کمپنی کے ساتھ موو کرنے کا حکم دیں. لفٹیننٹ خاور تم ابهی نئے ہو ہر بات کو جذبات کی رو سے دیکھتے ہو آج کی جنگیں مکمل حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں ساتھ بیٹھے ایک میجر رینک کے آدمی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا پہاڑی علاقہ ہے تمہارے جیسے بچے ان پہاڑوں کو سر نہیں کر سکتے تم کو میجر صاحب کی یہ بات نہایت بری لگی لیکن پهر بهی ادب کو ملحوظِ خاطر رکهتے ہوئے کہا سر میں کشمیری ہوں پہاڑوں کو سر کرنا ندی نالوں کے سینے چیرنا اور دهرتی پر پنجے گاڑنا سب آتا ہے تمیاری یہ بات سن کر کچھ نے تیوری چڑهائی تو کچھ نے ہونٹوں پر مخفی سی ہنسی لائی لیکن سی او صاحب نے آدهی جهکی ہوئی گردن سے ہی تجهے یوں دیکها جیسے کہہ رہے ہوں بیٹا مجهے بهی تجھ جیسوں کی ضرورت ہے .. ..... .well done man I appreciate .you تمہارا یہ سننا ہی تها کہ تو نے گھٹنے آگے نکال کر دونوں ہاتھوں کی مٹهیاں بند کر کے سیم وہ ایکشن مارا جو باولر وکٹ لینے پر کرتا ہے . تیرے اس ایکشن کو دیکھ کر وه بهی ہنس دیےجو کچھ دیر پہلے تیوریاں چڑھا رہے تھے.
اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر کمپنی نے آگے بڑھنا تها اب یہ اڑتالیس گھنٹے تجهے اڑتالیس سال لگ رہے تهے اب جو بات تجھ میں روٹین سے ہٹ کر تهی وہ نماز میں مکمل خشوع و خضوع اور طویل سجدے تهے اللہ جانے کہ تو اس سے ان سجدوں میں کیا مانگ رہا تها یہ تم دونوں کا آپس کا تعلق تها لیکن تمہاری دیکها دیکهی کہیں جےسی اوز اور این سی اوز نے بهی نماز شروع کر دی تهی.
کمپنی بنوں سے بکا خیل پہنچی تو شام ہو چکی تھی او سی صاحب نے رات یہی قیام کرنے کے لیے ایک اسکول کا انتخاب کیا ایک سو سنتیس آدمی با آسانی اس عمارت میں آ گے تم نے ایک خالی کمرا دیکھ کر دو چٹائیاں اور ایک جائے نماز بچهوائی اور سی ایچ ایم سے کہا جوانوں کو بتا دو نماز کے لیے جگہ ادهر بنائی ہے. مغرب کی آذان تم نے خود دی اور نائیک شہزاد سے جماعت کا کہا جبکہ کمپنی میں اچها قرآن پاک پڑھنے والے اور ایجیڈ لوگ بهی موجود تهے پهر بهی تم نے نائیک شہزاد سے کہا اس نے دائیں بائیں دیکھ کر بذلہ سنجی سے کام لیتے ہوئے کہا سر اسی تساں پهچے نیتی ہوئی اے. اس کی اس بات پر کافی سارے نمازی ہنسے بهی اور کچھ نے احتراماً منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روک لیا . تم نے صوبیدار صاحب کی طرف دیکها تو انہوں نے جماعت کرائی.
آج عشاء کی نماز تم نے اکیلے پڑهی عشاء کیا تهی ۔ رقت کا یہ عالم تھا کہ حرمین الشریفین میں لوگوں کو اتنا روتے نہیں دیکها جتنا تم اس رات سجدوں میں روئے . تیری آنکھیں تهیں کہ چشمہ زمزم تها جو نہ سوکهتا اور نہ ہی رکتا رات ڈهائی بجے کُک ہاوس کے اسٹو جلے تو تم نے سجدے سے سر اٹھایا . سر سجدے سے اٹهایا تو آنکھیں چهت کی جانب لگا لی ہاتھوں کو مثل کاسہ بنا کر سامنے رکھ لیا اس کیفیت میں کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئی ۔ واللہ اعلم بالصواب.
تم سوئے کہ نہیں سوئے البتہ صداے موزن کے ساتھ ہی کمرا نماز میں آ گئے تحیتہ الوضو اور نماز سنت کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی . آج نماز فجر کی امامت بهی تم نے خود کرائی پہلی رکعت میں پہلی مبین تک سورہ یسن اور دوسری میں سورہ فتح کی آخری سات آیات قراءت کیں۔بہت ہی سکون سے تشہد اور دورد پڑهنے کے بعد سلام پهیرا اتنی دیر میں کئی نمازی اپنا درود مکمل ہونے کی آگاہی کهانسی کی صورت میں کر چکے تھے بعد نماز بہت سی دعائیں پڑهی اور نماز کی ادائیگی کا شکر ادا کرتے ہوئے اٹھ کهڑے ہوئے. کمرا نماز سے نکلتے ہی او آرز بهاگ کهڑے ہوئے کہ سی ایچ ایم کی وسل بج چکی تھی.
دن نکلتے ہی ایک ادهیڑ عمر کا چوکیدار آیا تو تم نے اسے دیکهتے ہی پاس بلایا اور پوچها آپ کیا کام کرتے ہیں وہ بولا چوکیدار ہوں کس کے اس اسکول کا . لیکن ہم تو رات سے یہاں ہیں نہ کوئی چوکیدار دیکها نہ ہی اس اسکول میں کوئی اسکول والی بات دیکهی ہے. تمہاری بات سن کر وہ کہنے لگا فوجی صاب ہم ادھر دیہاڑی میں ہوتا ہے رات کو ہم ادھر نہیں. .... آتا. نہیں کو اس نے ذرا لمبا کر کے کہا . وہ کیوں ؟. رات کو ادھر دہشت گرہد (گرد کی د کے ساتھ اضافی ہ لگاتے ہوئے) ہوتا ہے. تو تم کہتے ہو یہ سکول ہے تو کیا اس میں بچوں کے ڈیسک وغیرہ نہیں تهے ، صاب سب کچھ تها بلکہ ادھر (ایک کمرے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے)ہمارا نسوار کا کنٹین بهی تها . جب سے یہ آپریشن مپریشن شروع ہوا تب سے سکول کے ساتھ ساتھ ہمارا بهی بیڑا غرق ہو گیا، وہ کیوں . صاب سکول زمانوں سے بند ہے اب یہ سکول کدھر یہ تو کمین گاہ بن گئی اس میں کبهی پهوجی آتا ہے کبهی دہشت گرہد آتا ہے. اچھا کوئی اور بات سناو (یہ الفاظ تم بڑی مدہم سی آواز سے کہے ) صاب کچھ ہم کو بولا . ہاں خان . کیا بولا ، یہ بولا کوئی بات سناو. بات بات با ...... ت یہی کہتے کہتے اس نے نسوار کے لفافے کے اندر ہی ایک موٹی سی گولی بنا لی تهی اور ابهی ڈالنے لگا ہی تها کہ ایک نو دس سال کا لڑکا ٹوٹی ہوئی دیوار سے اندر جهانکنے لگا تها اس پر خان کی نظر پڑ گئی اور خان ابهی اس کو پیر..... ہی بولا تها کہ تو نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور بچے کو اندر آنے کا اشارہ کیا بچہ اندر آیا تو نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے کیا اس نے پہلے تجهے پهر ہاتھ کو دیکھ کر تسلی کی کہ ہاتھ خالی ہے پهر اپنا ہاتھ آگے بڑهایا . ہاتھ ملاتے ہی تو نے پوچها تمہارا نام کیا ہے لیکن وہ خاموش رہا . پهر خان بابا نے اس کو پشتو میں کہا تمہارا نام پوچهتا ہے . تب اس نے کہا حکیم اللہ تم نے سنتے ہی کہا محسود. اس نے فوراً نفی میں گردن ہلا کر کہا بنگش. تم نے اسے تهپکی دے کر ہاتھ چهوڑا تو وہ فوراً بهاگ کر باہر چلا گیا لیکن اس کے گئے ہوئے ابهی پندرہ منٹ بهی نہیں ہوئے تهے کہ تقریباً بکا خیل کے سارے بچے ہی سکول کے دوارے ہو گے کوئی اس کهڑکی سے اندر جهانکتا تو کوئی اس دیوار پر سے آر پی ڈیوٹی والے ان کو بهاگتے لیکن وہ ادهر ادهر سے ہو کر پهر آ جاتے . تم نے او سی صاحب سے کوئی بات کی اور پهر آر پی والوں کو ساتھ لے کر باہر کهلے میدان میں آ گے آر پی والوں سا کہا بچوں کو ڈرانا نہیں بس پیار سے سب کو اکٹھا کرو تجهے باہر دیکهتے ہی حکیم اللہ دوسروں پر اپنا رعب جمانے کے لیے تمہارے پاس آیا اور ہاتھ ملایا تم نے ہاتھ ملانے کے بعد بهی اسے چهوڑا نہیں وہ تیرے اس پیار کو اپنی خوش قسمتی سمجهتے ہوئے سب لڑکوں کی طرف دیکهتا اور کبهی کبهی کچھ کہنے کے لئے تجهے اپنے منہ کے برابر کرنے کی کوشش بهی کرتا تم بهی اس کا مان رکهنے کے لیے تهوڑا جهک جاتے . سب بچوں سے تم نے ہاتھ ملایا اور ایک ایک چاکلیٹ دیا جس کی اجازت پہلے ہی تم او سی صاحب سے لے چکے تھے . بچوں میں چاکلیٹ تقسیم ہوتے دیکھ کر خان بابا جو چوکیدار تها وہ بھی پاس آیا اور بچوں سے پشتو میں کچھ کہنے لگا اس نے کیا کہا اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب بچوں نے نعرہ لگایا پاک پهوج زندہ باد. بچوں کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بنوایا ہی تھا کہ او سی صاحب کی کال پر تم بچوں کو ہاتھ اٹها کر اللہ حافظ کہا اور برائے نام آفس میں آ گے.
کانوائے بکا خیل سے جانی خیل کی طرف روانہ ہو چکا تها تم جیپ میں بیٹھے خیالوں ہی خیالوں میں جیپ سے بہت آگے نکل جاتے تھے علاقائی خدوخال کشمیر سے بہت ملتے جلتے تهے اسی لیے کبهی تمہیں بیلہ سنمبلاار بهیال یاد آتے تو کبهی آندہ اور دهناں یاد آتے . رستے میں ایک جگہ بریک ہوئی تو تم نے موبائل نکالا اماں جی کو کال کی لیکن اوٹ آف رینج کی کمپلین آئی تو تم نے آنکھیں بند کر کے موبائل ماتهے کے ساتھ لگاتے ہوئے کچھ سوچ کر دوبارہ موبائل کی طرف دیکها ......اور جیب میں ڈال دیا
کانوائے روکتا چلتا رہا جب اندهیر پهیل گیا تو او سی صاحب نے ٹمپریری ڈیپلامنٹ کا حکم دیا ساتھ ہدایت بهی کی کہ کسی قسم کا شور شرابہ کیے بغیر.
آج تین مارچ ہے دہشت گردوں کو آپ کی آمد کی مخبری ہو چکی ہے اور اب وہ آپ کے ڈیپلامنٹ ایریا میں اکا دکا راکٹ فائر کرنے لگے ہیں فوجی نقطہ نظر کے تحت متبادل پوزیشن لینی چاہیے تهی لیکن تمہاری غریت نے گوارہ نہیں کیا اور اپنی پلاٹوں کو ایڈونس کے لیے تیار کر کے سی ایچ کیو میں میسج پاس کر دیا. او سی صاحب نے تمہارا میسج سننے کے بعد دونوں آپشن کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی چند ضروری ہدایات دے کر کہا اگر اور نفری کی ضرورت پڑتی ہے تو ان ٹائم انفارم کرنا .
تم نے اپنی پلاٹوں سے ایک سکشن کی سلیکشن کی تو نائیک شہزاد والنٹیر ہو گیا اور کہنے لگا سر تساں کی تے پتہ اساں ہر وقت تساں نہے پچهے نیتی وی اے فیر کیاں مہاڑی سلیکشن نی ہوئی. تم نے ہنستے ہوئے کہا یار اگر سب ہی ایڈونس میں والنٹیر ہو گے تو پلاٹوں کے دو سیکشنز کو کون دیکھے گا وہ کہنے لگا ہم آگے سے کسی کو پیچھے آنے دیں گے تو ان سیکشنز کی ضرورت پڑے گی. تم نے کہا ٹھیک ہے پهر تیار ہو جاو .
تم نے ایل ایم جی کے نمبرز کو دیکها ایک راکٹ لانچر والے کا انتخاب کیا. اپنی ایس ایم جی کو دلاسے کے انداز میں ہاتھ پهیرتے ہوئے نائیک شہزاد سے پوچها تم کیا لو گے تو اس نے کہا میں جی تهری لے لیتا ہوں. تم نے او کے کہتے ہوئے اپنا اہلمٹ سر پر رکها جوانوں کی طرف ہنستے ہوئے دیکها اور پوچها کیا خیال ہے سر ہم سب آپ کے ہم خیال ہیں تم نے گڈ کہتے ہوئے کہا اللہ نے آج ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم دہشتگردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکیں. دیکهو ہمیں دہشت گردوں کی تعداد کا علم نہیں لیکن اللہ واحدہ لاشریک کی طاقت کا پورا پورا علم اور یقین ہے . یاد رہے ہمت مرداں مدد خدا ہوتی ہے ہم نے جس مشن کو چنا ہے وہ یوں تو سوچنے میں بھی اتنا مشکل ہے جتنا کرنے میں مشکل ہے لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ موت برحق ہے جس نے آ کر ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ہم اسے ایسے میدان میں ملیں جہاں اسے بهی مل کر فخر ہو . تم نے یہ باتیں کہہ کر اللہ سے نصرت کی دعا کی اور چھ سات جوانوں کی سکیشن کو گو ایڈ کہنے کے بجائے بسم اللہ کہا یہ کہنا ہی تها کہ جوانوں نے اپنے قدم آگے بڑھا دیے .
سچ کہا تها کسی نے کہ : بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق. دشمن مقامی ہے ساری جگہیں دیکهی بهالی ہیں اس کے مخبر ہر روپ میں موجود ہیں یہ رستے میں ملنے ملانے والے لوگ کیا صرف فوجیوں کا استقبال ہی کر رہے تھے یا پل پل کی خبر پہنچا رہے تھے تمہارے ساتھ سیلفی بنوانے والے کیا تمہارے ہی خیر خواہ تهے یا وہ سیلفیاں نشاندہی کے طور پر آگے بهیجی جا رہی تهی خاور تم اپنے جیسا ہر کسی کو مُحبِ وطن سمجھتے رہے جب کہ وہ حقیت میں کچھ اور تهے.
دہشت گرد تمہاری پیش قدمی سے بشتر ہی اپنی ہائیڈ اوٹس چھوڑ کر متبادل پوزیشن لے چکے تهے جس کی خبر تمہیں نہ ہو سکی. نائیک شہزاد جو پگڑی باندھ لینے کے بعد بالکل افغانی لگتا تھا اس نے ریکی کے لیے اجازت بهی چاہی لیکن تم نے اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ تیری جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا. دشمن بہت ہی مکار نکلا تها اس نے تمہارے آنے کے راستے بنا رکاوٹ کے چهوڑے تهے جیسے یزیدی فوج نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے چهوڑ رکهے تهے . تم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جب ہائیڈ اوٹس پر ہلّہ بول چکے تو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ہائیڈ اوٹس خالی پڑی تھیں. تم نے اسٹین گن کو اپنے گھٹنےپر مارتے ہوئے کہا شہزاد دشمن چال چل گیا ہے. شہزاد نے دهیرے سے کہا جی سر . جبکہ تم نے اس کے لہجے میں ریکی نہ کرنے کا قلق سمجھ لیا تها.
دشمن جو پہلے سے اس تاڑ میں تها کہ کب آپ اس کی چهوڑی ہوئی پوزیشن پر پہنچتے ہیں آپ کو وہاں موجود پا کر راکٹ داغ دیا. راکٹ لانچر کا راکٹ ہٹ ہونے سے پہلے ہی تو نے پوزیشن کا آرڈر دے دیا تها اور ساتھ ہی تم نے سمت اور فاصلے کا اندازہ لگا لیا تھا. دوسرا راکٹ آنے سے پہلے ہی تم نے اپنے راکٹ لانچر والے سے راکٹ فائر کروا دیا جو کہ صحیح ہٹ ہوا وہاں پڑا راکٹس بکس بهی پهٹ چکا تها جو تیرے اندازے کو سو فیصد درست ثابت کر چکا تها. تم نے سموک سکرین کی سمت ایڈونس کا حکم دیا اتنی دیر میں دشمن بهی اسی سموک سکرین کی آڑ میں تیری دائیں جانب والی ٹیکری پر قابض ہو چکا تھا جوں ہی سموک ہواؤں کی نظر ہوا تمہاری سیکشن بالکل ایک چهوٹے سے میدان میں دشمن کی زد میں آ گئی. نائیک شہزاد نے ابهی دوربین لگا کر دائیں بائیں کا جائزہ لینا ہی چاہا تھا کہ دشمن راکٹ فائر کر دیا تها نائیک شہزاد نے ابهی منہ سے پوزیشن کہا ہی تها کہ خود وہ اس کی رینج میں آ چکا تھا راکٹ ہٹ ہوا گرد و غبار آسمان سے باتیں کرتے لگا ہاتھ کو ہاتھ سجهائی نہیں دے رہا تھا تم نے او کے رپورٹ لینے کے لیے نمبر شاوٹ کیا لیکن نمبر ون جواب نہیں دے رہا تها تین بار نمبر ون پکارا لیکن مکمل خاموشی پا کر نمبر ٹو ، او کے سر، تهری فور فائیو سیکس سیون او کے سر. تم نے سیون کے او کے پر کہا شہزاد تم کہاں ہو جواب نہ پا کر تم پر کیا بیتی یہ تمہارا دل ہی جانتا ہے اسی اثناء میں گرد کا بادل چهٹ چکا تها تم نے کرالنگ کرتے ہوئے ایک پتهر کی آڑ لے کر چار چوفیرے نظر دوڑائی بس سامنے ہی دس پندرہ گز کے فاصلے پر شہزاد رائفل تانے سو رہا تها تم کرالنگ میں ہی اس کے پاس پہنچے تسلی کے لیے پهر شہزاد کہا لیکن یار شہزاد اب تجھ سے کیسے بولتا وہ راکٹ کا ایک شل لگنے سے اللہ کا مہمان ہو چکا تها . تو نے غور سے اس کو دیکها اور بہت دیر تک دیکها دیدے پرنم ہوئے تو جوانوں سے چهپاتے ہوئے تم نے دیدے خشک کر ڈالے لیکن تجھ خود اپنی آواز پر قابو نہ رہا اور بڑی دل سوز آواز سے کہا شہزاد تو تے آخنا سیں سر میں تساں نے پچهے نیتی وی اے آج آگے کسے ہو گے ہو . خیر فوجی حکمت عملی کے تحت تو نے کمپنی ہیڈ کوارٹر میں پی آر سی سیٹ پر میسج دے دیا .
نہ جانےتجھ میں اور تیری سیکشن میں کہاں سے بجلی کوند آئی تهی کے اب تم لوگوں کو کسی آڑ کی ضرورت نہیں رہی تھی بس طوفان کی طرح اب تم دہشت گردوں پر ٹوٹ پڑے تهے کیا گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی کہ تیرے پانچ جوانوں نے وہ ہلچل مچا دی کہ دشمن کے پاوں اکڑ چکے تھے تیری سٹین آگ برسا رہی تھی دفعتاً تیرے ذہن میں کوئی بات آئی کہ تم نے سٹین کندهے کے ساتھ لگا کر نائیک شہزاد کی رائفل اٹها لی رائفل کے فلش ہولڈر کو تو نے زور سے چوما اور بهاگتے دشمن پر فائر کهول دیا راکٹ لانچر والا جو کافی ڈی مراحل ہو چکا تھا اب وہ بهی حرکت میں آ چکا تھا دو جوانوں نے ایل ایم جی سنبھال لی تهی اور اب وہ لگاتار دشمن پر بریسٹ مار رہے تھے دو تین چار دہشت گرد جنہم وصل ہوئے تم نے رائفل کی میگزین تبدیل کی اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنا چاہا لیکن اسی اثنا میں تم ایک سنائپر کی زد میں آ چکے تهے وقت کا اسی نے فائدہ اٹھایا جس نے پہل کر دی سو وہ پہل کر چکا تھا اور گولی تمہارے سینے میں بلکل اسی جگہ پیوست ہو چکی تهی جہاں آفیسرز میس کی کیاری میں سے ایک پهول توڑ کر لگایا کرتے تھے.
دوسرا راکٹ فائر ہوا اس کا بهی ایک شل آ کر تیری پیشانی میں لگا یہ پیشانی کا وہی حصہ تها جہاں گهر سے چلتے سمے تمہارے ابو نے بوسہ لیا تها . لہو ابل ابل کر باہر آ رہا تها فرسٹ ایڈ کے لیے وہ جگہ مناسب نہ تهی سکیشن کے ایل ایم جی نمبرز نے دشمن کو مصروف رکها اور باقی تین جوانوں نے تمہیں ا ٹهایا اور کمپنی ہیڈ کوارٹر کی فرسٹ ایڈ پوسٹ میں چهوڑا جہاں بس تو نے آخری سانسوں کو کمپنی کمانڈر کے روبرو اللہ کے حوالے کر دیا. پلاٹوں کی ریزرو نفری نے دہشت گردوں کی پوسٹس پر حملہ کر دیا تها جس کی وجہ سے دشمن پسپائی پر مجبور ہو کر پہاڑوں میں روپوش ہو گیا تها واپس آتے ہوئے انہوں نے نائیک شہزاد کی باڈی کو بهی اٹهایا اور کمپنی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا. یوں ردالفساد آپریشن کے تم پہلے آفسیر اور نائیک شہزاد پہلا این سی او شہید کہلائے.
آئی ایس پی آر نے تم دونوں کی شہادت کی تصدیق کر دی نیشنل اینڈ انٹرنیشنل چینلز نے سکینڈوں میں یہ نیوز بریکنگ نیوز میں چلا دی
تم شہادت کے عظیم تر درجے پر پہنچ گئے تم گهر سے اکیلے گئے تھے لیکن یہ کیا ساتھ اتنے سارے فوجی لے کر آ گے کیا رونق لگا دی پل بهر میں یہ سن سکهر (رکن آباد) یہ بخشیاں نا موڑہ یہ دهڑا کیسے چمک اٹهے فوجی لاریاں جن کے آگے چهوٹے چهوٹے جهنڈے لگے ہوئے ہیں سب تیرے گهر کی طرف آ رہی ہیں کئی جان پہچان والے کہتے ہیں اس میں بریگیڈیئر اس میں جنرل صاحب ہیں جنازے پہلے بهی اٹهتے رہے لیکن جنازوں پر یہ بارات سا سماں پہلی بار دیکهنے کو مل رہا ہے گهر والے سارے دبی آواز میں رو رہے ہیں جوں ہی کوئی بے بسی کے عالم میں بین سی آواز نکالتا ہے ساتھ والا فوراً کہہ دیتا ہے ہائے اے تساں کہہ کرنے او جی اللہ تساں نے پتر کی شہادت نا رتبہ دتا اے. وہ رونے والا وہی ہتکورہ لے کر رک جاتا ہے جیسے کوئی بادل گرج کر گزر جاتا ہے.
اماں کا تو کیا پوچهتا ہے یہ تو ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہی ہیں میں نہیں روتی خاور یہ تو اک ماں کی ممتا کے آنسو ہیں جن کو روکنا میرے بس میں بهی نہیں میں تیرے درجات سمجهتی ہوں لیکن اندر کی ان پڑه ماں صرف بیٹے کو چپ چاپ لیٹے نہیں دیکھ سکتی خاور تم تو میرے قدموں کی چاپ سنتے ہی تعظیماً اٹھ جایا کرتے تھے آج میرے ہوکے سن کر بهی تم کیوں بے خبر ہو. یار تیری بهابیاں اماں کو بتا رہی ہیں خاور دور سے آیا ہے اس لیے گہری نیند سو گیا ہے ماں ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھ لیتی ہے اگر یہ بات ہے تو پهر تم روتی کیوں ہو. بهائیوں نے اپنا مرد ہونا ہی تو ثابت کرنا ہے اسی لیے منہ میں رومال ٹهونک رکهے ہیں یار جو بڈها تهانیدار سب کو سنبھالتا رہا ہے اس کو آج یہ سنبھال رہے ہیں وہ بار بار ٹکٹکی باندھے اسی جگہ کو دیکھ رہے ہیں جہاں انہوں نے بوسہ دیا تها کتنا عجیب سا اثر اپنے بوسے کا دیکھ رہے ہیں. یار یہ جہاں تیرا مسہری نما بکس رکها ہے نہ اسی کے دائیں کونے کے برابر کوئی ایک بت نما جسم کهڑا ہے بڑا ضبط کیے ہوئے ہے لگتا ہے کہ ہاتھ لگتے ہی گر کر چور ہو جائے گا. ہاتھ میں تیرا ناک صاف کیا ہوا ٹشو ہے جس کو اب وہ تیری پیشانی کا لہو لگا کر سرخ کر رہی ہے تیرے سولجر کٹ بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کر رہی ہے دنیا و مافیہا سے بے خبر کچھ کہے جا رہی ہے پرانی بڈهیاں اس کی یہ حالت دیکھ کر کہہ رہی ہیں اس کا چپ رہنا ٹھیک نہیں اس کو رلاو کیا عجیب دستور ہے اس دنیا کا خاور رونے والوں کو چپ کراتے ہیں اور چپ کیے کو رلائے جانے کا کہہ رہے ہیں. آج یہ تمہیں نقل نہیں لگا رہی بلکہ تیرے ناک کی تھوڑی سی ٹیڑھی ہڈی کو اپنی انگلیوں سے سیدها کر رہی ہے کبهی بےخودی میں تیرے سینے سے سر لگا لیتی ہے اس کہ یہ خاموشی وہاں کهڑے سب لوگوں کو رلا رہی سب کہہ رہے ہیں یار خاور کم از کم بہن کو تو دلاسا دے دے.
جسم کو سپردِ خاک کرنے کے بعد قبروں پر دعائیں پڑهی جاتی ہیں کہیں کہیں اذان بهی دی جاتی ہے لیکن یہ کیا مٹی کا آخری بیلچہ پڑتے ہی ایک فوجی نے اونچی آواز میں کہا گارڈ شہید کو سلامی دیتے ہوئے سلام فنگ کریں گے اس کا اتنا کہنا ہی تها کہ دس بارہ جوانوں نے رائفلیں اچهالتے ہوئے اپنے چہرے کی سیدھ میں لائی اور ساتھ ہی بگل بج اٹهے جنرل صاحب نے آگے بڑھ کر چار جوانوں کی مدد سے پهولوں کی چادر تجھ پہ چڑها دی شاید وہ تیرے ایک ہی پهول والے راز سے بے خبر تهے.
خاور بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اب لوگوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا جو بهی آتا ہے تهانیدار صاحب سے ایک جوان بیٹے کی موت کا افسوس کر کے چلا جاتا ہے فیس بک پر لوگوں نے تیرے خاندان والوں کو سوگواروں میں شامل کر کے تعزیتی پیغامات پوسٹ کر دیے لیکن یار سچ پوچھو تو ہم سے ایسا نہیں ہو گا، ہم تیری مرقد پہ آ کر تجهے یوں کہیں گے اے اللہ کے مہمان تجهے یہ مقام مبارک ہو کون سا مقام جس کے لیے اللہ ہمیں خود کہتا ہے کہ تمہیں اس کا شعور نہیں، مبارک کے بعد چپکے سے اپنی پاکٹ سے ایک پهول نکال کر تیرے سینے کے برابر ٹانک دیں گے اور تیرے گهر والوں سے کوئی افسوس کیے بغیر تیرے درجات کی بلندی کی دعا کریں گے تیرے ابو کے چہرے پر نظر ڈال کر صرف یہ دیکهنے کی کوشش کریں کہ شہید کے ابو کیسے ہوتے ہیں. ہم رونا تو درکنار رونے والی صورت بهی نہیں بنائیں گے کیونکہ ہم ان میں سے ہیں جو زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے.
(یاداں)
تحریر :- گل زیب انجم
جب تک جلیں نہ دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں جنت میں چراغاں نہیں ہوتا
میرے گرائیں(میرے گاوں والے) تم نے ہم سب کو ایک ہی جست میں مات دے دی تو عمر میں ہم سے بہت چھوٹا تها لیکن تیرے سارے کام ہم سے بڑے رہے اور آخر تو ہم سے اتنا بڑا ہو گیا کہ ہم تیری خاک پا کو بهی چهو نہ پائے . تو نے اپنے خون سے نہ صرف خاندان والوں کو رنگین کیا بلکہ پوری وادی کو سینچ دیا تیرے لہو کی بوند بوند آنے والی نسلوں کو سرخرو تو کر گئی بلکہ تجھ سے پہلے والوں کا نام بهی تجھ سے جڑ گیا دوست بہت کم ایسے سپوت ہوتے ہیں جو خاندان کے ساتھ ساتھ علاقے کو دنیا میں ایک نام دے جاتے کتنا مزہ آ رہا تها جب تمام الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا تیرے دهڑے (دهڑا تحصل کھوئی رٹہ سے ملحقہ ایک گاوں) کو تیرے دهڑ سے جوڑ رہے تهے یار کتنے گمنام سے تهے ہم لوگ تو نے کیا ہی ہمیں جلا بخش دی. تو یار بہت چھوٹا سا لفٹین تھا اس علاقے کے کتنے بڑے بڑے وکیل پروفیسرز ڈاکٹرز اور منسٹرز ہیں کتنے ہی ریٹائرڈ کرنل جنرل ہیں باخدا ان کو ساتھ والے پینڈ کے لوگ بهی بہت کم جانتے ہیں لیکن تیری لفٹینی کے صرف ٹو اسٹارز نے پوری کوٹلی کیا بلکہ پورے کشمیر کو چمکا دیا .
دلیری تیرے انگ انگ میں بڑی تهی خوبصورتی سے بڑھ کر تجھ میں غیرت تهی اور سچ پوچھو تو یہی غیرت ہی تیری خوبصورتی تهی کاکول میں باکسنگ رنگ میں حریف کو ناکوں چنے چبوانا ہی تیری دیدہ دلیری کا منہ بولتا ثبوت تها ٹرینگ ایونٹ میں تجھے دوسروں پر برتری حاصل کرنے کا ہمیشہ سے جنون رہا اسالٹ کورس میں چیتے سی تیری پهرتی تیرے مستقبل کی غمازی پر مجبور تهی کرالنگ ٹرنچ سے سانپ کی طرح بل کهاتے گزرنا نو فٹی وال کو پلک جھپکتے ہی پار کر جانا زیگ زگ اور مونکی بریج سے گولی کی طرح گزرتے ہوئے نعرہ حیدری لگانا اور دو گز کی لیڈ کرتے ہوئے اسٹین گن کو ہاتھوں میں اچهال کر اپنی ڈیٹیل کے حوصلے بلند کرنا ٹارگٹ پر پہلی گولی ہٹ کرنے کا جنون بتا رہا تھا کہ تو کل کہکشاں کے جالوں کو راہگزر بنائے گا .
بی او کیوز سے مس کی طرف جاتے ہوئےجب تم پھولوں بهری کیاری سے صرف ایک ہی ہهول توڑ کر سینے کے بٹن سے ٹانکتے تهے تو اکثر آفیسرز تجھ سے اس کی وجہ پوچهتے تهے اور تم مسکراہٹ بکهیرتے ہوئے کہہ دیتے تهے .... بس ....یونہی ,,,,,. لیکن حقیقت تو یہ تهی کہ تم جس پهول کو یہاں سجانا چاہتے تهے اس کا ان کیاریوں سے ملنا محال تها بی او کیوز کو چهوڑ کر فورٹی پونڈر میں راتیں بسر کرنا پڑتی تھی آفسیرز مس کے مینو بهول کر لنگر کی الگ تری والی دال کهانا پڑتی تهی چهاونی کی فیسلٹیز تمبولا جیسے فنکشنز گالف گراونڈ سب کچھ ہی تو چهوڑنا پڑتا تھا اور آخر تو نے دل کی مانی اور یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وانا کے ردالفساد کے لیے والنٹیر ہو گیا یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ وہاں سے سی لیو کیا لانگ ویک اینڈ بهی نہیں ملے گا لیکن تمہیں ان چیزوں کی اب غرض بهی کہاں تهی تجهے بس ایک ہی بات ستائے جا رہی تھی کہ میرے وطن میں امن کیوں نہیں ہوتا میرے وطن کی دهرتی پر دشمن کیوں اپنے پنجے جما رہا ہے کون لوگ ہیں جو فساد پھیلانے جا رہے ہیں بس اب تیری سوچیں یہی تانے بانے بنے جا رہی تھی اور تو سوچوں کے افق پر نظریں جمائے روز معصوم جانوں کو قتل ہوتے دیکھ دیکھ کر سیخ پا ہو رہا تها.
یار تیری ساری باتیں نرالی ہی کیا بلکہ راز درانہ بهی تهی، جب تم فل لفٹین بن کر گهر آئے تمہارے ابو نے کہا یار تمہارے اور میرے سٹارز(راجہ عدالت جو کہ پولیس میں ٹو اسٹار آفیسر ہیں) برابر ہو گے ہیں تو تم نے کتنی معصومیت سے کہا، لیکن رتبے میں تو میں برابر نہیں ہو سکا، اسی طرح جب بڑے بهائی نے تیرے کاندهے پہ ہاتھ رکهتے ہوئے کہا یار تیسرا سٹار جب لگے گا نا تو کاندها بهر جائے گا تو تم نے سینے پر ہاتھ رکهتے ہوئے شہادت والی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر کہا تھا لیکن سینہ چهوٹے سے سٹار سے بهی بهر جاتا ہے اصل میں تم نے بلٹ سے بننے والے سٹار(سوراخ) کو ظاہر کیا تها، اس بات کو تمہارے ابو کے سوا کوئی سمجھ نہ پایا تها لیکن وہ بهی ہلکی سی جنبش لے کر رہ گئے تھے.
بہنوں(کزنز) کے پاس سے گزرتے ہوئے شرارتاً سر پر ہاتھ رکھ کر تهوڑا سا دبا دینا اور پهر ان کے جوابی عمل سے بچنے کے لیے بهاگ کر ماں کے پاس چلا جانا اور اپنا سر ماں کی گود میں چهپا دینا اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ انسان خوشی اور غمی کے دونوں پہلو میں ماں کی گود میں پناہ لیتا ہے . اور ماں کی گود ہی اس کی بےقرار سانسوں کو تسکین دے سکتی ہے. تعاقب میں آنے والی(ماموں زاد) بہن کا خطرہ جب ٹل جاتا تو ماں کی گود میں سر رکهے رکهے ہی چهوٹی چھوٹی لیکن دل پر اثر کرنے والی باتیں شروع کر دیتا . ماں پیار سے تیرے سولجر کٹ بالوں پر ہاتھ پهیرتی پهر ناک کی ہڈی پر ہاتھ رکھ کر پوچهتیں خاور اے نکے (ناک) اپر کہہ ہویا . اماں کا سوال پا کر تیرا جواب ہوتا اماں تساں کی دسیا تے اے سی باکسنگ کهینیاں مکا لغا سی . کتنی واری آخیا " کهے" باہس ایہے جی کهیڈے کی . نہیں اماں جی کهیل وغیرہ کرنے سے بندہ چُست رہتا ہے ابهی تیرا یہی کہنا تها کہ پاس سے گزرتی بہن نے اپنی ناک کو ہاتھ کی انگلی سے چپٹا کرتے ہوئے جملہ کسا پاویں ناساں ناں کج نہ ریوے اماں جی چُستی رہنی چاہدی اے، تم نے دیکهتے ہی اپنی ناک اور ہونٹوں کو کهینچ کر نقل لگائی تمہاری یہی نقل دیکھ کر اماں جی کو بهی ہنسی نکل گئی اور تم نے پهر اپنا منہ ان کی گود میں چهپا لیا .
ماں جی کی گود میں سے سر اٹها کر تو نے ان کے ہاتھوں کو تهامتے ہوئے کہا اماں جی بس میرے لیے تین دعائیں ہر نماز کے بعد کیا کرو ، وہ کون سی. اماں کے پوچهنے پر تم نے بتایا ایک یہ کہ اللہ مجهے دنیا و آخرت کے ہر امتحان میں کامیاب کرے، اللہ کامیابی فرمائے اماں نے کہا، دوسری دعا یہ کرنا کہ اللہ حرمین الشریفین کی زیارت نصیب کرے سیدهی سادهی سے دیہاتی ماں یہ لفظ نہ سمجهتے ہوئے آمین نہ کہہ سکی تو تم نے آنکھیں اٹھا کر ماں کے نورانی چہرے کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھا تو ماں نے کہا پتر اے کہہ آخیا ای تب تم نے قدرے ہنستے ہوئے کہا اماں جی مکہ مدینہ جانے کی دعا کے لیے کہا ہے آلہ آلہ . ہن ترہی(تیسری)وی دس خاں، تو تیسری یہ کہ اللہ شہادت نصیب کرے، تیرا یہ کہنا ہی تها کہ ماں کی مامتا کانپ اٹهی لاکھوں شہیدوں کی داستان سن کر جذبہ ایمانی سے تن جانے والی ماں ریت کی دیوار کی طرح مسمار ہو گئی ہونٹ تهرتهرائے تو چشم پرآب سے ساون بهادوں پهوٹ نکلا انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو "د" کی طرح بنا کر رخساروں کی اٹهی ہوئی جگہ سے موٹے موٹے آنسوؤں کو پونچهتے ہوئے روندی سی آواز میں کہا پہلیاں دو نی میں دعا کرساں ترہی نی توں آپوں کری کن (تیسری کی تم خود کر لو ) ماں کی چشم پرنم دیکهتے ہوئے تو نے ہنسانے کے موڈ میں کہا آخر اتهروں کڈی شوڑے نا . نہیں پتر مجهے شہادت سے انکار نہیں اگر یہ بات ہوتی تو تجهے فوج میں بهرتی ہونے کی اجازت ہی نہ دیتی . شہادت کا سلسلہ عید ادم (عہد آدم ) سے چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا یہ اللہ کی دین ہے جس کو نصیب کر دے ماشاءاللہ یہ لیکچر تو بڑا زبردست ہے پهر وہ آنسو ؟ اب تمہارے اس سوال پر ماں جی نے مسکراتے ہوئے کہا وہ تو فرط جذبات سے نکل آئے تهے.
ماں جی تیرے اندر کے خاور شہاب کو دیکھ چکی تهی اب تو تم باتیں کرتے ہو باڈی لینگویج یوز کرتے ہو یہ ان پڑھ سی ماں تو تمہیں اس وقت بھی پڑھ لیتی تهی جب تم ہوں آں کرتے تهے . یار سچ ہے دنیا کا کوئی ڈاکٹر ماں سے بڑھ کر نہیں ہے کیونکہ ایک ڈاکٹرکئی قسم کے ٹیسٹ لینے کے بعد کہتا ہے بچے کے پیٹ میں کیڑے ہیں لیکن ماں صرف بچے کے ہونٹ پر آتے تهوک کو دیکھ کر کہہ دیتی ہے کے بچے کو چُنونے(تهریڈ وارم ) ہیں دنیا کے ماہر نفسیات اور پروفیسرز ماں کے اس فیس ریڈنگ والے عمل کے آگے بےبس دکهائی دیتے ہیں، یہ ماں بولنے والے خاور کو کیسے نہ سمجھ سکتی وہ ارادے کیسے نہ جان پاتی بس ممتا آگے آ گئی اور لبوں کو سی لیا.
یار خاور تم جرنینگ ٹائم گهر گزار کر جانے لگے تم اپنے ابو سے کچھ زیادہ ہی جهک کر ملے وہ ساری زندگی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سخت تھانیدار کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے بهی خود پر قابو نہ رکھ سکے تیرے فرمانبرداری سے جهکے ہوئے سر کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹهایا پیشانی پر اس محبت اور شفقت سے بوسہ دیا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ کبهی تھانیدار بهی رہے ہیں.انتہائی سخت گیر ہونے کے باوجود اپنے ہونٹوں کی کپکپاہٹ اور گلے کی شریانوں کی تھرتھراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے جهریوں زدہ آنکھوں میں نہ جانے کہاں سے آنسوؤں کے موتی گرنے لگے تم نے ان کی یہ کیفیت اپنی زندگی میں پہلی بار دیکهی پهر کچھ سوچتے ہوئے تم نے اپنی آنکھوں میں شرارتی سی مسکراہٹ لا کر بهائیوں کو دیکھتے ہوئے کہا تکو تساں پچهنے سو ابا وی کدے روئے ہوسن اج تکی کینو، تمہاری اس بات سے سب رنجیدہ چہروں پر مسکراہٹ آ گئی ماسوائے ایک چہرے کے.
چهوٹا سا بیگ اٹها کر تم چلے دائیں بائیں دونوں بهائی پیچھے ابو کهڑے ہوئے ایک سیلفی بنی اماں جو بهیگتی پلکوں کو موٹی سی چادر سے بار بار خشک کر رہیں تھیں ان کا بس اتنا ہی حصہ سیلفی میں آیا, بان کے اس پار کے درخت اور پہاڑ بہت خوبصورت سین دے رہے تھے . تم کتنی بار گهر سے باہر جا چکے تهے لیکن کبهی ٹٹولتی نظروں سے یوں گهر کو نہ دیکها تها، بهابیاں جو روتے ہوئے بهی مسکرانے کی ایکٹنگ کر رہی تهیں انہی میں سے ایک کا ہاتھ پکڑے تمہاری بہن کهڑی تهی جوں ہی تم دونوں کی نظریں ملی پهر نہ تو تجهے اپنی لفٹینی اور ہنس مکھ ہونا یاد رہا نہ اسے بڑے بهائیوں اور ابو کی موجودگی کا احساس رہا وہ بهابهی سے ہاتھ چهڑا کر تیری طرف لپک کر تیرے سینے کے ساتھ اپنا سر لگا دیا تو نے اس کا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کتنی بار چوما کسی کو حساب یاد نہیں ماں باپ اور بھائی آپ کو یوں دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ رکھ سکے تو آخر بهابهی نے ہی دونوں کو دلاسا دیتے ہوئے کہا ایک دوسرے کو خوشی خوشی وداع کرتے ہیں یہ کیا بچوں کی طرح رو رہے ہو تب تم نے اپنے کوٹ کی سائیڈ پاکٹ سے دو دن پہلے کا پڑا ٹشو پیپر نکالا اپنی ناک صاف کرنے کے بعد وہ ٹشو بہن کو دیکهایا تو سب کو ہنسی چهوٹ گئی ماسوائے بہن کے اس نے تیرے ہاتھ سے ٹشو لے کر مٹهی میں بند کر لیا.
28 فروری بٹالین ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ کے دوران تم نے کتنی بار کهڑے ہو کر یہ کہنے کی کوشش کی کہ سر میں یہ ارادہ کر کے آیا ہوں کہ ردالفساد میں شمولیت یقینی بناوں گا لیکن فوجی نظم و ضبط نے ایسا کرنے سے روکے رکھا بٹالین کمانڈر بریفنگ کے دوران دہشت گردوں کی کارستانیاں بتاتے تو تیرا لو لو کهڑا ہو جاتا وقفہ ٹی بریک میں تم آپس روم سے لاونج میں جاتے ہوئے کتنے بے چین دکهائی دے رہے تھے آفسیرز لاونج میں چائے اور دیگر لوازمات سے ہٹ کر دور کهڑے ہو گے ساتهی آفیسر نے از راہ مزاح کہہ دیا خاور یار بے فکر ہو کر چائے پیو تمہارا نمبر نہیں پڑے گا تو تم نے تلملا کر کہا ،Sorry sir this is your rong thinking میرا چائے نہ پینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں بلکہ مجهے جانی خیل میں وہ بلبلاتے بچے دکهائی دے رہے ہیں جن کو دہشت گرد اپنی سنگینوں پر لٹکا کر لگان محصول کرتے ہیں. میں ٹی بریک کے بعد سی او سے ریکوسٹ کروں گا کہ مجهے کچھ نفری دے کر جانی خیل بهیجا جائے. آفیسر تمہارا کڑک سا جواب سن کر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا .
تم دوران بریفنگ اسقدر جذباتی ہو گے کہ خود ہم کلامی کے انداز میں اٹھ کهڑے ہوئے لیکن
سی او صاحب کے کنکهارنے پر تم دوبارہ اس دنیا میں لوٹے اور ہونٹوں کو سیکڑتے ہویے واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گے . تمام افسران تمہاری اس کیفیت کو بهانپ چکے تھے . روٹ پلان تیار ہوا دشمن کے ہائیڈ اوٹ مقام کو گهیرنے کے لیے مین پاور اور ایمونیشن کے اعداد و شمار کے بعد آفیسر کا مرحلہ آیا تو پہلے تو تم دیکهتے رہے کہ تمہارا نمبر پڑ جائے گا جب کمپنی کمانڈر کمپنی ٹو آئی سی اور کمپنی آفیسر کی سلیکشن میں تمہار نام نہیں آیا تو تم نے سیٹ سے اٹھ کر سیلوٹ کیا اور بڑے تیز لہجے میں کہا سر آئی ایم والنٹیر فار دس آپریشن .
No no first you set and control your self . سر آئی ایم انڈر کنٹرول بٹ میں چاہتا ہوں آپ مجهے بهی اس کمپنی کے ساتھ موو کرنے کا حکم دیں. لفٹیننٹ خاور تم ابهی نئے ہو ہر بات کو جذبات کی رو سے دیکھتے ہو آج کی جنگیں مکمل حکمت عملی سے لڑی جاتی ہیں ساتھ بیٹھے ایک میجر رینک کے آدمی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا پہاڑی علاقہ ہے تمہارے جیسے بچے ان پہاڑوں کو سر نہیں کر سکتے تم کو میجر صاحب کی یہ بات نہایت بری لگی لیکن پهر بهی ادب کو ملحوظِ خاطر رکهتے ہوئے کہا سر میں کشمیری ہوں پہاڑوں کو سر کرنا ندی نالوں کے سینے چیرنا اور دهرتی پر پنجے گاڑنا سب آتا ہے تمیاری یہ بات سن کر کچھ نے تیوری چڑهائی تو کچھ نے ہونٹوں پر مخفی سی ہنسی لائی لیکن سی او صاحب نے آدهی جهکی ہوئی گردن سے ہی تجهے یوں دیکها جیسے کہہ رہے ہوں بیٹا مجهے بهی تجھ جیسوں کی ضرورت ہے .. ..... .well done man I appreciate .you تمہارا یہ سننا ہی تها کہ تو نے گھٹنے آگے نکال کر دونوں ہاتھوں کی مٹهیاں بند کر کے سیم وہ ایکشن مارا جو باولر وکٹ لینے پر کرتا ہے . تیرے اس ایکشن کو دیکھ کر وه بهی ہنس دیےجو کچھ دیر پہلے تیوریاں چڑھا رہے تھے.
اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر کمپنی نے آگے بڑھنا تها اب یہ اڑتالیس گھنٹے تجهے اڑتالیس سال لگ رہے تهے اب جو بات تجھ میں روٹین سے ہٹ کر تهی وہ نماز میں مکمل خشوع و خضوع اور طویل سجدے تهے اللہ جانے کہ تو اس سے ان سجدوں میں کیا مانگ رہا تها یہ تم دونوں کا آپس کا تعلق تها لیکن تمہاری دیکها دیکهی کہیں جےسی اوز اور این سی اوز نے بهی نماز شروع کر دی تهی.
کمپنی بنوں سے بکا خیل پہنچی تو شام ہو چکی تھی او سی صاحب نے رات یہی قیام کرنے کے لیے ایک اسکول کا انتخاب کیا ایک سو سنتیس آدمی با آسانی اس عمارت میں آ گے تم نے ایک خالی کمرا دیکھ کر دو چٹائیاں اور ایک جائے نماز بچهوائی اور سی ایچ ایم سے کہا جوانوں کو بتا دو نماز کے لیے جگہ ادهر بنائی ہے. مغرب کی آذان تم نے خود دی اور نائیک شہزاد سے جماعت کا کہا جبکہ کمپنی میں اچها قرآن پاک پڑھنے والے اور ایجیڈ لوگ بهی موجود تهے پهر بهی تم نے نائیک شہزاد سے کہا اس نے دائیں بائیں دیکھ کر بذلہ سنجی سے کام لیتے ہوئے کہا سر اسی تساں پهچے نیتی ہوئی اے. اس کی اس بات پر کافی سارے نمازی ہنسے بهی اور کچھ نے احتراماً منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو روک لیا . تم نے صوبیدار صاحب کی طرف دیکها تو انہوں نے جماعت کرائی.
آج عشاء کی نماز تم نے اکیلے پڑهی عشاء کیا تهی ۔ رقت کا یہ عالم تھا کہ حرمین الشریفین میں لوگوں کو اتنا روتے نہیں دیکها جتنا تم اس رات سجدوں میں روئے . تیری آنکھیں تهیں کہ چشمہ زمزم تها جو نہ سوکهتا اور نہ ہی رکتا رات ڈهائی بجے کُک ہاوس کے اسٹو جلے تو تم نے سجدے سے سر اٹھایا . سر سجدے سے اٹهایا تو آنکھیں چهت کی جانب لگا لی ہاتھوں کو مثل کاسہ بنا کر سامنے رکھ لیا اس کیفیت میں کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئی ۔ واللہ اعلم بالصواب.
تم سوئے کہ نہیں سوئے البتہ صداے موزن کے ساتھ ہی کمرا نماز میں آ گئے تحیتہ الوضو اور نماز سنت کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی . آج نماز فجر کی امامت بهی تم نے خود کرائی پہلی رکعت میں پہلی مبین تک سورہ یسن اور دوسری میں سورہ فتح کی آخری سات آیات قراءت کیں۔بہت ہی سکون سے تشہد اور دورد پڑهنے کے بعد سلام پهیرا اتنی دیر میں کئی نمازی اپنا درود مکمل ہونے کی آگاہی کهانسی کی صورت میں کر چکے تھے بعد نماز بہت سی دعائیں پڑهی اور نماز کی ادائیگی کا شکر ادا کرتے ہوئے اٹھ کهڑے ہوئے. کمرا نماز سے نکلتے ہی او آرز بهاگ کهڑے ہوئے کہ سی ایچ ایم کی وسل بج چکی تھی.
دن نکلتے ہی ایک ادهیڑ عمر کا چوکیدار آیا تو تم نے اسے دیکهتے ہی پاس بلایا اور پوچها آپ کیا کام کرتے ہیں وہ بولا چوکیدار ہوں کس کے اس اسکول کا . لیکن ہم تو رات سے یہاں ہیں نہ کوئی چوکیدار دیکها نہ ہی اس اسکول میں کوئی اسکول والی بات دیکهی ہے. تمہاری بات سن کر وہ کہنے لگا فوجی صاب ہم ادھر دیہاڑی میں ہوتا ہے رات کو ہم ادھر نہیں. .... آتا. نہیں کو اس نے ذرا لمبا کر کے کہا . وہ کیوں ؟. رات کو ادھر دہشت گرہد (گرد کی د کے ساتھ اضافی ہ لگاتے ہوئے) ہوتا ہے. تو تم کہتے ہو یہ سکول ہے تو کیا اس میں بچوں کے ڈیسک وغیرہ نہیں تهے ، صاب سب کچھ تها بلکہ ادھر (ایک کمرے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے)ہمارا نسوار کا کنٹین بهی تها . جب سے یہ آپریشن مپریشن شروع ہوا تب سے سکول کے ساتھ ساتھ ہمارا بهی بیڑا غرق ہو گیا، وہ کیوں . صاب سکول زمانوں سے بند ہے اب یہ سکول کدھر یہ تو کمین گاہ بن گئی اس میں کبهی پهوجی آتا ہے کبهی دہشت گرہد آتا ہے. اچھا کوئی اور بات سناو (یہ الفاظ تم بڑی مدہم سی آواز سے کہے ) صاب کچھ ہم کو بولا . ہاں خان . کیا بولا ، یہ بولا کوئی بات سناو. بات بات با ...... ت یہی کہتے کہتے اس نے نسوار کے لفافے کے اندر ہی ایک موٹی سی گولی بنا لی تهی اور ابهی ڈالنے لگا ہی تها کہ ایک نو دس سال کا لڑکا ٹوٹی ہوئی دیوار سے اندر جهانکنے لگا تها اس پر خان کی نظر پڑ گئی اور خان ابهی اس کو پیر..... ہی بولا تها کہ تو نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور بچے کو اندر آنے کا اشارہ کیا بچہ اندر آیا تو نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے کیا اس نے پہلے تجهے پهر ہاتھ کو دیکھ کر تسلی کی کہ ہاتھ خالی ہے پهر اپنا ہاتھ آگے بڑهایا . ہاتھ ملاتے ہی تو نے پوچها تمہارا نام کیا ہے لیکن وہ خاموش رہا . پهر خان بابا نے اس کو پشتو میں کہا تمہارا نام پوچهتا ہے . تب اس نے کہا حکیم اللہ تم نے سنتے ہی کہا محسود. اس نے فوراً نفی میں گردن ہلا کر کہا بنگش. تم نے اسے تهپکی دے کر ہاتھ چهوڑا تو وہ فوراً بهاگ کر باہر چلا گیا لیکن اس کے گئے ہوئے ابهی پندرہ منٹ بهی نہیں ہوئے تهے کہ تقریباً بکا خیل کے سارے بچے ہی سکول کے دوارے ہو گے کوئی اس کهڑکی سے اندر جهانکتا تو کوئی اس دیوار پر سے آر پی ڈیوٹی والے ان کو بهاگتے لیکن وہ ادهر ادهر سے ہو کر پهر آ جاتے . تم نے او سی صاحب سے کوئی بات کی اور پهر آر پی والوں کو ساتھ لے کر باہر کهلے میدان میں آ گے آر پی والوں سا کہا بچوں کو ڈرانا نہیں بس پیار سے سب کو اکٹھا کرو تجهے باہر دیکهتے ہی حکیم اللہ دوسروں پر اپنا رعب جمانے کے لیے تمہارے پاس آیا اور ہاتھ ملایا تم نے ہاتھ ملانے کے بعد بهی اسے چهوڑا نہیں وہ تیرے اس پیار کو اپنی خوش قسمتی سمجهتے ہوئے سب لڑکوں کی طرف دیکهتا اور کبهی کبهی کچھ کہنے کے لئے تجهے اپنے منہ کے برابر کرنے کی کوشش بهی کرتا تم بهی اس کا مان رکهنے کے لیے تهوڑا جهک جاتے . سب بچوں سے تم نے ہاتھ ملایا اور ایک ایک چاکلیٹ دیا جس کی اجازت پہلے ہی تم او سی صاحب سے لے چکے تھے . بچوں میں چاکلیٹ تقسیم ہوتے دیکھ کر خان بابا جو چوکیدار تها وہ بھی پاس آیا اور بچوں سے پشتو میں کچھ کہنے لگا اس نے کیا کہا اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب بچوں نے نعرہ لگایا پاک پهوج زندہ باد. بچوں کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بنوایا ہی تھا کہ او سی صاحب کی کال پر تم بچوں کو ہاتھ اٹها کر اللہ حافظ کہا اور برائے نام آفس میں آ گے.
کانوائے بکا خیل سے جانی خیل کی طرف روانہ ہو چکا تها تم جیپ میں بیٹھے خیالوں ہی خیالوں میں جیپ سے بہت آگے نکل جاتے تھے علاقائی خدوخال کشمیر سے بہت ملتے جلتے تهے اسی لیے کبهی تمہیں بیلہ سنمبلاار بهیال یاد آتے تو کبهی آندہ اور دهناں یاد آتے . رستے میں ایک جگہ بریک ہوئی تو تم نے موبائل نکالا اماں جی کو کال کی لیکن اوٹ آف رینج کی کمپلین آئی تو تم نے آنکھیں بند کر کے موبائل ماتهے کے ساتھ لگاتے ہوئے کچھ سوچ کر دوبارہ موبائل کی طرف دیکها ......اور جیب میں ڈال دیا
کانوائے روکتا چلتا رہا جب اندهیر پهیل گیا تو او سی صاحب نے ٹمپریری ڈیپلامنٹ کا حکم دیا ساتھ ہدایت بهی کی کہ کسی قسم کا شور شرابہ کیے بغیر.
آج تین مارچ ہے دہشت گردوں کو آپ کی آمد کی مخبری ہو چکی ہے اور اب وہ آپ کے ڈیپلامنٹ ایریا میں اکا دکا راکٹ فائر کرنے لگے ہیں فوجی نقطہ نظر کے تحت متبادل پوزیشن لینی چاہیے تهی لیکن تمہاری غریت نے گوارہ نہیں کیا اور اپنی پلاٹوں کو ایڈونس کے لیے تیار کر کے سی ایچ کیو میں میسج پاس کر دیا. او سی صاحب نے تمہارا میسج سننے کے بعد دونوں آپشن کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی چند ضروری ہدایات دے کر کہا اگر اور نفری کی ضرورت پڑتی ہے تو ان ٹائم انفارم کرنا .
تم نے اپنی پلاٹوں سے ایک سکشن کی سلیکشن کی تو نائیک شہزاد والنٹیر ہو گیا اور کہنے لگا سر تساں کی تے پتہ اساں ہر وقت تساں نہے پچهے نیتی وی اے فیر کیاں مہاڑی سلیکشن نی ہوئی. تم نے ہنستے ہوئے کہا یار اگر سب ہی ایڈونس میں والنٹیر ہو گے تو پلاٹوں کے دو سیکشنز کو کون دیکھے گا وہ کہنے لگا ہم آگے سے کسی کو پیچھے آنے دیں گے تو ان سیکشنز کی ضرورت پڑے گی. تم نے کہا ٹھیک ہے پهر تیار ہو جاو .
تم نے ایل ایم جی کے نمبرز کو دیکها ایک راکٹ لانچر والے کا انتخاب کیا. اپنی ایس ایم جی کو دلاسے کے انداز میں ہاتھ پهیرتے ہوئے نائیک شہزاد سے پوچها تم کیا لو گے تو اس نے کہا میں جی تهری لے لیتا ہوں. تم نے او کے کہتے ہوئے اپنا اہلمٹ سر پر رکها جوانوں کی طرف ہنستے ہوئے دیکها اور پوچها کیا خیال ہے سر ہم سب آپ کے ہم خیال ہیں تم نے گڈ کہتے ہوئے کہا اللہ نے آج ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم دہشتگردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکیں. دیکهو ہمیں دہشت گردوں کی تعداد کا علم نہیں لیکن اللہ واحدہ لاشریک کی طاقت کا پورا پورا علم اور یقین ہے . یاد رہے ہمت مرداں مدد خدا ہوتی ہے ہم نے جس مشن کو چنا ہے وہ یوں تو سوچنے میں بھی اتنا مشکل ہے جتنا کرنے میں مشکل ہے لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ موت برحق ہے جس نے آ کر ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ہم اسے ایسے میدان میں ملیں جہاں اسے بهی مل کر فخر ہو . تم نے یہ باتیں کہہ کر اللہ سے نصرت کی دعا کی اور چھ سات جوانوں کی سکیشن کو گو ایڈ کہنے کے بجائے بسم اللہ کہا یہ کہنا ہی تها کہ جوانوں نے اپنے قدم آگے بڑھا دیے .
سچ کہا تها کسی نے کہ : بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق. دشمن مقامی ہے ساری جگہیں دیکهی بهالی ہیں اس کے مخبر ہر روپ میں موجود ہیں یہ رستے میں ملنے ملانے والے لوگ کیا صرف فوجیوں کا استقبال ہی کر رہے تھے یا پل پل کی خبر پہنچا رہے تھے تمہارے ساتھ سیلفی بنوانے والے کیا تمہارے ہی خیر خواہ تهے یا وہ سیلفیاں نشاندہی کے طور پر آگے بهیجی جا رہی تهی خاور تم اپنے جیسا ہر کسی کو مُحبِ وطن سمجھتے رہے جب کہ وہ حقیت میں کچھ اور تهے.
دہشت گرد تمہاری پیش قدمی سے بشتر ہی اپنی ہائیڈ اوٹس چھوڑ کر متبادل پوزیشن لے چکے تهے جس کی خبر تمہیں نہ ہو سکی. نائیک شہزاد جو پگڑی باندھ لینے کے بعد بالکل افغانی لگتا تھا اس نے ریکی کے لیے اجازت بهی چاہی لیکن تم نے اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ تیری جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا. دشمن بہت ہی مکار نکلا تها اس نے تمہارے آنے کے راستے بنا رکاوٹ کے چهوڑے تهے جیسے یزیدی فوج نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے چهوڑ رکهے تهے . تم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جب ہائیڈ اوٹس پر ہلّہ بول چکے تو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ہائیڈ اوٹس خالی پڑی تھیں. تم نے اسٹین گن کو اپنے گھٹنےپر مارتے ہوئے کہا شہزاد دشمن چال چل گیا ہے. شہزاد نے دهیرے سے کہا جی سر . جبکہ تم نے اس کے لہجے میں ریکی نہ کرنے کا قلق سمجھ لیا تها.
دشمن جو پہلے سے اس تاڑ میں تها کہ کب آپ اس کی چهوڑی ہوئی پوزیشن پر پہنچتے ہیں آپ کو وہاں موجود پا کر راکٹ داغ دیا. راکٹ لانچر کا راکٹ ہٹ ہونے سے پہلے ہی تو نے پوزیشن کا آرڈر دے دیا تها اور ساتھ ہی تم نے سمت اور فاصلے کا اندازہ لگا لیا تھا. دوسرا راکٹ آنے سے پہلے ہی تم نے اپنے راکٹ لانچر والے سے راکٹ فائر کروا دیا جو کہ صحیح ہٹ ہوا وہاں پڑا راکٹس بکس بهی پهٹ چکا تها جو تیرے اندازے کو سو فیصد درست ثابت کر چکا تها. تم نے سموک سکرین کی سمت ایڈونس کا حکم دیا اتنی دیر میں دشمن بهی اسی سموک سکرین کی آڑ میں تیری دائیں جانب والی ٹیکری پر قابض ہو چکا تھا جوں ہی سموک ہواؤں کی نظر ہوا تمہاری سیکشن بالکل ایک چهوٹے سے میدان میں دشمن کی زد میں آ گئی. نائیک شہزاد نے ابهی دوربین لگا کر دائیں بائیں کا جائزہ لینا ہی چاہا تھا کہ دشمن راکٹ فائر کر دیا تها نائیک شہزاد نے ابهی منہ سے پوزیشن کہا ہی تها کہ خود وہ اس کی رینج میں آ چکا تھا راکٹ ہٹ ہوا گرد و غبار آسمان سے باتیں کرتے لگا ہاتھ کو ہاتھ سجهائی نہیں دے رہا تھا تم نے او کے رپورٹ لینے کے لیے نمبر شاوٹ کیا لیکن نمبر ون جواب نہیں دے رہا تها تین بار نمبر ون پکارا لیکن مکمل خاموشی پا کر نمبر ٹو ، او کے سر، تهری فور فائیو سیکس سیون او کے سر. تم نے سیون کے او کے پر کہا شہزاد تم کہاں ہو جواب نہ پا کر تم پر کیا بیتی یہ تمہارا دل ہی جانتا ہے اسی اثناء میں گرد کا بادل چهٹ چکا تها تم نے کرالنگ کرتے ہوئے ایک پتهر کی آڑ لے کر چار چوفیرے نظر دوڑائی بس سامنے ہی دس پندرہ گز کے فاصلے پر شہزاد رائفل تانے سو رہا تها تم کرالنگ میں ہی اس کے پاس پہنچے تسلی کے لیے پهر شہزاد کہا لیکن یار شہزاد اب تجھ سے کیسے بولتا وہ راکٹ کا ایک شل لگنے سے اللہ کا مہمان ہو چکا تها . تو نے غور سے اس کو دیکها اور بہت دیر تک دیکها دیدے پرنم ہوئے تو جوانوں سے چهپاتے ہوئے تم نے دیدے خشک کر ڈالے لیکن تجھ خود اپنی آواز پر قابو نہ رہا اور بڑی دل سوز آواز سے کہا شہزاد تو تے آخنا سیں سر میں تساں نے پچهے نیتی وی اے آج آگے کسے ہو گے ہو . خیر فوجی حکمت عملی کے تحت تو نے کمپنی ہیڈ کوارٹر میں پی آر سی سیٹ پر میسج دے دیا .
نہ جانےتجھ میں اور تیری سیکشن میں کہاں سے بجلی کوند آئی تهی کے اب تم لوگوں کو کسی آڑ کی ضرورت نہیں رہی تھی بس طوفان کی طرح اب تم دہشت گردوں پر ٹوٹ پڑے تهے کیا گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی کہ تیرے پانچ جوانوں نے وہ ہلچل مچا دی کہ دشمن کے پاوں اکڑ چکے تھے تیری سٹین آگ برسا رہی تھی دفعتاً تیرے ذہن میں کوئی بات آئی کہ تم نے سٹین کندهے کے ساتھ لگا کر نائیک شہزاد کی رائفل اٹها لی رائفل کے فلش ہولڈر کو تو نے زور سے چوما اور بهاگتے دشمن پر فائر کهول دیا راکٹ لانچر والا جو کافی ڈی مراحل ہو چکا تھا اب وہ بهی حرکت میں آ چکا تھا دو جوانوں نے ایل ایم جی سنبھال لی تهی اور اب وہ لگاتار دشمن پر بریسٹ مار رہے تھے دو تین چار دہشت گرد جنہم وصل ہوئے تم نے رائفل کی میگزین تبدیل کی اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنا چاہا لیکن اسی اثنا میں تم ایک سنائپر کی زد میں آ چکے تهے وقت کا اسی نے فائدہ اٹھایا جس نے پہل کر دی سو وہ پہل کر چکا تھا اور گولی تمہارے سینے میں بلکل اسی جگہ پیوست ہو چکی تهی جہاں آفیسرز میس کی کیاری میں سے ایک پهول توڑ کر لگایا کرتے تھے.
دوسرا راکٹ فائر ہوا اس کا بهی ایک شل آ کر تیری پیشانی میں لگا یہ پیشانی کا وہی حصہ تها جہاں گهر سے چلتے سمے تمہارے ابو نے بوسہ لیا تها . لہو ابل ابل کر باہر آ رہا تها فرسٹ ایڈ کے لیے وہ جگہ مناسب نہ تهی سکیشن کے ایل ایم جی نمبرز نے دشمن کو مصروف رکها اور باقی تین جوانوں نے تمہیں ا ٹهایا اور کمپنی ہیڈ کوارٹر کی فرسٹ ایڈ پوسٹ میں چهوڑا جہاں بس تو نے آخری سانسوں کو کمپنی کمانڈر کے روبرو اللہ کے حوالے کر دیا. پلاٹوں کی ریزرو نفری نے دہشت گردوں کی پوسٹس پر حملہ کر دیا تها جس کی وجہ سے دشمن پسپائی پر مجبور ہو کر پہاڑوں میں روپوش ہو گیا تها واپس آتے ہوئے انہوں نے نائیک شہزاد کی باڈی کو بهی اٹهایا اور کمپنی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا. یوں ردالفساد آپریشن کے تم پہلے آفسیر اور نائیک شہزاد پہلا این سی او شہید کہلائے.
آئی ایس پی آر نے تم دونوں کی شہادت کی تصدیق کر دی نیشنل اینڈ انٹرنیشنل چینلز نے سکینڈوں میں یہ نیوز بریکنگ نیوز میں چلا دی
تم شہادت کے عظیم تر درجے پر پہنچ گئے تم گهر سے اکیلے گئے تھے لیکن یہ کیا ساتھ اتنے سارے فوجی لے کر آ گے کیا رونق لگا دی پل بهر میں یہ سن سکهر (رکن آباد) یہ بخشیاں نا موڑہ یہ دهڑا کیسے چمک اٹهے فوجی لاریاں جن کے آگے چهوٹے چهوٹے جهنڈے لگے ہوئے ہیں سب تیرے گهر کی طرف آ رہی ہیں کئی جان پہچان والے کہتے ہیں اس میں بریگیڈیئر اس میں جنرل صاحب ہیں جنازے پہلے بهی اٹهتے رہے لیکن جنازوں پر یہ بارات سا سماں پہلی بار دیکهنے کو مل رہا ہے گهر والے سارے دبی آواز میں رو رہے ہیں جوں ہی کوئی بے بسی کے عالم میں بین سی آواز نکالتا ہے ساتھ والا فوراً کہہ دیتا ہے ہائے اے تساں کہہ کرنے او جی اللہ تساں نے پتر کی شہادت نا رتبہ دتا اے. وہ رونے والا وہی ہتکورہ لے کر رک جاتا ہے جیسے کوئی بادل گرج کر گزر جاتا ہے.
اماں کا تو کیا پوچهتا ہے یہ تو ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہی ہیں میں نہیں روتی خاور یہ تو اک ماں کی ممتا کے آنسو ہیں جن کو روکنا میرے بس میں بهی نہیں میں تیرے درجات سمجهتی ہوں لیکن اندر کی ان پڑه ماں صرف بیٹے کو چپ چاپ لیٹے نہیں دیکھ سکتی خاور تم تو میرے قدموں کی چاپ سنتے ہی تعظیماً اٹھ جایا کرتے تھے آج میرے ہوکے سن کر بهی تم کیوں بے خبر ہو. یار تیری بهابیاں اماں کو بتا رہی ہیں خاور دور سے آیا ہے اس لیے گہری نیند سو گیا ہے ماں ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھ لیتی ہے اگر یہ بات ہے تو پهر تم روتی کیوں ہو. بهائیوں نے اپنا مرد ہونا ہی تو ثابت کرنا ہے اسی لیے منہ میں رومال ٹهونک رکهے ہیں یار جو بڈها تهانیدار سب کو سنبھالتا رہا ہے اس کو آج یہ سنبھال رہے ہیں وہ بار بار ٹکٹکی باندھے اسی جگہ کو دیکھ رہے ہیں جہاں انہوں نے بوسہ دیا تها کتنا عجیب سا اثر اپنے بوسے کا دیکھ رہے ہیں. یار یہ جہاں تیرا مسہری نما بکس رکها ہے نہ اسی کے دائیں کونے کے برابر کوئی ایک بت نما جسم کهڑا ہے بڑا ضبط کیے ہوئے ہے لگتا ہے کہ ہاتھ لگتے ہی گر کر چور ہو جائے گا. ہاتھ میں تیرا ناک صاف کیا ہوا ٹشو ہے جس کو اب وہ تیری پیشانی کا لہو لگا کر سرخ کر رہی ہے تیرے سولجر کٹ بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کر رہی ہے دنیا و مافیہا سے بے خبر کچھ کہے جا رہی ہے پرانی بڈهیاں اس کی یہ حالت دیکھ کر کہہ رہی ہیں اس کا چپ رہنا ٹھیک نہیں اس کو رلاو کیا عجیب دستور ہے اس دنیا کا خاور رونے والوں کو چپ کراتے ہیں اور چپ کیے کو رلائے جانے کا کہہ رہے ہیں. آج یہ تمہیں نقل نہیں لگا رہی بلکہ تیرے ناک کی تھوڑی سی ٹیڑھی ہڈی کو اپنی انگلیوں سے سیدها کر رہی ہے کبهی بےخودی میں تیرے سینے سے سر لگا لیتی ہے اس کہ یہ خاموشی وہاں کهڑے سب لوگوں کو رلا رہی سب کہہ رہے ہیں یار خاور کم از کم بہن کو تو دلاسا دے دے.
جسم کو سپردِ خاک کرنے کے بعد قبروں پر دعائیں پڑهی جاتی ہیں کہیں کہیں اذان بهی دی جاتی ہے لیکن یہ کیا مٹی کا آخری بیلچہ پڑتے ہی ایک فوجی نے اونچی آواز میں کہا گارڈ شہید کو سلامی دیتے ہوئے سلام فنگ کریں گے اس کا اتنا کہنا ہی تها کہ دس بارہ جوانوں نے رائفلیں اچهالتے ہوئے اپنے چہرے کی سیدھ میں لائی اور ساتھ ہی بگل بج اٹهے جنرل صاحب نے آگے بڑھ کر چار جوانوں کی مدد سے پهولوں کی چادر تجھ پہ چڑها دی شاید وہ تیرے ایک ہی پهول والے راز سے بے خبر تهے.
خاور بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اب لوگوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا جو بهی آتا ہے تهانیدار صاحب سے ایک جوان بیٹے کی موت کا افسوس کر کے چلا جاتا ہے فیس بک پر لوگوں نے تیرے خاندان والوں کو سوگواروں میں شامل کر کے تعزیتی پیغامات پوسٹ کر دیے لیکن یار سچ پوچھو تو ہم سے ایسا نہیں ہو گا، ہم تیری مرقد پہ آ کر تجهے یوں کہیں گے اے اللہ کے مہمان تجهے یہ مقام مبارک ہو کون سا مقام جس کے لیے اللہ ہمیں خود کہتا ہے کہ تمہیں اس کا شعور نہیں، مبارک کے بعد چپکے سے اپنی پاکٹ سے ایک پهول نکال کر تیرے سینے کے برابر ٹانک دیں گے اور تیرے گهر والوں سے کوئی افسوس کیے بغیر تیرے درجات کی بلندی کی دعا کریں گے تیرے ابو کے چہرے پر نظر ڈال کر صرف یہ دیکهنے کی کوشش کریں کہ شہید کے ابو کیسے ہوتے ہیں. ہم رونا تو درکنار رونے والی صورت بهی نہیں بنائیں گے کیونکہ ہم ان میں سے ہیں جو زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے.