ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات میں دوبارہ انکی اشاعت سے مسلمان پھر اپنی نیم خوابیدہ کیفیات میں احتجاج، مذمتیں اور بائیکاٹ کیلئے سرگرم ہیں۔
کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی مسلمان ان بدبختوں کے ان اعمال کو قبول نہیں کرسکتا، لیکن لازم ہے کہ اس موقع پر ہم چند امور کو واضح کرلیں :
1- یہ گھٹیا اور ذلیل کام صرف کفار ہی کرسکتے ہیں ، اور کفار سے ہی اسکی توقع کی جاسکتی ہے۔چنانچہ ہمیں کفار سے اس عمل کے صدور پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئیے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس ان خاکوں اور ایسی باتوں سے بیحد بلند ہے کہ متاثر ہوسکے۔ کیونکہ انکا مقام لوگوں کے ہاتھوں اور انکی زبانوں کی دسترس سے بلند تر ہے۔ جب مدح و تعریف کرنے والوں کی تعریفیں انکے مرتبہ کو نہیں بیان کرسکتیں تو دوسرے لوگوں کے کلام کا کیا ٹھکانہ ہے۔
2- یہ صورتحال ہم سے ایسے ردعمل کا تقاضا نہیں کرتی جو وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتا جائے اور معدوم ہوتا جائے بلکہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم شرع شریف کے مطابق پوری بصیرت کے ساتھ ایسےعمل شروع کریں جو ہمیشہ جاری رہیں۔ حتی کہ اگر ہمارے دشمن ان حرکتوں سے باز بھی آجائیں، تب بھی وہ طرزِ عمل جاری رہے۔ یعنی جو بھی کریں وہ مستقل بنیادوں پر ہو رد عمل نہ ہو کہ جسکی بنیاد دشمن کے عمل پر ہوتی ہے۔ یعنی یہ عمل ہو ردعمل نہ ہو۔
3- امت کی اس بدترین حالت اور اس کڑے وقت میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر اور مسالک اس معاملے میں غصے اور انکار میں یکجا ہوگئے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملا ہے کہ کہ یہ امت صرف اور صرف رسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ کے حوالے سے ہی اکٹھی ہوسکتی ہے، اور باقی کسی بھی جزئی یا فرعی نسبت پر رسول اللہ کی نسبت مقدم سمجھتی ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ کسی مخصوص امام، یا لیڈر یا پا مسلکی پیشوا سے بلند تر یہی وہ نسبت ہے جو ہمیں ایک امت کے رشتے میں پرو سکتی ہے۔
تو کیا ہم ان حوادث سے مناسب سبق سیکھ سکتے ہیں؟ اور اس میدانِ عمل میں اکٹھے ہوسکتے ہیں جس کا ہم سے یہ وقت مطالبہ کر رہا ہے۔ کیا علمائے اسلام کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ واپس پلٹیں اور اس دعوتِ محمدی کی طرف رجوع کریں جو اجمالی ہے اور پوری امت کے ہر پہلو پر محیط ہے؟ یا پھر یہ کہ ہم اسی محدود اور کوتاہ اندیشی پر مبنی عصبیتوں میں محصور رہیں اور ہوائے نفس پر مبنی سیاست کرتے رہیں؟
کیا ہم مردوں کی طرح میدان عمل میں اتریں گے یا بچوں کی طرح ردعمل ظاہر کرنے پر ہی اکتفا کریں گے؟
(تحریر : سیدی الشیخ عبدالغنی العمری الحسنی)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
http://alomariya.org/makalat_suite.php?id=14
 
Top