031 ۔ جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
032 ۔ میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
033 ۔ گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
034 ۔ نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
035 ۔ یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
036 ۔ وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
037 ۔ پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
038 ۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
039 ۔ لب خشک در تشنگی، مردگاں کا
040 ۔ تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
041 ۔ شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
042 ۔ آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
043 ۔ ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
044 ۔ فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
045 ۔ عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
مصرع نمبر 1۔ جب سفر پرجانے کے لیے محبوب نے اونٹ پر کجاوہ رکھا۔
مصرع نمبر 2۔ تو تپش عشق نے کچھ ایسا جوش مارا کہ راہ کا ذرہ ذرہ دل بن گیا
تبصرہ
جب محبوب اپنا جلوہ دیکھانے کے لیے باہر آئی توچاہنے والوں کی گرمیِ شوق نے ہرذرے ذرے کو دلِ بےتاب بنادیا
شاعری کےاصطلاحات
تشبیہہ
شاعری میں دل کو ایک کلی یا پھول سے تشبیہہ دی جاتی ہے ۔
تشبیہہ کے لغوی معنی مانند کردن یعنی دو چیزوں کو ایک جیسا بنانا۔ “مشابہت دینا“ ۔ علمِ بیان کی رو سے جب کسی ایک چیز کو کسی مشترک خصوصیت کی بنا پر کسی دوسری شیز کی مانند قرار دیا جائے تو اُسے “تشبیہہ“ کہتے ہیں۔ تشبیہہ س غرض اس پہلی چیز کی کسی صفت ، حالت یا کیفیت کو واضح اور موثر بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے اس سے فصاحت و بلاغت پیدا ہوتی ہے۔
[align=center]
02 - 031
اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخئ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطئ بسمل باندھا
[/align]
فرہنگ
اہل بینش
دیداور، اہل نظر، تماشائی
حیرت کدہ
مراد آئینہ
طوطئ
ہرے رنگ کا پرندہ جو آئنیہ میں اپنا رنگ دیکھ کر بولتا ہے
نثری ترجمہ
مصرع نمبر 1۔ اہلِ نظر نے آئینہ میں شوخی و ناز کو دیکھ کر
مصرع نمبر 2۔ آئینہ میں طوطئ کو تڑپتا سمجھا۔
تبصرہ
آئینہ میں نازو ادا کی جو شوخیاں ہورہی تھیں انہوں نے اس منظر کو حیرت کدہ بنادیا اور تماشائیوں نے دیکھا کہ جوہر آئینہ بھی اس حیرت کدہ میں بے تاب ہو کر طوطئِ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔
شاعری کے اصطلاحات
غالب کے زمانے میں آئینہ فولاد کےہوتے تھے۔ اور ان کو اتنا چمکایا جاتا تھا کےاُن میں اپنی تصویر دیکھ جاسکتی تھی۔
آئینہ سے مراد فولادی آئینہ ہے۔ فولادی آئینہ کا جوہر سبز ہوتا ہے۔ سبز رنگ کے لحاظ سے جوہر آئینہ کو طوطی کہا۔ اور آئنیہ دیکھنے کے حسن سے بے تاب ہوجانے کے سبب طوطی کو طوطی بسمل قرار دیا ہے۔
[align=center]
03 - 031
یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا
[/align][line]
فرہنگ
یاس
ناا میدی، نراش، مایوسی
عرَبدہ
جنگ ، بدخوئی، لڑائی جھگڑا
عجز
منت، سماجت، خوشامد، کمزوری، ناتوانی
ہمت
عزم و ارادہ
عجزِہمت
پست ہمتی
طلسم
جادو، سحر
سائل
سوال کرنے والا، طالب، امیدوار، بھکاری
نثری ترجمہ
مصرع نمبر 1۔ یاس و امید دونوں لڑنے کے لیے میدان طلب کرر ہے ہیں۔
مصرع نمبر 2۔ یہ سب سائل کی پست ہمتی کا نتیجہ ہے جس کی طلبی کی وجہ سے طلسم برپا ہے۔
تبصرہ
دل کا سوال کرنا اس کی پست ہمتی ہے۔ اور سوال کرنے کی وجہ سےدل میں یاس و امید کا میدانِ جنگ بن گیا ہے۔ اگر یہ پست ہمتی نہ ہوتی تو یاس و امید میں جنگ نہ ہوتی اور نہ ہی طلسمی تماشا ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ دل بیم و رجا کی کشمکش میں بری طرح مبتلا ہے۔
[align=center]
031-04
نہ بندھے تِشنگئ ذوق کے مضموں، غالب
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا
[/align]
[line]
فرہنگ
دریا کو بھی ساحل باندھا
یعنی ساحل سے بھی دریا کا کام لیا
دل کھول کے
یعنی مبالغہ سےکام لیکر
تِشنگئ ذوق
شعرگوئی کی پیاس، شوقِ شعرگوئی
نثری ترجمہ
مصرع نمبر 1۔ میری شعرگوئی کی پیاس نہیں بجھی
مصرع نمبر 2۔ اگرچہ میں نے مبالغہ سے کام لے کر یہ کہہ دیا کہ ساحل نےسارا دریا پی لیا ہے
تبصرہ
ہم نے مبالغے سے کام لے کر اگر یہ کہہ دیا کہ ساحل نےسارا دریا پی لیا اور خود بھی خشک ہوکر ساحل بن گیا۔ ہماری قوت بیانیہ ناکام رہی ہے۔ مبالغہ سے کام لینے پر بھی ہم اس مضمون کو صحیح طور پر ادا نہیں کرسکے۔
02 -032
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سےجگر جدا تھا
[line]
فرہنگ
تیر
سیدھا اور لمبا ٹکڑا۔ ایک قسم کا
چھِدے
پرونا، چھید دینا
نثری ترجمہ
مصرع نمبر 1۔ ایک ییر نےدونوں ہی میں چھید کر رکھا ہے
مصرع نمبر 2۔ وہ دن چلے گئے جب دل اور جگر ایک دوسرے سے علحیدہ ہوتے تھے۔
تبصرہ
عشق نے مجھے زخمی کر رکھا ہے ۔ پہلے تو صرف دل ہی تیر کا گھائل تھا۔ لیکن اب دل و چگر دونوں ہی تیر کا شکار ہیں۔ یعنی عشق میں میرا حال پہلے سے بھی خراب ہے۔ پہلے دل زخمی تھا اب جگر بھی.
[/indent]