محمد بلال افتخار خان
محفلین
کسی گاوں میں ایک نو جوان رہتا تھا۔۔ پڑھائی لکھائی جب ختم ہوئی تو والدین نے نوکری کے لئے دباو ڈالنا شروع کر دیا۔ کئی مہینے وہ نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن کہین نوکری نہ ملی۔۔ ایک دن تھک ہار کر خود سے بولا رزق تو اللہ کی ذات نے دینا ہے۔ اب میں نوکری کی تلاش میں نہیں پھروں گا بلکہ سکوں سے زندگی گزاروں گا۔۔ اللہ رازق ہے تو گھر بیٹھے ہی رزق دے گا۔۔
اسی سوچ کے ساتھ یہ جوان صبح کی سیر کے لئے نکلا،سیر کے بعد گاون کے قریب سے گزرنے والی نہر کے کنارے جا کر بیٹھ گیا۔۔ ابھی بیٹھے پندرا منٹ ہی ہوئے تھے کہ دیکھا ایک پتہ نیچے کی طرف آ رہا ہے۔۔
چھلانگ لگا کر پتہ پکڑا تو یہ کیا۔۔۔ پتے پر دو نان اور ان پر حلوہ پڑا تھا۔۔
واہ خدایا۔۔ واقعی رزق تو کھانے والے تک خود پہنچتا ہے۔۔
حلوہ کھایا بہت لذیذ تھا۔۔
پیٹ بھر کر واپس گھر آ گیا۔۔ ظہر کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا۔۔
ایک بار پھر حلوہ اور نان پتے پر آتے نظر آئے۔۔ اٹھائے اور کھا لئے
مغرب کی نماز کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا۔۔ اس بار بھی وہی ہوا۔۔
واہ! رات کے کھانے کا نتظام بھی ہو گیا
اب روزانہ فجر، ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد نہر کنارے جا کر بیٹھ جاتا۔۔ اور روزانہ بلا ناغہ نان اور حلوہ مل جاتے۔۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔۔
ایک دن خیال آیا کہ دیکھوں کہ اللہ تعالٰی کس طرح یہ نان اور حلوہ بھجواتے ہیں۔۔۔ اسی سوچ میں صبح کی نماز کے بعد نہر کی اوپری طرف چل پڑا۔۔ کچھ کلومیٹر ہی گیا ہو گا۔۔۔ کہ دیکھا۔۔ ایک بابا جی ہیں جو نان اور حلوہ لئے نہر کنارے بیٹھے ہیں۔۔
قریب جا کر دیکھا۔۔ تو بابا جی نان کے اندر حلوہ رکھتے اور پھر اس گرم گرم حلوے سے اپنی ٹانگ پر نکلے ایک پھوڑے کو ٹیکور کرتے۔۔ پھر ایک پتے پر نان اور حلوہ رکھ کر نہر میں بہا دیتے۔۔
جوان کا دل ایک دم خراب ہونا شروع ہو گیا۔ ابکائیان آنے لگیں
کیا میں اتنے دنوں سے یہ حلوہ اور نان کھا رہا تھا؟
بابا جی سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے؟
بابا جی بولے، کئی دنوں سے یہ پھوڑا نکلا ہوا تھا۔۔جس کی وجہ سے بہت تکلیف تھی۔ حکیم کے پاس گیا تو حکیم نے مشورہ دیا کہ روزانہ دن میں تیں بار سوجی کے حلوے کو نان پر رکھ کر اس کی ٹیکور کروں۔۔ سو میں فجر، ظہر اور مغرب کے بعد ادھر آ جاتا ہوں۔۔ نان اور حلوے کی ٹیکور کے بعد نان اور حلوے کو پتے پر رکھ کر نہر میں بہا دیتا ہوں تاکہ خراب ہونے کی بجائے چڑند پرند اور مچھلیا ن ہی کھا لیں۔۔۔
دوستو بے شک اللہ رازق ہے۔۔ رزق اللہ نے ہی دینا ہے۔۔ محنت اور کاہلی کے درمیان پھل کا فرق ہے۔۔ جو محنت کرتے ہیں انھیں پاک اور صاف رزق ملتا ہے۔۔ جو کاہلی میں وقت گزارتے ہیں اور حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔۔رزق تو انہیں بھی ملتا ہے۔۔ مگر وہ رزق جس میں کراہت اور گندگی ہو۔۔
اسی سوچ کے ساتھ یہ جوان صبح کی سیر کے لئے نکلا،سیر کے بعد گاون کے قریب سے گزرنے والی نہر کے کنارے جا کر بیٹھ گیا۔۔ ابھی بیٹھے پندرا منٹ ہی ہوئے تھے کہ دیکھا ایک پتہ نیچے کی طرف آ رہا ہے۔۔
چھلانگ لگا کر پتہ پکڑا تو یہ کیا۔۔۔ پتے پر دو نان اور ان پر حلوہ پڑا تھا۔۔
واہ خدایا۔۔ واقعی رزق تو کھانے والے تک خود پہنچتا ہے۔۔
حلوہ کھایا بہت لذیذ تھا۔۔
پیٹ بھر کر واپس گھر آ گیا۔۔ ظہر کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا۔۔
ایک بار پھر حلوہ اور نان پتے پر آتے نظر آئے۔۔ اٹھائے اور کھا لئے
مغرب کی نماز کے بعد پھر نہر کنارے چلا گیا۔۔ اس بار بھی وہی ہوا۔۔
واہ! رات کے کھانے کا نتظام بھی ہو گیا
اب روزانہ فجر، ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد نہر کنارے جا کر بیٹھ جاتا۔۔ اور روزانہ بلا ناغہ نان اور حلوہ مل جاتے۔۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔۔
ایک دن خیال آیا کہ دیکھوں کہ اللہ تعالٰی کس طرح یہ نان اور حلوہ بھجواتے ہیں۔۔۔ اسی سوچ میں صبح کی نماز کے بعد نہر کی اوپری طرف چل پڑا۔۔ کچھ کلومیٹر ہی گیا ہو گا۔۔۔ کہ دیکھا۔۔ ایک بابا جی ہیں جو نان اور حلوہ لئے نہر کنارے بیٹھے ہیں۔۔
قریب جا کر دیکھا۔۔ تو بابا جی نان کے اندر حلوہ رکھتے اور پھر اس گرم گرم حلوے سے اپنی ٹانگ پر نکلے ایک پھوڑے کو ٹیکور کرتے۔۔ پھر ایک پتے پر نان اور حلوہ رکھ کر نہر میں بہا دیتے۔۔
جوان کا دل ایک دم خراب ہونا شروع ہو گیا۔ ابکائیان آنے لگیں
کیا میں اتنے دنوں سے یہ حلوہ اور نان کھا رہا تھا؟
بابا جی سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے؟
بابا جی بولے، کئی دنوں سے یہ پھوڑا نکلا ہوا تھا۔۔جس کی وجہ سے بہت تکلیف تھی۔ حکیم کے پاس گیا تو حکیم نے مشورہ دیا کہ روزانہ دن میں تیں بار سوجی کے حلوے کو نان پر رکھ کر اس کی ٹیکور کروں۔۔ سو میں فجر، ظہر اور مغرب کے بعد ادھر آ جاتا ہوں۔۔ نان اور حلوے کی ٹیکور کے بعد نان اور حلوے کو پتے پر رکھ کر نہر میں بہا دیتا ہوں تاکہ خراب ہونے کی بجائے چڑند پرند اور مچھلیا ن ہی کھا لیں۔۔۔
دوستو بے شک اللہ رازق ہے۔۔ رزق اللہ نے ہی دینا ہے۔۔ محنت اور کاہلی کے درمیان پھل کا فرق ہے۔۔ جو محنت کرتے ہیں انھیں پاک اور صاف رزق ملتا ہے۔۔ جو کاہلی میں وقت گزارتے ہیں اور حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔۔رزق تو انہیں بھی ملتا ہے۔۔ مگر وہ رزق جس میں کراہت اور گندگی ہو۔۔