رسالہ آفتاب ملت کا تازہ شمارہ - تاریخ حیدرآباد دکن پر مختص

تعمیر

محفلین
حیدرآباد (دکن) سے شائع ہونے والے نئے رسالے "آفتابِ ملت" کا تازہ شمارہ فروری-2014 بازار میں آ چکا ہے۔
"تاریخ دکن اور نظام کی خدمات" کے منفرد موضوع پر یہ خصوصی شمارہ شائع کیا گیا ہے۔
قیمت : صرف 20 روپے
ملنے کے پتے اور مزید تفصیلات کیلیے اس نمبر پر ربط فرمائیں : 00919395555500

سرورق
pc8rs.jpg


فہرست مضامین
35lgufd.gif
 

تعمیر

محفلین
سید مکرم نیاز کے مضمون بعنوان :
گوگل ری یونین ۔ قلی قطب شاہ سے سلطنت آصفیہ اور سقوط حیدرآباد تک
سے چند مفید اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ دنوں جب سیاست کے ایوانوں میں مملکت آصفیہ اور حضور نظام میر عثمان علی خان کے خلاف ہرزہ سرائی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو تاریخ دکن سے جزوی واقفیت رکھنے والے افراد اور اداروں نے تک اپنا فرض جانا کہ عوام کو گذشتہ واقعات اور حقائق کی روشنی سے سرفراز کیا جائے۔ سائبر ورلڈ کو اپنا انتہائی وقت دینے والے ہم جیسے فرزانوں کے ذہن میں ایک خیال یہ در آیا کہ روایتی اردو داں قلمکاروں کے لیے تاریخی یا تحقیقی مضمون تحریر کرنے محدود ذرائع میسر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کچھ رسائل اور لائبریریوں کی چند مخصوص کتابیں ہی قلمکار کی دسترس میں ہوتی ہیں ، جن کی مدد سے ماہرین فن کے کچھ اقتباسات اور کچھ اپنے تبصرے یا تجزیے کے ذریعے ایک روایتی سا مضمون تیار ہوتا ہے۔ لیکن جب یہی بات انٹرنیٹ کے کسی قاری یا محقق سے کہی جائے تو آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ پیاز کی پرت در پرت کی طرح معلومات کے در کیسے وا ہوتے جاتے ہیں اور گوگل سرچ کا یہ سفر کس طرح معلومات کے حصول میں وسیلہ ظفر ثابت ہوتا ہے؟

اگلا ہدف یہ تھا کہ گوگل پر الفاظ "کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ" لکھ کر تلاش شروع کی جائے۔ تلاش کے نتیجے کے پہلے صفحہ پر پہلا لنک دنیا کے اولین اردو یونیکوڈ فورم "اردو محفل" کا ملتا ہے جس نے اپنے اراکین کی رضاکارانہ کمپوزنگ کے تعاون سے مختلف النوع اہم اردو کتب کو یونیکوڈائز کرنے کا قابل تحسین کام عرصہ دراز سے شروع کر رکھا ہے۔ اسی حوالے سے کچھ اراکین نے کلاسیکی ادب کی کتب کو پی۔ڈی۔ایف شکل میں ڈیجیٹائز کر کے مقبول عام ڈکیومنٹ اپلوڈنگ ویب سائٹ scribd.com پر اپلوڈ کر رکھی ہیں تاکہ انہیں تحریری اور قابل تلاش اردو (یونیکوڈ) میں فرصت سے منتقل کیا جائے۔ اس طرح "کلیاتِ سلطان محمد قلی قطب شاہ" کے تینوں حصے ایک عام قاری انٹرنیٹ کی متذکرہ ویب سائٹ پر ملاحظہ کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ متذکرہ کلیات ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور (مرحوم) کی مرتب شدہ ہے اور یہ 1940 کا نسخہ ہے جو 1068 صفحات کی شکل میں مکتبہ ابراہیمیہ مشین پریس ، حیدرآباد دکن سے شائع ہوا تھا۔

آصفیہ کے حوالے سے دوسرا اہم ذکر "فرہنگ آصفیہ" کا ہے۔ اردو دنیا جانتی ہے کہ اردو کی یہ ایسی اولین لغت ہے جس کی تالیف میں مولف سید احمد دہلوی نے 21 سال اور پھر ترمیم و نظرثانی میں 9 سال لگائے۔ آصف سادس میر محبوب علی خان بہادر کے نام معنون اس لغت کی اہمیت آج بھی مسلم ہے اور لسانیات کے ماہرین آج بھی اس کا حوالہ دینے سے نہیں ہچکچاتے۔ کاغذی شکل میں شاید ہی یہ عام آدمی کی دسترس میں ہو مگر بھلا ہو انٹرنیٹ شہنشاہ گوگل کا جو فرہنگ آصفیہ کی تلاش پر ہمیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اس کا آسان اور مفت حصول عام آدمی کے لیے بالکل ممکن ہے۔ اردو محفل فورم پر 2009 میں ۔@فرخ منظور صاحب نے فرہنگ آصفیہ کے 4 حصوں کے ڈاؤن لوڈ لنک فراہم کیے تھے۔ یہ چاروں جلدیں چار عدد پی۔ڈی۔ایف فائلوں کی شکل میں archive.org ویب سائٹ پر عوامی استفادہ کے لیے روبارٹس لائبریری ، یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔

حیدرآباد یا ہندوستان کی کسی اردو ویب سائٹ کے برعکس نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان پر بہترین مضمون روزنامہ "دنیا" (پاکستان) نے گذشتہ سال جولائی میں فیچر آرٹیکل کے طور پر بعنوان "نواب میر عثمان علی خان : آصف سابع ۔ ایک پہلودار شخصیت" شائع کیا تھا۔ اور یہ مضمون بھی معروف ادیب و محقق سید محمود خاور کی کتاب "عہد ساز ہستیاں" سے اخذ کردہ ہے۔

"جامعہ عثمانیہ" یعنی عثمانیہ یونیورسٹی کی سرچنگ سب سے پہلے وائس آف امریکہ کی اردو ویب سائٹ کے اس مضمون تک کھینچ لے جاتی ہے جس کا عنوان ہے : "جامعہ عثمانیہ : قیام کے 90 سال مکمل : اردو ذریعۂ تعلیم سے آغاز لیکن آج ۔۔۔" مضمون کے مصنف کے طور پر "رشید الدین" کا نام درج ہے۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفیٰ علی سروری نے تصدیق کی ہے کہ یہ حیدرآباد کے صحافی رشید الدین صاحب کا تحریر کردہ مضمون ہے۔
اردو محفل فورم پر "جامعہ عثمانیہ" کے عنوان سے علیحدہ سیکشن تو ضرور موجود ہے جس کا لنک گوگل سرچ میں بھی نمودار ہوتا ہے مگر وہاں "فرہنگ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ" کے زیرعنوان صرف ایک مضمون [thread] ہے ، امید تھی کہ وہاں سے یہ اہم لغت پی۔ڈی۔ایف یا یونیکوڈ میں دستیاب ہو جائے گی مگر نومبر 2008 میں شروع کیا گیا یہ کام وہاں ادھورا ہی پڑا ہے۔
ہاں، جامعہ عثمانیہ کی اس گوگل تلاش نے ایک ایسی اہم دینی کتاب تک رسائی دی ہے جس کے لیے ادارہ محدث لاہور کی جانب سے قائم کردہ آن لائن "کتاب و سنت لائبریری" یقیناً تعریف و تحسین کی حقدار ہے۔ یہ 8 جلدوں پر مشتمل محمد بن سعد کی ضخیم کتاب "طبقات کبیر" کا اردو ترجمہ ہے۔ "سلسلہ نصاب تعلیم جامعہ عثمانیہ" کے تحت دارالطبع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی حیدرآباد دکن کی جانب سے 1944 میں شائع شدہ مولانا عبداللہ العمادی صاحب (رکن سررشتہ تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ) کا یہ اردو ترجمہ ہے۔ اور یہ آٹھ کی آٹھ جلدیں پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں ویب سائٹ "کتاب و سنت لائبریری" سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔

سرزمین دکن نے سقوط حیدرآباد کا وہ منظر دیکھا جس کے زخم جب بھی ذکر نکلتا ہے ہرے ہوجاتے ہیں۔ یوں تواس قیامت کو دیکھنے والے شہریان اب زیادہ نہیں بچے مگر جو بچے ہیں وہ جب بیان کرتے ہیں تو کہنے والے اور سننے والے سبھی رونے لگتے ہیں۔ ہم محسوس نہیں کر سکتے وہ قتل غارت گیر ی کا منظر جس کا زخم یہ بزرگان اپنے ساتھ لیے اپنی قبروں کی طرف گامزن ہیں۔ اس المیہ کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ حیدرآباد ریاست کے مسلمان دیگر پیشوں میں بہت کم شامل تھے ۔ اکثر مسلمان حکومتی شعبو ں اور فوج میں شامل تھے جنھیں سقوط کے بعد خدمات سے ہٹا دیا گیا۔ جو کاروباری تھے ان کے کاروبار لوٹ اور غارت گیری کے ذریعے ختم کردئے گئے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ زمینات ( زمیندار، جاگیردار) کا مالک تھا جنھیں انکی جائدادوں سے بے دخل کردیا گیا۔ یوں ملک کے اس خطے سے جہاں ملت اسلامیہ معاشی ،تعلیمی طور پر مستحکم تھی انھیں غربت و پسماندگی کی جانب دھکیلا گیا۔

بحوالہ آن لائن مضمون : نظامان دکن قیام تا سقوط حیدرآباد ، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں (مصنف : عبدالمقیت عبدالقدیر) [hamariweb.com]

علیم خان فلکی ۔۔۔ مضمون کے آخر میں آج کے حیدرآبادی مسلمانوں کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"ریاستِ حیدرآباد ختم ہو گئی لیکن پولیس ایکشن آ ج بھی جاری ہے۔ TADA کے نام پر ہزاروں مسلمان نوجوان قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار ہیں۔ کانگریس کی مسلم دشمنی کا حال یہ ہے کہ فرقہ پرست شیو سینا و آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے سرغنے مکمل آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ کئی ایک کو حکومت کی جانب سے سیکیورٹی حاصل ہے۔ دوسری طرف وہ نوجوان جو رشوت، چور بازاری، شراب بندی وغیرہ جیسی لعنتوں کے خاتمے کے لئے حکومت کے قوتِ بازو بن سکتے تھے کیونکہ فکرِ آخرت کا تصور ان کا سرمایۂ ایمان تھا وہی نوجوان یا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یا پھر مختلف نا انصافیوں کا شکار ہو کر معاشی بد حالی سے دو چار ہیں۔ حیدرآباد و اطراف و اکناف میں ہر سال فسادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حیدرآباد میں تین فسادات بڑے پیمانے پر نظام آباد میں ایک اورنگ آباد میں دو بیدر ظہیرآباد وغیرہ تمام علاقوں میں ایک ایک دو دو بڑے فسادات ہو چکے ہیں تمام فسادات کی وہی رپورٹ ہے وہی اسباب و نتائج ہیں جو یکساں طور پر پولیس ایکشن کی کہانی دہراتے ہیں۔"

اور یوں گوگل تلاش کا یہ طویل سفر بھی اسی المیہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر سفر کا انجام خوشگوار نکلے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو فراموش نہ کر جائیں۔ بزم قلم گوگل گروپ کی اسی موضوع کی ایک بحث کے دوران یو این آئی اردو سروس کے صحافی عابد انور نے بجا طور کہا ہے کہ :
"مسلمان منفی چیزوں کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں۔ ہم میں ایک بات اور رواج پا گئی ہے کہ ہم نے اپنے اکابر و اسلاف کے بارے میں جاننا بالکل ترک کر دیا ہے۔ ماضی سے سبق لے کر مستقبل سنوارنے کی فکر کا بھی ہم میں فقدان ہے۔ نظام حیدرآباد کے تعلیمی کارنامے ایسے ہیں جو سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ وہ نہ صرف ہندوستان میں تمام اہل علم کی اعانت کرتے تھے بلکہ بیرون ملک امریکہ لندن اوردوسری جگہوں کے تعلیمی اداروں کی بھی مدد کرتے تھے۔ نظام کی حکومت ہندوستان کی واحد ایسی حکومت تھی جسے مکمل حکومت کہا جا سکتا ہے۔ اس حکومت کے پاس اپنے سارے نظام تھے جو ہندوستان کے دیگر راجوں مہاراجوں کے یہاں نہیں تھے۔ کچھ غلطیاں ان سے ہوئی ہیں جو انہوں نے اغیار پر بھروسہ کیا اور جس کے نتیجے میں سقوط حیدرآباد عمل میں آیا۔ بہر حال ہمیں ان کے کارناموں پر فخر کرنا چاہئے۔ انہوں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے باب میں وہ کارنامہ انجام دیا جو اب تک کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ اردو زبان میں تمام علوم کی تعلیم کا نہ صرف انہوں نے تصور پیش کیا تھا بلکہ اسے عملی طور پر کر کے دکھا دیا تھا۔"
 
بہت عمدہ تحریر ہے ۔شروع سے آخر تک زبان و بیان کی چاشنی لئے ہوئے ۔بہت مزا آیا پڑھ کر ۔بہت ساری باتیں معلوم بھی ہوئیں جو پہلے سے میں نہیں جانتا بے حد مشکور ہوں ۔اتنا عمدہ مضمون شیر کر نے کے لئے ۔سقوط حیدر آباد پر کافی دن ہوئے میں نے ایک ناول پڑھی تھی ۔اب یہ یاد نہیں کہ یہ ناول کس نے لکھی تھی ۔لیکن بس اتنا یاد ہے کہ پڑھ کر روئے بغیر نہیں رہ سکا تھا ۔بہت قربانیاں دی ہیں ہمارے اسلاف نے ۔اللہ ان کی خدمات کو قبولیت سے سرفراز کرے ۔آپ نے یہ اچھا کیا اسلاف سے متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا ۔گذارش کروں گا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے ۔
 
Top