ابن جمال
محفلین
زکریا صاحب منتظم اعلیٰ اردو محفل کا "خداعظیم نہیں ہے"نامی کتاب کو پیش کرنے کاانداز اچھالگا۔یہ سرسری طورپر کتاب کے مشمولات اورکتاب سے واقفیت کرادیتی ہے اورقارئین باتوں ہی باتوں میں پوری کتاب کی سیر کرلیتے ہیں۔اسی طرزپر میں نے بھی ایک کتاب پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔فی الحال جومصیبت اورمصیبت کیوں شامت اعمال کہئے۔(جس طرح نادرشاہ کے دلی پر حملہ اورقتل عام پر ایک بزرگ نے کہاتھا۔شامت اعمال ماصورت نادر گرفت)ہمارے شامت اعمال اورکرتوت سے اس وقت امت میں جو آپسی انتشار اورخانہ جنگی اورہرطرف غدرمچاہواہے۔معمولی باتوں کیلئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں اورسرعام ایک دوسرے کو گلیوں سے لے کر شہروں اورمسجد کے لاؤڈاسپیکر سے لے کر انٹرنیٹ فورمز تک ہرجگہ ایک دوسرے پر لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے۔ایسے میں ایک ایسی کتاب کا تعارف پیش کرانے جارہاہوں جس کا مقصد ہی مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد واتفاق ہے۔
اس کے مصنف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ان کے نام اورکام سے تقریبالوگ واقف ہی ہیں زیادہ تعارف کی ضرورت نہیں۔علوم اسلامیہ میں ان کا بڑامقام ہے۔ حافظہ بہت قوی تھا۔ مسلک کے اعتبار سے حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل کی فقہ کے ساتھ وابستہ تھے۔انہوں نے مختلف فرقوں پر بڑی تنقید کی ہے اورعموماان کی وجہ شہرت یہی بن گئی ہے۔
ان کی تنقیدات صحیح بھی ہیں اورغلط بھی ۔بعض مسائل میں جمہورامت نے ان کی آراء سے اتفاق نہیں کیا۔شدرحال اورطلاق ثلاثہ اس کی مشہور مثال ہے ۔اسی طرح شیعہ حضرات پر رد میں بھی کہیں کہیں وہ حد سے تجاوز کرگئے ہیں جس کی جانب حافظ ابن حجر نے توجہ دلائی ہے۔ان کی اس کتاب کو اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بیشترمسلمان جہاں ان کو جلیل القدر عالم مانتے ہیں وہیں اہل حدیث حضرات بھی ان کو خاصی اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح دیکھاجائے تومسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کیلئے وہ قابل قبول حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ کتاب ان کے چند فتاوی جات کا مجموعہ ہے جسکوایک خاص ترتیب سے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے مرتب کیاہے۔اوراس کانام رکھاہے
"رسالۃ الالفۃ بین المسلمین"مسلمانوں کے درمیان الفت
اس کتاب میں اولاشیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے مسلمانوں کے درمیان آپسی الفت اورمحبت پر مشتمل احادیث بیان کی ہے اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مختصر تذکرہ ہے۔
پہلے فتویٰ کا عنوان ہے
خلاف الامۃ فی صفات العبادات لایقتضی الشقاق والنزاع،ولایورث الریبۃ فی احکام الشریعۃ،امت کے درمیان فروعی معاملات میں اختلاف آپسی نزاع کاباعث نہیں ہوناچاہءے اورنہ اس سےشریعت کے احکام میں شک ہوناچاہئے۔
اس میں بن تیمیہ ذکر کرتے ہیں کہ فروعی اورذیلی احکامات می اختلاف کے باعث امت کے اندر آپسی سرپھٹول کیوں ہوتاہے اوراس کی اندرونی وجہ کیاہوتی ہے بظاہر توسبھی خدمت دین کا دعویٰ کررہے ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں اس کا پہلا سبب تویہ ہے کہ بہت سے لوگ اس امر سے ناواقف اورجاہل ہیں جو اللہ اوراس کے رسول کوپسند ہے اورجس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاہے۔اس وجہ سے بھی معمولی باتوں پرجھگڑے ہوجاتے ہیں۔
دوسرا سبب یہ ہوتاہے کہ جس سے اللہ نے منع نہیں کیااس سے روکتے ہیں اورجس سے اللہ نے نفرت کاحکم نہیں اس سے نفرت کرتے ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک جائز شریعت کی نگاہ میں بھلے افضل نہ ہو لیکن جائز ہے اس پر شدت اورسختی برتتے ہیں اوراپنے نظریات کو تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس میں وہ اتناغلو کرجاتے ہیں کہ بذل عطا اورجودوسخا میں بھی مستحق کو نہ دے کر غیرمستحق کو نوازتے ہیں کیونکہ وہ ان کی آراء کے موافق ہوتاہے۔
تیسرا سبب خواہشات کی پیروی ہے۔یعنی یہ جاننے اوربوجھنے کے باوجود کہ حق کیاہے اوراس کی حدود کیاہے اورجس فروعی عمل پر وہ جس ردعمل کااظہار کررہے ہیں وہ ناحق ہے لیکن بس نفس اورشیطان کے زیر اثر وہ یہ سب کررہے ہیں۔
چوتھاسبب یہ ہے کہ ان کی محبت کا مرکز اللہ اوراس کے رسول کی ذات نہیں بلکہ اپنامسلک اورفرقہ ہوجاتاہے۔وہ کسی سے محبت کرتے ہیں تواس بنیاد پر نہیں کہ وہ مسلمان ہے اورفرائض کا پابند اورمنہیات سے اجتناب کرتاہے بلکہ اس پر کہ وہ ہمارے مسلک کا ہے یادوسرے مسلک کاہے یہ چیزیں برھتے بڑھتے اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ ایک دوسرے پر طزوتعریض ،لعن طعن اورلڑائی جھگڑے سے بڑھ کر مارکٹائی تک پہنچ جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھناگوارانہیں کرتے۔
اس کے ابن تیمیہ نے قران وحدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں کہ اسلا م میں اجتماع اوراجتماعیت کی کتنی اہمیت ہے اس کووہ قرآن وحدیث سے مدلل کرتے ہیں۔
چونکہ حضرت ابن تیمیہ کا لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔وہ وفور علم اورمعلومات کے جوش میں ایک ذراسی تحریک اوراشارہ سے ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر چلے جاتے ہیں اورپھراس کو شرح وبسط سے ذکر کرتے ہیں۔متاخرین اورماضی قریب کے علماء میں اس کی نمایاں مثال مولانامناظراحسن گیلانی ہیں۔ان کی کتابیں معلومات کا خزانہ ہیں لیکن وہ بھی ایک ذرا سی تحریک اوراشارہ سے موضوع سے دور چلے جاتے ہیں۔
بہرحال یہ بات مقطع میں سخن گسترانہ طورپر شامل ہے۔ابن تیمیہ اس کے بعد نماز میں بسم اللہ زور سے کہناچاہئے یاآہستہ،فجر میں قنوت ہمیشہ پرھناچاہئے یاصر ف مصائب وحوادث کے وقت پڑھاجائے۔عیدین کی نماز میں تکبرات زائد چھ ہیں یابارہ ،آمین زور سے کہاجائے یاآہستہ،نمازکی ابتداء کس طرح کی جائے۔(مطلب رفع یدین کے ساتھ یابغیررفع یدین کے)اوربھی دیگر مثالوں کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
یہ تمام صورتیں جائز ہیں اوردونوں صورتیں تقریبابرابر ہیں اگرچہ بعض نے اپنے طورپر بعض کو افضل اوربعض کو غیرافضل قراردیاہے لیکن جائز دونوں ہیں۔
بل قدیکون النوعان سواء وان رجح الناس بعضھا ولوکان احدھماافضل لم یجز ان یظلم من یختار المفضول،ولایذم ولایعاب باجماع المسلمین
بلکہ کبھی دونوں صورتیں برابر ہوتی ہیں اگرچہ بعض نے بعض صورت کو افضل قراردیاہے اوراس میں ایک صورت واقعی افضل ہوبھی تو کسی کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مرجوح اورمفضول صورت کو اختیار کرنے پر زیادتی کرے اورنہ اس کی مذمت کرنااورعیب لگاناجائز ہے اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
اس کے مصنف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ان کے نام اورکام سے تقریبالوگ واقف ہی ہیں زیادہ تعارف کی ضرورت نہیں۔علوم اسلامیہ میں ان کا بڑامقام ہے۔ حافظہ بہت قوی تھا۔ مسلک کے اعتبار سے حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل کی فقہ کے ساتھ وابستہ تھے۔انہوں نے مختلف فرقوں پر بڑی تنقید کی ہے اورعموماان کی وجہ شہرت یہی بن گئی ہے۔
ان کی تنقیدات صحیح بھی ہیں اورغلط بھی ۔بعض مسائل میں جمہورامت نے ان کی آراء سے اتفاق نہیں کیا۔شدرحال اورطلاق ثلاثہ اس کی مشہور مثال ہے ۔اسی طرح شیعہ حضرات پر رد میں بھی کہیں کہیں وہ حد سے تجاوز کرگئے ہیں جس کی جانب حافظ ابن حجر نے توجہ دلائی ہے۔ان کی اس کتاب کو اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بیشترمسلمان جہاں ان کو جلیل القدر عالم مانتے ہیں وہیں اہل حدیث حضرات بھی ان کو خاصی اہمیت دیتے ہیں ۔اس طرح دیکھاجائے تومسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کیلئے وہ قابل قبول حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ کتاب ان کے چند فتاوی جات کا مجموعہ ہے جسکوایک خاص ترتیب سے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے مرتب کیاہے۔اوراس کانام رکھاہے
"رسالۃ الالفۃ بین المسلمین"مسلمانوں کے درمیان الفت
اس کتاب میں اولاشیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے مسلمانوں کے درمیان آپسی الفت اورمحبت پر مشتمل احادیث بیان کی ہے اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مختصر تذکرہ ہے۔
پہلے فتویٰ کا عنوان ہے
خلاف الامۃ فی صفات العبادات لایقتضی الشقاق والنزاع،ولایورث الریبۃ فی احکام الشریعۃ،امت کے درمیان فروعی معاملات میں اختلاف آپسی نزاع کاباعث نہیں ہوناچاہءے اورنہ اس سےشریعت کے احکام میں شک ہوناچاہئے۔
اس میں بن تیمیہ ذکر کرتے ہیں کہ فروعی اورذیلی احکامات می اختلاف کے باعث امت کے اندر آپسی سرپھٹول کیوں ہوتاہے اوراس کی اندرونی وجہ کیاہوتی ہے بظاہر توسبھی خدمت دین کا دعویٰ کررہے ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں اس کا پہلا سبب تویہ ہے کہ بہت سے لوگ اس امر سے ناواقف اورجاہل ہیں جو اللہ اوراس کے رسول کوپسند ہے اورجس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاہے۔اس وجہ سے بھی معمولی باتوں پرجھگڑے ہوجاتے ہیں۔
دوسرا سبب یہ ہوتاہے کہ جس سے اللہ نے منع نہیں کیااس سے روکتے ہیں اورجس سے اللہ نے نفرت کاحکم نہیں اس سے نفرت کرتے ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک جائز شریعت کی نگاہ میں بھلے افضل نہ ہو لیکن جائز ہے اس پر شدت اورسختی برتتے ہیں اوراپنے نظریات کو تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس میں وہ اتناغلو کرجاتے ہیں کہ بذل عطا اورجودوسخا میں بھی مستحق کو نہ دے کر غیرمستحق کو نوازتے ہیں کیونکہ وہ ان کی آراء کے موافق ہوتاہے۔
تیسرا سبب خواہشات کی پیروی ہے۔یعنی یہ جاننے اوربوجھنے کے باوجود کہ حق کیاہے اوراس کی حدود کیاہے اورجس فروعی عمل پر وہ جس ردعمل کااظہار کررہے ہیں وہ ناحق ہے لیکن بس نفس اورشیطان کے زیر اثر وہ یہ سب کررہے ہیں۔
چوتھاسبب یہ ہے کہ ان کی محبت کا مرکز اللہ اوراس کے رسول کی ذات نہیں بلکہ اپنامسلک اورفرقہ ہوجاتاہے۔وہ کسی سے محبت کرتے ہیں تواس بنیاد پر نہیں کہ وہ مسلمان ہے اورفرائض کا پابند اورمنہیات سے اجتناب کرتاہے بلکہ اس پر کہ وہ ہمارے مسلک کا ہے یادوسرے مسلک کاہے یہ چیزیں برھتے بڑھتے اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ ایک دوسرے پر طزوتعریض ،لعن طعن اورلڑائی جھگڑے سے بڑھ کر مارکٹائی تک پہنچ جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھناگوارانہیں کرتے۔
اس کے ابن تیمیہ نے قران وحدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں کہ اسلا م میں اجتماع اوراجتماعیت کی کتنی اہمیت ہے اس کووہ قرآن وحدیث سے مدلل کرتے ہیں۔
چونکہ حضرت ابن تیمیہ کا لکھنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔وہ وفور علم اورمعلومات کے جوش میں ایک ذراسی تحریک اوراشارہ سے ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر چلے جاتے ہیں اورپھراس کو شرح وبسط سے ذکر کرتے ہیں۔متاخرین اورماضی قریب کے علماء میں اس کی نمایاں مثال مولانامناظراحسن گیلانی ہیں۔ان کی کتابیں معلومات کا خزانہ ہیں لیکن وہ بھی ایک ذرا سی تحریک اوراشارہ سے موضوع سے دور چلے جاتے ہیں۔
بہرحال یہ بات مقطع میں سخن گسترانہ طورپر شامل ہے۔ابن تیمیہ اس کے بعد نماز میں بسم اللہ زور سے کہناچاہئے یاآہستہ،فجر میں قنوت ہمیشہ پرھناچاہئے یاصر ف مصائب وحوادث کے وقت پڑھاجائے۔عیدین کی نماز میں تکبرات زائد چھ ہیں یابارہ ،آمین زور سے کہاجائے یاآہستہ،نمازکی ابتداء کس طرح کی جائے۔(مطلب رفع یدین کے ساتھ یابغیررفع یدین کے)اوربھی دیگر مثالوں کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
یہ تمام صورتیں جائز ہیں اوردونوں صورتیں تقریبابرابر ہیں اگرچہ بعض نے اپنے طورپر بعض کو افضل اوربعض کو غیرافضل قراردیاہے لیکن جائز دونوں ہیں۔
بل قدیکون النوعان سواء وان رجح الناس بعضھا ولوکان احدھماافضل لم یجز ان یظلم من یختار المفضول،ولایذم ولایعاب باجماع المسلمین
بلکہ کبھی دونوں صورتیں برابر ہوتی ہیں اگرچہ بعض نے بعض صورت کو افضل قراردیاہے اوراس میں ایک صورت واقعی افضل ہوبھی تو کسی کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ مرجوح اورمفضول صورت کو اختیار کرنے پر زیادتی کرے اورنہ اس کی مذمت کرنااورعیب لگاناجائز ہے اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔