پروین شاکر رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں

رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں
پھر کوئے ملامت میں ہوں ، نادان بہت ہوں
اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا
چُھونے کو ملا ہے تو پریشان بہت ہوں
مُجھ میں کوئی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے
اک بند گلی کی طرح سنسان بہت ہوں
دیکھا ہے گریز اُس نگاہِ سرد کا اتنا
مائل بہ توجہّ ہے تو حیران بہت ہوں
اُلجھیں گے کئی بار ابھی لفظ سے مفہوم
سادہ ہے بہت وہ نہ میں آسان بہت ہوں‎
 

سید زبیر

محفلین
بہت اعلیٰ
رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں​
پھر کوئے ملامت میں ہوں ، نادان بہت ہوں​
واہ​
 
Top