رسول خدا کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا

کاشفی

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم


اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم

رسول خدا کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا


وہب اپنی شریک حیات کے پاس گئے اور کہا :


''آج عبدالمطلب کے سجیلے بیٹے عبداللہ علیہ السلام نے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ ان کو دیکھ کر میں انگشت بدندان رہ گیا ۔ یہودیوں کےایک گروہ نے ان پر حملہ کر دیا تھا ۔ وہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے ، لیکن عبداللہ علیہ السلام نے ان کے بزدلانہ حملوں کا تن تنہا جواب دیا اور ان میں سے کئی آدمیوں کو ہلاک کر دیا ۔ ایسا حسین و جمیل اور باکمال جوان میں نے نہیں دیکھا ۔ تم ان کے والد کے پاس جاؤ اور عبداللہ علیہ السلام سے اپنی بیٹی آمنہ سلام اللہ علیہا سے شادی کا پیغام دو ! ہو سکتا ہے اس جوان کی وجہ سے ہمارے خاندان کی عزت بڑھ جائے ''

وہب کی بیوی خود کو اس لائق نہیں سمجھتی تھی کہ انہیں عبداللہ علیہ السلام جیسا داماد ملے گا ۔ لہذا اس نے کہا :

مکہ کے شرافاء اور رئیس ان سے اپنی لڑکی منسوب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، لیکن عبدالمطلب نے ان میں سے کسی کا رشتہ قبول نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ عراق و شام کے بادشاہوں اور بڑے لوگوں نے بھی ان سے اس سلسلے میں خط و خطابت کی ہے مگر مایوسی کے سوا انہیں کچھ نصیب نہیں ہوا ہے ۔ کیا اس کے باوجود عبداللہ علیہ السلام ہم جیسے غریبوں کی لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں ؟

''پھر بھی تمہیں ناامید نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ میں نے عبداللہ علیہ السلام کے خاندان والوں کو ان پر یہودیوں کے حملہ کرنے کی خبر دی ہے لہذا ان کی نظروں میں میرا احترام ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس مخلصانہ کام کی وجہ سے ہماری بات کو رد نہیں کریں گے ''

وہب کی بیوی نیا لباس پہن کر یاس وامید کی کیفیت کے ساتھ عبدالمطلب کے گھر گئی ۔ خوش قسمتی سے عبدالمطلب اس وقت اپنے بیٹوں سے یہودیوں کے حملہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے ۔ عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا ، عبدالمطلب اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی، جواب میں عبدالمطلب نے بھی دعا دی اور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا : '' آج تمہارے شوہر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، ہم کبھی اس کا صلہ نہیں دے سکیں گے ۔ ان کی نوازشوں کے ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔''

عبدالمطلب کے طرز گفتگو سے وہب کی بیوی کو کچھ یقین ہوا کہ عبدالمطلب ہماری پیشکش پر غور کریں گے ۔ عبدالمطلب نے مزید کہا کہ

'' ہماری جانب سے اپنے شوہر کو بہت سلام کہیے اور کہیے کہ اگر ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں ، انشاءللہ انجام دیں گے ۔''


عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا اور عبدالمطلب سے اصل مدعا بیان کیا ، نیز کہا : میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خوش کر دیں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شام و عراق اور دوسری جگہوں کے رؤساء کی لڑکیاں عبداللہ علیہ السلام کے حبالۂ نکاح میں آنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی ہیں ۔ کمال عقیدت و اشتیاق کے ساتھ ہماری درخواست یہ ہے کہ عبداللہ علیہ السلام کا نکاح ہماری بیٹی سے کر لیجئے ، اسی لئے میں آپ کے پاس آئی ہوں ۔ عبداللہ علیہ السلام کی شخصیت ہمیں بہت زیادہ محبوب ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ مالی لحاظ سے ہم دوسروں کی برابری نہیں کر سکیں گے ۔ لیکن امید ہے کہ عبداللہ علیہ السلام ہمارے اس ہدیہ کو رد نہیں کریں گے ۔

وہب کی بیوی کی باتیں سن کر عبدالمطلب نے عبدللہ علیہ السلام کے چہرہ پر نگاہ کی کیونکہ پہلے جب بھی بڑے لوگوں کی لڑکیوں سے رشتہ کی بات چلتی تھی تو عبداللہ علیہ السلام کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آتے تھے ۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ علیہ السلام سے کہا : '' بیٹا تمہارا کیا خیال ہے ؟

بیٹے نے کہا : خدا کی قسم ! مکہ کی لڑکیوں میں اس سے زیادہ پاک دامن اور باعفت لڑکی نہیں ہے ۔ وہ باوقار ، پاکیزہ اور عقلمند و دیندار ہے ۔ پاک دامن اور باتقوی جوانوں کی ہمسری کے لئے ایسی ہی لڑکیاں موزوں ہیں ''

عبداللہ علیہ السلام خاموش رہے ۔ عبدالمطلب ان کی خاموشی سے سمجھ گئے کہ اس رشتہ سے راضی ہیں ، اس لئے وہب کی بیوی سے کہا : '' مجھے تمہاری بات قبول ہے اور تمہاری لڑکی کو اپنے بیٹے کے لئے نامزد کرتا ہوں ۔ عبداللہ علیہ السلام کی والدہ ، عبدالمطلب کی شریک حیات ، فاطمہ نے وہب کی بیوی سے کہا : میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں تاکہ نزدیک سے آمنہ کو دیکھ لوں ، اگر اس لائق ہو گی تو راضی ہونگی ''

یہ بات تقریبا طے ہو گئی تھی کہ عبداللہ علیہ السلام کی شادی آمنہ سلام اللہ علیہا سے ہو گی ۔ لڑکی والے خصوصا اس کے والدین ، عبداللہ علیہ السلام جیسا صالح داماد مل جانے سے بہت خوش تھے ۔ گویا عالم غیب سے آمنہ کی ماں کو ہاتف مخاطب کرکے کہہ رہا تھا : مبارک ہو ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت میں زیادہ دیر نہیں ہے '' وہب کی زوجہ واپس آئی تو انہوں نے بوچھا : کیا ہوا ؟

جواب ملا کہ آپ کا نصیب جاگ گیا ۔ عبدالمطلب نے آپ کی لڑکی کو پسند کر لیا ہے ۔ لیکن ابھی اطمینان کی سانس نہیں لی جا سکتی کیونکہ عبداللہ علیہ السلام کی ماں لڑکی کو قریب سے دیکھنے کے لئے آ رہی ہیں ۔ خدانخوستہ اگر انہیں ہماری لڑکی پسند نہ آئی تو ساری محنت ضائع ہو جائے گی ''

وہب نے بیوی سے کہا : بیٹی کو نیا لباس پہناؤ اور زیور وغیرہ سے سجا سنوار دو ! کیونکہ لڑکیوں میں اتنی کشش ہونی چاہئے کہ جس سے پسندیدہ بن جائیں ''

آمنہ سلام اللہ علیہا کی ماں نے بیٹی کو آراستہ کردیا ، جس سے بیٹی کا حسن دوبالا ہو گیا ۔ نیز ماں نے تاکید کر دی کہ فاطمہ کے سامنے ادب و احترام کا خاص لحاظ رکھنا ۔ ہو سکتا ہے فاطمہ بھی اس رشتہ کو پسند کر لیں اور ہماری قسمت جاگ جائے ۔

اسی اثناء میں فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں ۔ آمنہ ادب و احترام سے ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو گئی ۔ فاطمہ اپنی ہونے والی بہو کے حسن و جمال کی شیفتہ ہو گئیں اور آمنہ سلام اللہ علیہا کی والدہ سے کہا : میں نہیں جانتی تھی کہ آپ کی بیٹی اتنی حسین اور باوقار ہے ۔ میں نے بارہا آمنہ سلام اللہ علیہا کو دیکھا تھا لیکن اس کے کمال کی طرف متوجہ نہیں ہو سکی تھی ''

'' یہ بھی آپ کے خاندان کی برکت سے ہے ''

فاطمہ نے آمنہ سلام اللہ علیہا سے کچھ باتیں کیں تو آمنہ سلام اللہ علیہا کو ایسی شائستہ اور شیرین سخن لڑکی پایا کہ مکہ کی عورتوں اور لڑکیوں میں جس کی نظیر نہیں تھی ۔

فاطمہ جو کہ بہت خوش تھیں ، اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس گئیں اور عبداللہ علیہ السلام سے کہا : بیٹا ! آمنہ سلام اللہ علیہا جیسی لڑکی عربوں میں نہیں ہے ۔ میں نے اسے پسند کر لیا ہے ۔ وہ تمہاری ہمسری کے لائق اور تمہارے بچے کے لئے ایک مثالی ماں ثابت ہو گی ۔


مہر اور دلہن کے لوازمات سے متعلق جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی ۔

لڑکی کے باپ نے عبدالمطلب سے کہا : میری بیٹی آپ کے بیٹے کے لئے ایک ہدیہ ہے ، مجھے کسی قسم کے مہر کی ضرورت نہیں ہے '' خدا آپ کو جزاء خیر عطا کرے ، اس سے مفر نہیں ہے ۔ لڑکی کا مہر ہونا چاہیے اور ہمارے عزیزوں میں سے بعض کو گواہ بھی ہونا چاہیے ۔''

عبدالمطلب لڑکی کو کچھ دینا چاہتے تھے کہ ایک شور مچا ، وہب نے شمشیر اٹھا لی ۔ ماجرا یہ تھا کہ اس وقت یہودی، مہمانوں پر حملہ آور ہو‎ئے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو عبداللہ علیہ السلام کو قتل کر دینا چاہتے تھے ۔ یہودیوں نے پتھروں سے حملہ کیا لیکن عبدالمطلب اور آپ کے ساتھیوں نے جوان مردی سے کام لیا اور ان کے حملہ کو ناکام کردیا ۔ یہودیوں کی اس بزدلانہ حرکت کی سزا انہیں قتل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی ۔ آخرکارنکاح کو اگلے دن رکھ دیا گیا ۔

اگلے دن صبح کے وقت عبدالمطلب نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا ، سب نے فاخرہ لباس ‍زیر تن کیا ، جس سےایک باشکوہ محفل کا سماں بندھ گیا ۔ عبداللہ علیہ السلام محفل میں آئے حاضرین تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا :

'' خدا کی نعمتوں پر ہم اس کی حمد و سپاس کرتے ہیں ۔ اس نے ہمیں اپنے گھر۔۔۔۔۔

کا ہمسایہ قرار دیا اور اپنے حرم میں سکونت عطا کی ۔ لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈالی ،ہمیں آفتوں اور خطروں سے محفوظ رکھا ،ہمیں نکاح کرنے اور حرام سے دور رہنے کا حکم دیا ۔ لوگو: میرا بیٹا عبداللہ علیہ السلام معین مہر پر آمنہ سلام اللہ علیہا سے نکاح کرنا چاہتا ہے ، کیا تم راضی ہو؟

وہب نے کہا !ہم راضی ہیں ''

عبدالمطلب نے حاضرین کو گواہ قرار دیا ۔ اس پرشکوہ جشن میں سب نے خوشی منائی اور عبدالمطلب نے سب کو اس مثالی شادی کا ولیمہ دیا ، جس کا سلسلہ چار روز تک جاری رہا ۔ مدینہ میں صرف اہل مکہ نے ہی شرکت نہیں کی بلکہ گردو نواح کے لوگوں نے بھی ولیمہ کھایا ۔ آمنہ سلام اللہ علیہا شوہر کے گھر چلی گئی ۔ آپ کی گود میں ایسے بچے نے جنم لیا کہ جس کے علم و ہدایت کی روشنی نے ساری دنیا کو منور کر دیا ۔

یہ عظیم بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی والد کے سایہ سے محروم ہو گیا ۔ شوہر نامدار کے بعد حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا بھی عرصہ دراز تک زندہ نہ رہیں ۔ چنانچہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات سال کے ہوئے تو آمنہ سلام اللہ علیہا بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔


صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اُم ّ ِ ختم ُ الرّسل ، سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا شان ِ آیۂ قُل ، سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا
جن کی مرقد نے ابوا ء معلیٰ کیا باعث فخر کُل ، سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا

اللھم صل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم​

بشکریہ: اسلامی جمہوریہ ایران
 

باذوق

محفلین
اس داستان کاکوئی ربط ؟ کوئی حوالہ ؟
وسلام
اور داستان گو نے یہ بھی لکھا ہے :
رسول خدا کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا
مگر بڑی عجیب بات ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
[ARABIC]انى سألت ربي عز وجل في الاستغفار لأمي فلم يأذن لي فدمعت عيناي رحمة لها من النار[/ARABIC]
حوالہ : [ARABIC]مسند أحمد ، المجلد الخامس ، حديث بريدة الأسلمي رضي الله عنه ، حديث : 21925
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين[/ARABIC]

اور حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ بھی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[ARABIC]فلما علم ذلك تبرأ منهما, وأخبر عنهما أنهما من أهل النار, كما ثبت هذا في الصحيح,[/ARABIC]
حوالہ : تفسیر سورہ البقرہ ، آیت:119
 

arifkarim

معطل
جب ہم سبکا "اسلام" ایک ہی قسم کا اسلام ہے ہی نہیں تو اسلامی تاریخ پر کچھ لکھنے کا کیا فائدہ؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
اور داستان گو نے یہ بھی لکھا ہے :

مگر بڑی عجیب بات ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
[arabic]انى سألت ربي عز وجل في الاستغفار لأمي فلم يأذن لي فدمعت عيناي رحمة لها من النار[/arabic]
حوالہ : [arabic]مسند أحمد ، المجلد الخامس ، حديث بريدة الأسلمي رضي الله عنه ، حديث : 21925
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين[/arabic]

اور حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ بھی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[arabic]فلما علم ذلك تبرأ منهما, وأخبر عنهما أنهما من أهل النار, كما ثبت هذا في الصحيح,[/arabic]
حوالہ : تفسیر سورہ البقرہ ، آیت:119
ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ متقدمین اور متاخرین علماء اسلام میں مختلف فیہ رہا ہے لہذا اس پر لب کھولنے سے پہلے ہمیں اپنے مبلغ علمی کا بھرپور جائزہ لے لینا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
 

باذوق

محفلین
ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ متقدمین اور متاخرین علماء اسلام میں مختلف فیہ رہا ہے لہذا اس پر لب کھولنے سے پہلے ہمیں اپنے مبلغ علمی کا بھرپور جائزہ لے لینا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
توجہ دہانی کے لئے شکریہ۔

لیکن پیارے بھائی ! آپ نے شائد یہ غور نہیں فرمایا کہ بالا مراسلے میں لب نہیں کھولے گئے بلکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کیا گیا ہے۔
کیا مطلق فرمانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نقل کرنا بھی آج کل یہاں لب کھولنے کے معنوں میں لیا جا رہا ہے ؟؟؟ :rolleyes:

اور ہاں بھائی آبی ٹوکول۔
علمائے اسلام کا ایک گروہ کہتا ہے : ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ متقدمین اور متاخرین علماء اسلام میں مختلف فیہ رہا ہے!
اور ایک دوسرا گروہ کہتا ہے : ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ خیرالقرون میں ایک ہی رہا ہے جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت بھی ہے!

آپ اول الذکر گروہ کے قول سے اتفاق رکھتے ہیں اور راقم ثانی الذکر گروہ کے قول سے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
توجہ دہانی کے لئے شکریہ۔

لیکن پیارے بھائی ! آپ نے شائد یہ غور نہیں فرمایا کہ بالا مراسلے میں لب نہیں کھولے گئے بلکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کیا گیا ہے۔
کیا مطلق فرمانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نقل کرنا بھی آج کل یہاں لب کھولنے کے معنوں میں لیا جا رہا ہے ؟؟؟ :rolleyes:

اور ہاں بھائی آبی ٹوکول۔
علمائے اسلام کا ایک گروہ کہتا ہے : ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ متقدمین اور متاخرین علماء اسلام میں مختلف فیہ رہا ہے!
اور ایک دوسرا گروہ کہتا ہے : ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ خیرالقرون میں ایک ہی رہا ہے جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت بھی ہے!

آپ اول الذکر گروہ کے قول سے اتفاق رکھتے ہیں اور راقم ثانی الذکر گروہ کے قول سے۔

جی میرے بھائی مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ نے احادیث پیش فرمائیں اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں ہر مسئلہ میں لب کشائی سے پہلے کسی نہ کسی آیت قرآن یا حدیث پاک کو ہی تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور اسی سے اپنا مطلب اخذ کیا جاتا ہے چاہے اس مطلب کو اخذ کرنے کے لیے ہمیں خیرالقرون کی پچر ہی کیوں نہ لگانی پڑئے ؟؟؟؟؟؟؟؟:grin:
 

arifkarim

معطل
جتنی محنت ہم اپنے اپنے مسلک کی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے کرتے ہیں، اگر اس سے کم ، اسپر حقیقی عمل کرنے پر صرف کر دیں تو بہتر نتائج نکلیں گے!
 

باذوق

محفلین
جی میرے بھائی مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ نے احادیث پیش فرمائیں اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں ہر مسئلہ میں لب کشائی سے پہلے کسی نہ کسی آیت قرآن یا حدیث پاک کو ہی تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور اسی سے اپنا مطلب اخذ کیا جاتا ہے چاہے اس مطلب کو اخذ کرنے کے لیے ہمیں خیرالقرون کی پچر ہی کیوں نہ لگانی پڑئے ؟؟؟؟؟؟؟؟:grin:
لیں بھائی جی۔
پہلے لب کھولنے والی بات نکالی اور اب تختہ مشق کہہ ڈالا۔
یعنی کہ علامہ ابن کثیر نے البقرہ:119 کی تفسیر میں جو فرمایا ۔۔۔۔ وہ آپ کے نزدیک گویا کہ تختہ مشق ہے ؟؟؟؟ :rolleyes:
 

آبی ٹوکول

محفلین
لیں بھائی جی۔
پہلے لب کھولنے والی بات نکالی اور اب تختہ مشق کہہ ڈالا۔
یعنی کہ علامہ ابن کثیر نے البقرہ:119 کی تفسیر میں جو فرمایا ۔۔۔۔ وہ آپ کے نزدیک گویا کہ تختہ مشق ہے ؟؟؟؟ :rolleyes:
محترم یہاں پر ہمارے ساتھ محو کلام آپ ہیں یا علامہ ابن کثیر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کاشفی صاحب نے حضرت بی بی آمنہ کے نام کے ساتھ سالم اللہ علیھا لگا کر اپنا مؤقف واضح کردیا تو آپ نے علامہ ابن کثیر کا حوالہ دے کر اس سے یعنی کاشفی کے مؤقف سے اختلاف کردیا اور اپنا فہم پیش فرمادیا ۔ ۔ ۔ جس پر ہم نے فقط یہی عرض کی یہ مسئلہ متقدمین اور متاخرین کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ :grin:
 

باذوق

محفلین
محترم یہاں پر ہمارے ساتھ محو کلام آپ ہیں یا علامہ ابن کثیر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کاشفی صاحب نے حضرت بی بی آمنہ کے نام کے ساتھ سالم اللہ علیھا لگا کر اپنا مؤقف واضح کردیا تو آپ نے علامہ ابن کثیر کا حوالہ دے کر اس سے یعنی کاشفی کے مؤقف سے اختلاف کردیا اور اپنا فہم پیش فرمادیا ۔ ۔ ۔ جس پر ہم نے فقط یہی عرض کی یہ مسئلہ متقدمین اور متاخرین کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ :grin:
او میرے پیارے اور عزیز بھائی۔
مجھے محو کلام آپ تب کہتے جب میں " اپنا موقف" بیان کرتا۔ میں نے کوئی چیز نقل کی تو یہ میرا موقف نہیں بلکہ ان کا موقف کہلائے گا۔
جبکہ نقل کردہ روایات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان عالیشان بھی ہے اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ کا فہم بھی۔
اب اس میں میرا " فہم" کہاں سے کھینچ نکال لائے آپ ؟؟ :rolleyes:

اور حضور !
یہ بات جو آپ دہرا رہے ہیں :
یہ مسئلہ متقدمین اور متاخرین کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے
یہ بھی اچھی زبردستی ہے۔

کیونکہ جب میں نے دو گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے دوسرے گروہ کے متعلق کہا کہ :
ایک دوسرا گروہ کہتا ہے : ایمان والدین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ خیرالقرون میں ایک ہی رہا ہے جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت بھی ہے!

تو آپ نے فوراَ اٹھ کر اس دوسرے گروہ کے قول کو کالعدم قرار دینے فرما دیا کہ :
پہلے کسی نہ کسی آیت قرآن یا حدیث پاک کو ہی تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور اسی سے اپنا مطلب اخذ کیا جاتا ہے چاہے اس مطلب کو اخذ کرنے کے لیے ہمیں خیرالقرون کی پچر ہی کیوں نہ لگانی پڑئے

اب ایسے تو میں بھی پہلے کہہ سکتا تھا کہ :
ایک علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے کسی ضعیف روایت کی بنا پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے والدین کو مومن کیا بتایا ۔۔۔۔ کاتا اور لے دوڑی کا مسئلہ ہو گیا علمائے متاخرین میں۔
اور ہمارے آبی ٹو کول بھائی کو یہ کہنے کی ضرورت پڑ گئی کہ :
یہ مسئلہ متقدمین اور متاخرین کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے !
:)
 

شہزاد وحید

محفلین
میں آج پہلی بار اس سیکشن میں آیا ہوں۔ اور یہاں کا جو حال ہے اسے دیکھ کر پھر کبھی نہیں آؤں گا۔ کافی فارمز میں شوبز اور میڈیا وغیرہ کے سیکشنز کو بند کیا گیا ہے یا کر دیا تھا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ نہیں جی یہ اسلام کے خلاف ہے۔ جبکہ میرا تو یہ خیال کہ کہ اس اسلام کے سیکشن کو بند کرنا چاہیے کہ یہاں یہ کچھ ہوتا ہے۔ بازوق بھائی پہلے بھی ایک فارم میں انہی باتوں کی وجہ سے لڑ شڑ کر بین ہو گئے تھے۔ خیر اُس کا فارم کا تو ایڈمن ہی پاگل تھا۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ میں نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں جب لوگوں سے ان کے کہے کی دلیل مانگتا تھا تو وہ ایسی مضحکہ انگیز اور بچگانہ دلیل دیتے تھے کہ ا کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں۔ ان کی نظر میں ہم ٹحیک نہیں اور ہماری نظر میں وہ نہیں۔
 
Top