ایم اے راجا
محفلین
ایک بے ربط غزل برائے اصلاح حاضر ہے۔
رشتے سب مہرباں نہیں ملتے
دشت میں سائباں نہیں ملتے
تیرگی ہی نصیب ہے اپنا
روشنی کے نشاں نہیں ملتے
ڈالتے تھے کمند تاروں پر
آج ایسے جواں نہیں ملتے
اپنے اپنے نصیب ہیں ورنہ
سبکوتوغم رساں نہیں ملتے
سنگ بازوں کےشہرمیں دیکھو
کانچ کے اب مکاں نہیں ملتے
دوست مل جاتے ہیں بہت لیکن
یار سب رازداں نہیں ملتے
چھین لیں اپنی محنتوں کے حق
وہ جری دل کساں نہیں ملتے
منصفِ شہر جان لے راجا
لوگ اب بے زباں نہیں ملتے
دشت میں سائباں نہیں ملتے
تیرگی ہی نصیب ہے اپنا
روشنی کے نشاں نہیں ملتے
ڈالتے تھے کمند تاروں پر
آج ایسے جواں نہیں ملتے
اپنے اپنے نصیب ہیں ورنہ
سبکوتوغم رساں نہیں ملتے
سنگ بازوں کےشہرمیں دیکھو
کانچ کے اب مکاں نہیں ملتے
دوست مل جاتے ہیں بہت لیکن
یار سب رازداں نہیں ملتے
چھین لیں اپنی محنتوں کے حق
وہ جری دل کساں نہیں ملتے
منصفِ شہر جان لے راجا
لوگ اب بے زباں نہیں ملتے