محمد بلال اعظم
لائبریرین
رشتے
انسان بھی کتنا عجیب ہے، خود ہی رشتے بناتا ہے، پھر اُن کو توڑ بھی دیتا ہے۔ پھر خود ہی دوبارہ اُن ٹوٹے ہوئے رشتوں کہ جوڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔رشتے دھاگہ کی طرح ہوتا ہے، ذرا سی زور آزمائی کی اور یہ کر چی کرچی ہو کر چار سو بکھر جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔وہ اپنے سولہ سالہ بیٹے کو رشتہ کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
لیکن امّی اُن رشتوںمیں تضاد بھی تو ہم خود ہی ڈالتے ہیں۔ کوئی ہمیں یہ مشورہ تو نہیں دیتا کہ ہم بلا وجہ ناراضگی کے راستے کو اپنا لیں اور اِس کوشش میں ہم خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
تجھے میں بتاتی ہوں احمد بیٹے۔۔۔دادی امّاں نے کہا۔
بیٹا جب پھول اپنی قبائیں اپنے ہاتھوں سے ہی کترنے لگ جائیں تو کوئی اُن کو روک نہیں سکتا۔ رشتوں میں تضاد ڈالنا پھر ایسے لوگوں کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح لیتے ہیں اور اِس طرح حالات بگڑا ہی کرتے ہیں سنورا نہیں کرتے۔لوگ رشتوں اور کھلونوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔
مگر دادو لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، پھر ہم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔بیٹا اگر انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے لگ جائے تو دنیا جنتِ نظیر بن جائے۔ دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں انسان کو ایسی دلدل سے ہمکنار کر دیتی ہیں، جہاں سے چاہ کر بھی واپس نہیں آیا جا سکتااور انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے احساسات کا خون کرنے لگ جاتا ہے۔
احمد میں آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔احمد کےابو نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
لوگ رشتوں کو صرف پیسے کے لئے لات مار دیتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کے پاس زیادہ پیسے آ جائیں تو وہ اپنے سے غریب لوگوں کو حقیر اور کمتر سمجھتا ہے ۔ دیکھو بیٹا رشتے اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی میں بعض چیزیں اگر نہ بھی ہوں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح اگربعض لوگوں کے ہونے سے زندگی سنور جاتی ہے تو بعض لوگوں کے نہ ہونے سے زندگی رک نہیں جاتی کیونکہ جس راستے پہ ہم چل رہے ہوتے ہیں اُس راستے میں ان لوگوں کا کوئی کام نہیں ہوتا۔لیکن اگر وہ لوگ جنہیں ہم دل سے چاہتے ہیں وہ اگر زندگی کے سفر میں ہمارے ہم سفر نہ بنیں تو زندگی گزر تو جاتی ہے مگر اک کسک کے ساتھ۔ وہ درد جو دل میں اٹھتا ہے وہ تا عمر رہتا ہے۔ اس درد کو ختم کرنے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ جنہیں چاہتے ہیں وہ ہمیں مل جائیں۔ یہ چیز گرمیِ محبت کہلاتی ہے۔
اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی، شوہر بیوی، دوست رشتہ دار غرض ہر کوئی شامل ہوتاہے۔ کبھی یہ بے جان چیزوں سے ہوتی ہے اور کبھی جاندار، جیتے جاگتے انسانوں سے۔ جیسے کوئی شخص اپنی مٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا یا بعض لوگوں کو اپنے بیڈ کے علاوہ کہیں اور نیند نہیں آتی، یا کوئی کسی گھر کو کسی روزگار کو اپنے لئے برکت سمجھتا ہے اسی طرح کسی انسان کا وجود، اس کی دعائیں ہماری قسمت بدل دیتی ہیں۔ یہی چیز رشتہ کہلاتی ہے۔ جس میں کیا ماضی کیا آئندہ، انسان صرف اسی وقت کو تسلیم کرتا ہے، جو موجودہوتا ہے۔ جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں۔ یہ محبت کا موسم ہوتا ہے جس میں رشتوں کو کونپلیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر کبھی غم کا موسم آ بھی جائے تو وہ تعلق کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے اسے کمزور کرنے کا نہیں۔
احمد بیٹا !یہی زندگی ہے اور زندگی رشتوں سے مل کر با معنی ہوتی ہے۔ بغیر رشتوں کے زندگی کا سفر بے معنی ہوتا ہے۔ اختتام بے معنی زندگی کو بھی ہے اور با معنی کو بھی۔ مگر با معنی زندگی، جس کی بارش میں رشتوں کی مٹی مہکتی ہے، وہ اختتامِ سفر کے بعد بھی با معنی ہی کہلاتی ہے۔ دل و دماغ کو ایک تازہ اور نئے احساس سے معطر کر کے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے۔ رشتے زندگی کو گردِسفر نہیں بننے دیتے بلکہ یہ زندگی کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشانِ سفر بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے رشتوں کو زندگی میں ایک مقام دینا سیکھیے، ان کی قدر کیجیےکہ اگر یہ رشتے بھی نہ رہے تو زندگی بے معنی ہو جائے گی اور بے معنی زندگی کا اختتام صرف سیاہ اور تاریک ہوتا ہے۔
لیکن امّی اُن رشتوںمیں تضاد بھی تو ہم خود ہی ڈالتے ہیں۔ کوئی ہمیں یہ مشورہ تو نہیں دیتا کہ ہم بلا وجہ ناراضگی کے راستے کو اپنا لیں اور اِس کوشش میں ہم خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار کا جذبہ
وہ لوگ ٹوٹ کے کبھی بکھرا نہیں کرتے
اور پھر اشفاق احمد بھی تو کہتے ہیں”محبت کو تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ضرب دی جاتی ہے“۔ ہمیں سب کچھ پتہ ہوتے ہوئے بھی ہم محبت ، پیار اور جذبوں کی تقسیم کرتے رہتے ہیں۔وہ لوگ ٹوٹ کے کبھی بکھرا نہیں کرتے
تجھے میں بتاتی ہوں احمد بیٹے۔۔۔دادی امّاں نے کہا۔
بیٹا جب پھول اپنی قبائیں اپنے ہاتھوں سے ہی کترنے لگ جائیں تو کوئی اُن کو روک نہیں سکتا۔ رشتوں میں تضاد ڈالنا پھر ایسے لوگوں کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ وہ رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح لیتے ہیں اور اِس طرح حالات بگڑا ہی کرتے ہیں سنورا نہیں کرتے۔لوگ رشتوں اور کھلونوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔
مگر دادو لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، پھر ہم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔بیٹا اگر انسان اپنی عقل کا صحیح استعمال کرنے لگ جائے تو دنیا جنتِ نظیر بن جائے۔ دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں انسان کو ایسی دلدل سے ہمکنار کر دیتی ہیں، جہاں سے چاہ کر بھی واپس نہیں آیا جا سکتااور انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے احساسات کا خون کرنے لگ جاتا ہے۔
احمد میں آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔احمد کےابو نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
لوگ رشتوں کو صرف پیسے کے لئے لات مار دیتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کے پاس زیادہ پیسے آ جائیں تو وہ اپنے سے غریب لوگوں کو حقیر اور کمتر سمجھتا ہے ۔ دیکھو بیٹا رشتے اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی میں بعض چیزیں اگر نہ بھی ہوں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح اگربعض لوگوں کے ہونے سے زندگی سنور جاتی ہے تو بعض لوگوں کے نہ ہونے سے زندگی رک نہیں جاتی کیونکہ جس راستے پہ ہم چل رہے ہوتے ہیں اُس راستے میں ان لوگوں کا کوئی کام نہیں ہوتا۔لیکن اگر وہ لوگ جنہیں ہم دل سے چاہتے ہیں وہ اگر زندگی کے سفر میں ہمارے ہم سفر نہ بنیں تو زندگی گزر تو جاتی ہے مگر اک کسک کے ساتھ۔ وہ درد جو دل میں اٹھتا ہے وہ تا عمر رہتا ہے۔ اس درد کو ختم کرنے کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ جنہیں چاہتے ہیں وہ ہمیں مل جائیں۔ یہ چیز گرمیِ محبت کہلاتی ہے۔
اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں ماں باپ، بہن بھائی، بیٹا بیٹی، شوہر بیوی، دوست رشتہ دار غرض ہر کوئی شامل ہوتاہے۔ کبھی یہ بے جان چیزوں سے ہوتی ہے اور کبھی جاندار، جیتے جاگتے انسانوں سے۔ جیسے کوئی شخص اپنی مٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا یا بعض لوگوں کو اپنے بیڈ کے علاوہ کہیں اور نیند نہیں آتی، یا کوئی کسی گھر کو کسی روزگار کو اپنے لئے برکت سمجھتا ہے اسی طرح کسی انسان کا وجود، اس کی دعائیں ہماری قسمت بدل دیتی ہیں۔ یہی چیز رشتہ کہلاتی ہے۔ جس میں کیا ماضی کیا آئندہ، انسان صرف اسی وقت کو تسلیم کرتا ہے، جو موجودہوتا ہے۔ جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں۔ یہ محبت کا موسم ہوتا ہے جس میں رشتوں کو کونپلیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر کبھی غم کا موسم آ بھی جائے تو وہ تعلق کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے اسے کمزور کرنے کا نہیں۔
احمد بیٹا !یہی زندگی ہے اور زندگی رشتوں سے مل کر با معنی ہوتی ہے۔ بغیر رشتوں کے زندگی کا سفر بے معنی ہوتا ہے۔ اختتام بے معنی زندگی کو بھی ہے اور با معنی کو بھی۔ مگر با معنی زندگی، جس کی بارش میں رشتوں کی مٹی مہکتی ہے، وہ اختتامِ سفر کے بعد بھی با معنی ہی کہلاتی ہے۔ دل و دماغ کو ایک تازہ اور نئے احساس سے معطر کر کے اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے۔ رشتے زندگی کو گردِسفر نہیں بننے دیتے بلکہ یہ زندگی کو بعد میں آنے والوں کے لئے نشانِ سفر بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے رشتوں کو زندگی میں ایک مقام دینا سیکھیے، ان کی قدر کیجیےکہ اگر یہ رشتے بھی نہ رہے تو زندگی بے معنی ہو جائے گی اور بے معنی زندگی کا اختتام صرف سیاہ اور تاریک ہوتا ہے۔
(تحریر: محمد بلال اعظم)